Orhan

Add To collaction

مان

مان
از رائحہ مریم
قسط نمبر5

” حمدا آپ میرے ساتھ جبکہ ثناء احمد کے ساتھ جائیں گی ۔“ 
” ثناء آپ میرے ساتھ جبکہ حمدا حزلان کے ساتھ جائیں گی ۔“
” وہ کیوں سر ۔“
ۭ” مجھے ابھی تک کسی پاگل کتے نے نہیں کاٹا جو تمہارے ساتھ اکیلی جاؤں ۔“ 
” وہ اس لیے کیونکہ احمد کو ثناء کے ساتھ جانا ہے ۔“ 
” پاگل کتے کو کیوں مروانا ہے خود کو کٹوا کر ، حزلان اکیلے جانا چاہتا ہے حمدا کے ساتھ ۔“ 
” میں سمجھی نہیں ۔“ 
” اس بات کا کیا مطلب ہوا ـ“ 
” نا سمجھنے والی بات نہیں ہے ، احمد پسند کرتا ہے ثناء کو اور شادی بھی کرنا چاہتا ہے ۔“
” حزلان پسند کرتا ہے حمدا کو ، اس کے ساتھ وقت گزارنا چاہتا ہے تاکہ وہ اسے جان لے اور جب وہ رشتہ بھیجے تو حمدا منع نا کرے ۔“ 
” آپ سچ کہہ رہے ہیں ؟ “ ، حمدا نے بےیقینی سے حزلان سے پوچھا ۔
” تم جھوٹ تو نہیں بول رہے نا ؟“ ، ثناء کو احمد کی بات میں کچھ جھول لگا ۔
” ہاں ، نہیں تو پوچھ لینا خود احمد سے لیکن ثناء کے سامنے مت پوچھنا ، ابھی اسے یہ بات پتا چلی تو ناجانے کیسے ریئکٹ کرے گی ۔“ ،حزلان نے موبائل پر مصروف انداز میں جواب دیا۔
” نہیں یقین تو خود پوچھ لینا اپنے سر سے ، ان کی بات پر تو ہو گا نا یقین ۔“ ، احمد نے منہ بنا کر جواب دیا ۔ اور پھر اُن دونوں نے اِن دونوں سے پوچھا اور تسلی ہونے کے بعد آپس میں بغیر کوئی سوال کئے گاڑیوں مءں بیٹھ گئیں ۔ 
**************
” سر آپ خود ڈرائو کریں گے ؟“ ، حمدا نے اسے ڈرائونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے دیکھا ،اس نے پیچھے دیکھا جہاں ان دونوں کا سامان پڑھا ہوا تھا تو وہ بھی آگے ہی آکر بیٹھ گئی ۔
” بالکل میں چلاؤں گا ، فکر نا کریں لائسنس ہے میرے پاس ۔“ ، حزلان نے اس کو دیکھ کر جواب دیا جس کا کوئی انجانہ خوف ابھی تک وہیں پر تھا ۔ 
” اگر یہ کہیں اور لے گئے ، نہیں یار شکل سے شریف ہیں ، نہیں حمدا شکل پر مت جاؤ ، اف میرے خدایا میں کیا کروں۔۔۔۔۔۔“ ، حمدا اپنی منفی سوچوں میں مگن تھی جب اس نے حزلان کو ایک نمبر ڈائل کرتے ہوئے دیکھا ۔
” السلام علیکم شیرازی انکل۔۔۔۔۔۔۔جی میں ٹھیک ٹھاک۔۔۔بس گڑی چل پڑی ہے زیادہ سے زیادہ چھ گھنٹوں میں آپ کے پاس ہوں گے۔۔۔۔۔نہیں احمد اپنی گاڑی پر ہے۔۔۔۔۔آپ کو تو پتا ہے نا کہ اس کی جان ہے اس کی گاڑی میں ۔۔۔۔ جی جی حمدا میرے ساتھ ہیں۔۔۔ایک منٹ میں بات کرواتا ہوں ، حمدا یہ لیں فون بات کرنی ہے شیرازی انکل نے ۔“ اور حمدا جو تب سے اسے ہی دیکھ رہی تھی یک دم چونکی اور جھجھکتے ہوئے موبائل پکر لیا ۔ 
آ ہستہ آواز میں شیرازی سر سے دو تین منٹ بات کی تو خوف دور ہو گیا ۔ موبائل واپس دینے لگی ۔
” اب تو نہیں نا ڈر رہیں مجھ سے ؟ “ حزلان نے ہاتھ آگے کرتے ہوئے پوچھا ۔
”( یہ کوئی جن ہے کیا ) نہیں سر بس گھر سے دور جانے کی وجہ سے ہے ایسا ۔“ ، حمدا مفت میں شرمندہ ہو گئی ۔
************
” ایک منٹ ایک منٹ گاڑی تم چلاؤ گے۔۔۔۔۔۔۔ لائسنس کہاں ہے تمہارا ؟ “ ، ثناء نے گاڑی میں بیٹھتے ہی پوچھا۔ 
” سامنے ڈیش بورڈ میں ہے ۔“ احمد نے ہنستے ہوئے کہا۔
” کہیں ٹھوک ووک مت دینا گاڑی ـ“ ، ثناء نے ڈیش بورڈ سے لائسنس نکالتے ہوئے کہا ۔
” ٹھوکنے کی فکر نا کرو ، یہ گاڑی مجھے جان سے زیادہ عزیز ہے ، بالکل میری دوسری بیوی جیسی ۔“ ، احمد کے لہجے میں محبت ہی محبت تھی ۔
” اچھا اور پہلی بیوی کون ہے؟ “ ، ثناء نے اسے چراتے ہوئے پوچھا ۔
” اس دشمنِ جان کو مل تو چکا ہوں ، پسند بھی کر لیا ہے ، بس منانا رہ گیا ہے اور شادی کرنا۔۔۔۔۔باقی سب سیٹ ہے ۔“ ، احمد نے ایسے کہا جیسے وہ نکاح کر چکا ہے اور اب رخصتی کی بات کر رہا ہے ۔
” ہاہاہاہاہا یہ منانا اور شادی بس ہے ؟ “، ثناء ہنسنا شروع ہو گئی ۔
” ہاں تو اور کیا ، جتنا شریف اور ہینڈسم میں ہوں وہ منع ہی نہیں کر سکتی (شیشے میں دیکھتے ہوئے اپنے بال سنوارے ) تم بتاؤ ، تمہیں کیسا لڑکا پسند ہے ؟“ 
” مجھے کسی بھی قسم کے لڑکے نہیں پسند۔۔۔۔۔مجھے نا لڑکوں سے الرجی ہے شاید ، ذرا کسی شادی دو منٹ کیلیے کسی کزن کے ساتھ آنا یا جانا پڑے ، میری حالت خراب ہو جاتی ہے۔ میں تو کپل ڈانس بھی اپنی کزن سمارہ کے ساتھ کرتی ہوں ، مجھے اپنے ارد گرد لڑکے برداشت نہیں ہوتے۔۔۔۔۔“ ، ثناء کی بات کو بیچ میں ٹوکتے ہوئے وہ بولا ، ” میوزک لگاؤں ؟ “ 
**************
ابھی وہ لوگ کھاریاں کے قریب پہنچے تھے جب ارد گرد چھوٹی چھوٹی چٹانیں منظر پر ابھریں ، حمدا چھوٹے بچوں جیسے ان کو دیکھنے لگی ۔
” سر کیا ہم اسلام آباد پہنچ گئے ہیں ؟ “ 
” نہیں اس جگہ کا نام کھاریاں ہے ۔“
” تو یہاں پہاڑ کیوں ہیں ؟ “ 
حمدا کے احمقانہ سوال پر حزلان نے ج مشکل سے اپنا قہقہہ روکا وہ ہی جانتا تھا ، لیکن اگر وہ ہنس دیتا تو وہ آگے سے اسے نا بلاتی اس لیے بولا ۔
” حمدا یہ پہاڑ نہیں بلکہ پہاڑیاں ہیں ، بلکہ پہاڑیاں بھی نہیں یہ چٹانیں ہیں ۔“ 
” اوہ۔۔۔اچھا۔۔۔۔ ٹھیک ہے ۔“ 
پھروہ آنکھیں کھولے باہر گزرتی ہریالی سے ڈھکی چٹانوں کو دیکھنے لگی ،اپنی آنکھوں سے ان چھوٹے چھوٹے پہاڑوں کو ذہن کے پردے پر نقش کر رہی تھی ، وہ اتنی گہرائی سے دیکھ رہی تھی کہ کب آنکھوں میں پانی آگیا وہ جان ہی نا پائی ۔ 
” حمدا ( آواز پر چونکی ) آپ رو رہی ہیں ۔“ 
” نہیں سر یہ تو ویسے ہی پانی آگیا آنکھوں میں ، اب وہ کیا بتاتی کہ اس راستے پر سے گزرنا اس کی خواہشات میں سے تھا ، جو اب پوری ہو رہی تھی ۔ 
” آپ نے ناشتہ کیا ہے کیا ؟ “ 
” نہیں صبح صبح کچھ کھایا نہیں گیا ۔“
” گڈ ۔“
” لیکن میں ساتھ لائی ہوں۔ “ 
لیکن حزلان نے ایسے ظاہر کیا جیسے سنا ہی نہیں ۔ 
*************
” کیا کھا رہی ہو ؟“ ، احمد جس کو خاموشی سے نفرت ہو رہی تھی ، ثناء کو چپس کھاتے دیکھ کر پوچھے بغیر نہیں رہ سکا ۔ ثناء نے جواب دینے کی بجائے چپس کا پیکٹ سیدھا کر کے دکھا دیا ۔
پھر خاموشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” مزے کا ہے کیا ؟ “ ، ثناء نے ایک نظر اس کو دیکھا اور کچھ بولے بغیر اپنے بیگ سے اسی طرح کا چپس نکال کر احمد کے سامنے کر دیا ۔ 
” اوہ۔۔۔۔تھینکس ( چپس لیتے ہوئے بولا ) مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ نے میرے لیے بھی لیا ہے ۔“ 
” یہ میں نے واقعی آپ کیلیے نہیں لیا تھا ، حمدا کیلیے تھا اور چونکہ وہ اب سر حزلان کے ساتھ ہے تو تم عیش کرو ۔“ ثناء نے احسان کرتے ہوئے کہا ۔
” کھول کر دینا ذرا ۔“ 
” احمد سر حزلان کیسے انسان ہیں۔۔۔۔آئی مین ہم لوگ تو صرف آفس کی حد تک ہی ان کو جانتے ہیں نا تم تو دوست ہو نا ان کے تم بتاؤ کیسی فطرت ہے ان کی؟ “ ، چپس کھول کر دیتے ہوئے ثناء نے پوچھا ۔ 
” پہلے ایک بات بتاؤ حزلان میرا دوست ہے اور میرا ہم عمر بھی ہے ، تم اسے سر اور آپ کہتی ہو ، میری دفعہ زبان عزت والے کلمات نکالنے سے منع کر دیتی ہے کیا ؟“ ، احمد نے طنز کیا جس کا ثناء پر رتی بھی اثر نا ہوا ۔ 
” فضول بات مت کرو ، وہ بتاؤ جو میں نے پوچھا ہے ، مجھے حمدا کیلیے فکر اور خوشی بیک وقت محسوس ہو رہی ہے۔“ 
” حزلان بہت ہی اچھا انسان ہے ، خاص طور پر عزت کرنے والا ہے اس کے بارے میں پوچھنا ہے تو عفت آپی سے پوچھنا ، انکل آنٹی کی ڈیتھ کے بعد انہوں نے ہاؤس جاب بھی کی اور حزلان اور فری کو سنبھالا بھی ، اور ان کی تربیت کا ہی اثر ہے کہ حزلان کو حمدا کے ماضی سے کچھ واسطہ نہیں ، وہ اسے حال میں پسند کرتا ہے ۔“ احمد نے اپنے دوست کی سچے دل سے تعریف کی ۔ 
” احمد اگر تم سچ کہہ رہے ہو۔۔۔۔۔ٹھیک ہے ٹھیک ہے سچ ہی کہہ رہے ہو گے ، تو میں بہت خوش ہوں حمدا کیلیے ، اس نے بہت بہت مشکل وقت دیکھا ہے ، چار سال کسی ایسے شخص کے ساتھ گزارنا جو صرف اسے اس لئے نکاح میں رکھے ہوئے ہے کہ اس کی نام نہاد عزت بنی رہے ، اسے کوٹھوں پر جانے کا تردد نا کرنا پڑے ۔ محلے والے اسے عزت دار سمجھیں۔۔۔۔۔۔حمدا نے بہت برا وقت گزارا ہے ، وہ دکھاتی تو نہیں لیکن وہ اندر سے بالکل خالی ہے ۔“ ، احمد نے ثناء کی آنکھ کے کونے کو نم ہوتے دیکھا تو بے اختیار اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا ، ثناء نے بھی غور نہیں کیا ۔ 
کوئی تین سیکنڈ بعد احمد ہوش کی دنیا میں لوٹا تو اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا ، تب ہی ثناء نے غور کیا لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی اور حیا کی لالی اس کے گال پر پھیل گئی خفت سے اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا جبکہ احمد محظوظ ہوا ۔ 
**************
جہلم کے قریب حزلان نے ہوٹل ٹیولپ کی پارکنگ میں گاڑی روکی ، پیچھے ہی احمد اور ثناء کی گاڑی بھی آگئی ۔ 
احمد نے آکر حزلان کو آنکھ ماری تو وہ مسکرا دیا ۔ اندر جاکر ایک ٹیبل بک کروایا اور وہ چاروں بھی وہاں بیٹھ گئے ۔ اسی ہوٹل میں ایک نجی سکول کی ٹرپ بھی آئی ہوئی تھی ، حمدا نے جب بچیوں کا یونیفارم دیکھا تو دل کی دھڑکن تیز ہو گئی ، اس نے جھک کر ثناء کے کان میں سرگوشی کی تو وہ بھی اردگرد دیکھنے لگی ۔ 
ان دونوں کو ہوٹل میں کسی کو ڈھونڈتے دیکھ کر حزلان اور احمد نے نظریں ملائی ۔
” خیریت تو ہے گرلز ۔“ وہ دونوں چونکیں ، آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا کہ بتانا ہے یا نہیں۔۔۔۔نہیں۔۔۔ 
” نہیں سر کچھ نہیں ، جگہ نئی ہے اس لیے دیکھ رہے ہیں ۔“ ، حمدا نے بات سنبھال لی ، لیکن تھوڑی ہی دیر بعد ایک گیارہ بارہ سال کی خوبصورت سی لڑکی نے پکارہ ، ” ماما! “ ، اور حمدا کی طرف بے تابی سے لپکی ـ حمدا بھی اٹھ کر اس کی طرف گئی اور وہ دونوں ارد گرد سے بے خبر ایک دوسرے سے لپٹ گئیں ۔ جبکہ حزلان اور احمد حیرت سے کبھی ایک دوسرے کو ، کبھی ثناء ، حمدا اور اس بچی کو دیکھنے لگے ۔ ثناء نے ان کی مشکل آسان کرتے ہوئے کہا ، ” رحمت ہے یہ ، حمدا کی بیٹی ۔“ 
ـ
ـ
وہ دونوں پورے دو سالوں کے بعد ایک دوسرے سے مل رہی تھیں ۔ رحمت کو حمدا نے بے شک جنم نہیں دیا تھا اور وہ تب پانچ سال کی تھی جب حمدا نے اسے خود بچی ہوتے ہوئے ممتا کی آغوش میں لے لیا ۔ دونوں ماں بیٹی کم اور بہنیں زیادہ لگتی تھی ۔ جہاں حمدا خضر کے رویے سے مایوس ہوجاتی وہیں رحمت اپنی چھوٹی چھوٹی شرارتوں سے اس کا دل لگا لیتی۔ 
خضر کو چھوڑتے ہوئے بھی حمدا کو صرف رحمت کی فکر تھی کہ وہ اتنی چھوٹی عمر میں اس کے بغیر کیسے رہے گی ، یہی وجہ تھی جو وہ چار سال برداشت کے گھونٹ پیتی رہی ۔ 
۔
۔
” آپ کیسی ہیں ماما ؟ “ ، رحمت نے اس سے الگ ہوتے ہوئے پوچھا ۔ 
” میں ٹھیک ہوں ـ میری جان کیسی ہے ؟ “ ، حمدا نے اس کے گال پر بوسہ دیتے ہوئے پوچھا ۔ 
” میں بھی بالکل ٹھیک ہوں ، میں آپ کے ساتھ بیٹھ جاؤں ؟ “، رحمت کی آنکھوں میں بے یقینی تھی ، شاید وہ دو سال پہلے کی طرح ٹھکرا دی جائے ، ایک لمحے حمدا کو لگا کہ دو سال پہلے کیا گیا فیصلہ شاید غلط تھا ۔ 
” ایک منٹ میں اپنے سر سے پوچھ لوں “ ، پھر وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر ٹیبل تک آئی ، رحمت کو سب سے متعارف کروا کر بولی ، ” سر اگر آپ کو کوئی اعتراض نا ہو تو کیا ہم رحمت کو ساتھ بٹھا لیں جب تک ہم یہاں پر ہیں ۔“ ، حمدا نے جھجھکتے ہوئے پوچھا ، حزلان کو کیا اعتراض ہوتا اس نے بخوشی اجازت دے دی ۔ 
” میں اپنی ٹیچر سے پوچھ کر آتی ہوں ۔“ ، رحمت سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر کر چلی گئی ۔ 
” رحمت بہت اچھی لڑکی ہے ، کافی قریب ہے آپ کے ۔“ ، حزلان نے بات شروع کی ۔
” جی سر ۔“ 
حزلان کو سمجھ نا آئے کہ اب کیا کہے تو بولا ، ” شکل بھی کافی ملتی ہے آپ سے ۔“ ، وہ بے تکی سی بات کر گیا جس پر احمد نے کھانس کھانس کر مزید بتنگڑ بنا دیا ، احمد اور ثناء زور سے ہنسنا شروع ہو گئے جبکہ حمدا کو سمجھ نا آئے کہ کیا کہے ۔ احمد تو جانتا تھا کہ یہ خضر کی ہی بیٹی ہو گی لہذا وہ حزلان کی کمر پر مکا جڑتے ہوئے بولا ، ” تیرا کچھ نہیں ہو سکتا ۔“
حمدا بھی اس کی بات کا مطلب سمجھ کر ہنسنے لگ گئی ( کوئی اتنا خوبصورت کیسے ہنس سکتا ہے ) پھر وہ بولی ، ” سر وہ میری بیٹی ضرور ہے لیکن اس کی بائے برتھ ماں خضر کی پہلی بیوی تھیں ۔“ ، آج بھی یہ نام لیتے ہوئے زبان تک کڑوی ہوگئی ۔ 
پھر رحمت اجازت لے کر ان کے پاس آکر بیٹھ گئی ۔

   1
0 Comments