Orhan

Add To collaction

مان

مان
از رائحہ مریم
قسط نمبر6

” پڑھائی کیسی جارہی ہے میری جان کی ؟“ ، حمدا نے اسے اپنے ساتھ بٹھاتے ہوئے پوچھا ۔
” ماما میں نے فائیو کلاس میں فرسٹ پوزیشن لی تھی ۔“ ، رحمت نے پر جوش ہو کر بتایا ۔ پھر وہ سب سوائے حزلان کے آپس میں بات کرنا شروع ہو گئے وہ ابھی تک سر جھکائے بیٹھا تھا ۔ پھر جب ناشتہ آیا تو اس نے بھی باتوں میں اپنا حصہ ڈالا لیکن زیادہ نہیں ۔ حمدا نے محسوس کیا کہ رحمت بدل گئی ہے ، وہ لڑکی جو بہت پر اعتماد تھی وہ اب اس سے جھجک کر اور شرما کر بات کر رہی تھی ، اس کی کوئی دوست بھی اسے بلانے نہیں آئی مطلب اس کی کوئی دوست تھی ہی نہیں ۔ حمدا کو ایک لمحے کیلیے لگا کہ اس نے خضر کو چھوڑ کر شاید کوئی غلط فیصلہ کیا ہے ، لیکن میں نے یہ رحمت کیلیے ہی تو کیا تھا ۔ 
” رحمت !“ 
” جی ماما ۔“ 
” یہ لیں ۔“ ، حمدا نے اپنے بیگ سے کی چین اتار کر رحمت کی ہتھیلی پر رکھ دیا ، رحمت کو کی چینز جمع کرنا بہت پسند تھا ۔ رحمت کی آنکھیں چمک اٹھیں ، اسے حمدا بالکل دو سال پہلے والی لگی جو اس کی دوست تھی ، 
” دادو کیسی ہیں ؟“
” دادو کبھی کبھی بیمار ہو جاتی ہیں ، بابا کہہ رہے تھے کہ وہ میری نئی ماما لائیں گے جو دادو کی دیکھ بھال کریں گی ۔“ ، رحمت نے عام سے انداز میں کہا لیکن حمدا کی آنکھوں کے سامنے چار سال کی کہانی ایک فلم کی طرح چل پڑی ۔ اس نے ضبط کی حدوں کو چھوتے ہوئے اپنے آنسووں پر قابو کیا ، حزلان کے ساتھ ساتھ ثناء نے بھی اسے آنسو پیتے دیکھا تو ثناء نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔۔اسے تسلی دی۔
جب وہ لوگ واپس جانے لگے تو ثناء پہلے حمدا کی طرف آئی ،” حمدا تم نے غلط فیصلہ نہیں کیا تھا۔ رحمت سمبھل جائے گی ، تم پریشان مت ہو ، اللہ ہے نا “ ، ثناء نے اس ۔ 
****************
گاڑی میں مسلسل خاموشی تھی ، جسے ایک گجرے بیچنے والے لڑکے نے شیشے پر ہاتھ مار کر توڑا۔ 
” حمدا آپ کو لے دوں کیا گجرے ؟“ ، حزلان نے حمدا کی طرف جھکتے ہوئے شیشہ کھولا اور اس سے پوچھا ـ ” نہیں سر مجھے پھول پسند نہیں ہیں ، خاص طور پر گجرے ۔“ ، وہ منع کر دیتی ایسا حزلان سوچ سکتا تھا لیکن اس نے جو جواب دیا وہ غیر متوقع تھا ۔ 
حزلان نے اس بچے کو ویسے ہی پیسے دے دیے ۔۔۔۔ یہ چھوٹے بچے اپنے گھروں کے بڑے ہوتے ہیں ، اگر آپ گاڑی میں سفر کرتے ہوئے کسی بچے کو ہاتھ پھیلائے دیکھنے کی بجائے کچھ بیچتا دیکھیں تو اس سے ضرور خریدیں اور اگر آپ استطاعت رکھتے ہیں تو کم خرید کر پیسے زیادہ دے دیں ، یقین جانیں ان کے چہرے کی خوشی اور غیر یقینی آپ کو احساس ہی نہیں ہونے دے گی کہ آپ نے وہ پیسے فضول دیے ہیں۔۔۔۔۔ 
” حمدا لڑکیوں کو جتنا میں جانتا ہوں ان کو تو پھول بہت پسند ہوتے ہیں ، اور گجرے تو خاص طور پر زیادہ پسند کرتی ہیں ۔ میری آپی ہیں عفت آپی وہ تو زارون بھائی سے ناراض ہو جاتی ہیں اگر ہفتے میں دو دن ان کو گجرے نا ملیں تو ۔“ ، حزلان نے موڑ کاٹتے ہوئے بتایا ۔ 
” ایسی بات نہیں ہے کہ مجھے آپ سے اتفاق نہیں ، ہاں لڑکیوں اور خواتین کی اکثریت پھولوں کو بہت پسند کرتی ہے ، مجھے بس خاص لگاؤ نہیں ہے ۔“ 
” کوئی خاص وجہ ؟“ 
” ہہ۔۔۔وجہ ۔۔۔ہے سر لیکن میں ۔۔۔۔۔ “ ، حمدا خاموش ہو گئی ۔
” ٹھیک ہے حمدا آپ نہیں بتانا چاہتی تو ، لیکن ایک بات بتائیں کیا وہ شخص بہت برا تھا ؟ ( جس نے پھولوں سے نفرت کروا دی) “ ، حزلان نے جس انداز سے پوچھا حمدا کو وہ مخلص لگا اور بولی ۔ 
” بہت۔۔۔۔۔۔۔۔“ ، اس ایک لفظ نے جیسے ظلم کی ساری کہانی بیان کر دی ہو ۔ 
” اس کا کردار اچھا نہیں تھا ، لیکن وہ بظاہر بہت دیندار ہے ، مسجد میں پانچ وقت باجماعت نماز پڑھتا ہے ، اسی نے مجھے بھی نماز کا پابند بنایا۔۔۔۔ہاں اس کیلیے میں اس کی شکر گزار ہوں ، لیکن اس کے ساتھ چار دیواری میں میں رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ وہ اچھا انسان نہیں تھا ، لیکن میری بات کا یقین کرنے کیلیے میرے پاس لوگوں کو دکھانے کیلیے ظاہری کچھ نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ ، حمدا کی آواز بھر آئی ۔ 
”مجھے آپ پر اعتماد ہے ، آئی بلیو یو ۔“ ، حزلان کا صدق سے کہا گیا یہ جملہ حمدا کی دھڑکن بڑھا گیا ۔ 
” حمدا آپ بہت بہا۔۔۔۔“ ، حمدا نے بات کاٹی اور بولی ، ” سر ہم کچھ اور ڈسکس کر سکتے ہیں کیا ؟ “ 
” ہاں کیوں نہیں ، گانے سنتی ہیں آپ ؟ “ ، وہ بڑی رسانیت سے موضوع بدل گیا ۔ 
” آ۔۔ا۔ہاں کبھی کبھی۔“، ”چلیں پھر اب سنتے ہیں ۔“ 
حزلان نے موبائل سے بلوتوتھ کونیکٹ کیا ، 
باتیں یہ کبھی نا تو بھولنا 
کوئی تیرے خاطر ہے جی رہا 
جائے تو کہیں بھی یہ سوچنا 
کوئی تیرے خاطر ہے جی رہا
تو جہاں جائے محفوظ ہو 
دل میرا مانگے بس یہ دعا 
باتیں یہ کبھی نا تو بھولنا 
کوئی تیرے خاطر ہے جی رہا 
ہمدرد ہے ہمدم بھی ہے
تو ساتھ ہے تو زندگی 
تو جو کبھی دور رہے 
یا ہم سے ہو جاۓ اجنبی 
تجھ سے محبت کرتے ہیں جو 
کیسے کریں ہم اس کو بیاں 
باتیں یہ کبھی نا تو بھولنا 
کوئی تیری خاطر ہے جی رہا 
حمدا نے گانے کہ گہرائی کو ناپے بغیر آنکھیں بند کر کے سر سیٹ سے لگا دیا ۔ 
حزلان نے ایک سگريٹ نکالی اور سلگانے لگا ہی تھا کہ حمدا نے آنکھیں کھول کر اس کو دیکھا ۔ 
” یہاں کوئی سائن نہیں ہے جو کہے کہ تمباکو نوشی منع ہے ۔“ ، حزلان نے اس کے کیبن والی بات کا حوالہ دیا ۔ 
” لیکن یہاں میں ہوں اور مجھے ذرا سے بھی اچھے نہیں لگتے وہ لوگ جن کو اپنی تو کیا دوسروں کی صحت کا خیال بھی نہیں ہوتا ۔“ 
” وہ کیسے ؟“ ، حزلان نے پوچھا ۔ 
” جو دھواں آپ اپنے منہ کے ذريعے پھیپھڑوں تک لے کر جا رہے ہیں وہ اس فلٹر سے ہو کر گزرتا ہے ۔ (حمدا نے سگريٹ پر ہلکے خاکی رنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) لیکن جو لوگ آپ کے ارد گرد ہیں جن میں عموماً انسان کے گھر والے یا جو کوئی بھی ہو وہ پیسیو سموکنگ کرے گا اور وہ اس سموکنگ سے زیادہ خطناک ہے جو آپ ابھی کر رہے ہیں ، آپ کو اپنی صحت نہیں پیاری کوئی بات نہیں ، مجھے ابھی زندہ رہنا ہے ۔ آپ پلیز گاڑی روک کر باہر کہیں اسے ختم کر لیں ۔“ ، وہ جو شروع ہو کر بولے جا رہی تھی اب منہ موڑ کر دوسری طرف دیکھنے لگی ۔ 
” دوبارہ اف ہے تم پر حزلان ۔“ ، حزلان یہ صرف سوچ سکا اور سگريٹ رکھ دیا۔
**************
” امی میں اسلام آباد نہیں جا سکوں گی۔۔۔۔۔۔ جی بس تھوڑا سا زکام ہے۔۔۔۔اور کل باتھ روم میں چکر آگئے تھے۔۔۔۔۔نہیں ابھی کوئی خوشخبری نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماتھے پر چوٹ لگ گئی۔۔۔۔۔جی خون نکلا تھا۔ نہیں ٹانکے نہیں لگے۔۔۔۔۔۔جی خضر ٹھیک ہیں۔۔۔۔وہ دراصل ان کو کراچی جانا پر گیا۔۔۔۔گھر چھوڑ کر کیسے آسکتی ہوں میں اب۔۔۔۔۔ جی ٹھیک ہے خدا خافظ۔“ ، فون بند ہوا تو ایک آنسو آنکھوں کی سرحد پار کر گیا ۔ اتنے میں دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ مڑی ۔ خضر ہاتھ میں گجرے لیے اس کے قریب آیا ۔ ماتھے پر زخم کی جگہ ہاتھ رکھا ۔ حمدا سی بھی نا کر پائی ۔ خضر نے اس کے ہاتھ اٹھا کر ان میں گجرے پہنا دیے ۔
” تم جانتی ہو کہ میں تم سے پیار کرتا ہوں ، مت کیا کرو آگے سے زبان درازی ۔“ ، اب وہ اس کے ہاتھوں کو چوم رہا تھا ۔ گجروں کے پھولوں کی خوشبو سونگھ رہا تھا ۔ حمدا آہستہ آہستہ پیچھے سرکتی ہوئی دیوار کے ساتھ لگ گئی ۔ اب وہ اس کے گرد حصار تنگ کر رہا تھا جب ، ” ماما ۔۔۔ماما ۔۔۔“ ، رحمت واقعی اس وقت رحمت بن کر آئی اور خضر باہر چلا گیا ۔ رحمت کے بالوں میں تیل لگاتے ہوئے حمدا کی نظر گجروں پر پڑی۔۔۔۔۔ میں عادی ہو جاؤں گی۔۔۔۔۔ محبت کرتے ہیں وہ مجھ سے۔۔۔۔۔ میں ان کے ساتھ ایسے رہنے کی عادی ہو جاؤں گی۔
*************
”او کڑی مینو کیندی 
مینو جتی لے دے سونیا 
میں کیا نا گورئیے 
نانانانا گوریے 
کن جھمکے نوں ترسدے رے گئے سونیا 
میں کیا نا گورئیے
نانانانا گورئیے “
ثناء نے آگے بڑھ کر گانا بند کر دیا ،” یہ کیا فقیروں اور کنجوسوں والا گانا لگایا ہوا ہے ۔“ 
” بند کیوں کیا ، یہ گانا ٹاپ لسٹ پر ہے ـ“ ، احمد نے حیرت سے ثناء کو دیکھا ۔ 
” یہ گانا۔ اس میں ہے کیا ، لڑکی ہے کہ مانگتی جا رہی ہے اور لڑکا ہے جو ہر چیز کیلیے منع کر رہا ہے ۔۔۔ہنہ ـ“ 
” پھر کون سا لگاؤں محترمہ آپ ہی بتا دیں کوئی ۔“ ، احمد نے منہ بسورتے ہوکہا ۔ 
” سر نصرت فتح علی خان کا کوئی بھی لگا دو ۔“، ثناء نے بتایا ۔
” کون سےخان کا۔۔۔۔۔اچھا اچھاہاہاہاہاایسےمت دیکھو کون سنتا ہے اس دور میں نصرت کے گانے ۔“ 
” احمد ! ! ! (احمد نے کان پر ہاتھ رکھ لیا ) وہ تمہارے کوئی چھوٹے بھائ نہیں جو تم ان کو نام سے پکار رہے ہو۔۔۔۔۔سر بولو ان کو اور یہ جو گانے تم لوگ نیو نیو کہہ کے سنتے ہو نا ان کا اصل ورژن سنا ہے کبھی۔۔۔۔۔“ ، ” ٹھیک ہے ٹھیک ہے ثناء وہ سر ہیں اور بہت اچھا گاتے ہیں ، میں تو مذاق کر رہا تھا ۔“ ، احمد کو لگا کہ اگر وہ ابھی بات نا سمبھالتا تو اس نے چلتی گاڑی سے باہر پھینکا جانا تھا ۔ 
اگلے سارے رستے احمد نے چپ کر کے نصرت کی غزلیں سنیں ۔ 
**************
اسلام آباد پہنچنے کے بعد ان لوگوں نے ہوٹل میں اپنا سامان رکھا اور آرام کرنے کیلیے کمروں میں چلے گئے ، کیونکہ ان کو ایک گھنٹے بعد کھانے کیلیے جانا تھا اور اس کے بعد کمپنی جانا تھا ۔ 
کھانے کے بعد وہ لوگ کمرشل ایریا میں گئے تو وہاں پر شیرازی صاحب کو پہلے ہی ان کا منتظر پایا ، حزلان آگے بڑھ کر ان سے ملا ، پھر احمد اور آخر میں حمدا اور ثناء بھی ۔ 
” سناؤ جوان کیسے یاد آگئی اسلام آباد کی ، جاتے ہوئے تو کہا تھا کبھی نہیں آؤ گے اب ۔“ ، شیرازی صاحب نے احمد کو آنکھ مارتے ہوئے کہا ، ان کو شک سا ہو گیا حمدا اور ثناء کو ساتھ دیکھ کر ، تو جب انہوں نے آنکھوں کے اشارے سے احمد سے حمدا کی طرف اشارہ کیا تو اس نے ہاں کہہ دی ، جس کی وجہ سے ان کی خوشی دوبالا ہوگئی ۔ 
” کہا تو آپ نے بھی تھا کہ صحت کا خیال رکھیں گے ، لیکن دیکھیں خود کو کیا کر لیا ہے آپ نے ۔“ ، حزلان نے بات گھمائی اور ساتھ ہی ان کی صحت کے بارے میں بھی دریافت کر لیا ۔ 
” میری صحت کو کیا ہونا ہے ، اچھا بھلا اپنے شہر میں اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا تمہاتمہاری وجہ سے مجھے یہاں کی ہوا کھانی پڑ رہی ہے ۔“ ، انہوں نے جس معصوميت سے کہا سب ہی ہنسنے لگ گئے ۔ 
” رہنے دیں ، رہنے دیں آنٹی سے روزانہ بات ہوتی ہے میری اور وہ مزے میں ہیں وہاں پر ۔“ ، حزلان بھی باز نا آیا ۔
” وہ تو ویسے ہی بول دیتی ہو گی ، حقیقت میں مجھے بہت یاد کرتی ہے وہ ۔ خدا کا نام لو لڑکے مجھے بھرے بڑھاپے میں جدائی کا غم نا دو ۔“ 
” ہاہاہاہا چلیں سوچتے ہیں کچھ اس بارے میں اب۔“ ، حزلان کے چہرے کو مسکراتا دیکھ کر وہ پر سکون ہو گئے ، جن حالات میں وہ گیا تھا وہ بہت پریشان کن تھے ۔ 
” ان دونوں کی باتیں ختم نہیں ہونے والیں ، آئیں لیڈیز ہم وزٹ کرنے چلیں ۔“ ، احمد ان دونوں کو وہاں سے لے گیا ۔ 
ان کے جانے کے بعد شیرازی صاحب اور حزلان اکیلے رہ گئے ۔ ” اب بتاؤ برخودار ، چکر کیا ہے ؟ کیونکہ حمدا میرے آفس کی انتہائی شریف اور مہنتی بچی ہے ۔“ 
” ہاں جیسےمیں تو پیدائشی جواری ہوں نا ۔“ ، حزلان نے منہ بنا کر کہا تو وہ ہنسنے لگے ۔ 
” میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔“ ، آہستہ سے کہا۔
” اوے۔۔۔۔تم تو بڑے تیز نکلے ، نا پسند نا منگنی سیدھا شادی ۔“ ، انہوں نے بات کو مزاح کا رخ دیتے ہوئے حزلان کی کمر پر ہاتھ دھرا۔ لیکن وہ سیدھابیٹھا رہا۔
” پہلے پسند کرنے کا انجام دیکھ چکا ہوں میں ۔“ ، وہ یکدم سیدھے ہوئے ، ” حزلان اسے بھول جاؤ ، نہیں تو خوش رہنےمیں تکلیف ہو گی۔“حزلان کچھ نہیں بولا ۔ 
” کیا محبت کرتے ہو حمدا سے ؟ “ 
” میں نہیں جانتا ۔ بس اتنا جانتا ہوں کہ وہ اچھی لگتی ہے ، پاس ہوتی ہے تو اپنی پریشانی بہت چھوٹی لگتی ہے ۔ یقین جانیں پچھلےتین دن سے ایک سگريٹ نہیں پیا۔۔۔ہاہاہا۔۔۔۔بس اب وہ انکار نا کر دے۔۔۔۔وہ نہیں کرے گی نا انکار ۔“ ، حزلان نے بھیگی آنکھوں کے سات ان کی آنکھوں میں دیکھا ۔ وہ بھی نم سا مسکرا دیے ۔ 
” انشاءاللہ منع کرنے والی کوئی بات ہی نہیں ہے ۔ عفت جانتی ہے کیا اس بارے میں ؟“ 
” نہیں وہ تو یہ بھی نہیں جانتی کہ میں اسلام آباد میں ہوں ، اور ابھی ہی تو مجھے پتا چلا ہے ان کو کیسے بتا دوں ۔“ 
” چلو اٹھو پھر آؤ تمہیں تمہارا آف دکھاؤں ۔“ ، وہ دونوں بھی اٹھ کر ان تینوں کے ساتھ ہو لیے ۔ 
رات میں کھانا کھانے کے بعد تھک ہار کر جب وہ ہوٹل میں پہنچے تو حمدا جس نے پلان کیا ہوا تھا کہ کمرے کی بالکونی سے شہر کی چہل پہل دیکھے گی جاتے ہی سو گئی ، ثناء نے بھی سونے میں دیر نا لگائی جبکہ حزلان کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی ۔ 
************* 
صبح تقریباً نو بجے ان کے دروازے پر دستک ہوئی ، ثناء نے اٹھ کر دروازہ کھولا جبکہ حمدا بیڈ میں ہی بیٹھی رہی ۔ 
” اوہ۔۔۔سر آپ ہیں مجھے لگا سروس کے طرف سے کوئی ہو گا ۔“ ، حزلان نے اندر جھانکا تو وہ بیڈ پر بغیر ڈوپٹہ کے بھکرے بال لیے بیٹھی تھی ، اور پیاری تو بالکل نہیں لگ رہی تھی ۔ 
” ثناء میں اور احمد فیصل مسجد جا ہے ہیں تو ہم نے سوچا آپ لوگوں سے بھی پوچھ لیں۔۔۔۔“ ، اتنے میں احمد دروازے پر آیا اور بولا ۔
” ویسے محترمہ آپ نا جا کر پچھتائیں گی ، آج موسم بھی اچھا ہے ،“ ۔ حزلان کی طرف اشارہ کیا ، ” فوٹوگرافر بھی ہمارے ساتھ ہے ۔ اب آپ لوگوں پر منحصر کرتا ہے کہ یہاں ہوٹل میں بیٹھ کر بور ہوں یا ہمارے ساتھ چلیں ۔“ ، احمد نے آخر میں آنکھ ماری جس پر ثناء تپ اٹھی ، 
” سر یہ بھی ساتھ جائےگا ۔“ ، احمدکو یکسر نظرانداز کر کے بولی ۔
” کیا کریں اب لے کر جانا پڑے گا ۔“ ، حزلان نے بھی دکھی منہ بنا کر کہا ۔ 
” میں حمدا سے پوچھ لوں پہلے ۔“ 
” چلیں آپ پوچھ لیں اور پھر اگر جانا ہو تو نیچے ناشتہ پر آجائیے گا ۔“، حزلان یہ کہہ کر چلا گیا ۔ 
************ 
ان دونوں نے بھی انجان شہر میں اکیلے جانے سے بہتر یہ ہی سمجھا کہ وہ حزلان اور احمد کے ساتھ چلی جائیں ۔
اب وہ لوگ فیصل مسجد کی پارکنگ میں کھڑے تھے، حمدا کی نظر تو جیسے اس کے میناروں پر جم چکی تھی ۔ وہ ارد گرد سے بے نیاز آگے بڑھتی جا رہی تھی جب اس نے دیکھا کہ اس کے ساتھ صرف حزلان کھڑا ہے جو کہ مختلف زاویوں سے تصاویر بنا رہا ہے جبکہ احمد اور ثناء دوسری طرف جا رہے ہیں ۔ 
” میں نے ان دونوں کو دوسری طرف جانے کو کہا ہے تاکہ وہ وقت گزار سکیں ۔“ ، حزلان نے اس کی آنکھوں میں موجود سوال کا جواب دیا ۔ 
جبکہ دوسری طرف 
” محترمہ ادھر آؤ ۔“ 
” ہاتھ نا لگاؤ مجھے ڈفر ۔“ ، ثناء نے جھٹکے سے بازو چھڑایا ۔
” کیوں کباب میں ہڈی بننے کا شوق ہے ، اگر اللہ نے تم میں دوسوچھہ کی بجائے زیادہ ہڈیاں رکھ دی ہیں تو کچھ ڈونیٹ کر دو ۔“ 
” اف اللہ۔۔۔۔۔ “ ، ثناء کا ہاتھ اس کی جوتی کی طرف جاتا دیکھ کر احمد نے اپنے دونوں ہاتھ آگے کر دیے اور بولا ، ” اچھا سوری سوری۔۔۔۔۔میں کہنا چاہ رہا تھا کہ ان دونوں کو اکیلا چھوڑ دو ، کیا حمدا بھابھی کے ساتھ گوند سے چپک گئی ہو ۔“ 
” اوہ۔۔۔۔اچھا۔“ ، ثناء نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا ۔

   1
0 Comments