Orhan

Add To collaction

مان

مان
از رائحہ مریم
قسط نمبر8

” رحمت کی وجہ سے کیوں چھوڑا اسے ؟“ 
” رودابہ میں ہسپتال میں تھی۔۔۔۔۔۔انہوں نےکہا موسیٰ نہیں رہا۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کوشش کی بہری ہو جاؤں ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ہو سکی۔۔۔۔۔ میں نے کوشش کی گونگی ہو جاؤں نہیں ہو پائی۔۔۔۔۔رحمت آئی تھی ہسپتال ، مجھے کہنے لگی ، ” ماما جب بابا آپ کو ماریں تو ان کو منع مت کیا کریں ۔“ ، رودابہ بیٹی نو سال کی ہو یا انیس کی یہ آخری الفاظ ہیں جو ایک ماں اس سےسنناچاہے گی، وہ ایک سوال ”کیوں“ پوچھتے ہوئے میرے دل میں جیسےکسی نےگن سےچھہ کہ چھہ گولیاں اتار دیں۔۔۔۔۔ جانتی ہو اس نے کیا کہا ؟ “ 
عفت جو کہ آنسو پینےکی کوشش میں ناکام ہو رہی تھیں ، بمشکل پوچھ پائیں ، ” کیا کہا اس نے ؟ “ 
” کہا تھا کہ ”جب میری پہلی مامانے بھی بابا کو مارنے سے روکا تھا تو وہ یہاں ( ہسپتال ) آگئی تھیں اور پھر وہ کبھی گھر نہیں گئیں۔۔۔۔۔ آپ بھی گھر نہیں آؤ گی کیا ؟ “ ، مجھے اس کی آنکھوں کی بے یقینی نہیں بھولتی رودابہ “ ، عفت نے آگے ہو کر اس کا ہاتھ تھام لیا ۔
” میں نے سب کی مخالفت سہی تاکہ رحمت یہ تاثر لے کر بڑی نا ہو کہ مرد عورت پر جتنا چاہے ظلم کر لے اس پر فرض ہے کہ وہ کچھ نہ کہے ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اس کی۔۔۔۔اس کی۔۔۔۔۔۔ آنکھ۔۔۔۔یں ۔۔۔۔۔ آنکھیں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں بھولتی۔۔۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ میری بیٹی۔۔۔۔۔“ ، حمدا دوبارہ سے نیند کی وادی میں چلی گئی ۔ اور اندر آتا حزلان اس کے پاس بیٹھ گیا ۔ 
” آپی اب آپ دوسرے مریضوں کو دیکھ لیں ، میں یہاں ہوں اس کے پاس ۔“ 
************
رات میں حزلان وہیں بیڈ پر حمدا کے پاس بیٹھا ہوا تھا جب وہ نیند میں تھوڑا سا ہلی ، حزلان نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا ، ” اب مزید نہیں حمدا اب مزید یہ درد اکیلے برداشت نہیں کرنے دوں گا میں تمہیں ، تم ایک بار ہاں کرو اس درد کو میں کہیں دور چھوڑ آؤں گا۔۔۔۔ صرف ایک بار اعتبار کرنا ، ایک بار میری محبت کی سچائی کو جانچنا۔۔۔۔ “ ، وہ آہستہ آہستہ اس سے بات کر رہا تھا جب حمدا کا پاس رکھا موبائل پھر سے بجنے لگا ، ”موٹیویشن کالنگ لکھا آرہا تھا ، حزلان نے فون اٹھایا ۔ حمدا کی بھی آنکھ کھل گئی ۔
” السلام علیکم رودابہ۔۔۔۔۔ جی ابھی ابھی وہ اٹھی ہیں ۔۔۔۔۔۔ لیں آپ بات کر لیں ان سے ۔“ ، حمدا جو سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی اور ارد گرد کے ماحول کو پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی اسے فون دے کر باہر آگیا ۔ حمدا نے ڈرتے ڈرتے فون کان سے لگایا (پتا نہیں حزلان سر نے گھر پر کیا کچھ بتایا ہوگا ) ، کئی لمحے وہ دونوں بول نا پائیں ۔ 
” آپی آپ جانتی ہیں اس وقت مجھے آپ پہ غصہ آرہا ہے ۔“
” ہم۔م۔“
” آپی آپ کیوں کرتی ہیں ایسا ؟ “ 
” حمدا وہ بچہ بہت خوبصورت تھا۔“ 
” آپ یا تو رو لیں یا بات کر لیں ۔“
” میں نہیں رو رہی ۔“
ۭ” جیسے میں جانتی نہیں ہوں آپ کو ۔“
” رودابہ وہ بچہ۔۔۔۔۔“
” آپی موسیٰ مر چکا ہے ( حمدا کے دل میں درد اٹھا) اس کا باپ اس کو قتل کر چکا ہے۔۔۔ آپ ۔۔۔ آپ کب اس حقیقت کو تسلیم کریں گی آپی ۔۔۔۔۔۔ اللہ کی ضرور اس میں کوئی بہتری ہو گی ۔۔۔“ 
” ایک ماں سے اس کا وہ بچہ واپس لے لینا جو ابھی اسے ملا ہی نہیں تھا ، کیا ہے اس میں بہتری ـ“ ، یہ نہ گلہ تھا نہ ہی شکوہ سوال تھا بس ایک ۔ 
” آپی فرض کر لیں اگر آپ کا موسیٰ اپنے باپ پر چلا جاتا تو کیا کچھ کرپاتیں آپ ؟۔۔۔۔۔۔ اگر وہ کسی ایسی بیماری کو اپنے ساتھ اس دنیا میں لاتا جس کا علاج ممکن ہی نہیں تو کیا تب آپ کو زیادہ تکلیف نہیں ہوتی ؟ ۔۔۔۔۔۔ اگر۔۔۔۔۔اگر وہ پیدا ہونے کے چند دنوں بعد آپ سے چھن جاتا تو۔۔۔۔۔۔ ہم کچھ کر سکتے کیا ؟ ۔۔۔۔۔۔ نہیں ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔۔۔“ ، حمدا خاموشی سے سنتی رہی ۔ 
” آپی آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ کی ممتا اس رب کی محبت سے زیادہ ہے جو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے اپنے بندے کو۔۔۔۔“ ، (حمدا نے نفی میں سر ہلایا ) حزلان دوبارہ کمرے میں آگیا اب کی بار اس کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی جس میں سوپ تھا ۔ 
” تو پھر آپ مایوس کیوں ہوتی ہیں ، اور اب یقین جانیں اس دفعہ آپ کی شادی میں کروا کر رہوں گی چاہے کنپٹی پر بندوق رکھ کر قبول ہے کہلوانا پڑے ۔“، آواز اتنی کلیر آرہی تھی کہ حزلان پاس بیٹھا باآسانی سن بھی سکتا تھا اور سن کر سر جھکائے مسکرا بھی رہا تھا ۔
” میں پھر فون کروں گی رودابہ ۔“
” رکیں ایک منٹ ۔۔۔۔“
” ہاں بولو ۔“
” ہسپتال سے کب تک ڈسچارج ہو جائیں گی ؟ “ 
” پتا نہیں۔۔۔“، پھر وہ سوالیہ نظروں سے حزلان کو دیکھنے لگی ۔ 
” کل شام تک ۔“، حزلان نے سرگوشی میں بتایا ۔ 
” کل شام تک شاید ۔“
” چلیں ٹھیک ہے اپنا خیال رکھیں اور بالکل ٹھیک ہو کر آنا ہے ، کیونکہ یہاں امی اور ماہ نور کو نہیں بتایا میں نے ۔“ 
” شکریہ رودابہ۔“
” شکریہ تب کہنا جب آپ کی شادی کروا دوں میں ۔“
” رودابہ فون رکھ بھی چکو اب ۔“ ، اب حمدا نے کہا تو تھوڑا غصے میں تھی ۔ فون بند کر کے وہ حزلان کی طرف دیکھنے لگی جو اب اسے اٹھنے کا اشارہ کر کے اس کی گود میں منی ٹیبل رکھ رہا تھا ۔
” آپ کو بھوک لگی ہوگی یہ سوپ پی لیں ۔“
” یہ کہاں سے آیا ہے سر ؟“ ، تفشیش شروع ۔
” گھر سے ۔“
” کس کے گھر سے ؟ “
” میرے گھر سے ۔“
” لیکن آپ تو یہاں نہیں رہتے ۔“
” میں یہیں رہتا تھا بس ایک مہینہ پہلے یہاں سے دل اچاٹ ہو گیا اس لیے آپ کے شہر چلا آیا ۔“
” ثناء کہاں ہے ؟ “ 
” ثناء رکنا چاہ رہی تھی لیکن اس کا پاؤں مڑ گیا کوریڈور میں ، میں نے اسے ہوٹل بھجوا دیا ، صبح آئے گی وہ ۔“ ، حزلان نے سوپ کا پیالہ ٹیبل پر رکھا ۔ 
” یہ سوپ ثناء نے بنایا ہے کیا ؟ “ 
” نہیں ـ“ 
” پھر کس نے بنایا ہے ؟“ ، منہ تک جاتا ہاتھ رک گیا ۔
” میری آپی نے ۔“ 
” ان کو کس نے بتایا میں یہاں ہوں ؟“ 
” حمدا وہ ڈاکٹر ہیں ، انہوں نے ہی آپ کا علاج کیا ہے ۔“ ، حمدا کو یاد آیا کہ وہ یہاں آئی کیوں تھی تو سر جھکا لیا ۔ 
” آئی ایم سوری سر ۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔ میں نہیں جانتی وہ سب کیسے ۔۔۔۔۔ وہ بچہ ۔۔۔۔۔ مجھے لگا ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔ میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا وہ سب۔۔۔“، حمدا رونا شروع ہو گئی تو حزلان فوراً آگے بڑھا اور اس کو چپ کروانے لگا ۔
” حمدا آپ جس ٹرامہ سے گزری ہیں ایسا ہو جاتا ہے کبھی کبھی ۔۔۔ کوئی بات نہیں ۔۔۔۔ آپ ریلیکس ہوں ، پریشانی محسوس مت کریں ۔“ ، وہ چپ ہی رہی ۔ 
” حمدا مجھے آپ سے معافی مانگنی ہے ۔“، حمدا نے حیران ہو کر اس کو دیکھا ۔ 
” میں نے آپ پر ہاتھ اٹھایا۔۔۔۔میں اس کیلیے شرمندہ ہوں۔۔۔۔۔مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئیے تھا۔۔۔۔میں نے وہ۔۔۔ جان۔۔۔“، حمدا جس طرح اسے دیکھ رہی تھی وہ بات بھول گیا ۔
حمدا نے پہلے بے یقینی سے اسے دیکھا پھر ہنسی تو ہنستی چلی گئی ، قہقوں سے یہاں تک کہ آنکھوں میں پانی جمع ہو گیا۔۔۔۔ پھر حزلان نے دیکھا کہ وہ رو رہی تھی ۔
” یہ پہلا تھپڑ تھا سر جس کو مارنے کے بعد مارنے والے نے معافی مانگی ہے ، کتنا عجیب احساس ہے نا ، آپ معافی نہ بھی مانگتےتو چلتا ۔ مجھے تو عادت ہےـ“
حزلان کئی لمحے اسے دیکھتا رہا پھر باہر آگیا ۔ دروازے میں عفت کھڑی تھیں جوکہ یقیناً اس کی باتیں سن چکی ہوں گی ۔ انہوں نے اپنے بھائی کے کندھے پر پیار دیا اور خود اندر آگئیں ۔ 
***************
اگلی صبح ثناء اس سے ملنے آئی ، ” تم تو مجھے بھول ہی گئی ہو یہاں آکر ۔“، حمدا نے ملتے ہوئے گلہ کیا ۔ 
” اور اگر یہی بات میں تمہارے بارے میں کہوں تو ۔“ ، ثناء اس کے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی ۔ 
” مطلب میں نے کیا کیا ؟ “
” بتاؤں کہ کیا کیا ہے آپ نے ۔“
” ہاں “ ، اور پھر ان دونوں پر جو حقیقت آشکار ہوئی وہ دونوں سکتے میں چلی گئیں ۔ اتنے میں عفت اندر آئیں ۔
” ارے واہ ، دو خواتین ہیں یہاں اور وہ بھی چپ۔۔۔۔۔۔
معاملہ سنجیدہ لگتا ہے ۔“
” ڈاکٹر میں گھر کب جا پاؤں گی ؟ “ ، وہ اس سوال کی امید نہیں کر رہی تھی ۔ 
” حمدا ڈسچارج تو میں شام میں ہی کر دوں لیکن آپ سفر نا کریں کم از دو دن ۔“ 
” آپ فکر نا کریں میں ٹھیک ہوں ، مجھے گھر جانا ہے ، یہاں رہی تو۔۔۔۔۔ آپ پلیز سمجھیں ۔۔۔۔۔ مجھے گھر جانا ہے ۔“
” ٹھیک ہے میں دیکھتی ہوں ۔“ ، جبکہ اس سب کے دوران ثناء خاموشی سے باہر آگئی ۔ 
************
حزلان فکرمند سا اندر داخل ہوا ،حمدا اس سےبے نیاز ٹیک لگائے بیٹھی رہی ۔ وہ خود اس کے قریب آیا اور کرسی پر بیٹھ گیا ، حمدا حرکت کر کے ایک طرف سرک گئی ۔ 
” حمدا آپی کہہ رہی ہیں کہ آپ جانا چاہتی ہو ۔“
وہ چپ ۔
” میں وجہ جان سکتا ہوں کیا ؟“
چپ ۔ 
” آپ ایسے کریں گی تو میں واپس لے کر نہیں جاؤں گا آپ کو ۔“
” مت لے کر جائیں آپ ، میں لوکل چلی جاؤں گی ۔“
” آپ نے اب تو یہ بات کہہ دی ہے ، آئندہ ایسی بات نا سنوں میں آپ سے ،“ ، حمدا نے نظر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھا جو کہ سختی سے ضبط کئے بیٹھا تھا ، ” آپ کو یہاں لے کر میں آیا تھا لے کر جاؤں گا بھی میں ہی۔۔۔۔ ذمہ داری ہیں آپ میری۔۔۔۔ سمجھیں۔“ 
” تو پھر ٹھیک ہے مجھے گھر چھوڑ کر آئیں ۔“ 
” وجہ ؟“
” کیا مطلب وجہ ؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں سب جان چکی ہوں آپ ایسے کہہ رہے ہیں ۔“
ۭ” کیا جان گئی ہیں آپ ؟ “ ، حزلان نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کہ پوچھا تو وہ کنفیوز ہو گئی ۔
” یہ۔۔۔۔یہ ہی کہ ۔۔۔۔ کہ آپ مجھے یہاں پر کس مقصد کیلیے لائے ہیں ؟ “ 
” کس مقصد کیلیے ؟“ ، اسی طرح سنجیدگی سے پوچھا ۔ 
” آپ جانتے ہیں ۔“
” آپ کے منہ سے سننا چاہتا ہوں ۔“ 
” مجھے ضرورت نہیں ہے آپ کے جھوٹ کو دہرانے کی جو بول کر آپ مجھے اپنے ساتھ لیے پھرتے رہے اور میں ازلی بےوقوف ایک بار پھر سے بےوقوف بن گئی ـ“ ، حمدا نے رخ پھیر کر کہا ۔ چند لمحے خاموشی کی نظر ہوئے ۔ 
” حمدا میں۔۔۔۔۔میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔ ہاں ٹھیک ہے آپ کو یہاں لانے کے پیچھے وجہ کوئی اور تھی لیکن میری نیت صاف تھی۔۔۔۔۔ اور میں نے آپ سے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔۔۔۔۔ (حمدا نے آنکھوں میں درد لیےاس کی طرف دیکھا جو اس کے منہ پر جھوٹ بول رہا تھا ) ۔۔۔۔ میں نے صرف آدھا سچ بتایا آپ کو ، احمد واقعی ثناء سے محبت کرتا ہے ۔“ 
حمدا کچھ نہ بولی ۔ 
” آپ نے جواب نہیں دیا حمدا ۔“
وہ بولی تو انتہائی ٹھہرے ہوئے اورٹھوس لہجے میں ، ” سر تین باتیں ہیں، نمبر ایک مجھے شادی کرنی ہی نہیں ہے۔ نہ آپ سے نہ ہی کسی اور سے ۔ آپ وجہ پوچھیں گے جوکہ میں بتانے کی روادار نہیں لیکن پھر بھی بتائے دیتی ہوں کہ مجھے شادی لفظ سے ہی گھن آتی ہے ـ دوسری بات کہ مجھے جاب کی ضرورت ہے ، میں امید کرتی ہوں کہ میرا جواب میری نوکری کی حالیہ صورت کو متاثر نہیں کرے گا ، اور تیسری بات کہ سر مجھے اپنے گھر جانا ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ ہی میرا ختمی فیصلہ ہے ۔“ ، حمدا چپ ہوئی تو وہ کھڑا ہو گیا ۔ 
” میں ڈسچارج پیپرز بنوا لیتا ہوں ، آپ کی ڈرپ ختم ہونے دیں ، ہم بائے ائیر جائیں گے ۔“ ، یہ کہہ کر وہ رکا نہیں بلکہ باہر چلا گیا ۔
**********
ثناء ہوٹل کے کمرے میں پیکنگ کر رہی تھی جب دروازے پر دستک ہوئی ، کھولا تو باہر احمد کھڑا تھا ، ثناء کو غصہ تو آیا لیکن ضبط کر گئی۔۔۔۔ اس کو وہیں دروازے میں چھوڑ کر دوبارہ اندر آگئی کہ اندر آنا تو آؤ نہیں تو میری بلا سے ۔ 
احمد اندر تو آگیا لیکن سمجھ میں نا آئے کہ وہ بولے کیسے ، ” ثناء ! “ ، پیکنگ کرتے ہوئے اس کے ہاتھ رک گئے ۔ ” میں جانتاہوں تم ناراض ہو، ہونابھی چاہئیے ، لیکن میرا یقین کرو میں نے تم سے حمدا بھابھی اور حزلان کے بارےمیں جھوٹ نہیں بولا تھا۔۔۔۔۔ہاں ٹھیک ہے اپنے بارے میں میں سچ کو گول کر گیا۔۔۔۔لیکن یار تم ہی بتاؤ میں سچ بتا دیتا تو کیا تم کبھی راضی ہوتی میرے ساتھ جانے کیلیے۔۔۔۔۔ اچھا پھر بھی اگر تمہیں لگتا ہے کہ میں غلط ہوں تو آئی ایم سوری ۔۔۔۔ شادی میں نے تم سے ہی کرنی ہے اور وہ بھی تمہاری مرضی سے ،“ ، ثناء اسی طرح کھڑی رہی ، مڑ کے بھی نہیں دیکھا ۔
” یہ بیگ لیا ہے تمہارے لیے ، تم قبول کرو گی تو میں اسے اپنی حوصلہ افزائی سمجھوں گا ۔ نیچے انتظار کر رہا ہوں تمہارا ۔“ ، یہ کہہ کر وہ چلا گیا ، جبکہ ثناء کو اپنے ہی جذبات کی سمجھ نہیں آرہی تھی ، مڑ کے بیگ کی کورنگ کو دیکھا ۔ کھولے بغیر بتا سکتی تھی کہ یہ وہی بیگ ہے جو اس نے مال میں پسند کیا تھا ۔ 
گاڑی میں آکر بیٹھی تو وہ بیگ ہاتھ میں تھا جسے دیکھ کر ایک پل کوتو احمد کے تیس کے تیس دانت چمک اٹھے ، ” یار مطلب میں ہاں سمجھوں ؟ “ 
” مسٹر احمد رضوی ابھی کہ ابھی اگر تم چپ نا کئے تو یقین مانو ایک لمحہ ضائع کئے بغیر تمہارا گلا دبا دوں گی ،“ ، اس بات پر احمد نے اپنا گلا پکڑ لیا ۔ ایسا کرنے پر ثناء کو ہنسی تو آئی لیکن ضبط کر گئی ۔ 
” یہ بیگ میں نے اس لیے لیا ہے کیونکہ مجھے پسند ہے ، جب تک میں گھر جاکر آرام سے سوچ نا لوں ۔۔۔۔ تم اپنی زبان مبارک کو آرام کرنے دو۔ اب گاڑی چلاؤ ۔“ 
احمد زیرِلب کچھ بڑبڑایا جو کہ اگر ثناء سن لیتی تو وہ بیچارہ شاید زندہ نہ رہ پاتا ۔ 
*************
عفت کو دکھ تو ہوا حزلان کے ذریعے حمدا کا جواب سن کر لیکن وہ پر امید تھیں ۔
” حزلان اس کا پہلا تجربہ تلخ ہے اس لیے وہ ایسے ردِعمل ظاہر کر رہی ہے ، میں اس سےبات کروں گی وہ مان جائے گی ۔“ 
” انشاءاللہ ـ“ 
” انشاءاللہ ، اور اگلی مرتبہ زیادہ وقت کیلیے آنا اور ہاں فری کی سالگرہ بھی آرہی ہے ۔ اس سے پہلے پہلے میری ہونے والی بھابھی کو منا لو ۔“ 
حزلان دھیرے سے مسکرا دیا ۔ بائے ائیر جاتے ان کو صرف دو گھنٹے لگے ۔ ائرپورٹ پر آفس کی گاڑی موجود تھی ۔ وہ سب اس پر سوار ہو گئے ۔ گاڑی میں چھائی خاموشی کو نصرت فتح علی خان کی آواز نے توڑا ۔
اِس تو ڈاڈا دکھ نہ کوئی 
پیار نا وچھڑے 
کسے دا یار نہ وچھڑے
بے اختیار حمدا کی نظر حزلان کی جانب اٹھی جو کہ اسے ہی دیکھ رہا تھا ، دونوں نے پھر نظریں کا زاویہ بدل دیا ۔ 
روگ ہجر دا مار مکاوے 
سکھ دا کوئی ساہ نہ آوے 
دکھ لاھندے نے دل وچ ڈیرے 
چارے پاسے دسن ھنیرنے 
دنیا وچھڑے نئی پرواہ 
دلدار نہ وچھڑے 
کسے دا یار نہ وچھڑے 
جب ثناء اور احمد کو ان کے گھر اتار دیا گیا تو گاڑی میں صرف حمدا اور حزلان رہ گئے ۔ 
” بس چچا یہیں روک دیں گاڑی ۔“ ، گھر کے قریب بنی سڑک پر پہنچ کر حمدا نے کہا تو وہ حزلان کو دیکھنے لگے ۔
” چچا جی گاڑی ان کے گیٹ کے سامنے جاکہ رکے گی۔“
” حمدا آپ ایک ہفتہ کی چھٹی پر ہیں ، آرام بھی کریں اور پریزنٹیشن بھی بنا کر ایک ہفتے بعد مجھے دے جائیے گا۔۔۔۔۔۔اور حمدا جو میں نے آپ سے کہا اس کی سچائی کو بھی ناپنے کی کوشش کریے گا ۔“ ، حمدا خاموش ہی رہی ۔ جب وہ اپنے دروازے پر اترنے لگی تو حزلان نےایک شاپنگ بیگ اس کی طرف بڑھایا
”یہ کیا ہے ؟“
” یہ آپ کا نہیں ہے رودابہ اور ماہ نور کیلیے ہے ۔“
” اس کی ضرورت نہیں تھی ۔“
” میں نے آپ کی اجازت نہیں مانگی ، کیونکہ یہ آپ کا نہیں ہے ۔“ ، حمدا نے وہ لے لیا اور گاڑی سے اتر آئی۔
دروازہ پہ دستک دی ، حزلان ابھی تک وہیں پر تھا ۔ 
” کون ؟ “ 
” رودابہ میں ہوں حمدا ۔“ ، دروازہ کھلا اور حمدا کچھ کہے بغیر اندر چلی گئی ۔ رودابہ کی نظر گاڑی میں بیٹھے حزلان پر گئی ۔
دس منٹ بعد رودابہ کمرے میں آئی تو چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ تھی ۔ 
” تم کہاں تھی اتنی دیر

   1
0 Comments