Orhan

Add To collaction

مان

مان
از رائحہ مریم
قسط نمبر4

تھوڑی دیر بعد ثناء آئی ۔
” حمدا یو نو واٹ ، ہم اسلام آباد جا رہے ہیں ، تمہاری ہمیشہ سے خواہش رہی دیکھو اب پوری ہو گی ، واؤ میں بہت پر جوش ہوں ۔“
لیکن اس نے کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہ کیا ، ” کیا ہوا ہے حمدا ، تم خوش نہیں ہو کیا ؟ ، اس ریپورٹ کے بعد ہماری پروموشن ہو جائے گی۔“
” میں کیسے جا سکتی ہوں ، امی نہیں مانیں گی ، میں جانا چاہتی ہوں ۔ مجھے پروموشن چاہئیے ، ماہ نور کی فیس پے کرنی ہے اور رودابہ کے فنڈز بھی رہتے ہیں ، لیکن امی نہیں مانیں گی میں جانتی ہوں ۔“ حمدا نے اداس لہجے میں کہا۔
” اگر میں آنٹی کو منا لوں تو کیا چلو گی پھر ؟“ ثناء نے حل ڈھونڈا ۔
” کیا وہ مان جائیں گی ؟ “ ، حمدا کو ابھی بھی یقین نہیں تھا۔
” تم اپنی بات کرو ، آنٹی کو تو میں منا ہی لوں گی۔“ ثناء نے مکمل اعتماد سے کہا ۔ 
” ٹھیک ہے پھر چلو آج تم بھی سینٹر چلو ، مس روشنی تمہیں یاد کر رہی تھیں ۔“
” چلو جناب ، اچھا ہم لوگ نا وہاں گھومنے بھی جائیں گےـ“ ثناء نے اس کی چیزیں سمیٹتے ہوئے کہا ۔ 
” ٹھیک ہے فیصل مسجد لازمی جائیں گے ، لیکن ہم دونوں جائیں گے بس ۔“ حمدا کی ہمیشہ سے خواہش رہی تھی کہ وہ اپنی آنکھوں سے پہاڑوں کے دامن میں بنی اس خوبصورت مسجد کو دیکھے۔ 
” ہاں تو اور ، آؤ اب سر سے میں اجازت لے لوں۔“ وہ دونوں اب کمرے سے باہر نکل رہی تھیں اور حزلان تک مائکرو فون کے ذریعے پہنچنے والی آواز آہستہ ہوتی جا رہی تھی ۔
**************
وہ دونوں ریسٹوران میں بیٹھے لنچ کر رہے تھے ۔ ” یہ اسلام آباد والا کیا سین ہے ؟“ ، احمد جو کہ کافی دیر سے حزلان کو پوری دلجمعی سے کھاتے دیکھ رہا تھا بولا ۔ 
” کیا مطلب کیا سین ہے ، سائٹ وزٹ کرنے جانا ہے ۔“ ، حزلان نے لاپرواہی سے کہتے ہوئے مینو کارڈ دوبارہ دیکھنا شروع کیا۔
” تجھے کیا لگتا کہ میں جانتا نہیں ہوں کہ تو اسلام آباد چھوڑ کر کیوں آیا ہے ، اور وہاں کی کمپنی کی سربراہی بھی شیرازی انکل کو دے دی ؟“ ، حزلان نے اب کھانے سے ہاتھ روکا لیکن کانٹے پر اس کی گرفت مضبوط ہو گئی ، وہ ضبط کر رہا تھا۔
” کس نے ؟“ 
” حزلان اس سے فرق نہیں پڑتا ۔“ 
” فری نے یا آپی نے؟ “ حزلان نے ختمی انداز میں پوچھا۔
” آپی نے ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن حزلان وہ تمہارے لیے فکر مند ہیں ، تم اکیلے بھائی ہو ان کے ، انکل آنٹی کے گزر جانے کے بعد انہوں نے ماں بن کر تمہیں اور فری کو پالا ہے ، میں نہیں چاہتا کہ تم دوبارہ اسلام آباد جاؤ اور پھر وہی تکلیف سہو ۔“ احمد نے مخلص مشورہ دیا۔ 
کافی دیر خاموش رہنے کے بعد حزلان بولا ، ” میں اپنے لیے نہیں جا رہا ۔“
” میں حمدا کو لے کر جانا چاہتا ہوں وہاں ، مجھے نہیں پتا لیکن ہاں میں جانتا ہوں وہ اندر سے بہت دکھی ہے ، میں اسے وہ خوشیاں دینا چاہتا ہوں جن پر اس کا حق ہے ، اور رہی بات اسلام آباد کی تو یہ اس کی خواہش ہےـ“ 
” اس نے تمہیں خود بتایا ؟ “ 
” میری شکل دیکھو۔۔۔۔۔۔تمہیں لگتا وہ خود بتاتی ، تمہاری میٹھی چھری سیدھے منہ بات نہیں کرتی (ساتھ ساتھ وہ ہنسی جا رہا تھا) اور مجھے اپنی خواہش بتائے گی ۔ اس کے لیپ ٹاپ کی سکرین پر فیصل مسجد کی تصویر ہے ـ“ 
” تجھے لگتا ہے کہ وہ مانے گی ؟“ احمد نے پوچھا۔
” یہ کام میری ہونے والی بھابھی کرے گی۔“ حزلان نے اندھیرے میں تیر چلایا ، ” تیرا مطلب ہے ثناء بھی جارہی ہے ؟“ ، اور وہ تیر نشانے پر بھی لگا ۔ 
جس پر ریسٹوران میں حزلان کا جاندار قہقہہ سنائی دیا اور احمد جی بھر کر شرمایا ۔
” اوہ۔۔۔۔۔دیکھو دیکھو کیسے شرما رہا ہے ، پوری لڑکی لگ رہا ہے کمینے ، میں نا پوچھتا تو تو نے لے کر اڑ جانا تھا میری ورکر کو ۔“
” اوے اب ورکر مت بول بھابھی ہی اچھا لگتا ہے۔“ احمد نے شرما کر کہا تو حزلان پھر سے ہنسنے لگا۔
” تو تو ایسے ہنس رہا ہے میسنے جیسے تیرا ریکارڈر صاف ہو ۔“ ، احمد نے منہ بنا کر کہا ۔
” چل ایک بات تو کنفرم ہوئی کہ دونوں کو جو لڑکیاں پسند آئیں وہ بھی دوستیں ہیں۔ “ ، احمد نےہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ 
” اور ایک اور بات کہ دونوں ہی ہم سے نفرت کرتی ہیں ۔“ حزلان نے ہنستے ہوئے کہا۔
” میری والی تو نفرت نہیں کرتی ، البتہ تیری والی کرتی ہو گی ـ“ ، احمد نے تو مذاق میں کہا لیکن حزلان سنجیدہ ہو گیا ۔
” تم اسے بھلا دو گے میرے یار ، اور حمدا نفرت نہیں کرتی ، وہ ڈرتی ہے ۔ انشاءاللہ تمہاری محبت کے آگے اس کا ڈر ہار جائے گا ۔“ احمد نے دعا اور امید ایک ساتھ دی ۔ کیونکہ وہ اپنے دوست کو دوبارہ ٹوٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ جیسا وہ دو سال پہلے تھا ، جس کی وجہ سے اس نے سموکنگ شروع کی تھی۔ 
***********
” رودابہ کیا آپی اس مہینے فیس دے پائیں گی ؟“، ماہ نور نے فکر مندی سے پوچھا ۔ 
” ماہ نور آپی نے پہلےبھی کبھی لیٹ نہیں کیا۔“ رودابہ نے معمول کے مطابق کہا۔
” کیاہی اچھاہوتا کہ اگر اس سال بھی میری سکالرشپ لگ جاتی۔“
” ماہ نور تم میری جڑواں ہو ، کہیں سے لگتا ہے کیا ؟ جتنا میں ہر کسی کو مثبت رہنے کا کہتی ہوں ہر کوئی منفی سوچ لیے بیٹھا ہے ۔ اگر اللہ ایک در بند کرتا ہے تو کئی اور کھول دیتا ہے ، فکر نہیں کرو اور جا کر دروازہ کھولو ، بج رہا ہے ۔“ نفیسہ اپنی بیٹی کی باتیں سن کر مسکرا دیں ، لیکن پریشان وہ بھی تھیں ۔ ان کا مشین پر چلتا ہاتھ تیز ہو گیا ۔ 
” امی رفتار بڑھائیں گی تو جلدی تھک جائیں گی ، اور جو یہ سوچ رہی ہیں کہ اس طرح ماہ نور کی فیس ادا ہو جائے گی تو خام خیالی ہے آپ کی۔“
” امی رودابہ دیکھو تو کون آیا ہے ؟“ ماہ نور نے آتے ہوئے کہا۔
رودابہ بھی تجسس سے کھڑی ہو گئی اور نفیسہ کا مشین پر چلتا ہاتھ تھم گیا ۔
” السلام علیکم آنٹی ، السلام علیکم رودابہ۔“ ثناء نے آتے ہی سلام لی اور آگے بڑھ کر نفیسہ کو ملی ۔ 
” وعلیکم السلام ، بیٹا۔۔۔۔۔اتنی دیر بعد آئی ہو ۔ آتی جاتی رہا کرو نا ۔“ نفیسہ نے پیار دیتے ہوئے کہا۔
وہ بھی مسکرا کر ان کے سامنے ہی صوفے پر بیٹھ گئی۔
” رودابہ جاؤ جا کر چائے کے ساتھ پکوڑے بناؤ اور فنگر چپس بھی ـ“ حمدا بھی ثناء کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔ ” جی آپی۔“ رودابہ جاتے ہوئے ماہ نور کو بھی کھینچ کر لے گئی ۔ 
” آنٹی آج میں ایک خوشخبری لے کر آئی ہوں ۔“ ثناء نے بات شروع کی ۔ 
” کیا حمدا کا کوئی رشتہ دیکھا ہے۔ “ نفیسہ کے کہنے کی دیر تھی کہ باورچی خانے میں کھڑی ماہ نور اور رودابہ نے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے ۔
” امی ! حد کرتی ہیں آپ ۔کسی کے سامنےتو۔۔۔۔“ ، ابھی حمدا کا چلانا بیچ میں ہی تھا کہ ثناء نے حمدا کے پاؤں پر پاؤں مار کر اس کی بولتی بند کی اور بولی ،” نہیں نہیں آنٹی رشتہ نہیں بلکہ میں کہنے والی تھی کہ ہماری پروموشن ہورہی ہے۔“ پھر حمدا کی طرف جھک کر بولی ، ” کیوں میری محنت پر پانی پھیرنا ہے ، ابھی صرف اسلام آباد پر فوکس کرو ۔“ 
” اچھا مبارک ہو بیٹا ۔“ نفیسہ بھی مسکرا دیں ۔ 
” لیکن آنٹی اس کیلیے نا مجھے اور حمدا کو اسلام آباد جا کر ایک ریپورٹ بنانی پڑے گی ، بس اسی سلسلے میں یہاں آئی کہ جانے سے پہلے آپ سے مل جاؤں اور حمدا کیلیے اجازت بھی لے لوں ۔“ 
اس سے پہلے کہ نفیسہ کچھ کہتیں رودابہ کچن سے باہر آگئی اور بولی ، ” امی میں نا کہتی تھی کہ اللہ ہی وسیلے بنانے والا ہے۔ لیں ثناء آپی ، چائے میں نے بنائی ہے ، چپس ماہ نور لا رہی ہے ۔“ 
” تکلف کیا ہے رودابہ۔“ ثناء نے چائے لیتے ہوئے کہا۔
” کوئی تکلف نہیں کیا ، بھوکی تھی یہ ۔“ ، حمدا نے بھی چائے لیتے ہوئے اسے ٹوکا ۔
” کتنے دنوں کیلیے جانا ہے حمدا ؟ “ ، نفیسہ نے فکرمندی سے پوچھا ۔ 
” امی تین دنوں کیلیے جانا ہے ۔“ ، حمدا نے کہا ۔
” اچھا پھر بازار کا ایک چکر لگا لینا ، گرم شال یا سویٹر لے آنا۔“ ، نفیسہ نے یہ کہا تو ثناء اور حمدا نے ایک فاتحانہ مسکراہٹ ایک دوسرے کو دی ۔ کیونکہ اجازت مل چکی تھی ۔
**************
” خضر آج امی آرہی ہیں ، آپ مسجد سے جلدی آجائیے گا ـ“، حمدا نے فون کر کے اطلاع دی ۔ 
کھانے کے دوران حمدا نے بریانی کی ٹرے خضر کو دی ، وہ مکمل دلجوئی سے کھا رہا تھا ۔ حمدا کے ہاتھ میں ذائقہ تھا ۔
خضر بیٹا ہم ماں بیٹیاں اسلام آباد جانے کا پروگرام بنا رہی ہیں ، آپ اور حمدا بھی چلو ہمارے ساتھ ، رحمت بھی چلے گی ۔“ ، انہوں نے رحمت کے گال سہلاتے ہوئے کہا ۔ وہ پانچ سال کی گول مٹول بچی تھی ، حمدا کو لگتا کہ وہ بالکل اس کی ماں کی طرح ہے کیونکہ اس کے نقش خضر سے نہیں ملتے تھے ۔ 
” جی کیوں نہیں ۔“ ، خضر نے تابعداری سے کہا ۔ حمدا مسکرا دی ، اس کی ہمیشہ سے خواہش تھی پہاڑوں کے دامن بنی مسجد میں اپنے ہمسفر کے ساتھ نوافل پڑھے ۔ 
رات میں جب وہ اپنا زیور اتار رہی تھی تو بولی ، 
”خضر آپ جانتے ہیں ! میری ہمیشہ سے خواہش رہی کہ اسلام آباد جاؤں ۔“ 
اور خضر جو کہ اتنی دیر سے اپنا غصہ ضبط کیے بیٹھا تھا ، جلال میں آگیا ، ” تو تم نے ان کو کہا ہے جانے کیلیے ، ہاں ؟“ ، حمدا کا کانٹے پکڑا ہاتھ اسی طرح رک گیا ، ” نہیں خضر امی کا مشورہ تھا یہ ، رودابہ نے پلان بنایا ۔“ ، ایک تو تمہاری بہنوں کی سمجھ نہیں آتی مجھے ، اور تم منع نہیں کر سکتی تھی کیا ، مجھے مسجد کے کام سے کراچی جانا ہے ، وہاں اتنا بڑا میلاد ہے اور تم ہو کہ ۔۔۔۔ “ ، سختی سے حمدا کی بند مٹھی پکڑ لی ، ” آنسو مت بہانہ تم ، نفرت ہے مجھے ان آنسوؤں سے ۔“ غصے سے ہاتھ جھٹک دیا ۔ ” تم ابھی اپنی بہنوں کو فون کرو اور منع کر دو ان کو ، سنا تم نے۔“ ، خضر نے اب اس کے بالوں کو پکڑ کر آنکھوں میں دیکھ کر کہا ۔
” آپ ان کو منع کر دیں ، حامی آپ نے بھری تھی ۔“ ، یہ غلطی ہوئی اس سے ، خضر نے اسے تھپڑ مار دیا وہ ڈریسنگ کے ساتھ ٹکرائی اور نیچے گری ، ” نافرمان عورت زبان چلاتی ہو ۔“ اتنا کہہ کر وہ نماز پڑھنے چلا گیا ۔ 
حمدا نے گال پر درد محسوس کرنا چاہا لیکن درد گال کی بجائے ماتھے پر جاگا ، ہاتھ لگا کر دیکھا تو لگا کہ کچھ بہہ رہا ہے ، پہلے چہرے پر پھر گردن پر ، رنگ دیکھا تو وہ لال تھا ، خون جیسا لال۔۔۔۔۔۔ وہ خون ہی تھا ۔ حمدا خون دیکھ کر بےہوش ہو گئی ۔ 
رات میں ناجانے کب رحمت کمرے میں آئی اور حمدا کو زمین پر سوتے دیکھ کر اٹھانا چاہا ، لیکن وہ اٹھ نہیں رہی تھی تو وہ آسیہ کو بلا لائی ۔ 
***************
حمدا آفس کیلیے جانے کی تیاری کر رہی تھی ، جب اس نے ماتھے پر وہاں ہاتھ لگایا جہاں اب معمولی نشان بھی نا تھا ، ” خضر حیات میں نے تمہیں ہر بھر جانے والے زخم کیلیے معاف کیا ( پھر اپنے پیٹ کے نیچے والی جگہ  پر ہاتھ پھیرا ) ، لیکن جو زخم کبھی نہیں بھریں گے ، جن کے نشان بھی کبھی نہیں جائیں گے ، ان کا حساب تمہیں دینا ہو گا ۔“ ، آنکھوں میں آنسو اور ماہ نور اکٹھے ہی آگئے ، جلدی سے صاف کیے اور باہر چلی گئی ۔ ” آپی مجھے ایک رجسٹر بھی لادیجئے گا ۔“ ، باہر نکلتے ہوئے رودابہ کی آواز پر مڑی تو حزلان کا کارڈ بھی یاد آگیا ۔
” رودابہ کوئی پیارا سا سالگرہ کا کارڈ ہے کیا گھر میں بنا ہوا ؟“ 
” ہاں شاید ہو ۔“ 
” مجھے لادو جلدی سے ۔“ 
” حیریت ؟ “ 
” سر حزلان کو چاہئیے ۔“ 
” اچھا ایک منٹ ، ابھی آئی ۔“ 
حمدا دروازے میں ہی انتظار کرنے لگی ۔ ” یہ لیں ۔“ 
” تھینک یو ۔“ 
” تھینکس مت کہیں بلکہ اس کے پیسوں سے مجھے اچھا سا کچھ گفٹ کر دینا ۔“ ، رودابہ نے ہنستے ہوئے کہا ۔ 
” میں ان سے پیسے نہیں لینے والی ۔“ اور یہ کہہ کر وہ چل پڑی ، ناجانے کیوں آج وہ مسکرا رہی تھی ۔
***************
آفس آئی تو اسے جلدی تھی کہ وہ حزلان کو اس کا کارڈ دے دے ۔ ابھی جانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ ثناء ہاتھ میں دو چیک پکڑے اندر آئی ، ” چلو حمدا ہم شاپنگ پر جا رہے ہیں ۔“ ، ” وہ کیوں ؟ اور یہ کیا ہے ہاتھ میں ؟ “ 
” یہ چیکس ہیں ، سر حزلان نے دیے ہیں ، وہ پوچھ رہے تھے ہماری تیاری کہاں تک پہنچی ہے ، میں نے بتایا کہ ہمیں شاپنگ پر جانا ہے تو K٢٥ کا چیک کاٹ دیا کہ جائیں اور ابھی فری ہو کر آجائیں ۔“ ثناء نے تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ۔
” لیکن سر کو چیکس دینے کی کیا ضرورت تھی ؟ “
” کیوں ضرورت نہیں تھی ، ہم ان کے کام کی وجہ سے جا رہے ہیں شاپنگ پر ۔“ ثناء اب اس کے مقابل آکھڑی ہوئی ، ” چلو اب چلیں ، یہ کیا ہے ہاتھ میں ؟۔۔۔۔۔۔واؤ کتنا خوبصورت ہے یہ ، کس کیلیے ہے ۔“ ثناء نے کارڈ کو ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا ۔ حمدا بھی کھڑی ہو گئی اور اپنی چادر لینے لگی ۔
” یہ سر حزلان نے بنوایا ہے ان کی سسٹر کی سالگرہ کیلیے ۔“ 
” بہت خوبصورت ہے یہ ۔“
” ہاں چلو اب چلتے ہیں ، تم دے دینا سر کو پھر ۔“
” ارے نہیں تم خود ہی دینا ، بلکہ ابھی جاکر دے آؤ میں بھی اپنی چیزیں لے آؤں روم سے ۔“ ثناء اسے کارڈ پکڑا کر باہر چلی گئی ۔ 
*************
” مے آئ کم ان سر ؟“
” یس ۔۔۔۔۔۔ کم ان حمدا ۔۔۔ام م مس حمدا ۔“ ، حمدا مسکرا دی ۔
” سر یہ کاڑد آپ کیلیے ۔“حمدا نے کارڈ پکڑاتے ہوئے کہا ۔
” میرے لیے ؟“
” آپ کی بہن کیلیے ۔“ 
” اوہ۔۔۔اچھا فری کیلیے ۔“ ( میں فضول میں خوشگمان ہو رہا تھا ) 
” تھینک یو ۔“ حزلان نے کارڈ کھولتے ہوئے کہا ، ” لیکن یہاں تو لکھا نہیں ہوا کچھ بھی ۔“ 
” مجھے لگا آپ خود لکھیں گے ۔“ 
” نہیں یہ لیں پین اور لکھ دیں اس میں ٹو فری فرام حزلان۔ “ حزلان نے بلو پین آگے کرتے ہوکہا۔
” میرے پاس پین ہے سر ۔“ حمدا نے اپنے بیگ سے پین نکال کر کارڈ پر نام لکھا اور آگے کر دیا ۔
” شکریہ ۔“ 
” مجھے بھی آپ کو شکریہ کہنا تھا ۔“
” کس لیے ؟ ۔۔۔۔ اوہ اچھا نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے ، آپ اب جائیں جا کر شاپنگ کر لیں ۔“ حزلان نے کارڈ پر بنے پھولوں کو چھوتے ہوئے کہا ۔
” جی سر ، اللہ حافظ ۔“ 
*************
اگلے دن حمدا صبح ہی صبح اٹھ کر تیار ہوئی ،نفیسہ کمرےمیں آئیں اوراس کو ساتھ لگاتے ہوئے بولیں،”اپنا خیال رکھنا وہاں پر ۔“ 
” جی امی ۔“
انہوں نے حمدا کے ماتھے پر بوسہ دیا اور دعاؤں کے سائے میں رخصت کیا ۔ 
آفس پہنچی تو وہاں پر دو گاڑیاں تیار ہوتے اور ان کے ساتھ کھڑے حزلان اور احمد کو دیکھا ۔ پاس ہی ثناء بھی بیٹھی ہوئی تھی ۔ اس نے اپنا سامان بھی ثناء کے سامان کے ساتھ رکھ دیا اور اس کے ساتھ بیٹھ گئی ۔ کچھ دیر بعد حزلان اور احمد آئے اور ان دونوں کو الگ الگ گاڑیوں کے پاس لے گئے ۔ 
” حمدا آپ میرے ساتھ جبکہ ثناء احمد کے ساتھ جائیں گی ۔“ 
” ثناء آپ میرے ساتھ جبکہ حمدا حزلان کے ساتھ جائیں گی ۔“

   1
0 Comments