Orhan

Add To collaction

مان

مان
از رائحہ مریم
قسط نمبر9

 ” میں باہر تھی ۔“
”باہر کیا کر رہی تھی ؟“
” چھوڑو آپی کتنے سوال کرتی ہو آپ یہ بتاؤ چیزیں لیں جو میں نے کہا تھا ۔“ ، حمدا سمجھ گئی کہ وہ سفینہ اور ماہ نور کی وجہ سے بات گھما گئی ہے ۔ 
**************
ثناء گھر آئی تو تھکی ہوئی تھی ، گھر پہ بھی اکیلی اور اولاد بھی اکیلی ہونے کا یہ فائدہ ہوا کہ کسی نے روک کر پوچھا نہیں کہ ٹرپ کیسا رہا ۔ اپنی تنہا زندگی پر تلخی سے مسکرا کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ 
فریش ہو کر باہر آئی تو سامان نکالنا شروع کیا ۔ بیگ پر نظر گئی تواسے لےکر بیڈ پر بیٹھ گئی ۔ وہ درمیانے سائز کا کالے رنگ کا بیگ تھا۔۔۔۔ انتہائی خوبصورت پرل کے موتیوں سے اس پر کام کیا ہوا تھا جو کہ اس کی قیمت کا ٹھیک ٹھاک بتا رہے تھے ۔ جانے کیوں اس نے وہ بیگ کھول کر اندر ہاتھ ڈالا اور جو چیز اندر سے نکلی اس نے ثناء کے چودہ طبق روشن کر دیے ۔ 
************
رات میں رودابہ کی پیاس کی وجہ سے آنکھ کھلی تو حمدا کو بیڈ پر بیٹھا پایا ۔ باورچی خانے سے خود پانی پیا اور ایک گلاس بھر کر حمدا کو لاکر دیا ۔ 
” اب بتایں آپی کیا چیز پریشان کر رہی ہے آپ کو ؟“، حمدا نے اپنی اس بہن کو دیکھا جوکہ ہمیشہ اس کے دل کا حال جان جاتی تھی ۔ 
” میں حمدا ہارون ۔۔۔۔۔۔ مان تھی اپنے بابا کا ، جب وہ گئے تم دونوں چھوٹی تھیں ۔۔۔۔۔ دو پونیاں بنانے والی گول مٹول چھوٹی بچیاں کہ ان میں سےجب ایک روتی تو دوسری بھی رونا شروع ہو جاتی ۔۔۔۔۔ میں بابا کے زیادہ قریب تھی رودابہ امی سے زیادہ میں ان کے قریب تھی ۔۔۔۔۔ وہ گئے تو امی نے خود کو تم دونوںمیں مصروف کر لیا ۔ میری ان کے ساتھ پہلے ہی زیادہ انڈرسٹینڈنگ نہیں تھی ، میں چپ ہو گئی ۔ انہیں لگامیں بڑی ہوں ، بارہ سال کی بڑی بیٹی ، انہیں لگا مجھے صبر آگیا ہے۔۔۔۔۔۔ نہیں رودابہ مجھے صبر نہیں آیا تھا ۔ میں شاید بیک وقت دودو رشتوں سے محروم ہو گئی تھی ، تم دونوں چھوٹی تھیں مجھے اپنا غم بھلانا پڑا تم لوگوں کو تو شاید یاد نا ہو لیکن میں نے وہ وقت دیکھا ہے جب ہم خالہ لوگوں کے ساتھ رہتے تھے ، فاطمہ خالہ ہمیشہ ان چیزوں کو ہم سے چھپا کر اپنے بچوں کو دیا کرتی تھیں جو خالو سب کیلیے لاتے تھے ۔۔۔۔۔ ایک مرتبہ ماہ نور نے چھلی کھانے کی فرمائش کر دی تھی ، لیکن خالہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں ، تم سے ایک کپ ٹوٹنے پر انہوں نے تمہیں دو تھپڑ لگائے اور اس کپ کی قیمت بتائی ۔۔۔ـ تب سے امی نے کپڑے سینا شروع کیا ۔۔۔۔۔ پھر خالہ میرا رشتہ لے آئیں ، میں نے انکار کرنا چاہا تھا رودابہ ۔ مجھے آگے پڑھنا تھا ، بابا کہتے تھے کہ میری یہ بیٹی بڑی ہو کر ڈاکٹر بنے گی۔۔۔۔۔ لیکن ہر خواب پورا نہیں ہو پاتا ، میرا بھی نہیں ہوا ۔“ 
رودابہ سر جھکائے اسے سن رہی تھی جبکہ وہ چھت کو دیکھتے ہوئے بول رہی تھی ۔ آنسو دونوں کے بہہ رہے تھے ۔ 
” جب پہلی بار خضر نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا نا تو میرا مان ایک ایسے شیشے کی طرح کرچی کرچی ہوا جسے پوری طاقت سے کھینچ کر کسی نے دیوار پر دے مارا ہو۔۔۔۔۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ امی نے مجھے مارا تھا تو بابا ان سے لڑ پڑے کہا کہ تم نے حمدا کو نہیں مارا بلکہ میرے مان کو ٹھیس پہنچائی ہے اس دن کے بعد امی نے بھی مجھ پر ہاتھ نہیں اٹھایا ۔۔۔۔۔۔ اور وہ شخص رودابہ مہینے کے چند دن چھوڑ کر مجھے ہر روز ازیت دیتا تھا ۔۔۔۔۔ مجھے لگتا تھا میرے بابا دور کہیں مجھے دیکھ کر روتے ہوں گے۔۔۔۔۔ ہاں ٹھیک ہے اسلام میں اجازت ہے کہ شوہر اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھا سکتا ہے لیکن وجہ شرعی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی مجھے میرا قسور بھی تو بتاتا ، میری غلطی تو بتاتا ، میں نے کیا کیا تھا۔۔۔۔۔ میں انیس سال کی تھی رودابہ میں نے اس کے گھر کو سنبھالا ، اس کی بیٹی کو سنبھالا ، کبھی اس کو طعنہ نہیں دیا ، زبان نہیں چلائی اس کے آگے ۔۔۔۔۔ اس کو۔۔۔اس کو دھوکا نہیں دیا۔۔۔۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ گھر آیا ہو اور میں کہوں کہ میں نے آج کچھ نہیں پکایا۔ پھر وہ کیوں کرتا تھا ایسا ۔ دوسروں کے سامنے اتنا اچھے سے پیش آنے والا انسان کیسے کمرے کی حدود میں وحشی جانور بن جاتا تھا۔۔۔۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میری زندگی سے رات ہی نکل جائے، یا ہم دونوں اکیلے ہوں ہی نا یا ۔۔۔ یا ہمیشہ ہمیشہ کیلیے ہمارے گھر میں بہت زیادہ لوگ رہنے آجائیں جو کبھی واپس نا جائیں ۔۔۔۔۔۔ مجھے اب بھی ڈر لگتا ہے ، مجھے شادی لفظ سے ہی ڈر لگتا ہے۔۔۔۔ رودابہ۔۔۔۔۔ سر کہتے ہیں وہ مجھ سے پیار کرتے ہیں وہ بھی ہر صبح مجھے یہ ہی کہتا تھا۔۔۔ مجھے محبت پر یقین ہی نہیں رہا۔۔۔۔ سر سب کے سامنے بہت اچھے ہیں وہ بھی سب کے سامنے بہت اچھا تھا۔۔۔ مجھے اچھے لوگ ہی پسند نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔ مجھے ڈر لگتا ہے رودابہ میں کیا کروں یہ ڈر کم نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔“ ، رودابہ نے اس کے روتے ہوئے وجود کو اپنی بانہوں میں بھر لیا ۔ جب وہ رو رو کر چپ ہو گئی تو رودابہ بولی ۔ 
” آپی ہر انسان خضر حیات نہیں ہوتا ۔ میرے بابا جیسے لوگ بھی اسی دنیا میں ہیں جن کی وجہ سے یہ دنیا قائم و دائم ہے ، آپ کو زندگی کو ایک اور موقع دینا چاہئیے ، میری بات ہوئی ہے آپ کے سر سے وہ اچھے انسان لگے ہیں مجھے ، لیکن ابھی آپ آرام کریں۔۔۔۔ آپی ۔“ ، رودابہ نے دیکھا وہ سو چکی تھی ، بڑے آرام سے اس کو لٹا کر کمبل ٹھیک کیا اور اپنے بیڈ پر آنے لگی جب دروازے میں کھڑی سفینہ کو بھیگی ہوئی آنکھیں لیے کھڑا دیکھا ۔ رودابہ کے دیکھنے پر وہ الٹے پاؤں واپس چلی گئیں ۔ 
**************
اگلے دن احمد جب آفس میں آنے لگا تو ہاتھ میں دو پین پیزا اور کوک کے کین لیے حزلان کے آفس کے دروازے پر رکا تو وہاں پر ” ڈونٹ ڈسٹرب “ کا بورڈ دیکھا ۭ ” ایسے بورڈ دوستوں کیلیے تھوڑی ہوتے ہیں۔“ 
دھڑلے سے اندر گیا تو حزلان صاحب موبائل میں نصرت۔۔۔۔ نہیں نہیں سر نصرت کو سننے میں مصروف تھے ۔ 
جانےکب ہوں گے کم اس دنیا کے غم 
جینےوالوں پہ سدا 
بے جرم وخطا ہوتے جارہے ہیں ستم
کیاجس نےگلا ملی اورسزا 
کئی بار ہوا یہاں خونِ وفا 
بس یہی ہے صلہ 
دل والوں نے دیا 
یہاں دار پہ دم 
جانےکب ہوں گے کم اس دنیا کے غم 
کوئی آس نہیں احساس نہیں 
دریا بھ ملا بجھی پیاس نہیں 
اک ہم ہی نہیں
جسے دیکھو یہاں 
وہی آنکھ ہے نم 
جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم 
جینے والوں پہ سدا
بے جرم و خطا ہوتے جارہے ہں ستم 
احمد نے آگے بڑھ کر موبائل بند کیا تو وہ ہوش میں آیا ۔ ” ایک سر نصرت کا شیدائی کم تھا جو اب تم بھی شروع ہو گئے ہو ، جہاں تک رہی بات پیاس کی تو اس کیلیے دریا کی ضرورت ہے بھی نہیں لے بھائی کوک پی ۔“ ، احمد نے اس کی گھورتی نظروں کو سراسر فراموش کرتے ہوئے اس کو کوک اور پیزا دیا ۔ 
” کھا لو ، مجھے پتا تم نے کچھ نہیں کھایا ہو گا ، ایسے مت دیکھو میں اپنے لیے لڑکی پسند کر چکا ہوں اب تمہارا کوئی چانس نہیں ہے ۔“ ، حزلان بھی ہنس پڑا ۔ 
” ثناء کی طرف سے لگتا ہے ہاں ہو گئی ہے ؟“ ، حزلان نے کین کھولتے ہوئے پوچھا ۔ 
” نہیں یار تمہاری بھابھی کہہ رہی تھی کہ سوچ کے بتائے گی ۔“ ، ازلی لاپرواہی سے جواب دیا ۔ 
” اور اگر اس نے انکار کر دیا ـ“
” تم بددعائیں دینا بند کرو گے ۔ اتنا شریف اور محبت کرنے والا لڑکا ملے گا کیا اسے اور کہیں ۔“ ، احمد نے کندھے سے مصنوعی مٹی جھاڑتے ہوئے کہا ۔ 
” ان سب خصوصیات میں ایک اور کا اضافہ کر لو ـ“
” وہ کیا ۔“ ، احمد کو پتا ہوتا کہ وہ کیا کہنے والا ہے تو پوچھتا ہی نا ۔
” بےعزتی پروف ۔“ ، احمد کے چہرے پر بارہ بج گئے ۔
” ہاہاہاہا ۔۔۔“ ، ” ہنس لے ہنس لے میرا بھی وقت آئے گا۔“ ، احمد نے پیزا منہ میں رکھتے ہوئے کہا ۔
” احمد سنجیدہ ہو کر ایک بات بتاؤ ـ“
” ہاں پوچھو ۔“ 
” حمدا کا جواب کیا ہو گا ؟“
” انکار کر دے گی ۔“ ، اسی سنجیدگی سے جواب دیا ۔
” وجہ ؟۔۔۔۔ کمی کیا ہے میرے میں ؟“ ، حزلان نے پیزا ایک طرف رکھ دیا ۔ 
” حزلان کمی بہت سیریس ہے ، تمہارا دوست ہونے کے ناطے مجھے کہناتو نہیں چاہئیے لیکن میں یہ بات چھپانے کے حق میں نہیں ہوں۔۔۔۔ میرے دوست مجھے یہ کہتے ہوئے تکلیف تو ضرور ہو گی ، آخر تم میرے دوست ہو اور حمدا میری ہونے والی متوقع بھابھی وہ الگ بات ہے کہ اس بات کے چانسس بہت کم ہیں ، لیکن یہ زندگی ہے میرےدوست۔۔“ ، حزلان نےاس کی بات کاٹی اور بولا ۔
” اگر تیرے منہ سے اگلے نکلنے والے لفظ میرے سوال کا جواب نا ہوئے تو یہ کین ہو گا اور تیرا سر ۔۔۔ آئی سمجھ ۔“ 
احمد نے ایک بڑا سانس لیا اور بولا ، ” تیرے میں پورے ایک سال کی کمی ہے ۔“
” واٹ دا۔۔۔“، حزلان کرسی سے اٹھ گیا اور اس کے پیچھے لپکا جو آگے آگے دوڑ رہا تھا ۔
” ہاں تو میں نے غلط تھوڑی کہا ہے ، کیا تھا اگر ایک سال پہلے پیدا ہو جاتا تو تو ۔۔۔“ ، اور اس کی گردن اب حزلان کے بازؤں میں تھی۔ 
” اچھا اچھا سوری سوری۔۔۔ ، کیا جلاد بن جاتے ہو ۔
اس خوبی پر قابو پالو میرے دوست ۔“ ، وہ دونوں اب دوبارہ بیٹھ گئے ۔
” اگر صرف عمر ہی وجہ ہے تو پھر یہ کوئی معقول وجہ نہیں ہے ، صرف ہمارے معاشرے میں اسے برا سمجھا جاتا ہے ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ مجھ سے چھوٹی لگتی بھی ہے ، قد بھی چوٹا ہے اس کا اور دوسرا شادی کیلیے دونوں کابالغ ہونا ضروری ہے ۔۔۔۔۔ وہ تو میں ہوں ۔“ 
” ہاں ہاں میں جانتا ہوں جتنی تمہاری جوانی ابھر رہی ہے ۔“ ، اس بات پر وہ دونوں قہقہے لگانے لگ گئے۔
” اوے رک رکو۔۔۔ (فون اٹھایا) السلام علیکم ثناء ! دیکھو ابھی تمہیں ہی یاد کر رہا تھا اور تمہارا فون آگیا کتنی مح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہوا ۔۔۔۔ اچھا آتا ہوں ۔“ ، وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔ 
” معاملہ سیریس ہے ۔“، حزلان نے اسے چھیرتے ہوئے کہا ۔
” یار دعا دو تیری بھابھی نے اکیلے ملنے بلایا ہے کیبن میں ۔ اللہ مہاز پر مجھے سرخرو کرے ۔۔۔آمین ۔“
”آمین ۔۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔۔اچھا اچھا نہیں ہنس رہا ۔ بیسٹ آف لک ۔“ احمد دروازے میں جاتے ہوئے رکا اور بولا۔
” اگر وہ نا نا مانی تو میں نے اسے اغوا کروا لینا ۔“ 
” ہاہاہاہا۔۔۔تو اشارہ کرنا میں وین تیار رکھتا ہوں ۔۔ ہاہاہاہا ۔۔اچھا جا اب ایسے نا دیکھ ۔۔۔۔ لڑکی میں پسند کر چکا ہوں۔۔۔“ ، احمد کے جملے اسی پر آزماتے ہوئے وہ مسلسل قہقہے لگا رہا تھا۔
جبکہ وہ بڑبڑاتا ہوا باہر چلا گیا ۔
ثناءغصے کی حالت میں کیبن میں ادھرادھر چکر کاٹ رہی تھی جب احمد اندر آیا ۔ 
” یہ کیا ہے؟“ ، اس کو منظر پر پاتےہی ثناء نے چھوٹی سی کالی ڈبی اس کے سامنے کر دی ۔
” دیکھو میں ایکسپلین کر سکتا ہوں ۔“
” احمد میں نے پوچھا ہے یہ کیا ہے؟ جو پوچھا جا رہا ہے اس کا جواب دو ۔ یہ کیا ہے ؟“ ، ثناء کا غصہ کم بہیں ہو رہا تھا ۔
” یہ رنگ ہے ۔“
” رنگ ؟“
” ڈائمنڈ رنگ ۔“
” ہاں ڈائمنڈ رنگ۔۔۔۔ اس کو کرتے کیا ہیں ؟“
” پہنتے ہیں ۔“
” تم نے پہنی ہوئی ہے کیا ۔“
” دیکھو ثناء۔۔“ ، بات کاٹ کر بولی،” مت دکھاؤ مجھے کچھ کیاکرتے ہیں اس رنگ کے ساتھ یہ بتاؤـ“ 
احمد نے گلا کھنگالا اور بولا ،” عموماً لوگ۔۔۔ پرپوز کرتے ہیں لڑکیوں کو ۔“
” اوہ۔۔۔اچھا تو اس کا مطلب ہے تم نے مجھے پرپوز کیا ہے۔۔۔ہاں؟ “
” دیکھو ثناء۔۔۔“ ، پھر بات کاٹ کر بولی ، ”میں نے کہا نا کہ مت دکھاؤ مجھے کچھ ، یہ بتاؤ کہ تم نے مجھے پرپوز کیا ہے یا نہیں ؟“ 
” ہاں کیا ہے۔۔۔“ ، ثناء نے بےیقینی سے اسے دیکھا اور صوفے پر آرام سے بیٹھ کر لمبے لمبےسانس لے کر خود کو نارمل کرنے لگی ۔ 
” ثناء۔۔۔“، اس نے انگلی اٹھا کر خاموش رہنے کوکہا ، پھر چند لمحوں بعد بولی ـ
” مجھے تم سے اس احمقانہ رویے کی امید نہیں تھی احمد ، لڑکیوں کے کیا کیا خواب ہوتے ہیں کہ ان کو کتنے رومینٹک انداز میں پرپوز کیا جائے گا اور میں ۔۔۔ مجھے کیسے کیا تم نے۔۔۔۔ بیگ میں رنگ رکھ دی ۔۔۔۔۔۔۔ واؤ آسکر دینا چاہئیےتمہیں ۔۔۔۔۔ نہ ہی کوئی میوزک نہ ہی پھول سیدھا بیگ میں اور دوسری بات اگر میں بیگ قبول ہی نہ کرتی تو۔۔۔۔ تو رہ جاتی نا یہ ہوٹل میں ہی ، اسکی قیمت کم سے کم تین لاکھ ہو گی اور دیکھو میرا ہونے والا شوہر اتنا نکما ہے کہ تین لاکھ اس کیلیےکوئی معنی نہیں رکھتے اور دوسرا وہ بالکل بھی رومینٹک نہیں ہے ۔۔۔۔ لائک سیریسلی،“ احمد جو کہ سر جھکاۓ کھڑا تھا اس نے بےیقینی سے ثناء کو دیکھا جو کہ افسوس سے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔ پھر گونجا ہوا میں احمد کا نعرہ ،” یا ہو۔۔۔۔۔“ ، وہ آگے آیا اور ثناء کو اٹھا کر سامنے کھڑا کرنے کے بعد خود زمین پر بیٹھ گیا ۔
” کیا تم ۔۔۔“ ، ثناء نے سر پیٹ لیا ۔ 
” تمہاری انگلش میں سپلی آئی تھی کیا ۔“ 
” ہاہاہا سوری ۔۔۔۔۔ثناء ول یو بی مائین فار ایور اینڈ ایور ؟“، ثناء نے پلکیں جھکا کر ہاں کر دی پھر اور جب احمد اسے رنگ پہنانے لگا وہ خود بھی اس کے برابر گھٹنوں تک بیٹھ گئی ۔ 
رنگ پہنا کر احمد نے ڈائمنڈ کو کس کی ۔ 
ثناء ہنوز نیچے دیکھ رہی تھی ، ” ویسے ثناء میرا آدھا خون خشک کر دیا تھا تم نے ۔“
” مجھے غصہ ہی بہت تھا تم پہ ۔“
” ویسے اب تمہارے گھر والے کوئی ظالم سماج والا سین تو نہیں کریں گے نا ۔“، وہ دونوں اب کھڑے ہو گئے تھے ۔ 
” نہیں بلکہ وہ کہیں گے جا ثناء جا جی لے اپنی زندگی۔“ 
” ہاہاہا۔۔۔“ ، احمد فرط جذبات میں آکر اسے گلے لگانے لگا تو وہ پیچھے ہوئی اور فوراً فارم میں آکر بولی ۔ 
” ابھی صرف منگنی ہوئی ہے وہ بھی پرسنلی ، زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔ آآ میری چھوٹی سی منگنی ہوئی ہے ، آئی ایم سو ایکسائٹڈ۔“ ، ثناء نے اس کے بازو پر مکا مارا اور رنگ کو انگلی میں گھمانے لگی ۔ جبکہ احمد نے سکھ کا سانس لیا ۔ 
****************
حمدا تین دنوں کے بعد آفس میں تھی ، حزلان کو فائلز دینے وہ خود نہیں گئی بلکہ جویریہ کے ہاتھوں بھجوا دی ۔حزلان اپنےکمرےمیں غائب دماغ لیے بیٹھا تھا ۔ جب فون کی بیل ہوئی اس نے دیکھا اس کا فون نہیں بلکہ سپیکر سے حمدا کے کمرے سے جو آواز آرہی تھی وہ فون بج رہا تھا ۔ حمدا کا فون بج رہا ہے تو وہ اٹھا کیوں نہیں رہی۔۔۔۔کوئی چھٹی بیل پر حمدا نے فون اٹھایا ۔
” السلام ولیکم ماہ جبین آپی ۔۔۔۔ میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔ رمشہ کیسی ہے ؟ ۔۔۔۔۔(اس دفعہ وقفہ تھوڑا زیادہ تھا)
۔۔۔۔ جبین آپی میں پہلے بھی بتا چکی ہوں اب بھی بتا رہی ہوں کہ مجھے شادی کروانی ہی نہیں ہے۔۔۔۔ کیا مطلب رودابہ کا رشتہ ؟ ۔۔۔۔ خالہ سے کس نے کہا کہ اس کا رشتہ دیکھیں؟ ۔۔۔۔ آپی رودابہ ابھی پڑھ رہی ہے ، بہتر ہو گا خالہ اس بارے میں نا ہی سوچیں ۔۔۔۔ رودابہ کی ماں اور بہن زندہ ہے ابھی ۔۔۔۔ اس بات کا کیا مطلب ہوا ۔۔۔۔۔ میں تلخ نہیں ہو رہی۔۔۔۔ میری ناکام شادی کا میری بہن سے کیا تعلق ہے۔۔۔۔ پہلے آپ نے میری شادی اس شخص سے کروائی جس کی پہلی بیوی مر چکی تھی اور اب میری بہن کیلیے آپ کو آپ کی گلی کے جواری کے علاوہ اورکوئی نہیں ملا ۔۔۔۔۔ ماہ جبین آپی خالہ سے کہہ دیں کہ میں اپنی بہنوں کی زندگی خراب کرنے نہیں دوں گی ، ویسے بھی رودابہ اور ماہ نور دونوں کا ایڈمیشن ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ قائداعظم یونیورسٹی میں ۔۔۔۔۔ جی جو اسلام آباد میں ہے۔۔۔۔ کیا مطلب اجازت ، اسے امی نے اجازت دے دی ہے۔۔۔۔۔۔۔ السلام علیکم خالہ ۔۔۔۔(وقفہ بہت لمبا تھا جو کہ حزلان کی جان نکال رہا تھا) ۔۔۔۔ خالہ آپ نے ابھی خضر کی جتنی بھی تعریفیں کی ہیں ۔۔۔۔ وہ ٹھیک ہیں۔۔۔نہیں اب آپ مجھے سنیں گی ہاں میں جانتی ہوں کہ وہ شادی کر رہا ہے اور میں ابھی تک اسی طرح کیونکہ اس شخص نے مجھے شادی نام سےہی نفرت کروا دی ، ایک اور بات خالہ جانتی ہیں پنجابی زبان میں خالہ کو "ماسی" کہتے ہیں وہ جو ماں سی ہو ، لیکن میرا آپ سے گلہ ہے خالہ کہ آپ نے یہ حق ادا نہیں کیا۔۔۔ آپ نے ۔۔۔ آپ نے زیادتی کی میرے ساتھ اور اب رودابہ کے ساتھ بھی وہی کرنا چاہتی ہیں ۔۔۔ اللہ نا کرے اللہ نا کرے اگر میری جگہ ماہ جبین آپی کی رمشہ ہوتی اور اللہ نا کرے اگر اس کا شوہر اس پر ناجائز ہاتھ اٹھاتا تو جانتی ہیں میں کیا کرتی ، میں وہ ہاتھ توڑ دیتی۔۔۔۔۔۔۔ کہ اس شخص کی ہمت کیسےہوئی میری بیٹی پرہاتھ اٹھانےکی ، اور خالہ جان میں ۔۔۔ میں بھی آپ کی بیٹی ہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
اللہ حافظ ۔“ ، فون بند ہونے کے بعد کیبن کا دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی۔
حزلان جانتا تھا کہ وہ کہاں گئی ہو گی ۔
************
”اٹھیں یہاں سے اور میرے ساتھ آئیں ۔“، وہ جو پارک میں بنچ پر بیٹھی آنسو بہانے میں مگن تھی چونک گئی۔ 
” حمدا میں نے کچھ کہا ہے۔“ ، حزلان نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ۔
” میں چلی جاؤں گی سر ۔“
” آج آپ نےدوسری بار یہ بات کی ہے۔۔۔“ ، وہ اس کے برابر بیٹھ گیا ، ” میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ میری ذمہ داری ہیں تو چلیں اٹھیں شاباش گاڑی تک آپ خود آئیں گی یا میں اٹھا کے لے کر جاؤں ؟“ ، حزلان نے سنجیدگی کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے کہا۔
حمدا کھڑی ہوئی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ، ” میں آپ کی ذمہ داری نہیں ہوں ۔“ 
” ٹھیک ہے لیکن ابھی میں آپ کو گھر چھوڑ رہا ہوں آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے ۔“ 
وہ خاموشی سے گاڑی تک چلی آئی ۔ 
سارا راستہ حمدا خاموش رہی ۔ گھر کے سامنے گاڑی رکی، ”حمدا آنٹی نہیں جانتی نہ کہ تم اسلام آباد ہسپتال میں تھی ؟“، حمدا نےجھکے سر کے ساتھ نفی میں سر ہلایا ۔ 
” گڈ مطلب تم نے ان کو یہ بھی نہیں بتایا ہو گا کہ میں نے ۔۔۔“ ، حزلان نے اپنے گال پہ ہاتھ رکھا ۔ 
حمدا نے مطلب سمجھتے ہوئے دوبارہ نفی میں سر ہلا دیا ، ” سہی اب میری بات سنو پھر میں ابھی تمہارا رشتہ لے کر اندر جارہا ہوں ، تمہاری مال والی بات میں نہیں بتاؤں گا اور میری یہ والی بات تم ان کو نہیں بتاؤ گی ، شادی کے بعد جتنے مرضی بدلے لے لینا ۔۔۔ چلو آؤ اب ۔“ ، وہ حمدا کو ہکا بکا چھوڑ کر گاڑی سے اتر گیا ۔ 
جب تک وہ اندر گیا حمدا ہوش میں آئی اور دوڑ کر اندر گئی جو کہ سفینہ سے جھک کر کمر پر پیار لے رہا تھا ۔ 
”السلام علیکم حزلان بھائی آپ کب آئے ؟“ ، رودابہ ابھی ابھی باہر آئی اور اس کے برابر میں بیٹھ گئی ۔
” میں ابھی ابھی آیا ہوں ۔“ 
” آپی آئیں آپ کیوں کھڑی ہیں دروازے میں ۔“ ، حمدا نے اسے گھورا جو کہ اب ماہ نور کو لے کر باورچی خانے میں چلی گئی ۔ 
” آپی آپ بھی کچن میں آجائیں ۔“ ، رودابہ نے ہنستے ہوئے کہا ۔ جسے وہ نظر انداز کر گئی اور کرسی ایک طرف کھینچ کر بیٹھ گئی ۔ 
” آنٹی ۔۔۔۔ ام۔م۔میں آپ کو امی کہہ سکتا ہوں ؟ جانتا ہوں کہ پہلی ہی ملاقات میں میں بہت فرینک ہو رہا ہوں لیکن کیا کروں مجبوری ہے ۔۔۔۔ تو بتائیں میں آپ کو امی کہہ لوں ۔“ 
سفینہ نے بس سر ہلا دیا ۔ 
” شکریہ امی اب آتے ہیں مدعے کی بات پر ، میں حزلان ہوں ، حمدا میرے آفس میں کام کرتی ہیں ۔ میں آپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔“ 
” امی یہ جھوٹ بول رہے ہیں ـ“
” میں بالکل بھی جھوٹ نہیں بول رہا ، بلکہ سچ کہہ رہا ہوں ، میں خود کبھی نا آتا امی ـ میری آپی اسلام آباد رہتی ہیں ان کو ہسپتال سے چھٹی نہیں ملی۔۔۔۔ نہیں تو وہ میرا رشتہ لے کر آتیں ۔ آج میں نے ان کو فون پر بات کرتے سنا کہ ان کا رشتہ آیا ہے تو میں نے سوچا اس سے پہلے کہ میں دیر کر دوں جاکر آپ سے مل لوں ۔“
” آپ میری باتیں سنتے ہیں ؟“ ، حمدا نے حیرت سے پوچھا ۔
” موضوع پر آؤ حمدا ۔“ 
” امی آپ ان سے کہہ دیں مجھے شادی نہیں کرنی ۔“ ، سفینہ ان دونوں کو بیڈمنٹن کے ایمپائر کی طرح کبھی ادھر تو کبھی ادھر دیکھ رہی تھیں ۔ 
” نہیں امی آپ اپنی بیٹی سے کہہ دیں کہ آپ اس کی شادی مجھ سے ہی کروایں گی ۔“ ، حزلان نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا ۔ 
” آپی آپ اندر آجائیں ۔۔۔ یوں اپنےرشتے کی بات ہوتے ہوئے سننا اچھا اثر نہیں ڈالے گا ۔“ ، رودابہ کی آواز آئی ۔ 
” تم چپ کرو رودابہ۔۔“ ، حمدا نے اسے ڈانٹ دیا۔
” رودابہ پلیز باہر آکر مجھے سپورٹ کرو بھئی ۔“ ، اور یہ آئی رودابہ اور ماہ نور ، دونوں نے ایک ایک کرسی لی اور حزلان کے دائیں بائیں رکھ کر بیٹھ گئیں ۔ 
” امی حزلان بھائی بہت اچھے انسان ہیں ، میری طرف سےرشتہ ڈن سمجھیں ۔“ ، رودابہ نے اپنا فیصلہ دیا ۔ 
” رودابہ !“ 
” چپ کریں ابھی آپ بات کرنےدیں اسے ۔ آپ کی بہنیں آپ سے زیادہ سمجھ دار ہیں ۔“، حزلان نے اسے پیار سے ڈپٹ دیا ۔ 
” امی۔۔۔۔“ ، لیکن اس سے پہلے وہ بات پوری کرتی ماہ نور بولی ، ” امی میری طرف سے بھی رشتہ ڈن ہے ، حزلان بھائی بہت اچھے ہیں وہ میری ہر پوسٹ لائک بھی کرتے ہیں اور اس پر کمینٹ بھی کرتے ہیں ـ“ 
” چلیں جی میری طرف دو ووٹ ہو گئے ، امی اب آپ بھی میرے حق میں فیصلہ دے دیں ۔“ 
” امی آپ منع کر دیں ۔“
رودابہ اور ماہ نور اکٹھی بولیں ، ” آپی آپ اندر جائیں بڑوں کو فیصلہ کرنے دیں ۔“ 
” رودابہ ! ماہ نور ! ہم رات میں آئس کریم کھائیں گے اگر ابھی تم دونوں اندر جاؤ گی تو ۔“ ، دونوں نے پہلے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھا پھر حزلان کو ۔۔۔۔ حزلان لمحوں میں ان کے اشارے کو سمجھ گیا اور بولا ، ”ہم ابھی کے ایف سی چلیں گے ، ٹریٹ میری طرف سےرشتہ پکا ہونے کی خوشی میں۔“ 
اب دونوں نے حمدا کو دیکھا جو روہانسی ہو رہی تھی ، جبکہ سفینہ اور حزلان مسکرا رہے تھے ۔
” دیکھو میری۔۔۔۔ میری اگلے مہینے پروموشن ہو جائے گی تم دونوں جو کہو گی میں کھلاؤں گی ۔“ ، حمدا نے روہانسی ہوتے ہوئے کہا ۔ 
” نہیں ہو گی۔۔۔“ 
” کیا ۔“ ، تینوں نے اکٹھے پوچھا ۔ 
” آپ کی پروموشن نہیں ہو گی ۔“،حزلان نےمسکراہٹ دبائے کہا ۔ 
” آپ نے کہا تھا کہ میرا جواب میری جاب کو افیکٹ نہیں کرے گا ۔“، وہ بالکل رونے کے قریب تھی ۔
” نہیں نہیں میں نےایسا نہیں کہا تھا ، ایسا آپ نے کہا تھا۔۔۔ اور امی آپ بتائیں میں اچھا لگوں گا اپنی بیوی سے کام کرواتا ؟“ 
” نہیں بالکل نہیں ۔“ ، سفینہ کے کہنے کی دیر تھی کہ حزلان ، رودابہ اور ماہ نور کا مشترکہ نعرہ لگا ، ” یا۔۔۔ ہو۔۔۔۔“ ، جبکہ حمدا پیر پٹختی ہوئی کمرے میں چلی گئی ۔ 
حزلان نے اسے یوں جاتے دیکھا تو پریشان سسا ہو گیا ۔ رودابہ آگے آئی اور بولی ، ” آپ فکر نہ کریں ، رات میں ان سے بات کروں گی وہ مان جائیں گی ۔ ڈرتی ہیں بس وہ اور کوئی بات نہیں ۔“
” وہ رو رہی ہو گی اندر ۔“ ، حزلان نے فکرمندی سے کہا تو سفینہ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے ، ربِ کعبہ یوں بھی دعائیں قبول کرتا ہے ۔ 
” آخری بار رو لینے دیں ، بس یہ کوشش کرنا کہ وہ آپ کی وجہ سےنا روئيں۔۔۔ نہیں تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔ اور اب اس سے پہلے کہ امی رو رو کر پانی کا سیلاب بہا دیں ، ہمیں باہر لے کر جائیں ۔“ ، رودابہ نے سفینہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو حزلان نے آگے بڑھ کر ان کو ساتھ لگا لیا اور بولا ، ”رو کیوں رہی ہیں آپ ؟“ 
” میں تو نہیں رو رہی ۔“ ، وہ روتے روتے ہنس دیں ۔ 
” یہ روتے ہوئے بھی جھوٹ بولنے والے کام حمدا نے آپ سے سیکھے ہیں ۔ اب چپ کریں اور چلو بھئی سب کے پاس پندرہ منٹ ہیں ، تیار ہو جائیں ، میں فری کو بھی بلواتا ہوں۔سب مل کر چلیں گے ۔“،حزلان نے آنکھ کے اشارے سے رودابہ کو حمدا کو بھی ساتھ چلنے کا کہا ۔ 

   1
0 Comments