غزل
🌹🌹🌹 غزل🌹🌹🌹
دل پہ جس نے یہ جادوگری کی۔
بات پوچھو نہ اُس پھُلجھڑی کی۔
مجھکو عادت ہے یوں مئکشی کی۔
یہ دوا ہے مری بے کلی کی۔
جب چلی بات سورج مکھی کی۔
یاد آئی ہمیں آپ ہی کی۔
میرے پہلو میں ہے میرا ساقی۔
اب ضرورت نہیں ہے کسی کی۔
پھول جھڑتے ہیں ہنسنے پہ اُس کے۔
کوئی قیمت ہے اُس کی ہنسی کی۔
جام چھلکا دے آنکھوں کے اپنی۔
لاج رکھ لے مری تشنگی کی۔
وہ نہیں تو میں دیکھوں کِسےِ اب۔
وہ ہی رونق تھی میری گلی کی۔
کچھ تو بتلا دے محبوب میرے۔
بات کیا ہے تری خامشی کی۔
اُس نے مانی نہ اک بات میری۔
اُس سے میں نے بہت عاجزی کی۔
آج بھی جس میں اٹکا ہے یہ دل۔
وہ کڑی ہے تری کردھنی کی۔
جان دے دے یا پھر جان لے لے۔
ایک ہی ضد ہے اُس سر پھری کی۔
ہاتھ تاپے ہیں بستر جلا کر۔
ایسے کاٹی ہے رُت جنوری کی۔
جس کو بھولا ہے میرا مصوّر۔
میں وہ تصویر ہوں بے بسی کی۔
موت آئی تو ہم نے یہ جانا۔
کچھ حقیقت نہیں زندگی کی۔
عمر بھر جس نے مجھکو رُلایا۔
وہ خطا ہے مری کمسِنی کی۔
رکھ دیا دل کُچل کر ہمارا۔
اُس نے کیسی یہ چارہ گری کی۔
اِس میں ہوتا ہے جنگل میں منگل۔
یہ ہی پہچان ہے فروری کی۔
اُن کی اُنگلی ہے میرے لبوں پر۔
کیا ضرورت ہے اب بانسری کی۔
ہر سو رسوائی ہونے لگی ہے۔
چھوڑ دو اب تو عادت بدی کی۔
آج بھی جو لُبھاتی ہے دل کو۔
وہ ہے تصویر اک سُندری کی۔
لے کے خنجر وہ نکلے ہیں گھر سے۔
یا خدا خیر ہو زندگی کی۔
روتے روتے ہوئی غم میں مدّت۔
دے خبر اب تو کوئی خوشی کی۔
جب سے سایا اُٹھا سر سے ماں کا۔
چھوڑ دی ہم نے عادت اڑی کی۔
آؤ ہنس لیں ہنسا لیں چلو کچھ۔
زندگی ہے گھڑی دو گھڑی کی۔
میکدہ ہی بنا اپنا مسکن۔
ہم کو لت کیا لگی رِندگی کی۔
اپنے غم کو بھُلانے کی خاطر۔
اُس نے تیّاری پھر جشن کی کی۔
عشق میں گھرلُٹاکر بھی خوش ہوں۔
داد دو میری دریا دِلی کی۔
چاند لیتا ہے اُس کی بلائیں۔
ایسی صورت ہے اُس کامنی کی۔
دل اندھروں میں لگنے لگا اب۔
مجھ کو حاجت نہیں روشنی کی۔
اپنا دل ہی ہوا اپنا دشمن۔
دیکھ لی کیا ادا اِک پری کی۔
غیر ہنستے ہیں اپنے ہیں بَرہم۔
یہ سزا پائی ہے عاشِقی کی۔
وہ ہی پاۓ گا عقبٰے میں راحت۔
رب کی جس نے یہاں بندگی کی۔
عمر بھر دل میں مہماں رہے وہ۔
عمر بھر ہم نے یوں شاعری کی۔
اِک جھلک اُس کی پانے کو ہم نے۔
اُس کی گلیوں میں بھی نوکری کی۔
اُنگلی اوروں کی جانب اُٹھانا۔
یہ ہی عادت ہے ہر آدمی کی۔
ہو گیا جس پہ غالب تکبّر۔
اُس نے پائی سزا خودسری کی۔
ظلم مظلوم پر ڈھانے والے۔
ناؤ ڈوبے گی تیری خودی کی۔
اپنی شانِ کریمی سے یا رب۔
دور کر دے مصیبت سبھی کی۔
جل اُٹھا دل دئے سا ہمارا۔
چھوڑئے بات اب دامنی کی۔
پھر سجی رہ گئی بزمِ انجم۔
اُس نے تاریخ پھر ملتوی کی۔
جس سے بچپن میں بہلے ہیں ہم تم۔
وہ کہانی ہے اک جل پری کی۔
اُن کی قسمت کا چمکا ستارہ۔
مل گئی جن کو قربت نبی کی۔
رازِ الفت ہوا پل میں افشا۔
کچھ رقیبوں نے وہ مخبری کی۔
جنگلوں میں بھٹکنے لگا وہ۔
لگ گئ دھُن جسے رَس بھری کی۔
اپنی قسمت بنالی اُسی نے۔
جس نے استاد کی پیروی کی۔
اُن پہ کوئی اثر ہو نہ پایا۔
میں نے اُن سے بہت سر دُھنی کی۔
خامیاں اس میں ڈھونڈو نہ لوگو۔
یہ غزل ہے ہماری غشی کی۔
کیا دکھائیں بھلا اب کسی کو۔
گُم ہوئیں چٹھّیاں ڈائری کی۔
پوچھ کر کوئی اُس سے بتادے۔
بے سبب اُس نے کیوں دل لگی کی۔
دشمنی مدّتوں کرکے مجھ سے۔
اب فراز اُس نے کیوں دوستی کی۔
سرفراز حسین فراز پیپلسانہ مرادآباد۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹