Orhan

Add To collaction

مان

مان
از رائحہ مریم
قسط نمبر2

حمدا اپنےکیبن میں آئی تو آنسواس کی آنکھوں سےابل ابل کر باہر آگئے ۔لگا چار سال پہلے لگاۓ گئے زخم پھر سے ہرے ہو گۓ ، رونے کی آواز زیادہ ہوئی تو ثناء اس کے کیبن میں آگئ ، " اللہ اکبر حمدا ! کیا ہو گیا تمہیں ؟ "، ثناء نے اسےزمین پر منہ پر ہاتھ رکھے اپنی سسکیوں کو دباتے دیکھا تو اس کے پاس آگئ ، " حمدا میری جان کیا ہوا ہے ؟ کیا سر حزلان نے کچھ کہا ہے ؟ " ، " ثناء ! ثناء وہ۔۔۔۔۔وہ سر حزلان وہ کہتے ہیں کہ۔۔۔۔۔کہ میں چاہتی ہوں کہ۔۔۔۔۔۔کہ وہ ۔۔۔۔۔کہ وہ میری تعریف کریں ، مجھے نہیں کروانی کسی سے تعریف۔۔۔۔۔۔وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ میں ان کی تعریف سننا چاہوں گی ، میں ایسی نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔میرا یقین کرو میں پہلے بھی ایسی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔میں ایسی نہیں ہوں۔" مسلسل رونے کی وجہ سے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہو رہے تھے۔۔۔۔۔ثناء اس کی ناکام شادی کے متعلق تھوڑا بہت جانتی تھی اور اس کے رونے کے انداذ سے یہ ظاہر ہو گیا کہ وہ سر حزلان کی باتوں کے علاوہ بھی کسی بات پر رو رہی ہے۔ جب وہ تھوڑا چپ ہوئی تو ثناء نے اسے پیار سے الگ کرتے ہوئے پوچھا ،" یہ صرف سرحزلان کی بات نہیں ہے نا ، جس پر تم رو رہی ہو؟ " حمدا خاموش رہی اور ماضی میں کھو گئ ۔ 
*** یہ ان کی شادی کے ایک ہفتے بعد کی بات تھی ، حمدا اور خضر دعوت کے بعد گھر آرہے تھے ، حمدا نے محسوس کیا کہ وہ کافی سنجیدہ ہے، لیکن بولی کچھ نہیں بلکہ آہستگی سے اپنا ہاتھ خضر کے ہاتھ پر رکھ دیا جسے اس نے ایک جھٹکے سے پیچھے کر دیا ، حمدا نے اپنے ذہن پر بہت ضور دیا لیکن اسے اپنی کوئی غلطی نظر نا آئی جس پر خضر اس سے ناراض ہو سکے ، خود کو مطمئن کرتی وہ خاموش ہی رہی ۔ گھر آکر خضر تو کمرے میں چلا گیا لیکن حمدا نے چاۓ بنائی ، اپنے ساس سسر کو ان کے کمرے میں دی اور خضر کییے چاۓ لے کر کمرے میں آگئ ۔ 
خضر اس وقت واش روم میں تھا ، چائے کو ٹیبل پر رکھ کر وہ الماری کی طرف مڑ ہی رہی تھی کہ دروازہ کھلنے کی آواز آئی ، خضر لباس تبدیل کر چکا تھا ، اس نے حمدا کو اپنے پاس بلایا اور وہ دل میں ہلکی سی امنگ لیے اس کی طرف بڑھی کیونکہ آج وہ خضر کیلیے تیار ہوئی تھی اور اس نے ایک دفعہ بھی اس کی تعریف نہ کی تھی ۔ جیسے ہی حمدا ایک بازو کے فاصلے تک پہنچی خضر نے ہاتھ لمبا کر کے زور سے اس کی ٹھوڑی پکڑ لی ، تکلیف کی شدت سے حمدا کی آنکھوں میں آنسو آگئےلیکن دوسری جانب گرفت کمزور نا ہوئی ، خضر نے ایک جھٹکے سے اس کی ٹھوڑی چھوڑی ، وہ نیچے گرنے ہی والی تھی کہ اس نے حمدا کو چوٹی سے تھام لیا ، ” تم جیسی عورتیں ہوتی ہیں جو فتور کا باعث بنتی ہیں ، کس کیلیے کیا یہ بناؤ سنگھار۔۔۔۔ہاں بتاؤ ، تم عورتیں چاہتی کیا ہو ؟ ، پہلےخود ہی بن سنور کر نکلتی ہو اور پھر شکایت کرتی ہو کہ لوگ گھورتے ہیں ، میرے جیسے انسان کے ساتھ چلتے ہوۓ تمہیں شرم نا آئی ، اللہ نے بھی میری ہی قسمت میں تم جیسی عورتیں لکھی ہیں۔۔۔۔پتا نہیں کس گناہ کی سزا ملی ہے مجھے۔۔۔۔۔ اور اب تم اس لیے یہاں آرہی ہو کہ میں تمہاری تعریف کروں ، تمہاری شان میں قصیدے لکھوں ، دیوان لکھوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ ، بالوں کو سختی سے کھینچے ہوۓ وہ لفظ نہیں پتھر تھے جو اس کا مان توڑنے کیلیے بہت تھے ، وہ اتناڈر گئی کہ یہ کہہ بھی نا پائی کہ اے ظالم شریعت کے احکامات میں سے ایک پر چلتے ہوۓ تمہاری خاطر کیا ہے بناؤ سنگھار اور دعوت پر میرے گھر کے مردوں کے علاوہ تھا کون جس کی تم شکایت کر رہے ہو ، اس دن خضر نے حمدا کی آنکھوں میں ڈر اور آنسو دیکھے تو اپنی نام نہاد انا کو تسکین کی تھپکی دی ۔ اور پھر اگلے چار سال تک جاری رہنے والے ایک ظلم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔۔۔۔۔۔***
حمدا جب خاموش ہوئی تو ثناء کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے ۔ اور اس سے بری حالت کیبن کے باہر کھڑے حزلان کی تھی جو ایک ایک لفظ سن چکا تھا ، جن قدموں پر وہ وہاں تک آیا انہی پر واپس لوٹ گیا ۔ 
**************
”نہیں اللہ جی۔۔۔۔۔نہیں میں ایسی نہیں ہوں ، آپ ۔۔۔۔ آپ جانتے ہیں ۔۔۔۔۔وہ شخص جھوٹا ہے ، بہتان لگانےوالا ہے ، ذانی ہے ۔۔۔۔۔ میں ایسی نہیں ہوں آپ جانتے ہیں۔۔۔۔" حمدا نیند میں بڑبڑا رہی تھی ، رودابہ بھاگتی ہوئی اس کے قریب آئی اور اس کے بالوں کو سہلانا شروع کر دیا جس سے وہ دوبارہ سے نیند کی وادی میں چلی گئی ۔ 
” رودابہ کیا آپی کبھی ٹھیک نہیں ہوں گی ؟“ ماہ نور بھی تب تک اٹھ چکی تھی ۔
” میرا جہاں تک اندازہ ہے ، آپی کا یہ ڈر صرف محبت سے دور کیا جاسکتا ہے ، لیکن وہ شادی کیلیے نہیں مانتیں ۔“ رودابہ نے افسوس سے کہا ۔
” تو کیا ہماری محبت آپی کیلیے کم ہے ؟ “ ماہ نور نے افسوس سے کہا ۔ 
” نہیں ماہ نور ، یہ ہماری ہی محبت ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے بچے کو بھلانے میں کامیاب ہوئی ہیں ، طلاق کے بعد میں سوتی تھی ان کے ساتھ ، وہ راتوں کو چینخیں مار مار کر موسیٰ کو پکارتی تھیں ، بے شک ہماری محبت مرہم کے طور پر کام آئی ، لیکن اللہ نے جو عقیدت اور محبت میاں بیوی کے رشتے میں رکھی ہے وہ دنیا کے کسی بھی رشتے کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔" رودابہ بھی اپنی بہن کی طرح عمر سے پہلے ہی بڑی ہو گئ تھی اور چونکہ ان دنوں ماہ نور ہوسٹل میں تھی وہ اپنی بہن کو اس تکلیف میں نا دیکھ سکی ۔ 
” کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپی کو اب بھی بہت محبت کرنے والا شوہر مل جاۓ ۔“ 
رودابہ نے پہلے ایک لمبی سانس لی پھر بولی ، ” اللہ تو وہ ہے کہ جو چاہے تو پانی کے درمیان ایک نہ نظر آنے والی دیوار کھڑی کر دے اور دو مختلف رنگوں کے پانی کو علیحدہ رکھے۔۔۔۔۔۔وہی اللہ چاہے تو کیا کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔ بے شک وہ جو چاہے کر سکتا ہے ۔“ 
**************
اگلے دن رودابہ نے خود جاکر اسے اٹھایا اور بولی ، ” آپی کل کیا بات ہوئی تھی آفس میں کہ اس کے بعد آپ سارا وقت پارک میں بیٹھی رہیں ، کرافٹ سینٹر سے بھی فون آیا تھا کہ آپ وہاں نہیں گئیں۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہوا ہے آپی ۔“ رودابہ نے اپنا ہاتھ حمدا کے ہاتھ پر رکھتے ہوۓ کہا ۔ 
حمدا نے اسے سر حزلان کے ساتھ ہونے والی بات بتائی ، ” آپی جہاں تک میرا اندازہ ہے آپ کے باس نے وہ بات مذاق میں کہی تھی ، وہ اجنبی ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ کس بات سے آپ کا دل دکھے گا ، لہٰذا آپ ان کی باتوں کو دل پر مت لیں ،“ پھر حمدا کے دل پر ہاتھ رکھا اور بولی ، ” آپی یہ دل بہت خوبصورت ہے ، اسے ماضی میں رہ رہ کر گندہ مت کریں ، جب کوئی چیز گندی ہو تو اسے دور کر دیا جاتا ہے ، آپ اپنے گندے ماضی کو دور کر دیں ، اور اللہ سے اچھے کی امید رکھیں ، “ حمدا اس سے لپٹ گئ ، دو آنسو بھی گالوں پر پھسل گئے ۔ ” جانتی ہیں آپی دنیا میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کو ان کے اچھے اعمال کا صلہ نہیں ملا ، کبھی بھی نہیں ملا ، وہ دنیا میں بہت دکھ جھیلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن وہی لوگ آخرت میں سر اٹھا کر چل رہے ہوں گے اور کہیں گے کہ ہاں ہمیں ہماری آزمائشوں کا صلہ مل گیا ، اور ہاں یہ بہت اچھا ہے اس سے جو ہمیں دنیا میں ملتا ، پھر وہ لوگ جن کو دنیا میں ڈھیروں خوشیاں ملی ہوں گی دعا کریں گے کہ کاش وہ بھی دنیا میں اجر حاصل نہ کرتے ، کاش ان کو بھی صبر کا پھل یہاں ملتا ۔“ 
جب رودابہ خاموش ہوئی تو حمدا اس سے الگ ہو کر آنسو صاف کرنے لگی ، ” اب آپ آفس کیلیے اٹھ رہی ہیں یا میں اور تھوڑا بولوں ـ“ حمدا ہنس دی ۔ 
****************
”حزلان کیا مطلب ہے تہمارا ؟ وہ شادی شدہ ہے ، لگتی تو وہ کہیں سے بھی نہیں ہے ۔ “ احمدکو جب حزلان نے پچھلے دن سنی جانے والی باتیں بتائیں تو وہ بولا ، ”یہی تو مجھے سمجھ نہیں آرہا ، یہاں اس کے ڈاکومنٹس میں لکھا ہے کہ وہ اَنمیریڈ ہے لیکن جو رویہ اس نے کل بتایا تھا وہ شوہر ہی کر سکتا ہے ۔“ اتنے میں انٹرکام پر جویریہ کی آواز سنائی دی ،” سر مس حمدا آفس میں آچکی ہیں ۔“ 
”ان سے بولو کے فائلز لے کر میرے پاس پہنچے ۔“ حزلان نے حکم دیا اور پھر احمد کی طرف متوجہ ہوا اور بولا ، ” اب اس بات کا جواب تو وہ ہی دے گی ۔ “ احمد بھی سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گیا ۔ 
دروازہ پر دستک دے کر حمدا نے اندر آنے کی اجازت طلب کی ، اس کی آواز سے تو کل والا کوئی دکھ نہیں سنائی دیا 
” یس کم ان ۔“ 
حمدا فائلز لے کر اس کے ٹیبل کے دائیں طرف کچھ فاصلے پر کھڑی رہی ۔ حزلان نے سرسری سا فائلز کو دیکھا پھر بولا ، ” آپ بیٹھ جائیں ۔“ ساتھ اس نے ایک خالی کرسی کی طرف اشارہ کیا کیونکہ دوسری طرف احمد تھا ، حمدا بولی کچھ نہیں لیکن جن نظروں سے اس نے حزلان ، پھر احمد اور پھر اس کرسی کو دیکھا وہ دونوں سمجھ گئے کہ وہ وہاں احمد کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے سے انکاری تھی ۔ 
” امم م م مجھے کچھ کام یاد آیا میں چلتا ہوں ، شام میں ملاقات ہوتی ہے ۔ “ احمد جی بھر کے شرمندہ ہونے کے بعد اٹھ گیا اور حمدا بڑے آرام سے کرسی پر آکر بیٹھ گئی ۔ حزلان نے ایک نظر دروازے تک جاتے احمد کو دیکھا جو اسے دیکھ کر گلے کے گرد ہاتھ پھیر کر اسے یہ بتا رہا تھا کہ یہ لڑکی بڑی خطرناک ہے ۔ حزلان نے ہنسی چھپانے کیلیے پانی کے گلاس کو منہ سے لگا لیا ، پھر اس نے حمدا سے فائلز کے متعلق کچھ باتیں کی ، جب وہ جانے لگی تو بولا ، ” مس حمدا میں نے آپ کے ڈاکومنٹس دیکھے ،“ اور حمدا کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تو پھر بولا ۔” اور ان میں لکھا ہے کہ آپ انمیریڈ ہیں ؟ “ یہ سوال ہی تھا
”آپ نے مجھ سے یہ پوچھنے کیلیے یہاں بلایا ہے ؟ “ حمدا رکھائی سے کہتے ہوئے دوبارہ بیٹھ گئی ، ” نہیں صرف یہ پوچھنے کیلیے تو نہیں بلایا تھا ـ“ حزلان نے فائلز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا ۔ حمدا نے گہری سانس لی اور بولی ، ” ہاں میں نے یہاں ان میرڈ لکھا ہے کیونکہ یہاں پر ڈائوورسڈ کا کوئی آپشن نہیں تھا ، اب میں جاؤں۔“ حمدا نے بمشکل اپنی آواز کو نارمل رکھا اور کہہ کر اٹھ گئی ، حزلان ایک ہی لمحے میں خوش بھی ہوا ، دکھی بھی اور اس کا بوجھ بھی بڑھ گیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ اب جا کر دوبارہ روئے گی ۔” اف یہ بہادر لڑکیاں ، جن کے آنسو دیکھنا بھی گناہ ہے ۔“ 
**************
اور ہوا بھی ایسے ہی حمدا کیبن میں آکر رونے ہی والی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی اور اس کے اجازت دینے سے پہلے ہی وہاں پر ان کی کمپنی کا ایک ائمپلائے کھڑا تھا ۔ 
”مسٹر اسد کسی کے روم میان داخل ہونے سے پہلے اس سے اجازت لے لینی چاہئیے ، آپ کو ایسا نہیں لگتا کیا ؟" ، حمدا نے غصے میں طنز کیا تو آگے سے وہ مسکرا کر بولا ، ” میں نے تو دستک دی تھی ـ“ 
” دستک دینا اجازت لینے کے مترادف نہیں ہوتا ۔“ ، حمدا کی آواز تھوڑی بلند ہوئی ، لیکن اسد نے اس کا کوئی اثر نہیں لیا اور حمدا کے ٹیبل پر آکر بیٹھ گیا ، حمدا نے لاشعوری طور پر اپنی کرسی پیچھے کھینچ لی ، ابھی وہ اسد کو وہاں سے بھیجنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ دروازہ کھلا اور حزلان سخت تیور لئے اندر داخل ہوا جس سے اسد ہڑبڑا کر ٹیبل سے اٹھا ۔ 
” ارے سر آپ یہاں۔۔“ ـ
” ہاں مجھے اور مس حمدا کو باہر ایک لنچ پر جانا تھا تو میں لینے آیا تھا ان کو ۔“ حمدا نے حزلان کے آنے پر ایک سکھ کا سانس لیا ہی تھا ہی کہ اس کی بات پر حمدا کا دماغ گھوم گیا ۔
” اور آپ مسٹر اسد آپ کو میں نے کمپنی کے بلز چیک کرنے کو دیے تھے ، مجھے آج وہ فائل میرے ٹیبل پر چاہئیے ، مس حمدا کل جو میٹنگ میں پریزنٹیشن ہے اس کی فائلز لیں اور چلیں میرے ساتھ ۔“ اسد تو آفس سے بھاگنے والے انداز میں نکلا ۔ 
حزلان نے سگريٹ سلگاتے ہوئےکہا ، ” لیکن کیوں سر ؟“ حمدا کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اسے سگريٹ سمیت اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینکے ۔
” کیوں کا کیا مطلب ہوا ، مجھے پریزنٹیشن پر آپ سے بات کرنی ہے ۔“ 
” لیکن شیرازی سر تو آفس میں ہی ڈسکس کر لیا کرتے تھے ۔“ حمدا نے اپنی طرف سے انکار کیا ۔
” میری طرف دیکھیں۔۔۔۔۔نہیں واقعی دیکھیں مجھے اور بتائیں میں کون ہوں ؟“ ، حزلان نے سنجیدہ ہوتے ہوئے پوچھا ۔ 
” آپ سر حزلان ہیں ۔“ حمدا نے ایک نظر دیکھ کر جواب دیا اور نیچے دیکھنے لگی ۔ 
”واؤ آپ کو تو یاد ہے ، ابھی تھوڑی دیر پہلے مجھے لگا آپ بھلا چکی ہیں ، میں نیچے آپ کا ویٹ کر رہا ہوں ، آجائیں ۔“ یہ کہہ کر وہ رکا نہیں بلکہ جلتا سگريٹ حمدا کی ٹیبل پر رکھ کر باہر نکل آیا ۔ اور حمدا نے اس سگريٹ کو ایسے کچلا جیسے وہ حزلان کا سگريٹ نہیں بلکہ خود وہ ہو ۔ 
************** 
اب وہ دونوں اپنے آفس کے قریب ہی ایک ریستوران میں بیٹھے اگلے دن کی میٹنگ میں پیش کی جانے والی سلائڈز پر بحث کر رہے تھے ، بحث ختم ہوئی تو حزلان نے کھانے کا آڈر دے دیا ۔
” سر آپ کھانا پیک کروا لیں ۔“ حمدا کو کرافٹ سینٹر جانے کیلیے بس پکڑنی تھی ۔ 
” کس خوشی میں ؟“ ، 
” کیا مطلب ؟“ 
” مطلب کہ کس خوشی میں کھانا پیک کروا لوں ۔“ حزلان نے سنجیدگی میں ریکارڈر توڑتے ہوئے کہا ، حمدا نے تین سیکنڈ اس کا چہرہ دیکھا پھر بولی ،” ٹھیک ہے سر پھر مجھے اجازت دیں ، مجھے دیر ہو رہی ہے ۔ “
” آپ کہاں جا رہی ہیں ، آپ کیلیے میں نے آڈر کیا ہے ۔“ اور وہ جو اپنی چیزیں سمیٹ رہی تھی حیرت سے اسے دیکھنے لگی ۔ 
” میں نے کب کہا تھا کہ میرے لیے آڈر کریں کچھ ۔“ حمدا نے دبے دبے غصے میں کہا۔ 
” آپ کو میں اتنا بے مروت لگتا ہوں کہ صرف اپنے لیے آڈر کرتا اور آپ بیٹھی منہ دیکھتیں میرا ، اور چونکہ میں کھانا منگوا چکا ہوں تو آئی ہوپ کہ آپ کھانا ضائع کرنے کے حق میں نہیں ہوں گی ۔“ حمدا کو غصہ تو آیا لیکن وہ خود نہیں سمجھ پائی کہ کیوں اس نے واپس جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور منہ پھولائے بیٹھی رہی ، حزلان یہ منظر دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا ۔ 
” اب موڈ ٹھیک کر لیں ، کہیں لوگ یہ ہی نہ سمجھیں کہ میں آپ کو زبردستی یہاں لایا ہوں ۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے تھوڑا زبردستی لیکن لڑکیاں تو ایسے لنچ کیلیے مرتی ہیں ۔“ 
” تو آپ ان لڑکیوں کو ہی لایا کریں جو مرتی ہیں ۔“ حمدا نے رکھائی سے کہا ۔ 
” آپ کیا چاہتی ہیں کہ مجھ پر ان لڑکیوں کے گھر والے قتل کا مقدمہ کر دیں ۔“ تپا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ 
” آپ ایسے ہی بے تکی باتیں کرتے ہیں ۔“ 
” نہیں میں کبھی کبھی سنجیدہ بھی ہو جایا کرتا ہوں۔“ حزلان نے اس لہجے میں کہا کہ حمدا بے اختیار مسکرا دی ( کوئی اتنا خوبصورت بھی مسکرا سکتا ہے کیا ) 
”اچھا ہوں پھر سنجیدہ ۔“ حمدا نے چیلنج کیا ۔
” کیا میں ایک موضوع پر آپ کی رائے لے سکتا ہوں ؟“ 
” جی پوچھیں ۔“، وہ متوجہ ہوئی ۔ 
” ڈومسٹک وائولنس،“ ایک لمحہ رکا ۔” کیا آپ کو لگتا ہے کہ جو بچیاں یا لڑکیاں گھریلو تشدد برداشت کرتی ہیں وہ مظلوم ہیں ؟ “ ، سوال جتنا غیر متوقع تھا جواب بھی اتنا ہی غیر متوقع آیا ، ” نہیں میں تو ایسا نہیں سوچتی ، کیا آپ کو ایسا لگتا ہے ؟ “، حزلان کئی لمحے جواب نا دے سکا ، اسے لگا تھا کہ حمدا اس بات پر دکھ یا کرب کا اظہار کرے گی لیکن اس نے تو اتنے آرام سے جواب دیا جیسے اس نے پوچھا ہو کہ” آپ کے خیال میں فانٹ سٹائل 16 ہونا چاہئیے یا 20 ؟ “ اور وہ آگے سے کہہ رہی ہو کہ ”میرے خیال سے 16 “ پھر بولا ، ” ہاں مجھے لگتا ہے کہ ان پر ظلم ہوتا ہے اور وہ مظلوم ہیں ۔“ 
” مجھے ایسا نہیں لگتا۔۔۔۔۔۔آپ نے اسلام کا مطالعہ کیا ہے کیا ؟ ، میں نے کیا ہے اور مذہب اسلام کسی صورت بھی مرد کو” ت۔ش۔د۔د “ کی اجازت نہیں دیتا ، 
اور پھر آپ تو بے جا تشدد کی بات کر رہے ہیں ۔ یقین جانیں اگر ایک عورت کو اس کے حقوق پتا ہی نہیں اسے معلوم ہی نہیں کہ اگر اس کا شوہر اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرے تو جنت میں اسے ملنے والا گھر آپ ﷺ کے گھر کے ساتھ ہوگا اور وہ اپنے ہی شوہر سے مار کھائے وہ بھی بغیر کسی ناغے کے تو آپ اسے کیا مظلوم کہیں گے کہ جاہل۔۔۔۔۔؟ “ حزلان کچھ بول ہی نہیں سکا ۔ 
” اگر عورت کو اس کے حقوق نہیں پتا تو سمپل وہ ان پڑھ ہے ، جاہل ہے ، حقوق پتا ہیں اور ان کے خلاف آواز نہیں اٹھاتی تو وہ اس سے بڑی جاہل ہے ، غلطی اس کی ہے ، کیوں اس نے شوہر کے پہلے تھپڑ کے بعد دوسرا لگانے والا ہاتھ نہیں روکا ، کیوں اس کی زیادتی سہی۔۔۔۔۔۔ یقین جانیں میرا اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ، اور پھر چلو مان لیا کہ نہیں ملےاسے اس کےحقوق یا گھر والوں نے اسے علیحدگی اختیار کرنے نہیں دی یا معاشرے کا دباؤ تھا واٹ ایور دی ریزن واز ۔۔۔۔ لیکن وہ اپنے بیٹے کو تو سکھا سکتی تھی نا کہ اس کی بیوی کہ کیا حق ہیں ، اپنے بیٹے کی اچھی تربیت نہ کر کے وہ ظلم کرتی ہے اور اپنی ہی جیسی اور عورتیں پیدا کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔تو سر حزلان عورت مظلوم نہیں ہے۔ ہم عورتوں کی اکثریت جاہل ، ظالم اور ان پڑھ ہے ، میری ڈکشنری میں وہ مظلوم نہیں ہے۔ “ حمدا کی آواز بلند ہو گئی اور کئی ٹیبلز پر بیٹھے ہوئے لوگوں نے مڑ کر ان دونوں کو دیکھا ، اتنے میں ویٹر بھی کھانا لگا گیا ۔ 
حزلان کو تو جیسے چپ لگ گئ ، ” جانتے ہیں سر حزلان جب ایک لڑکی کو اس کے شوہر سے اتنی زور کا تھپڑ پڑے کہ کچن میں کھڑی ساس آکر دیکھے کہ ہوا کیا ہے ،“ وہ کھانا اپنی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے بولی ۔ ”اور اس کی ساس آنکھوں میں دکھ لے کر واپس چلی جائے اور اپنے بیٹے کو نہ روکے جیسے اس کا فرض ہے اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھانا ، “ اب وہ رک کر لقمہ چبا رہی تھی ۔ ” پھر اگلے دن وہی ساس کچن میں کھڑی اس لڑکی سے کہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو کچھ نا بتائے کیونکہ اس کا سو کالڈ شوہر اس سے محبت کرتا ہے اس لیے ، تو اس لڑکی کو آپ کے خیال میں کیا کرنا چاہئیے ؟“ حمدا پوری توجہ سے کھانا کھا رہی تھی جبکہ حزلان نے کھانے کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا ۔
” نہیں ۔۔۔ نہیں جو آپ سوچ رہے ہیں وہ نہیں ، بلکہ اسے اپنی ساس کو کہنا چاہئیے تھا کہ آپ کے بیٹے سے بڑی ظالم آپ ہیں جس نے اس کی تربیت میں عزت نہیں رکھی ، آپ کے شوہر نے جو ظلم کیا سو کیا ، آپ کیوں نہیں روکتی اپنے بیٹے کو اس ظلم سے ، اتنا تو کر سکتی تھیں نا آپ۔ “ اب وہ نیپکن سے اپنا منہ صاف کر رہی تھی ۔ 
” سو سر حزلان عورت مظلوم نہیں ہے۔۔۔۔۔ آپ کا کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے ، مجھے اجازت دیں ۔“ یہ کہہ کر حمدا باہر آگئی ، اور حزلان وہیں بیٹھا اس کے لفظوں کے سحر میں جکڑا رہا ۔ کافی دیر بعد ویٹر کی آواز پر وہ ہوش میں آیا اور باہر کو دوڑ لگائی ۔ 
اسے حمدا سامنے بنے پارک میں ایک بینچ پر آنسو بہاتی نظر آئی۔
*************
” تم سے ایک لباس ٹھیک سے استری نہیں ہوتی، دیہان کہاں ہوتا ہے تمہارا ۔“ یہ کہتے ہی خضر نے اتنی شدت سے اس کو تھپڑ مارا کہ وہ پوری کی پوری زمین پر گری ، دھرام کی آواز اتنی زیادہ تھی کہ کچن سے آسیہ دوڑی چلی آئیں ۔ ” تم پر میری خدمت فرض ہے ، سمجھی تم فرض اور تم ہو کہ۔۔۔۔ہاں اٹھو ذرا کیا زمین پر بیٹھ ہی گئی ہو ۔“ بال کھینچے تو آنکھوں میں آنسو آگئے اور دروازے پر کھڑی آسیہ کو دیکھا تو لگا وہ آکے اپنے بیٹے کو روکیں گی ، ماں ہیں وہ ۔ لیکن خضر نے آگے بڑھ گے دروازہ بند کر دیا ۔ امیدوں کا آخری دیا بھی بجھ گیا ۔ 
اگلے دن حمدا بازؤں پر سرخ نشان لیے کچن میں کھڑی سبزی بنا رہی تھی جب آسیہ آئیں ،” حمدا بیٹے ! “ سر پر پیار دیا تو حمدا نے آہستہ سے اوپر کئے بازو نیچے کر دیے اور مسکرا دی ۔
” خضر کے والد مسجد کے امام تھے ، خضر بھی انہی کے نقش قدم پر چل رہا ہے ۔“ انہوں نے بات شروع کی ۔ حمدا نے سر ہلا کر ہاں میں ہاں ملائی ۔ 
” وہ بھی کبھی کبھار ہاتھ اٹھا لیا کرتے تھے ، لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتے تھےـ خضر بھی تم سے بہت محبت کرتا ہے ، اتنا خیال رکھتا ہے تمہارا ، رکھتا ہے نا ؟ “ 
” جی ۔ “ 
” تو بس اس کے غصے کو درگزر کر دیا کرو ۔ اللہ تم سے خوش ہو گا ۔ ٹھیک ۔ “ 
” جی آنٹی وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں ،ناراضگی والی تو کوئی بات نہیں ۔ “ حمدا نے مسکراتے ہوئے کہا اور اسے لگا دنیا میں سب سے مشکل کام مسکرانا ہی ہے ۔ 
************ 
” حمدا ! “ اپنے پیچھے حزلان کی آواز سنی تو جلدی سے آنسو صاف کئے اور واپس اپنی فارم میں آگئی ۔ 
” مس حمدا ! “ لفظ مس پر زور دے کر بولی ۔ 
” کیا ؟ “ حزلان نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ 
” مجھے مس حمدا کہیں سر۔ “ 
” اوہ۔۔۔۔۔سمجھ گیا ۔“ حزلان بھی دوڑ کر آنے کی وجہ سے تھک گیا تھا اسی لیے اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا یہ وہی بینچ تھا جہاں ان کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ 
” چلیں واپس مس حمدا ـ“ حزلان نے بھی اس دفعہ مس پر زور دیا ۔
” لیکن میرا آفس ٹائم تو ختم ہو چکا ہے ۔“ حمدا باقیوں سے پہلے چلی جایا کرتی تھی سوائے جس دن کام زیادہ ہو 
” اوہ تو آئیں میں آپ کو آپ کے گھر چھوڑ دوں ۔ “ حزلان نے فراغدلی کا مظاہرہ کیا ۔ 
” مجھے ابھی گھر نہیں جانا (حزلان حیرانی سے اسے دیکھنے لگا) مجھے ابھی کرافٹ سینٹر جانا ہے ، پارٹ ٹائم جاب کرتی ہوں وہاں ۔ “ حمدا نے وضاحت دی۔ 
” میں چھوڑ دوں آپ کو وہاں ۔ “ 
” نہیں میں چلی جاؤں گی۔“ حمدا نے کہا اور اٹھ کر چلی گئی۔ حزلان  کو لگا اس کی متاع جاں اس سے دور جا رہی ہو ۔ وہ اپنی ہی کیفیت سمجھ نہیں پا رہا تھا ۔
*************
” دھرام “ کی آواز آئی اور اگلے ہی لمحے دو لوگ زمین پر بیٹھے باقی موجود افراد کیلیے قہقہوں کا باعث بنے ۔

   1
0 Comments