Orhan

Add To collaction

مان

مان
از رائحہ مریم
قسط نمبر10
آخری قسط

اس کو سفینہ زبردستی لے کر آئیں کیونکہ حزلان ان کو بھی ساتھ لے آیا اور وہ گھر اکیلی نہیں رہ سکتی تھی ، اسے ڈر لگتا تھا ۔ وہ اب منہ لٹکائے ان سب کے دوران بیٹھی رہی ۔ لیکن زیادہ دیر نہیں رہ پائی، فری فطرت کی اتنی اچھی تھی کہ اسے بھی اپنا موڈ ٹھیک کرنا پڑا ۔
” آج میری سالگرہ ہے اور بھائی اتنا اچھا گفٹ دیا ہے آپ نے کہ میں بیان نہیں کر سکتی ، ایک بھابھی اور دو بہنیں ۔“ ، فری ان دونوں سے پہلی ملاقات میں ہی اتنا قریب ہو گئی ۔
” صرف بہنیں ہی نہیں امی بھی آج سے تمہاری ہیں ، جلدی جلدی سمسٹر ختم کرو ہم سب اسلام آباد جا رہے ہیں ۔“ ، فری کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، اس نے سفینہ کو دیکھا جو کہ اسے ہی محبت سے دیکھ رہی تھیں تو ان سے لپٹ گئی اور رونا شروع کر دیا ۔ وہ بہت چھوٹی تھی جب اس کے والدین کا انتقال ہوا ۔
” بھائی امی بھی ہمارے ساتھ جائیں گی ؟“ ، حمدا نے بھی فری کے کندھے پر پیار سے ہاتھ رکھا لیکن اس بات پر وہ پریشان ہو گئی ۔
” بالکل رودابہ اور ماہ نور کا قائداعظم یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا ہے ، آپ کا ٹرانسفر بھی کرواتا ہوں میں ، حمدا تو میرے ساتھ ہی ہوں گی ، اور امی ہم سب کے ساتھ۔۔۔۔ حمدا اس طرح مت دیکھو ، ہم اس بارے میں بعد میں بات کریں گے ۔“
” لیکن بیٹا میں ایسے کیسے ۔۔۔۔“ 
” امی آپ بیٹا بھی کہہ رہی ہیں اور پرایا بھی کر رہی ہیں ۔ بس آپ آرہی ہیں ۔“ 
ان سب نے اکٹھے کھانا کھایا جبکہ حمدا نے بمشکل تھوڑا سا چکھا ۔ اس کے دماغ میں مسلسل ایٹم بم پھوٹ رہے تھے ۔ 
وہ رات گیارہ بجے کے قریب گھر آئے ۔
” آپی ابھی آپ سو جائیں صبح آپ سے بات ہو گی ، اور فکر نا کریں اللہ ہر انسان کو اس کے صبر کا اجر ضرور دیتا ہے ۔“ ، رودابہ نے حمدا کے دونوں ہاتھ تھام کر اس سے کہا ۔
وہ اندر آئی اور بیڈ پر لیٹتے ہی سوگئی ۔
۔ *************
اگلی صبح حمدا کی آنکھ خلافِ معمول دیر سےکھلی۔
رودابہ اور ثناء کالج تھیں ۔ سفینہ سلائی مشین لے کر بیٹھی ہوئی تھیں ۔ 
اس نے ان سے کوئی بات نہیں کی ۔ وہ بھی اس کی رات والی باتیں سننے کے بعد ابھی سوچ رہی تھیں کہ وہ اپنی بیٹی کو اعتماد میں کیسے لیں ، جسے وہ اپنی نادانی کی وجہ سے نظر انداز کرتی آئیں تھی ۔ وہ اسے یقین دلانا چاہتی تھیں کہ وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہیں ، وہ دو سالوں سے اس شرمندگی کو بیان نہیں کر پارہی ہیں ۔ 
دروازے پردستک ہوئی تو انہوں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا ۔ آگے حزلان کی بہن عفت کھڑی تھیں ۔ 
” السلام علیکم۔۔۔میں عفت ہوں ، حزلان کی بڑی بہن ، وہ ابھی ابھی مجھے یہاں چھوڑ کر گیا ہے۔“ ، سفینہ نے مسکراتے ہوئے رستہ دے دیا ۔ 
حمدا اس وقت باورچی خانے میں تھی ، جب باہر سے آنے والی آوازوں پر چونکی ۔ 
” اس وقت کون ہو سکتا ہے ؟“ـ۔۔۔ خود سے سوال کرتی وہ باہر آئی ۔
” مجھے حزلان نے فون کر کے بتایا کہ وہ آپ سے رات میں آ کر مل چکا ہے ، خوب ڈانٹا میں نے اسے ، پھر فری بھی آپ سب کی اتنی تعریف کر رہی تھی تو میں نے کہا کہ مجھے ابھی لے جاؤ ۔“ ، عفت نے محبت سے چور لہجے میں کہا ۔ 
” بہت اچھا لڑکا ہے حزلان ، عزت کرنے والا ، محبت کرنے والا ۔“ ، سفینہ نے بھی مسکراتے ہوئے کہا ۔اور وہ باورچی خانے کے دروازے میں بت بنی کھڑی ہو گئی ۔ 
” تو کیا یہ لوگ واقعی میری شادی کر رہے ہیں ۔۔۔ میں کیا کروں مجھے نہیں کروانی شادی ۔۔۔۔ “ ، وہ وہیں سوچوں میں گم تھی جب عفت آئیں اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔ حمدا مسکرا دی ۔ وہ ویسی ہی تھیں جیسی ہسپتال میں تھیں ، بس وائٹ اوورآل نہیں تھا ۔ 
” حمدا ہم آپ کے کمرے میں چل کر بات کریں ؟“ ، انہوں نے مسکرا کر اجازت طلب کی جو حمدا نے قبول کرلی ، یہ مسکراہٹ جانتےہیں کیا ہے ، یہ "ہتھیار" ہے جسے کوئی بھی کام کروانے کیلیے استعمال کیا جاسکتا ہے ، وہ کام جو مسکرا کر کہا جائے اور وہ جو غصے میں کہا جائے دونوں کے کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ ایک تجربہ کریں اپنے چھوٹے بہن یا بھائی کو ایک مرتبہ مسکرا کر پانی کا گلاس لانے کا کہیں اور ایک دفعہ غصے میں آکر پھر اس کا ردِعمل دیکھیں ، فرق واضح ہو جائے گا ۔۔۔۔۔ 
وہ دونوں اب حمدا کے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھیں ۔ 
” حمدا جانتی ہو جب حزلان کالج میں تھا اور فری ابھی چھوٹی تھی۔۔۔۔ممی ڈیڈی نہیں رہے۔۔۔۔ یہ دونوں بہت چھوٹے تھے مجھے ان کو سنبھالنا تھا ، مجھے مضبوط ہونا تھا۔۔۔۔ اپنے میڈیکل کو اور گھر کو ایک ساتھ دیکھنا تھا۔۔۔۔تب اگر شیرازی انکل ساتھ نا دیتے تو کچھ بھی ممکن نا ہو پاتا۔۔۔۔۔“ ، ان کی آنکھوں میں ابھرنے والی نمی کو دیکھ کر حمدا نے ان کے ہاتھ پکڑ لیے ۔
” میں آپ کا دکھ سمجھ سکتی ہوں ۔“، اس کی اپنی آنکھیں بھی نم تھیں ۔
” ہاں تم سمجھ سکتی ہو ، مجھے بہت سے لوگوں نے کہا کہ وہ میرا دکھ سمجھ سکتے ہیں لیکن نہیں ۔۔۔۔۔ درد وہی سمجھ سکتا ہے جو خود اس ازیت سے گزرا ہوا ہو ۔“ ، انہوں نے بھی حمدا کے ہاتھوں پر گرفت مضبوط کر دی ۔ ایک کے ہاتھ گرم تھے تو دوسری کے برف کی طرح ٹھنڈے ۔ 
” حزلان یونیورسٹی میں تھا جب اسے سارہ پسند آئی ۔ وہ بہت خوبصورت ، شوخ اور۔۔۔۔اور کیا کہوں میں ۔۔۔۔۔ مجھے سارہ کے بارے میں پتا تھا کہ حزلان اسے پسند کرتا ہے لیکن اس نے اپنے گھر والوں کو نہیں بتایا ہوا تھا ، حزلان چاہتا تھا کہ وہ اس پسند کے رشتے کو ایک شرعی حیثیت دے ۔۔۔۔ لیکن سارہ کو کوئی اور پسند آگیا ۔ وہ بھی انہی کا سینیر تھا ، اور ہاں وہ ہم لوگوں سے زیادہ امیر تھے اور یہ چیز ہی سارہ کی محبت کو ختم کر گئی جو شاید اسے کبھی حزلان سے تھی بھی نہیں ، حزلان ٹوٹ گیا تھا حمدا وہ پورا سال پہلی محبت کی ناکامی پر خاموش رہا ۔۔۔۔ شیرازی انکل کے سمجھانے پر وہ یہاں آگیا ، کہتا تھا اسلام آباد اسے سوٹ نہیں کیا کہتا تھا آپی اتنا خوبصورت شہر ہے یہ لیکن میرا یہاں دل نہیں لگتا ایک دفعہ میں نے کہا کہ تم عبید کوسب سچ بتا دو سارہ کے بارے میں توبولا کہ میرے پاس سارہ اور میری اتنی اکٹھے اتنی تصاویر ہیں کہ ان میں سے ایک بھی اگر میں عبید کو دکھا دیتا تو وہ سارہ کو چھوڑنے میں ایک لمحہ نا لگاتا ۔ لیکن اس نے کہا نہیں آپی میری غیرت گوارہ نہیں کرتی کہ میں اس لڑکی کو نقصان پہنچاؤں جسے میں کبھی پسند کرتا تھا ۔“ 
حمدا بس سر جھکائے اسے سنتی رہی ۔ 
” حمداحزلان نے تمہارے ڈر کے بارے میں بتایا مجھے ، وہ ایسا نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ مت سمجھنا کہ میں اس کی بہن ہوں اس لیے کہہ رہی ہوں بلکہ میری جان میں جانتی ہوں اسے وہ ۔۔۔۔۔۔ وہ بہت عزت کرنے والا انسان ہے ، حمدا ۔۔۔۔۔۔ تمہارا ڈر بجا ہے لیکن ہمیں صرف ایک تلخ واقعےکے بعد زندگی سے منہ نہیں موڑ لینا چاہئیے۔
ہے نا ۔“ ، اس نے نیچے دیکھتے ہوئے ہاں میں سر ہلا دیا ۔ 
” میں نے کہا تھا حزلان سے کہ حمدا میری بات ضرور سنے گی اور سمجھے گی بھی ۔“ ، انہوں نے حمدا کے کندھے کے گرد بازو رکھا اور اسے ساتھ لگا لیا ۔ 
” اور جہاں تک رہی بات حزلان کی تو ہاتھ اٹھانا تو دور وہ تمہارے ساتھ کبھی اونچا بھی بولا تو سب سے پہلے اسے بیشک دو لگا دینا اور پھر مجھے بتانا ۔ میں نے کان نا کھینچے تو میرا نام بھی عفت نہیں ۔“ ، ان کی اس بات پر حمدا ہنس دی ۔ عفت نے دل ہی دل میں ماشأﷲ کہا کیونکہ ان کو وہ نم آنکھوں سے مسکراتی بہت خوبصورت لگی ۔ 
” چلو اب اٹھو شاباش میں جاکر امی سے بولوں کہ میری چھوٹی بہن مان گئی ہے ۔ آجاؤ شاباش ۔“ ، ان کے بھی یوں امی کہنے پر حمدا بے یقینی سے ان کو دیکھنے لگ گئی ۔ 
” ایسے مت دیکھو میری بھی امی ہیں وہ ، فری اور حزلان کی طرح اب باہر آؤ اور مجھے چائے پلاؤ اچھی سی ، تھکن اتری نہیں ابھی فلائٹ کی ۔“ ، وہ جھینپ سی گئی ۔ 
جب وہ ہنستی ہوئی باہر آئی تو سفینہ مطمئن سی ہو گئیں ۔ اب خوشیاں منتظر تھیں ۔ 
دوپہر میں فری بھی ان کی طرف آگئی۔ 
” فری حزلان بھائی کو بھی لےآتی ۔“ ، رودابہ نےحمدا کو آنکھ مارتے ہوئے کہا ۔ 
” میں نے تو کہا تھا ان کو ، تو بولنے لگے کہ اب وہ ایک ہی بار آئیں گے ۔ایسا نا ہو کہ بار بار آنے سے حمدا بھابھی ارادہ ہی بدل لیں ۔“ ”ہاہاہاہا۔۔۔۔ نہیں اب آپی ایسا نہیں کریں گی ۔“ 
” رودابہ ! پانی دو مجھے ۔“، حمدا نےرودابہ کو سخت نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔ 
” اپنا ہی گھر ہے اس کا ، جب چاہے آجائے ۔“ ، سفینہ بولیں ۔ 
کھانا کھانے کے بعد چائے کا دور چلا ، پھر عفت اور فری کو حزلان لینے آگیا ۔ دروازہ کھولنے حمدا کو بھیجا گیا ۔ اور دروازہ کھول کر اسے معلوم ہوا کہ ایسا کیوں کیا ۔ 
” السلام علیکم !“ ، اس کو مسکراتا دیکھ کر حمدا نے سر جھکا لیا ۔
” وعلیکم السلام ۔“ ، آہستہ سے جواب دیا ۔ 
” آپی سے کہیں کہ باہر آجائیں ۔“ 
” آپ اندر نہیں آئیں گے کیا ؟“ ، جھکے سر سے پوچھا۔
” آپ نہیں بلائیں گی تو کیسے آؤں گا ۔“ ، مسکراہٹ کو ہونٹوں کی قید میں دبا کر بولا ۔ وہ حسبِ توقع گھبراہٹ کا شکار ہو گئی ۔
” میں نے تو نہیں کہا کہ نا آئیں ۔“ 
” آپ نے یہ بھی نہیں کہا کہ آجاؤں ۔ “ 
حمدا کچھ کہنے کی بجائے ایک طرف ہو گئی ۔ وہ مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا ۔ اس نے کھانا بھی کھایا اور چائے بھی پی ، عفت نے سفینہ کے ساتھ مل کر شادی کی ڈیٹ دو ہفتے بعد کی رکھی ، اس سب کے دوران ینگ پارٹی نے شادی پر پہنے جانے والے کپڑے ڈیسائڈ کئے اور حمدا اندر کھڑی سب کی باتیں سنتی رہی ۔ 
************ 
رات میں رودابہ اس کے پاس آئی اور بولی ،” آپی آپ اندازا نہیں لگا سکتیں کہ میں آپ کیلیے کتنی خوش ہوں ۔“ 
وہ بس مسکرا دی ۔ 
” اچھا میری بات سنیں ، امی نا آپ سے کوئی معافی تلافی والا سیشن کرنا چاہ رہی ہیں ، تو جب وہ آئیں تو آپ آگے بڑھ کر ان کو معاف کر دینا ۔“ 
” رودابہ کیسی باتیں کر رہی ہو ؟ میں ناراض نہیں ہوں ان سے ۔“ 
” میں جانتی ہوں لیکن امی ایسا نہیں جانتی نا ،اور دوسری بات حزلان بھائی اچھے انسان ہیں ۔“ 
” ٹھیک ہے ٹھیک ہے مان لیا ۔“ ، وہ تنگ آگئی ہر ایک کے منہ سے حزلان کی تعریف سن سن کر ۔ 
پھر جب سفینہ نے اس سے معافی مانگنا چاہی تو اس نے آگے بڑھ کر ان کو گلے لگا لیا ۔ اور نہ صرف انہوں نے بلکہ کنیز فاطمہ نے بھی ان سب سے اپنے رویے کی معافی مانگی ، کیونکہ حمدا کی باتوں نے ان کی آنکھیں بھی کھول دیں ۔ 
**********
حمدا اور ثناء ریسٹوران میں بیٹھی لنچ کر رہی تھیں اور ساتھ میں شادی کی ڈسکشن جب احمد آیا ۔ 
” السلام علیکم بھابھی اور جناب کی متوقع ذوجہ صاحبہ ۔“ ، ” وعلیکم السلام ۔“ 
” کیا آج صبح اردو کھا کے آئے ہو ناشتے میں ۔“ ، وہ ثناء کے ساتھ بیٹھا اور نفی میں سر ہلا دیا ۔ 
” آج جو بھی کہہ لو برا نہیں مناؤں گا ۔“ 
” کیوں ساتھ ایک انسلٹ پروف ٹیبلیٹ بھی لی تھی ۔“ ، اس نے دوبارہ مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلایا ۔ 
” پھر ؟“
” پھر یہ کہ جناب گھر واکوں کی خبرلیں جوکہ ہماری شادی کروا رہے ہیں دو ہفتوں بعد اور میں بہت خوش ہوں، حزلان اور بھابھی کی شادی کے ساتھ ہماری شادی ، بھابھی آپ کی تیاری ہو گئی ؟“ 
” ابھی تو ہو رہی ہے احمد ۔“
”ایک منٹ ایک منٹ بھائی ، کیا مطلب دو ہفتوں بعد ، اوہ۔۔۔بھائی ادھر میری دوست کی شادی کی تیاریاں نہیں ہو رہیں اور تم کہہ رہے ہو دو ہفتوں بعد ، حمدا سے پوچھو میں اس سے کتنا لڑی ہوں کہ اتنی جلدی مت کرواؤ ۔۔۔۔ اور تم ۔۔۔نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔ 
بھائی تم ایسا کرو کسی اور کو دلہن بنا لینا میری جگہ ٹھیک ہے۔۔۔۔ لائک دو ہفتے ، چودہ دن کوئی چودہ دنوں میں شادی کی تیاری کیسے کرے۔۔۔۔۔“ ، اور احمد سر جھائے بیٹھا رہا ۔ وہ آج سوچ کہ آیا تھا کہ ثناء کی کسی بات کا غصہ نہیں کرے گا ، ہاں لیکن اسے ”بھائی“ بلانا اس کسی میں شامل نہیں تھا ۔ 
” ثناء !“ ، اس کی چلتی زبان کو بریک لگا ۔ 
” میں تمہارا بھائی نہیں ہوں ۔“ ، یہ کہہ کر وہ چلا گیا جبکہ حمدا ہنس ہنس کر پاگل ہو گئی ۔ اور ثناء کو بھی ہوش آیا کہ وہ کیا کہہ چکی ہے ۔ ناراض احمد کو منانے کا اس سے بہتر اور کوئی حل نا ملا کہ وہ دو ہفتوں بعد شادی کیلیے ہاں کر دے ۔ اور پھر ٹھیک دو ہفتوں بعد ان کے جملہ حقوق کسی اور کے فرائض بن گئے ۔ 
************
شادی کے سارے انتظامات اسلام آباد میں ہی ہوئے ، سبھی مہمانوں کو ان کے گھر ہی ٹھہرایا گیا ۔ سفینہ بھی شادی سے پہلے سی شفٹ ہو کر آگئیں جبکہ رودابہ اور ماہ نور کا بس ہوسٹل والا مسئلہ رہ گیا کہ وہ ہوسٹل رہیں گی یا گھر ۔ شادیاں سادگی سے کی گئیں، فیصل مسجد میں نکاح اور پھر رخصتی بس ، کوئی ڈھول ڈھمکا نہیں ، حزلان برکت والا نکاح چاہتا تھا ، اور سب نے اس بات کو پسند کیا ۔ احمد اس کے لاکھ کہنے کے باوجود حزلان کے گھر رکنے پر نا مانا اور جب تک معقول گھر نا مل جائے تب تک کیلیے ایک فلیٹ لے لیا ۔ 
احمد جب دروازہ کھول کر اندر آیا تو ثناء کو گھنگھٹ نکالے بیڈ پر پیٹھا دیکھا ۔ آہستہ آہستہ چلتا اس کے پاس گیا ، سلام لی جس کا کوئی جواب نا آیا ۔ اب احمد کو سمجھ نا آئے کہ وہ کہے تو کیا کہے ـ اس نے جتنی بھی لائنز یاد کی تھیں وہ سب بھول گئیں ۔ جب خاموشی کا وقفہ کچھ زیادہ بڑا ہوتا محسوس ہوا تو ثناء نے خود ہی گھونگھٹ اٹھا دیا اور سامنے احمد بیٹھا اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔ 
” لو تم یہاں خاموش بیٹھے ہو ، مجھے لگا سو گئے ۔“ 
احمد ہنس پڑا اور بولا ، ” مجھے کسی نے کہا تھا کہ پہلی رات کی دلہن باتیں نہیں کرتی ۔“ تو اس نے سر جھکا لیا ۔ 
” اوہ ۔۔۔۔ ہاں یاد آگیا مجھے بھی کسی نے کہا تھا ۔“ 
” کیا ؟“
” یہی کہ پہلی رات کی دلہن صرف سنتی ہے ، اب تم بولو میں چپ ہوں ، لیکن ہاں صرف آج کیلیے ، آج کے بعد میں بولوں گی اور تم سنو گے ۔ ویسے ایک بات بتاؤ احمد تمہیں یقین آیا کہ نہیں کہ ہماری شادی ہو گئی ہے ۔ مجھے ابھی تک نہیں آیا لائک سیریسلی ۔“ ، وہ چپ رہتے ہوئے بھی بہت کچھ بول گئی اور احمد اپنے ہونٹ کو دانتوں میں دباتا اسے سنتا رہا ۔ 
” اب بولو بھی کچھ ۔۔۔۔۔ اچھا میں ایک بات بتاؤں ؟“ 
” ہاں بتاؤ ۔“
” میں نے نا بہت پہلے کا سوچا ہوا تھا کہ اپنی شادی کی رات کچھ بہت عجیب سا کرنا ہے ۔“ ، اس نے احمد کے بالکل قریب بیٹھتے ہوئے کہا ۔ 
” اچھا ۔۔۔۔ کیا کرنا ہے ۔“ ، احمد نے بھی تجسس سے کہا ۔
” یہی تو مسئلہ ہے کہ کریں کیا ، تمہارے پاس کوئی پلین ہے کیا ؟ “ ، احمد نے نفی میں سر ہلا دیا ۔ 
” او۔۔۔ہو ۔۔۔۔ یہ تو مسئلہ ہو گیا ۔“ 
” اچھا ادھر آؤ تصویریں لیتے ہیں ۔“، احمد نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کیا ۔ 
” آج اتنی تصویریں لی تو ہیں ۔“، ثناء کو یہ آئیڈیا خاص پسند نا آیا ۔
” وہ تو فوٹوگرافر کی مرضی کی تھیں ، اب اپنی مرضی کی لیتے ہیں ۔ اب روز روز تو اتنی پیاری نہیں لگو گی نا ۔“ ، دل گردا بڑا کر کے اس نے یہ بات کہہ تو دی ، اور شکر ثناء نے مطلب نہیں نکالا اوراور وہ دونوں ساتھ تصویریں بنانے لگے ۔ ڈرامائی انداز کی بلندیوں کو چھوتی تصویریں جن کو بناتے ہوئے بھی اور پھر ان پر تبصرے کرتے ہوئے وہ ہنستے جا رہے تھے ۔ احمد نے ایک تصویر میں ثناء کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے قریب کیا اور اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کلک کیا ۔ 
اب وہ اسے تصویر دکھانے لگا لیکن ثناء اسی کے ساتھ لگی اس کی شیروانی میں منہ چھپائے اپنی حیا کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی ۔ جو اس بوسے کی وجہ سے امڈ آئی تھی ۔
” ثناء !“ 
” ہم۔م“
ۭ” تصویر بہت پیاری آئی ہے۔“ 
” ہم۔م“ 
”ایک اور لیں ایسی ؟“ ، احمد نے شرارت سے کہا تو اس نے نفی میں سر ہلا دیا ۔ 
” نا کرو ثناء تم شرمارہی ہو ، آئی کانٹ بلییو دس ۔“ ، 
ثناء نے اس کے مذاق پر فوراً ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے پیچھے کیا اور بولی ، ” ہٹو یہاں سے ، اینوئی مجھے تنگ کر رہے ہو ، کوئی شرما ورما نہیں رہی میں آئی سمجھ ۔“ ، احمد ہنسنا شروع ہو گیا ۔ 
” اچھا ٹھیک ہے ٹھیک ہے تھوڑا سا شرمائی تھی بس اور تم نے حرکت ہی ایسی کی تھی۔“، اس نے بھی ہنستے ہوئے سارا الزام احمد کے کھاتے میں ڈال دیا ۔ 
” اب ایسی حرکتوں کی عادت ڈال لو ۔“ ، احمد کے یوں کہنے پر اس نے سر جھکا لیا ، کون کہہ سکتا تھا کہ یہ ان کی نئی زندگی کی شروات ہے ، لیکن ہاں یہ ایک نئی صبح کا آغاز تھا ۔
*************
حزلان نے کمرے میں قدم رکھا تو وہ سجی سنوری اس کی طرف پشت کئے کھڑکی کے پاس نظر آئی ۔ 
” السلام علیکم ۔“ ، اس کے بالکل قریب ہو کر کہا تو وہ چونک گئی ، لیکن جلد ہی خود پر قابو پالیا ۔ 
” وعلیکم السلام ۔“ 
” یہاں کیا کر رہی ہو ؟“ ، آگے ہو کر اس نے دیکھا کہ شاید وہ نیچے کچھ دیکھ رہی ہے ۔ لیکن نیچے تو دیکھنے لائق کچھ تھا ہی نہیں ۔ 
” کچھ خاص نہیں ۔“
” تو پھر جو خاص ہے اسے دیکھو نا ۔“ ، اب وہ اوپر چاند کو دیکھنے لگ گئی ۔ 
” حمدا تمہارا چاند یہاں زمین پر ہے اور تم اسے اوپر ڈھونڈ رہی ہو ـ“ ، حزلان اپنا حوالہ دیتے ہوئے بولا ۔ 
” نہیں میرا چاند تو وہ ہی ہے ،“ ، حمدا نے ہنوز چاند کو دیکھتے ہوئے کہا ـ ” کم سے کم میرا چاند مجھے تھپڑ تو نہیں مارتا ۔“ ، حزلان اس بات پر مسکرا دیا ۔ پھراس نےحمدا کو شانوں سےپکڑ کر اپنے سامنے کیا۔ اور اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اس نے اپنے ہی گال پر پوری شدت سے اسے جڑ دیا ۔ 
حمدا آنکھیں پھاڑے اسے دیکھے گئی ، یکدم اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچا ، آنکھوں میں پانی بھر آیا جبکہ وہ اسے مسکرا کر دیکھ رہا تھا ۔ 
” یہ کیا کیا ہے آپ نے ؟“ ، اس کی آواز کانپ رہی تھی۔
” میں نے کیا کیا ہے ، جو بھی کیا ہے وہ آپ نے کیا ہے ۔“ ، حزلان اسی طرح مسکرا رہا تھا ۔ 
” ایسے کیسے کیا آپ۔۔۔نے ۔۔۔۔ میرا یہ مطلب تو نہیں تھا۔۔۔ آپ ۔۔۔“ ، وہ باقاعدہ کانپنا شروع ہو گئی تو حزلان نے اسے خود سے لپٹا لیا ۔
” حمدا آئی ایم ریئلی سوری ، میں بس یہ چاہتا تھا کہ اب یہ تھپڑ والی بات ہمارے درمیان نا آئے ۔“ ، حزلان تو اسے یوں دیکھ کر گھبرا ہی گیا ۔ 
” آپ ویسے ہی کہہ دیتے۔میں پھر کبھی نا کہتی۔ ایسا کیوں کروایا آپ نے۔“ ، اس نے اب رونا شروع کر دیا تھا ۔ 
” اچھا یار سوری ، آئیندہ ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا ، یہ وعدہ ہے میرا ۔“ ، وہ اسے چپ کرواتے ہوئے بیڈ تک لایا ۔ 
” لو پانی پیو۔۔۔۔۔ یہ پینےکیلیے ہے پکڑنے کیلیے نہیں ۔“ 
، اس نے ایک دو گھونٹ لیے ۔ 
حزلان نے گلاس لے کر سائیڈ پر رکھا اور اس کے ہاتھ پکڑ لیے ، ” حمدا مجھے لگتا تھا کہ آپ کے ہاتھ بہت نازک ہیں اس لیے میں نے تھپڑ مار لیا خود کو لیکن۔۔۔۔ یقین جانیں بہت درد ہو رہا ہے ۔“ ، حزلان نے ایک ہاتھ اپنے گال پر رکھتے ہوئے جس لہجے میں کہا وہ ہنس دی ۔ 
نم آنکھوں سے ہنسنا دنیا کی خوبصورت ترین ہنسی ہے ۔ 
” چھوڑیں میرا ہاتھ ، یہ حرکت بہت فضول تھی ویسے ۔“ ، اس نے ہاتھ واپس کھینچ لیے ۔ 
” ہاں اب میں متفق ہوں کہ واقعی یہ حرکت فضول تھی ۔“ ، حزلان نے دوبارہ اس کے ہاتھ پکڑ لیے اور ایک ہاتھ سے اس نے جھک کر بیڈ ٹیبل کے دراز سے ایک ڈبہ نکالا ۔ 
” سیدھا بیٹھی رہیں ۔“ ، حمدا نے ناسمجھی سے اسے دیکھا جو بڑے مگن اندازمیں اس کابھاری ڈپٹہ اتارنے کی کوشش کر رہا تھا ، جبکہ حمدا کا دل جس رفتار پر دھڑک رہا تھا وہ یقین سے کہہ سکتی تھی کہ حزلان سن رہا ہوگا۔ اس کے بعد حزلان نے حمدا کی گردن کے پیچھے ہاتھ کئے ، ایک لمحے کو وہ گھبرا گئی لیکن پھر اس نے دیکھا کہ اس کا لاکٹ حزلان کھول چکا ہے ۔ 
” میں خود اتار لیتی ہوں ۔“ 
” کیا ؟ “ ، اب وہ ڈبہ کھول رہا تھا۔
” جیولری ۔“ 
” ہاہاہا شوق سے اتارئے گا ابھی پہن تو لیں ۔“ ، پھر اس نے خوبصورت سی سونے کی چین حمدا کو پہنا دی ۔ اس چین کے ساتھ رنگ بھی تھی ، پہلے حزلان نے بائیں ہاتھ کی چوتھی انگلی میں عفت کی پہنائی ہوئی انگوٹھی کی جگہ بدلی پھر اسے رنگ پہنانے کے بعد حمدا کے ہاتھ کی پشت کو ہلکا سا ہونٹوں سے لگا کر چھوڑ دیا ۔ 
حمدا جی بھر کر شرمانے میں مصروف تھی ، اور آج شرمانا بنتا بھی تھا ۔ 
” چینج کر لیں ۔“ ، وہ جو حزلان کے سحر میں جکڑی ہوئی تھی نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی ۔ 
” کپڑے چینج کر لیں ، نہیں تو پھر کہیں گی۔۔۔۔“ ، اس کی ادھوری بات کا مطلب سمجھتے ہوئے اس کی مسکراہٹ سمٹی اور اسے گھورتی ہوئی چینجنگ روم تک چلی آئی جبکہ اپنے پیچھے حزلان کا قہقہہ گونجتا سن کر وہ بھی مسکرا دی ۔ بلکہ زندگی مسکرا دی ۔ 
************ 
وہ چاروں اس وقت دامنِ کوہ پر رات کے وقت کھڑے شہر کی جگمگاتی روشنیوں کو دیکھ رہے تھے ۔ رات کے وقت سردی بڑھ گئی تھی ۔ جب ثناء اس کی جیکٹ کے بٹنوں کو گھماتے ہوئے بولی ، 
” احمد مجھے سردی لگ رہی ہے ۔“ 
” ہاں سردی ہے ، مجھے بھی لگ رہی ہے ۔“ ، ثناء نے جن نظروں سےاسےگھورا وہ گڑبڑا گیا اوربولا ، ”دیکھو ثناء مجھے خود سردی لگ رہی ہے ، اور ویسے بھی مجھے فلو بہت جلدی ہو جاتا ہے۔۔۔۔“ ، ثناء بولی کچھ نہیں بس مسکراتے ہوئے اس کی جیکٹ کے بٹن کھولے اور اندرونی حصے سے احمد کو گلے لگا لیا ۔ اسے ایسا کرتا دیکھ کر احمد بھی مسکرایا اور اسے اپنے حصار میں لے لیا ۔ 
” تم ویسے کے ویسے ہی ہو ۔“ 
” ہاں تو اور کیا بدل جاؤں ؟“
” خون نا کر دوں میں تمہارا اگر بدلے تو ۔“
” ایک تو تمہارے ساتھ رہتے ہوئے انسان کو موت کا ڈر ہی لگا رہتا ہے ۔“ ، وہ بڑبڑایا اور ثناء کو سختی سے بھینجا ، جس پر اس نے "سی" کیا ۔ 
” اب کر کے دکھاؤ خون ۔“ ، لیکن ثناء نے جو کیا اس کی توقع احمد نہیں کر رہا تھا ۔ 
ثناء نے اسے گدگدانا شروع کر دیا اور وہ کبھی ادھر تو کبھی ادھر اچھلنے لگا ۔ 
” ثناء ! ثناء نہیں کرو ۔۔۔۔۔ ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔ اچھا یار بس ۔۔ ثناء ۔۔۔۔۔ ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔ “ ، وہ دونوں کئی لوگوں کی توجہ کھینچ چکے تھے ، ” ثناء لوگ دیکھ۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔۔۔ لوگ دیکھ رہے ہیں ۔۔۔“ 
” پہلے وعدہ کرو جیکٹ دو گے ۔“
” اچھا بابا اچھا لے۔۔۔لو۔“ ، اور پھر اس نے منہ بناتے ہوئے اپنی جیکٹ ثناء کو دے دی ، جسے اس نے بخوشی انعام میں ملنے والے تحفے جیسے قبول کیا ۔ 
چند قدم کے فاصلے پر کھڑے حزلان اور حمدا نے اس منظر کا کوئی اثر قبول نا کیا کیونکہ وہ عادی ہو چکے تھے یہ سب دیکھنے کے ۔ 
حزلان نے حمدا کو اپنی کپکپاہٹ چھپاتے دیکھا تو اپنی جیکٹ اتار کر اس کے کندھوں پر رکھ دی ۔ 
” جب لگے کہ سردی لگ رہی ہے اور کوئی ایکسٹرا شال بھی نا ہو تو بول دینا چاہئیے ۔“ ، اس نے حمدا کی کمرمیں ہاتھ ڈالتےہوئے اسے پیچھے کیا تو وہ حزلان کے ساتھ لگ گئی ۔ حمدا نے ترچھے ہو کر حزلان کے مفلر میں منہ چھپا لیا اور بولی ، ”تھینک یو سر “ 
” کیا بولا !“ 
” میں نے بولا آپ کا تھینک یو ۔“ ، اس نے جلد ہی بات بنا لی ۔ جس پر حزلان کا قہقہہ سنائی دیا ۔ 
” حمدا تم خوش ہو نہ ؟“ 
” جی ۔۔۔۔“ ، اس نے پھر اپنی لال ہوتی ناک کو مفلر میں چھپا لیا ۔ اور حزلان نے اس کو بانہوں کی پناہ میں لیتے ہوئے آئیندہ زندگی کی خوشیوں کی نوید دی
ختم شد 
اللہ وہ ہے جو اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے ، اللہ وہ ہے جو آپ کو اگر آزمائش میں ڈالے تو پھر ہمت بھی وہی دیتا ہے ، اللہ وہ ہے جو ایک در بند کرے تو کئی اور دروازے کھول دیتا ہے ، اللہ وہ ہے جو ہمارے ساتھ کی جانے والی نا انصافیوں اور زیادتیوں کا خود حساب لے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر یقین کریں ۔۔۔۔۔ اپنے مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور باقی اس کی ذات پر چھوڑ دیں ۔ 
ایک اور بات بے جا ظلم کبھی نا سہیں ، ہاں آپ کو خوش رہنے کا حق ہے اور ہاں آپ کو زندگی جینے کا حق ہے ۔ اس کے ساتھ میرے اس ناول کا سفر احتتام کو پہنچا ، کوشش کریں کہ اچھی باتوں پر عمل بھی کریں اور ان کو پھیلائیں بھی ، اس معاشرے میں اچھے اور مثبت لوگوں کی کمی ہے ، ایک ایسا فرد آپ بنیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میرے ملک کو وہ لوٹائیں جو اس کا حق ہے ۔ 
اللہ نگہبان

   1
0 Comments