Orhan

Add To collaction

مان

مان
از رائحہ مریم
قسط نمبر7

حمدا نے اپنے موبائل میں ناجانے کتنی ہی تصاویر لے لیں ، وہ حزلان کے پیچھے پیچھے رہتی ، جس زاویہ سے وہ اپنے ڈی۔ایس۔ایل۔آر میں تصویر بناتا حمدا بھی اسی سیدھ میں موبائل رکھ کر تصویر بنا لیتی۔ 
حمدا کے موبائل پر بیل ہوئی تو وہ ششوپنج میں پڑ گئی کہ حزلان کے سامنے سنے یا ایک طرف ہو کر ۔ وہ حزلان کو بتائے بغیر ایک طرف ہو گئ اور فون کان سے لگا لیا ۔ 
” السلام علیکم امی ۔۔۔۔۔۔ جی میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔۔ جی ثناء بھی ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ وہ دونوں بھی ٹھیک ہیں ۔۔۔۔۔ شیرازی انک۔۔۔۔سر بھی ملے تھے کل ۔۔۔۔۔ انہوں نے ہی کل کمپنی دکھائی ۔۔۔۔۔۔ جی وہ یہیں ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وعلیکم السلام رودابہ ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں یہاں موسم اچھا ہے ۔۔ 
۔۔ سردی اتنی زیادہ نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ابھی کسی مال میں نہیں گئے ۔۔۔۔۔ رات میں ثناء کے ساتھ جاؤں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
وعلیکم السلام ماہ نور ۔۔۔۔۔۔ ہاں جی میں ٹھیک ہوں ۔۔۔
کیاچاہئیے ؟۔۔۔۔۔۔ میری جان ابھی ہم مال میں نہیں گئے کسی ۔۔۔۔۔ چلو ٹھیک ہے میں لے لوں گی ۔۔۔۔۔ اچھا رودابہ کو دینا فون ۔۔۔۔۔۔۔ رودابہ ذرا ایک طرف ہو جاؤ 
۔۔۔۔۔۔۔ پتا نہیں سب ٹھیک ہے یا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا جو میں بتاؤں گی ناراض مت ہونا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے رحمت ملی۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں آنٹی اور وہ نہیں تھے ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں راستے میں ملی ۔۔۔۔۔۔۔ سکول کے ساتھ آئی ہوئی تھی
۔۔۔۔۔ سٹار سٹوڈنٹس کو کسی دوسرے سکول کے دورے پر لے کر جارہے تھے ۔۔۔۔۔ راستہ میں ہوٹل میں ملی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا بتا ہی ہوں نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پھر سے شادی کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رودابہ میں کیا کروں ۔۔۔۔۔۔۔ میں کیسے روکوں اس لڑکی کو ۔۔۔۔۔ نہیں میں نہیں رو رہی مجھے غصہ آرہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ٹھیک ہے میں اس کیلیے دعا کروں گی ۔۔۔۔۔ اللہ اسے بچا لے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں کچھ چاہئیے ۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاٹھیک ہے تم دونوں لسٹ بھیج دو ۔۔۔۔۔۔۔ اللہ حافظ ۔“ 
حمدا فون بند کر کے مڑی تو حزلان کو اپنے بالکل پیچھے فارغ ہونے کا انتظار کرتے ہوئے پایا ۔ وہ گڑبڑا گئی ۔ 
” چلیں اب سینٹورس جانا ہے یا نفل پڑھیں یہاں پر ، کیونکہ ابھی اذانوں میں وقت ہے ۔“ ، حزلان نے گھڑی پر وقت دیکھتے ہوئے کہا ۔ 
” پہلے نفل پڑھ لیتے ہیں ۔“ ، اور وہ دونوں مسجد کے اندر چلے گئے ۔ 
*************
” اف کتنی خوبصورت جگہ ہے یہ ۔“ ، ثناء نے کوئی تیسری دفعہ یہ کہا تھا اور احمد اب تنگ آنے لگا تھا اس بات سے ۔ 
” ہاں بہت خوبصورت ہے ، مجھے لگتا ہے کہ اب مجھے اسلام آباد میں ایک فلیٹ لینا ہی پڑے گا۔“ 
” فلیٹ کیوں لینا ہے تم کون سا روز آتے ہو ، سرحزلان کی طرف رہ لیا کرنا ۔“ ، ثناء نے اس کی بات کا مطلب سمجھے بغیر اپنے مفید مشورے سے نوازا ۔ 
”حزلان کی طرف کیوں رہوں گااپنی بیوی کولے کرـ“ ، احمد نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ۔ 
” اوہ۔۔۔۔۔ہاں یہ بات بھی ٹھیک ہے۔۔۔۔تم لے ہی لو یہاں پر گھر ۔“، ثناء نے بھی اتفاق کیا ۔
” لو میں نے فلیٹ کی بات کی ہے اور تم گھر پر پہنچ گئی ۔“ ، احمد نے اسے چڑاتے ہوئے کہا ۔ 
” تم گھر لو یا مرغیوں کا ڈبہ مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے ۔“ ، ثناء چڑ گئی اور آگے چلنے لگی ۔ 
” ارے۔۔۔ارے رکو تو ، بات تو سن لو۔۔۔( تھوڑی ہی دیر میں اس کے ساتھ چلنے لگا )۔۔۔۔ آؤ میں تمہاری تصویر کھینچتا ہوں ، یہاں روشنی بہت اچھی ہے ۔“ ، احمد نے اسے منانے کی کوشش کی ۔ 
” چلو تم یہاں کھڑے ہو کر بناؤ تصویر ۔“ ، ثناء نے بھی حکم چلایا ۔ اور پھر وہ دونوں تصویریں بنانے لگے جب تک حزلان نے احمد کو فون کر کے مسجد کے اندر بلوایا ۔ 
**************
نوافل پڑھنے کے بعد وہ لوگ سینٹورس مال چلے گئے۔ وہاں پر ثناء احمد کے کہے بنا ہی حمدا اور حزلان سے الگ ہو گئی۔۔۔۔۔۔ ایک لمحے کیلیے حمدا نے سوچا کہ کیا وہ اتنی بدید ہو گئی ہے کہ احمد کی وجہ سے اب اسے بلا تک نہیں رہی اور دوسری طرف یہی حال ثناء کا بھی تھا ۔
” یار احمد ویسے یہ حمدا زیادہ بدید نہیں ہو گئی ، اس نے ایک دفعہ بھی نہیں پوچھا مجھ سے نا ہی میرے پاس آئی ہے ۔“ ، وہ دونوں ونڈو شاپنگ کر رہے تھے جب حمدا نے ایک بیگ کو دیکھتے ہوئے کہا ۔ 
” ہاہاہاہا تو آپ جیلس ہو رہی ہیں محترمہ ؟ “ 
” نہیں جیلس کیوں ہوں گی میں ، جیسے میں حمدا کو جانتی نہیں ہوں ۔“ ، ثناء کی نظر اب بھی اسی بیگ پر تھی ، احمد نے بھی محسوس کیا وہ اسے کافی دیر سے دیکھ رہی ہے ۔ 
” اچھا تو کتنا جانتی ہو حمدا بھابھی کو ؟“ 
” بھابھی مت بولو ابھی اسے ، اس کو خبر بھی ہوئی نا کہ تم کیا کہہ رہے ہو اس کے بارے میں تو اچھا نہیں ہو گا تمہارے لیے ۔“ 
” تمہیں وہ بیگ پسند ہے ؟“ ، احمد کے پوچھنے پر وہ گھبرا کر اسے دیکھنے لگی اور بولی ، ” کک۔۔۔کون سا بیگ ؟“
” وہ ہی جسے ایک دو سیکنڈ اور گھورا تو اتنی بری نظر لگے گی اسے کہ دکان ہی چھت پر آگرے گی ۔“ 
ثناء نے گھور کر اسے دیکھا جس سے وہ ذرا شرمندہ نا ہوا ۔ 
” اچھا ہاں ہے پسند مجھے ۔“ 
” تو انتظار کس بات کا کر رہی ہو ، آؤ لیتے ہیں ۔“ 
” نہیں رہنے دو ۔“ ، ثناء نے نیچے دیکھتے ہوئے کہا ۔ 
” وہ کیوں ؟ بیگ واقعی بہت خوبصورت ہے ۔“ 
” میرا پرس میں ہوٹل میں چھوڑ آئی ہوں ۔“ ، ثناء نے اعتراف کیا ۔ 
” اچھا۔۔۔۔کہیں تم نے اس لیےتو نہیں چھوڑا پرس ہوٹل میں تاکہ پھر مجھے کہو اور میں ٹھہرا شریف انسان اور تمہیں لے بھی دوں۔۔۔۔۔ تم مانو نا مانو مجھے ایسا ہی لگ رہا ہے ۔“ ، احمد ٹھوڑی پر ہاتھ رکھے بیگ کو دیکھ کر بول رہا تھا جبکہ ثناء کا ہاتھ اس کے پاؤں میں موجود سینڈل کو اتار چکا تھا ۔ 
اب مال میں احمد آگے تھا تو ثناء اس کے پیچھے ۔
*************
” سر کیا احمد سے آپ کی کوئی بات ہوئی ہے ؟“ ، حمدا ایک جیولری شاپ میں داخل ہو کر بولی ۔ 
” نہیں کس بارے میں پوچھ رہی ہیں آپ ؟“ ، حزلان بھی اس کے ساتھ ہی آگیا دکان میں ۔ 
” ثناء کے بارے میں ۔“ ، حمدا نے ایک کیچر پسند کیا ۔
” ثناء کے بارے میں تو کوئی بات نہیں کی اس نے ۔ آپ کیوں پوچھ رہی ہیں ؟“ ، اب حمدا نے ایک بڑی سی پونی لی اور پاتھ میں وہ پینڈنٹ دیکھنے لگی ۔ 
” ثناء آئی تو میرے ساتھ تھی لیکن اب تو جیسے مجھے بھول ہی گئی ہے ۔“ ، ” آ۔۔آ ہاں یہ میں نے بھی غور کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ پوچھوں گا میں احمد سے۔۔۔۔۔۔ حمدا۔۔۔۔حمدا کہاں جارہی ہیں آپ ؟ “ ، حزلان نے اسے دکان سے باہر نکلتے دیکھا ۔ اس نے چیزیں بھی وہیں چھوڑ دیں تھیں ، حزلان نے پے کیا اور باہر آیا ۔ 
حمدا ایک عورت کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ نہیں وہ عورت کو نہیں بلکہ اس کے ہاتھ میں موجود چند دنوں کے بچے کو دیکھ رہی تھی ۔
” موسیٰ ! “ ، حمدا کے پکارنے پر اس عورت نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔ 
” نہیں اس کا نام سعد ہے ۔“ ، اس عورت نے بڑی احتیاط سے بچے کو سامنے کرتے ہوئے کہا ۔ 
حمدا نے بانہیں آگے کر دیں ۔۔۔۔۔۔ عورت تھوڑا جھجکی لیکن پھر اس نے سعد کو حمدا کی بانہوں میں دے دیا ۔ 
اس کو تھامنے کی دیر تھی کہ حمدا نے اسے والہانہ انداز میں چومنا شروع کر دیا ، کبھی وہ اس کو اپنے ساتھ لگاتی تو کبھی اس کے ہاتھوں کو چومتی ، کبھی اس کے چہرے پر محبت سے ہاتھ پھیرتی تو کبھی اس کا ماتھا چومتی ۔ وہ عورت پریشان ہو گئی اور ہاتھ آگے بڑھا دیے ، لیکن حمدا نے سعد کو نہ دیا ۔ سعد نے رونا شروع کردیا ۔ وہ عورت اب زبردستی کرنے لگی لیکن حمدا نے گرفت مضبوط کر لی ۔ حزلان بیچ میں آیا۔۔۔۔۔۔ اس نے سعد کو لینے کی کوشش کی لیکن حمدا نے اسے نا چھوڑا ۔ 
” سر یہ دیکھیں یہ میرا موسیٰ ہے۔۔۔۔ یہ دیکھیں سر یہ میرا بیٹا ہے۔۔۔“، حمدا نے سعد کا رخ حزلان کی طرف کیا وہ ابھی تک دھاڑیں مار مار کو رو رہا تھا لیکن حمدا نے اسے اس کی ماں کو نا دیا ۔ وہ عورت اب غصے میں آگئی ۔ 
” مس میں آپ کی بہت عزت کر رہی تھی۔۔۔۔واپس دیں میرے بیٹے کو مجھے ۔۔۔۔۔ کیا کر رہی ہیں آپ ۔“ 
” یہ میرا موسیٰ ہے ۔“ ، حمدا نے روتے ہوئے کہا ۔
حزلان نے بیچ میں ہو کر حمدا سے اسے چھڑانا چاہا ، 
” سر کیا کر رہے ہیں آپ۔۔۔۔ چھوڑیں اسے ۔“
” حمدا یہ آپ کا بیٹا نہیں ہے ۔“
” یہ میرا بیٹا ہے سنا آپ نے یہ میرا بیٹا ہے ۔“ ، حمدا کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا ، حزلان نے بمشکل سعد کو اس کی گود سے چھڑایا ۔ اچھا خاصہ مجمع اکٹھا ہو گیا ۔ 
وہ عورت حمدا کو سنا کر چلی گئی لیکن اسے سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا ، وہ بار بار سعد کو کسی طرح پانے کیلیے مچل رہی تھی جیسے وہ اس کا بچہ ہو ۔ حزلان نے بمشکل اس کو پکڑ کر اپنے قریب کیا تو وہ اس کے گریبان کو پکڑ کر چلانے لگی ۔ حزلان نے اسے کندھوں سے پکڑ کر دو تین جھٹکے دیے لیکن بے سود وہ اب اس کے سینے پر بے جان مکے برسا رہی تھی ۔ 
دور سے آتے احمد نے یہ منظر دیکھا تو حیران رہ گیا ۔ 
جب وہ حزلان سے نا سمبھلی تو اس نے حمدا کو پکڑ کر اپنے سامنے کیا اور رکھ کر الٹے ہاتھ کی ایک لگائی۔
اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اسکی چینخیں سسکیوں میں بدل گئیں اور وہ حزلان کے سینے پر سر رکھے رونے لگی ، ” حزلان اس ظالم نے مار دیا میرے بیٹے کو۔۔۔۔ مجھے پتا تھا وہ بیٹا ہے ۔۔۔۔ ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ وہ بیٹا ہے ۔۔۔۔ میں خوش تھی کہ شاید اب وہ ظالم بدل جائے گا ۔۔۔۔۔ اس نے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ۔۔۔۔۔ میرا موسی۔۔۔۔۔ وہ میرا بیٹا۔۔۔۔۔“ ، وہ اسی کے سینے سر رکھے بے ہوش ہو گئی ۔ 
” حزلان کیا ہوا اسے ؟ “ ، احمد جو کہ اب تک وہاں پہنچ چکا تھا اس نے پوچھا ، پیچھے ہی ثناء بھی آگئی ، ” حمدا ! اوہ ۔۔۔۔ میرے خدایا کیا ہوا اسےسر؟“ ، 
” ابھی گاڑی تک چلیں ، ہسپتال جانا ہے ۔ میں راستے میں بتاتا ہوں ۔“ ، حزلان نے جھک کر حمدا کو بازؤں میں بھرا اور باہر کی جانب قدم بڑھا دیے جبکہ احمد ثناء کے سینڈل پہننے کا انتظار کرنے لگا ۔ پھر ان دونوں نے بھی باہر دوڑ لگائی ۔ 
***************
” یہ ریپورٹس دیکھیں ان کے مطابق بیڈ نمبر پندرہ کا مریض معمولی سے فلو کا شکار ہے ، میں نے بھی یہی کہا تھا لیکن آپ نے اس غریب کو پھر بھی بلڈ ٹیسٹ کروانے کو کہا ، اس کا بل ٹوٹل سے خارج کریں اور مجھے بتائیں ان کی کیا حالت ہے اب۔۔۔ “، عفت ڈیوٹی پر تھی جب دروازہ کھول کر حزلان داخل ہوا ۔ 
” آپی اٹھیں میرے ساتھ آئیں ۔“
“ حزلان واٹ آ ۔۔۔۔۔۔ ہوا کیا ہے ۔“ ، انہوں نے فوراً جزبات پر قابو پالیا ۔ 
وہ دونوں اب ہسپتال کے کوریڈور سے گزر ہے تھے ۔
” حزلان پیشنٹ کون ہے ؟“ 
” آپی خدارا ابھی کچھ مت پوچھیں ، میں آپ کو سب بتاؤں گا۔۔۔۔ ابھی اس کی جان بچا لیں ۔“ ، حزلان لمبے لمبے قدمم اٹھا رہا تھا ، اور ان کی برابری کرتے ہوئے عفت دوڑ رہی تھیں ۔ 
” ہوا کیا ہے اسے ؟ “ 
” وہ بے ہوش ہو گئی ہے ۔“ 
” کیا پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے ؟“ 
” نہیں جانتا ۔“ 
” بے ہوش کیوں ہوئی ؟ “ 
” وہ چلاّ رہی تھی ۔“
” چلاّ کیوں رہی تھی ؟ “ 
” کسی بچے کو دیکھ کر ۔“ 
” وہ بچہ اس کا تھا ؟ “ 
” نہیں جانتا ۔۔۔۔ نہیں وہ اس کا بےی نہیں تھا ۔“ 
” عمر کیا ہے اسکی ؟“
” جھبیس کے قریب ہے ۔“ 
” پیشنٹ سے رشتہ کیا ہے ؟“ ، حزلان رک گیا ، وہ لوگ انتہائی نگہداشت کےیونٹ کہ بالکل سامنےآچکے تھے ، عفت بھی رک گئیں۔۔۔۔۔۔
” آپی وہ میری سب کچھ ہے ، اسے بچا لیں ۔ پلیز ۔“ ، عفت نے حزلان کو چند لمحے دیکھا وہ بہت تھکا ہوا لگا ۔ پھر وہ اندر چلی گئیں ۔ 
حزلان باہر ہی بیٹھ گیا۔۔۔۔۔اس کی زندگی کا یہ ایک گھنٹہ بہت مشکل سے گزرا۔۔۔۔۔وہ وہیں بینچ پر بیٹھ گیا ۔ 
عفت باہر آئیں اور اس کے برابر بیٹھ گئیں ، حزلان بولا کچھ نہیں وہ ان کے بات شروع کرنے کا انتظار کرنے لگا ، ” حزلان وقت پر بے ہوش ہو جانے کی وجہ سے نروس بریک ڈاؤن نہیں ہوا ، لیکن اس کی حالت بری ہے۔۔۔۔۔ کوئی ٹینشن ہے شاید ۔ وہ کسی موسیٰ کو بلا رہی تھی ، ابھی فی الحال نیندکا انجیکشن دیا ہے۔ 
حزلان وہ کون ہے ؟ “ ، حزلان جھکے سر سے اسے وہ سب بتاتا گیا جو وہ خود جانتا تھا ۔ 
عفت خاموشی سے اس کی باتیں سنتی رہیں ، ” کیا وہ بہت اچھی ہےحزلان ؟ ۔۔۔۔۔۔۔سارہ سے بھی اچھی؟“
، حزلان اس سوال کی توقع نہیں کر رہا تھا ، کئی لمحے بول ہی نہ پایا ، پھر بولا تو اسی طرح سر جھکائے ، ” نہیں آپی۔۔۔سارہ اور حمدا کا کوئی موازنہ نہیں ہے ، مجھے حمدا کے دل سے محبت ہے ، مجھے حمدا کی بہادری سے محبت ہے ، مجھے اس کے کردار سے محبت ہے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ سارہ نہیں ہے جو پیسوں کی خاطر محبت چھوڑ دے ۔۔۔۔۔۔ وہ حمدا ہے جس نے ظلم کے آگے آواز اٹھائی اور ڈٹ کر اس کا سامنا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے سارہ کے جانے کا اتنا دکھ نہیں ہے ۔۔۔۔۔ مجھے حمدا سے دور نہیں جانا آپی ۔۔۔۔۔ “، حزلان نے اپنا سر عفت کے کندھے پر رکھ دیا ۔ 
” انشاءاللہ وہ تم سے دور جائے گی بھی نہیں ، اسے روم میں شفٹ کر دیا ہے ۔“ عفت نے دعا اور دلاسا ایک ساتھ دیا ۔ اتنے میں حمدا کا فون بجنے لگا جو کہ حزلان کے پاس تھا ۔ اس پر لکھا آرہا تھا ۔ 
” موٹیویشن کالنگ “ ، حزلان نے فون اٹھایا تو رودابہ کی آواز آئی ، عفت نے اشارہ کیا کہ سپیکر آن کرو ۔ 
” آپی یار کدھر ہو ؟ “ 
” رودابہ یہ آپ ہیں ؟ “ ، آگے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد ہلکی سی آواز ابھری ۔ 
” ماہ نور مجھے آپی سے ایک ضروری بات کرنی ہے میں چھت پر جارہی ہوں ، امی کو سنبھال لینا ۔“ ، 
” اب بتائیں آپ کون ہیں ؟ ، یہ فون آپ تک کیسے پہنچا ؟ ، آپی کہاں ہیں ؟ ، وہ ٹھیک تو ہیں نا ؟ “ ، تفشیشی انداز سے شروع ہونے والا لہجہ آخر میں نرم ہو گیا ۔ 
” رودابہ میں حزلان ہوں ، ہم مال آئے ہوئے تھے ـ حمدا نے کسی بچے کو دیکھا اور وہ چلانے لگیں ، اس کے بعد وہ بے ہوش ہو گئیں اور اللہ نے نروس بریک ڈاؤن سے بچا لیا ۔ اب وہ سو رہی ہیں ، ہسپتال ہیں ہم ۔“ ، حزلان نے ٹھہرے ہوئے انداز میں تفصیل سے آگاہ کیا ۔ 
” اب آپی کیسی ہیں ؟ “ 
” وہ ٹھیک ہیں اب ۔“ 
” دیکھیں سر میری آپی ابھی آپکی زمہ داری ہیں ، ان کو پلیز ٹھیک گھر لائیے گا۔۔۔۔۔۔ ابھی اگر ثناء آپی وہاں ہیں تو ان سے کہیں کہ آپی کےبالوں میں ہاتھ پھیریں، وہ بہتر محسوس کریں گی ، ان کی طبیعت اکثر یوں ہو جاتی ہے ، لیکن بالوں میں ہاتھ پھیرنے سے وہ بہتر محسوس کرتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سر یہ آپی ثناء ہی کریں گی۔۔۔ ٹھیک ہے ؟ “ ، رودابہ کی آواز بھرائی ہوئی تھی ۔ 
” جی ٹھیک ہے رودابہ آپ کی بہن اب سے میری ذمہ داری ہیں اور میں مرتے دم تک اپنی ذمہ داری نبھاؤں گا ۔“ ، یہ کہہ کر حزلان نے فون بند کر دیا ۔ عفت بھی پاس ہی تھیں ۔ حزلان اٹھا اور بولا ، ” آپ حمدا کے پاس جائیں میں احمد کو دیکھ لوں ، وہ فارمیسی تک گیا ہے ۔“ ، عفت کمرے کی جانب چل دیں جبکہ حزلان نیچے ۔ 
*************
” تم کچھ کھانے کیلیے لے لو ثناء ۔“ ، احمد نے جب اسے صرف دوائیں لیتے دیکھا تو کہا ۔ 
” نہیں مجھے کچھ نہیں کھانا ۔“ ، اس نے بجھے دل سے کہا ۔ 
” ثناء تم لے لو کچھ یقین جانو اب میں کچھ نہیں کہوں گا ۔“ احمد نے بات کو مزاح کا رخ دیا ۔ 
” احمد پلیز ، میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں ۔“ ، وہ دونوں لفٹ تک آئے ۔ 
” اچھا یار سوری وہ بیگ والی بات کیلیے ۔ وہ میں تمہیں گفٹ کروں گا ۔“ 
” سوری والی کوئی بات نہیں ، مجھے نہیں چاہئیے اب ۔“ 
” لینا تو خیر تمہیں پڑے گا ، ہاں چلو ہو گا وہ مہنگا اور میں بے چارہ ہوں غریب آدمی ، میری کمپنی بھی آجکل زیادہ منافع نہیں کما رہی ۔۔۔۔۔۔ لیکن اب تمہارے لیے اتنا تو کر ہی سکتا ہوں میں ۔۔۔۔۔۔ اچھا ویسے اپنا پسندیدہ رنگ۔۔۔“ ، احمد کی بات کو بریک ایک چینخ کی وجہ سے لگی ” آہ۔۔۔۔۔ “ ، اور ثناء پوری کی پوری زمین پر تھی ، ٹھیک سے سینڈل بند نا کرنےکی وجہ سے پاؤں پھسلا اور سٹریپس ٹوٹ گئے ۔ احمد کو سمجھ نا آئے کہ وہ کیا کرے تو اس کے پاس بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا ۔
” تم گری کیسے ہو ثناء ؟ “ ، ٹھوڑی تلے ہاتھ رکھ کر پوچھا ۔
” ڈفر ! بجائے اس کے کہ تم میری اٹھنے میں مدد کرو تم بھی یہیں بیٹھ گئے ہو ۔“ ، ثناء نے غصے سے کہا ، اسے درد تو بہت ہو رہا تھا لیکن قابو کئے ہوئے تھی ۔ 
” چلو کھڑا ہو جاتا ہوں ۔“ ، احمد نے کھڑے ہو کر ہاتھ آگے بڑھایا جسے ثناء نے نظر انداز کیا اور خود کھڑے ہونے کے چکر میں پھر سے گرتی گرتی بچی اگر احمد اسے پکڑ نا لیتا تو ، ” اتنی تم بہادر ہو نہیں جتنا ظاہر کر رہی ہو۔۔۔۔۔ ثناء۔۔۔ ثناء رو کیوں رہی ہو۔۔۔۔ یار کیا درد ہو رہا ہے ۔“ ، ثناء نے اثبات میں سر ہلایا ۔ 
” ادھر آؤ بیٹھو ۔“ ، وہ اسےکمر کے گرد بازو ڈالے سہارا دے کر کرسیوں کے پاس لے گیا جب حزلان بھی آیا ۔ 
اس نے احمد سے کہا کہ وہ ثناء کو ہوٹل چھوڑ دے ، ثناء نے بہت منع کیا کہ وہ حمدا کے پاس رکنا چاہتی ہے لیکن حزلان نے یہ کہہ کر ، ” ثناء میں آپ کے مخلص جزبوں کی قدر کرتا ہوں اور کبھی آپ کو جانے کا نہ کہتا لیکن آپ کا پاؤں اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اس پر وزن ڈالا جائےاور ویسے بھی حمدا اب میری ذمہ داری ہیں ۔“ ، تو ثناء منع نا کر پائی اور احمد کے ساتھ ہوٹل واپس آگئی ۔ 
**************
عفت کمرے میں آئیں تو حمدا کو دوائيوں کے زیر اثر سوتے دیکھا ۔ وہ اس کے بالکل قریب آکر بیٹھ گئیں اور اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگیں ۔ 
” رودابہ میں نے ہمیشہ تمہاری آنکھوں میں ایک سوال دیکھا ہے ۔“ ، حمدا نیند میں آہستہ آہستہ بول رہی تھی ۔ 
” کہ خضر سے طلاق لینے کی وجہ کیا تھی ۔۔۔۔۔ ہاں اس کا مجھ پر ہاتھ اٹھانا ۔۔۔۔ اور گالیاں دینا وجہ نہیں تھی ۔۔۔۔۔ وجہ رحمت تھی ۔۔۔۔۔ اس نے مجھے آئیڈیلائز کرنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔۔ جب مجھے ڈاکٹر نے بتایا کہ میں ایک بیٹے کو جنم دینے والی ہوں ۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔ میں بہت خوش تھی ۔۔۔۔۔ میں نے سوچ لیا اب خضر کو خود پر ہاتھ نہیں اٹھانے دینا ۔۔۔۔۔۔ میرے بیٹے کو نقصان نہیں پہنچانا ۔۔۔۔۔۔ وہ میرا موسیٰ تھا رودابہ ۔۔۔۔۔ میں اسے موسیٰ ہی بلاتی بیشک خضر اس کا نام جو مرضی رکھتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رودابہ جب میں نے پہلی مرتبہ اس کا خود پر پڑتا ہاتھ روکا تھا نا تو جانتی ہو اس کی آنکھوں میں کیا دیکھا تھا ”ڈر“ ، ”خوف “ وہ ایک لمحہ میں بہادر بن کے جی تھی اور اس بہادری نے مجھے اتنا طاقتور بنا دیا کہ پھر اس نے مجھے بیلٹ سے مارا لیکن مجھے درد نہیں ہوا ۔اس کا مجھ میں سانس لیتا بیٹا مر گیا رودابہ۔۔۔ بیٹی ہوتی نا تو کبھی نا مرتی ، برداشت کر لیتی وہ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے مار دیا میرے موسیٰ کو ۔“ ، عفت کا اس کے بالوں میں پھیرتا ہاتھ رک گیا ۔ 
” رحمت کی وجہ سے کیوں چھوڑا اسے ؟

   1
0 Comments