Orhan

Add To collaction

مان

مان
از رائحہ مریم
قسط نمبر3

” دھرام “ کی آواز آئی اور اگلے ہی لمحے دو لوگ زمین پر بیٹھے باقی موجود افراد کیلیے قہقہوں کا باعث بنے ۔ 
” تم ، تمہاری آنکھیں کدھر ہیں ؟ “ ثناء نے غصے میں سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا جس سے وہ ٹکرائی تھی ۔ 
” میری آنکھیں ۔۔۔۔۔۔۔آج وہ گھر پر ہیں ، ریسٹ کر رہی ہیں ، وہ کیا ہے کل میں نے ان سے زیادہ کام لے لیا تھا اس لیے آج وہ لیو پر ہیں ، لیکن آپ کی آنکھیں تو سلامت تھیں نا ، دیکھ کر چلا کریں ۔“ ثناء تو اس کو پلک جھپکائے دیکھتی رہ گئی جو سنجیدگی سے کہتے کہتے تیز ہوا پھر غصہ اور پھر ڈانٹ بھی دیا ۔ 
” اوے ڈفر تم ہو کون ؟ “ ثناء نے کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا ۔
” پہلے آپ بتائیں محترمہ آپ کون ہیں ؟ “ وہ بھی کھڑا ہو گیا ۔ 
” نہیں پہلے تم بتاؤ گے ایئنوئی منہ چلتے ڈفر کو اندر آنے دیا ـ“ 
” میں حزلان کا دوست ہوں ۔ “ ثناء تو سمجھ نا آئے کہ وہ کیا بولے تو وہ جلدی جلدی میں بول گئی ، ” میں حمدا کی دوست ہوں ۔“ 
” اوہ۔۔۔۔۔تو آپ اس میٹھی چھری کی دوست ہیں اس لیے اتنا میٹھا بول رہی ہیں ۔“ 
” کیا کہا آپ نے ؟ “ ثناء نے غصے میں پوچا ۔
” آپ اتنا میٹھا بولتی ہیں ، کیا ہی اچھا ہوتا جو آپ پہلی بار میں سن بھی لیتی ۔“ احمد جان بوجھ کر اسے تنگ کر رہا تھا ۔ 
” میں سر سے آپ کی شکایت کروں گی۔ “ ثناء نے دھماکنے کی کوشش کی ۔ 
” شوق سے کیجئیے گا ، ابھی میں جلدی میں ہوں ، پھر بات ہوتی ہے ۔“ احمد نے جاتے ہوئے اپنی چیزیں اٹھائیں اور ثناء کی وہیں زمین پر ہی رہنے دیں ۔ ثناء نے جب اسے ایسا کرتے دیکھا تو جب تک وہ نظروں سے دور نہیں ہوا وہ اسے خوب کوستی رہی ۔ اور آج احمد کو کسی کی ڈانٹ سن کر بڑا مزا آیا ۔ 
اپنے روم میں آکر ثناء نے فائلز دیکھیں تو ایک ان میں غیرشناسہ سی لگی ، یہ اسی ڈفر کی ہوگی ۔ غصے سے وہ فائل ٹیبل پر پٹخی ۔ 
*************
اگلے دن آفس میں دو جگہوں پر وہ دونوں شروع ہو گئے ۔ 
” حمدا تمہارے سر حزلان کا دوست کیسا ہے ؟“ 
” یار تیری میٹھی چھری کی دوست کیسی ہے ؟“ 
” اول یہ کہ وہ میرے سر حزلان نہیں اور دوم یہ کہ مجھے کیا پتا کس کی بات کر رہی ہو ؟“ 
” اول یہ کہ تو نے میری کہہ کر دل خوش کر دیا اور دوم یہ کہ کس کی بات کر رہے ہو ؟ “
” احمد نام ہے اس کا ۔“ 
” ثناء نام ہے اس کا ۔ “ 
” تمہیں کیسے پتا ؟“ 
” تمہیں کس نے بتایا ؟“ 
” اس ڈفر کی فائل میری سے بدل گئی ۔“
” قسمت نے ہماری فائلز بدل دیں ۔“
” احمد۔۔۔۔۔۔۔اچھا لڑکا ہے ، عزت کرنے والا ۔“
” ثناء۔۔۔۔۔۔اچھی لڑکی ہے ، کام سے کام رکھنے والی ۔“ 
” تمہیں کس نے کہہ دیا کہ وہ عزت کرنے والا ہے ؟“ 
” تمہیں کوئی غلط فہمی تو نہیں اپنی رائے پر ۔“ 
” کہنا کس نے ہے میں نے خود دیکھا ہے ۔“ 
” کہنا کس نے ہے میرے آفس میں وہ کام کرتی ہے ۔“ 
” اچھا تو تم ہی اس عزت دار سے کہہ دو کہ میری فائلز دے دے ـ“ 
” یار اسے آفس میں تو بلا ، فائلز لینے کے بہانے ۔“
” ثناء تم مجھے کام کرنے دوگی کہ نہیں ۔“ حمدا نے ختمی لہجے میں تھوڑا ڈپٹ کر کہا۔
” کوئی ضرورت نہیں بلانے کی ، میرے آفس کی لڑکیاں شریف ہیں۔ یہ فائلز مجھے ہی دےدو میری ہی ہیں ۔“ حزلان نے احمد کو ہری جھنڈی دکھائی ۔ 
” کیسی دوست ہو تم ، آئندہ تمہارا کوئی کام نہیں کروں گی ۔“ ثناء کی دھمکی کا حمدا پر کوئی اثر نا ہوا ۔
” کیسے دوست ہو تم ، آئندہ کسی لڑکی کا نمبر مت مانگنا ۔“احمد نے دھمکی دینا چاہی۔
” جیسے پہلے میرے حصے کا کام تم ہی کرتی ہو نا۔ “ 
” جیسےکہ تم کو کبھی کسی لڑکی نے نمبر دیا بھی ہےـ“
ثناء اور احمد غصے میں کمروں سے نکلے اور پیچھے حمدا اور حزلان ہنس دیے۔
” پاگل ہے یہ ۔“ 
” پٹے گا یہ ۔“ 
*************
” دھرام “ اور یہ ہوئی ان کی دوسری ٹکڑ ، لیکن اس بار فرق یہ تھا کہ احمد نے ثناء کو گرنے سے پہلے ہی تھام لیا ، ثناء نے پہلے تو گرنے کے ڈر سے آنکھیں ہی بند کر لیں پھر جب دو لمحے گزرے اور درد کا کوئی احساس نا جاگا تو اس نے آنکھیں کھولیں اور اگلا منظر دیکھ کر اس نے شدت سے دعا کی کہ کاش وہ زمین پر ہی گر گئی ہوتی ۔ احمد اسے بازو میں تھامے گرنے سے روکے ہوئے تھا ۔ ثناء ہڑبڑا کر سیدھی ہوئی ۔ 
” ڈفر مجھے کسی نے کہا تھا تم عورتوں کی عزت کرنے والے ہو ۔“ 
” محترمہ مجھے بھی کسی نے کہا تھا کہ آپ اپنے کام سے کام رکھنے والی ہیں ـ“ وہ تو جیسے جواب تیار کئے بیٹھا تھا۔
” میں نے کب ٹانگ اڑائی ہے۔ “ 
” ہاں ٹانگ نہیں تم پوری کی پوری۔۔۔۔۔“ جملہ آدھا چھوڑ کر معنی خیز آنکھ ماری ، ثناء کو سمجھ آئی تو غصے میں لال ہو گئی ۔ 
” راستہ چھوڑو میرا ، ڈفر ۔ “
” لو چھوڑ دیا لیکن دیکھنا دوبارہ بلاؤ گی ـ“ یہ کہہ کر اس نے ثناء کی فائل ہاتھ میں لہرائی اور آگے کو چل دیا۔ ثناء نے پہلے تو سوچا کہ وہ دوبارہ بلائے گی اسے پھر فائل یاد آئی تو اسے آواز دی ۔
” او۔۔۔۔ڈفر !“ کوئی جواب نہیں ۔
” احمد ! “ ، اور یہ وہ مڑا ۔ اپنا نام آج سے پہلے اتنا خوبصورت نہیں لگا ۔ 
” ایک دفعہ پھر بولنا ۔ “ ثناء بول کچھ نہیں بلکہ اس کے قریب آئی ، آرام سے اپنی فائل لی اور اس کی فائل کو ہاتھ میں تھما کر اس کے کان کے قریب جھک کر چینخی ، ” ڈفر ۔“ اور احمد کو کان کے پردے پھٹنا مہاورے کی سمجھ آئی ، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتا ثناء اندر کو چلی گئی ۔ اور وہ کان پر ہاتھ رکھے کمپنی سے باہر نکل گیا ۔ 
*****************
” سر یہ فائلز دینی تھیں آپ کو ۔“ ، ثناء نے لاکر فائلز حزلان کو دیں ۔ اس نے سر کو خم کر دیا ۔ جب ثناء روم سے باہر جانے لگی تو حزلان بولا ، ” مس ثناء آپ جا کر میٹنگ روم میں پروگریس چیک کریں اگر سب آچکے ہیں تو مجھے انفارم کریں، اور ہاں مس حمدا سے کہیں کہ وہ بھی میٹنگ روم میں آئیں ۔“ 
” جی سر ۔“ ، ثناء نے اتنا کہا اور باہر چلی گئی۔ 
۔
۔
وہ دونوں میٹنگ روم کی طرف جارہے تھے جب حمدا بولی ،” سر میں میٹنگ روم میں کیا کروں گی؟ شیرازی سر نے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “ اس بات پر حزلان نے جس طرح اس کو دیکھا وہ گڑبڑا گئی اور بولی ، ” ہاں جانتی ہوں ابھی آپ کو دیکھنا ہے اور کہنا ہے کہ آپ تو سر حزلان ہیں ، یاد ہے مجھے اب چلیں ۔“ حمدا آگے چل پڑی ، ”اگر اتنی غور سے دیکھے بغیر ہی کہہ دیتیں تو بھی چلتا ۔“ اپنے پیچھے حزلان کی آواز سن کر اس کے قدم رک گئے ، وہ کیا کہہ رہا تھا ۔ لیکن حزلان اس کے بالکل ساتھ سے ہو کر کمرے کے اندر چلا گیا ۔ چند لمحے لگے حمدا کو اس کے پرفیوم کے سحر سے نکلنے میں ، پھر وہ بھی اندر چلی گئی۔
***************
میٹنگ حسب توقع اس کیلیے بورنگ تھی ، اسے ساری باتیں پہلے سے ہی پتا تھیں ، بمشکل اپنی جمائیان قابو کئے ہوئے تھی ۔ 
” جی میرے خیال سے اپنی نئی کمپنی پر بہت بات ہو گئی ۔ اب میں ایک بات آپ لوگوں سے کرنا چاہوں گا اور مجھے بہت اچھا لگے گا اگر آپ توجہ سے سنیں تو ۔“ حزلان نے یہ کہہ کر سب کی توجہ اپنی طرف کروائی ۔ حمدا بھی اسے دیکھنے لگی جو ابھی تک کمرے کے کلر سے لے کر کرسیوں کے رنگ میں دلچسپی لے رہی تھی ، اسے لگا یہ آخری جملہ کہا ہی اسے گیا ہے ۔ کیونکہ باقی لوگ تو دیکھ اور سن ہی حزلان کو رہے تھے ۔ 
” میں کمپنی میں تھوڑا بدلاؤ لانا چاہتا ہوں اور یہ چاہتا ہوں کہ آپ سب اس میں میری مدد کریں ۔ “ حمدا سمیت سب ہی غور سے سن رہے تھے ۔
” جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کی شرح میں بہت اضافہ ہو گیا ہے ، اور یہ دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے ۔ تو میں نے سوچا کہ کیوں نا اس کے خلاف کچھ کیا جائے ، کیوں مس حمدا میں نے ٹھیک کہا ؟“ ، اور تو کسی کو یہ غیر معمولی بات نہیں لگی لیکن جسے سنائی گئی تھی وہ سمجھ گئی ۔ 
” جی سر ۔“
” میں نے کہا کہ ہمیں ایسا کرنا چاہئیے نا ؟“
” میں نے بھی یہ ہی کہا کہ "جی سر" کرنا چاہئیے ۔“ 
” گڈ ، اب ہم اس سلسلے میں یہاں پر اپنے ارد گرد چھوٹے چھوٹے پلانٹس لگائیں گے ، آپ سب کی اپنی مرضی ہے اپنے کیبن کی سیٹنگ کے مطابق کوئی بھی ان ڈور پلانٹ لایں لیکن پے کمپنی کرے گی ۔ اور مجھے اچھا لگے گا کہ آپ اس جگہ کو اپنا گھر سمجھیں جہاں آپ اپنے دن کا ایک بڑا حصہ گزارتے ہیں ۔“ سب لوگ آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے ۔ 
” ایک منٹ ایک منٹ ، بات ابھی ختم نہیں ہوئی ۔“ سب دوبارہ اسے دیکھنے لگے ۔
” مجھے کسی نے کہا تھا کہ اگر آپ ایک پودا اگائیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو اچھے کل کی امید ہے ، تو میں امید کرتا ہوں کہ آپ سب مل کر اس امید کو یقین میں تبدیل کریں گے ۔ “ اب سبھی اٹھ کر تالیاں بجانے لگے ۔ حمدا کو بھی کھڑا ہونا پڑا ۔
لیکن وہ جلد ہی سب سے معذرت کر کے وہاں سے چلی آئی ۔ 
*************** 
حمدا اپنے کمرے میں آئی تو وہاں منی پلانٹ کی بیلوں کو دیکھ کر بے اختیار مسکرا دی ، یہ اسے رودابہ نے دی تھیں ، ” آپی آپ وہاں اتنا زیادہ وقت گزارتی ہو تو میں چاہتی ہوں کہ آپ کا وقت اچھی اور تازہ ہوا میں گزرے ۔“ 
کرنے کو زیادہ کام نہیں تھا تو وہ بیٹھ کر کارڈز پر لگانے کیلیے کاغذ کے چھوٹے چھوٹے پھول اور پتیاں بنانے لگی ۔ پہلے پتلی سی سٹرپ کاٹتی پر اس کو رول کرنے کے بعد ڈھیلا کر کے ایک سرے پر گلو سے اسے چپکا دیتی ۔ بعد میں پتی بنانی ہے تو ایک طرف سے دبا دیا ، پتا بنانا ہے تو دونوں طرف سے ۔ اس طرح اس کے ٹیبل پر کئی رنگوں کے پھول اور پتے جمع ہو گئے ۔
۔
۔
دروازے پر دستک ہوئی ۔
” یس کم ان ۔“
حزلان کو اندر آتا دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی کہ وہ کیا سوچے گا کہ میں آفس آور میں کیا کام لے کر بیٹھ گئی اور اب ان کو چھپایا بھی نہیں جا سکتا ، بمشکل چہرے پر مسکراہٹ لائی اور بولی ، ” سر آپ مجھے بلوا لیتے اگر کوئی کام تھا تو ۔“
” ہاں کام تو تھا ، لیکن یہ بتائیں کیا بنا رہی ہیں آپ ؟“ 
حزلان ہاتھ میں سگريٹ تھامے بالکل اس کے بالکل قریب آگیا ، ہاتھ کے اشارے سے اسے اٹھنے کا کہا اور خود اس کی کرسی پر بیٹھ کر اسے سامنے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ حمدا نے ہلکی سی کھانسی کی اور حزلان کی توجہ اس کے کیبن میں لگی ایک تصویر کی طرف کی جس پر لکھا تھا ۔
” نو سموکنگ ۔“ 
حزلان بے اختیار ہنس دیا ، سگريٹ کو ٹیبل پر مسل کر پاس پڑی ڈسٹ بن میں ڈالا اور حمدا کی طرف متوجہ ہوا ۔
” کوئلینگ آرٹ ہے سر ، کارڈز پر ان کو لگایا جاتا ہے ۔“
” مجھے بنانا سکھائیں گی ۔۔۔۔۔ ایسے نا دیکھیں میری بہن فری کی سالگرہ ہے ، اس کیلیے بناؤں گا ۔“ 
” میں آپ کو بنا دوں گی سر ۔“ حمدا کو سکھانے سے آسان بنا کر دینا لگا ۔ 
” سیریسلی ، تھینکس فار فیور ، اچھا وہ کام تو بتایا ہی نہیں جس کیلیے میں آیا ہوں ۔“ 
” وہ کیا ہے سر ؟“ 
حزلان ٹیبل پر بکھرے پھولوں کی بڑے ماہر انداز میں تصویریں لیتے ہوئے بولا ، ” ہم کمپنی سائٹ کو وزٹ کرنے کیلیے اسلام آباد جا رہے ہیں ۔“ 
حمدا کو لگا وہ کچھ اور کہے گا لیکن ، ” مس حمدا آپ کو کچھ پوچھنا ہے کیا ؟“ 
” نہیں مجھے کیا پوچھنا ہو گا بھلا ۔“ لاپرواہی سے کہا۔
” مس حمدا ہم سے مراد میں اور آپ ہیں ۔“ اور اب حمدا کی آنکھیں جھپکنا بھول گئیں ۔
” سر اگر یہ مذاق ہے تو یقین جانیں مجھے ایسے مذاق بالکل پسند نہیں ۔“ حزلان اس بات پر کھڑا ہو کر اس کے سامنے آگیا اور بولا ۔
” مس حمدا کیا میرا اور آپ کا مذاق کا رشتہ ہے ؟“ ، کتنی ہی دیر وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی رہی پھر بولی ، ” میں یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ شیرازی سر نہیں ہیں اور آپ کا کام کرنے کا طریقہ الگ ہے لیکن میں ایک بات یہ بھی جانتی ہوں کہ میں آپ کے ساتھ نہیں جاسکتی ۔“ 
” کیا مطلب کہ نہیں جاسکتی ، مجھے آپ وہاں پر آفس کے کام کی وجہ سے چاہئیے ۔“
” آپ مجھے ریپورٹس میل کرتے رہیے گا ، میں یہیں پر پریزنٹیشن بنا لوں گی ۔“ 
” آپ چاہتی ہیں کہ میں آپ کو ہر دو منٹ بعد ایک میل کروں ۔“ پندرہ منٹ کی اس بحث کے بعد وہ بولی ، ” سر مجھے یوں آپ کے ساتھ اکیلے جانے کی اجازت نہیں ملے گی ۔“
” کس نے کہا کہ آپ اکیلی ہو گی ، ثناء ساتھ ہیں اور ویسے بھی میں لاسٹ میٹنگ کی کامیابی کے بعد آپ کی ترقی کا سوچ رہا ہوں ، یہ بزنس ٹؤر آپ کیلیے فائدہ مند ثابت ہو گا ، سوچئے گا ضرور ۔“ حزلان اتنا کہہ کر باہر چلا گیا ، جبکہ وہ وہیں پر سر تھام کر بیٹھ گئی ۔

   1
0 Comments