Orhan

Add To collaction

عشق

عشق
از قلم اریج شاہ 
قسط نمبر3

وہ زیان کے ساتھ اس وقت فلائٹ میں موجود تھا ۔جیسے تھوڑی ہی دیر میں پاکستان ایئر پورٹ پر لینڈ ہونا تھا ۔
وہ آج تک اپنے والدین سے چھپ پر بہت جگہوں پر گیا تھا لیکن اتنے قریب کبھی نہ آیا تھا ۔
دل و دماغ میں ایک عجیب سا  خوف تھا پکڑے جانے کا نہیں بلکہ کسی اور چیز کا یہ خوف کس چیز کا تھا وہ خود بھی نہیں جانتا تھا ۔
پاکستان پہنچتے ہی اس کا ڈر مزید بڑ گیا ۔اس کا دل اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ جیسے سینے کی دیوار توڑکر باہر آنا چاہتا ہو ۔
یہاں کا مینیجر انہیں لینے کے لیے ایئرپورٹ پر پہلے ہی موجود تھا وہ اس کے ساتھ ہی ہوٹل جانے والے تھے ۔
رات کے ساڈھے بارہ بج چکے تھے ۔ ان دونوں کا ارادہ اس وقت آرام کرنے کا تھا اسی لیے وہ دونوں پہلے ہوٹل کی طرف ہی گئے 
پورا گھر قہقہوں کی آوازوں سے گونج اٹھا تھا ۔سب نوکر ابھی ابھی ہی چھٹی کر کے اپنے اپنے سرونٹ کوارٹر کی طرف گئے تھے ۔
اس کی خوشی سے چہکتے آواز باہر تک آ رہی تھی ۔
اور اس کی اس آواز کے ساتھ ساتھ آسیہ بی بی کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔
راحیل صاحب نے انہیں بہت سمجھایا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔جبکہ اندر سے وہ خود بھی بہت گھبرا چکے تھے
 اس کمرے سے سسکیوں اور رونے کی آوازیں تو اکثر آتی تھی لیکن اس طرح کی آواز کبھی نہ آئی تھی ۔
آج اسے کس چیز کی خوشی ملی تھی وہ کوئی نہیں جانتا تھا ۔
راحیل شہریار کو فون کریں میرا دل بہت گھبرا رہا ہے ۔آسیہ نے روتے ہوئے کہا ۔
آسیہ بیگم رونے والی کوئی بات نہیں ہے اس طرح سے گھبرانا بند کریں کینیڈا میں اس وقت ساڈے گیارہ بج رہے ہوں گے اس وقت وہ آفس میں ہوتا ہے ہمیں اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہیے ۔
نہیں راحیل میرا بیٹا مصیبت میں ہے ورنہ وہ اس طرح سے خوش نہیں ہوتی کچھ تو ہوا ہے پلیز آپ اسے فون کریں آسیہ کے رونے پر راحیل صاحب شہریار کو فون کرنے پر مجبور ہوگئے ۔
وہ بار بار شہریار کے نمبر پر ٹرائی کر رہے تھے مگر اس کا فون بند جا رہا تھا کافی بار کوشش کرنے کے بعد بھی فون نہ لگا تو انہوں نے ایک نظر آسیہ کو دیکھا جو بہت بری طرح سے رورہی تھی 
انہیں اس طرح سے روتے دیکھ کر وہ شہریار کا واٹس ایپ نمبر ملانے لگے جو پہلی بار میں ہی لگ گیا 
انہیں  ہوٹل پہنچتے پہنچتے رات کا ایک بجا چکا تھا اس وقت وہ کھانا کھا رہے تھے جب شہریارکا فون بجا ۔
بابا کا فون آتے دیکھ کر وہ ایک پل کے لیے کنفیوز ہوا تھا 
کیونکہ وہ ان سے جھوٹ نہیں بولنا چاہتا تھا لیکن مجبور تھا فون اٹھانے کے بعد انہوں نے پہلا سوال یہ پوچھا  شہریار تم ٹھیک ہو نا ۔
جی بابا جان میں بالکل ٹھیک ہوں آپ نے اس وقت فون کیاشہریار کو اندازہ نہ تھا کہ اس وقت کینیڈا میں کیا وقت ہوا ہے ۔
تم آفس میں ہو کچھ ضروری کام کر رہے تھے کیا میں نے ڈسٹرب کر دیا راحیل صاحب نے بالکل نارمل ہو کر بات کی تھی تاکہ ان کے لہجے سے اسے کچھ محسوس نہ ہو ۔
جی بابا میں آفس میں تھا بس ایک ضروری میٹنگ تھی آپ بتائیں کچھ ضروری کام تھا کیا شہریار نے بات بناتے ہوئے کہا 
ارے نہیں بس ایسے ہی دل کر رہا تھا تم سے بات کرنے کو اور تمہاری امی بھی تمہیں بہت مس کر رہی تھی انہوں نے فون آسیہ بیگم کی طرف بڑھاتے ہوئے انہیں رونے سے منع کیا تھا ۔
السلام علیکم امی کیسی ہیں آپ ۔اگر مجھے اتنا ہی مس کر رہی ہیں تو میرے پاس آ جائے کچھ دنوں کے لیے ۔کیونکہ میں بھی آپ کو بہت مس کر رہا ہوں آسیہ بیگم کہ بولنے سے پہلے ہی شہریار بول پڑا 
وعلیکم السلام میں ٹھیک ہوں ۔ہاں میں بھی یہی سوچ رہی تھی کہ کچھ دنوں کے لیے تمہارے پاس آ جاؤں آسیہ بیگم نے اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے اسے بہلایا ۔
تو اس سے اچھی اور کیا بات ہوسکتی ہے شہریار کی آواز کی خوشی وہ محسوس کر سکتی تھی  تھوڑی دیر مزید اس سے باتیں کرنے کے بعد آیسہ بیگم کافی حد تک نارمل ہو چکی تھی ۔
فون بند کرتے ہوئے بھی انہوں نے سے بہت ساری ہدایات دی تھیں جن پر عمل کرنے  کا وعدہ کرتے ہوئے شہریار نے فون بند کر دیا اپنے والدین کے اتنے قریب ہو کر بھی وہ ان سے مل نہیں سکتا تھا اس بات نے اسے اداس کر دیا تھا 
شہریارمجھے باہر بلا لیں ۔
آپ کو پتہ ہے آپ کی اجازت کے بغیر میں باہر نہیں آسکتی 
مجھے اجازت دیں نا کہ میں باہر آجاؤں ۔
شہریار نے تکیہ اٹھا کر اپنے دونوں کانوں کے ساتھ دبایا ۔
لیکن اس کے باوجود بھی آواز بند نہ ہوئی ۔
شہریار میں آپ کے پاس آنا چاہتی ہوں۔ مجھے باہر بلائیں
 اپنے پاس 
اب تو بہت ہوگیا ختم کریں یہ سزا ۔محبت کرنے کی بھی بھلا کوئی اتنی بڑی سزا دیتا ہے ۔
شہریار نے تکیہ ہٹا کر اپنے ہاتھ اپنے دونوں کانوں پر رکھے  لیکن آواز پھر بھی بند نہ ہوئی ۔
شہریار محبت کا امتحان اتنا جان لیوا  تو نہیں ہوتا ۔
میں کب تک انتظار کروں آپ کا تھک چکی ہوں نکالیں نے مجھے باہر ۔
اس سے پہلے کہ میرے عشق کی انتہاہوجائے ۔
اس سے پہلے کہ میرا عشق ٹوٹ پھوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائے ۔
مجھے اپنے قریب بلالیں مجھے باہر نکالیں یہاں سے مجھے اجازت دیں اپنے قریب آنے کی ۔
روز کی طرح آج اس آواز میں سیسکیاں اور آنسو شامل نہ تھے لیکن شہریار پھر بھی اس آواز سے اس حد تک بیزار تھا کہ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا ۔
دوسرے کمرے میں زیان شاید اس وقت گہری نیند سو رہا تھا ۔
وہ اٹھ کر ہوٹل سے باہر نکل آیا سوائے ہوٹل مینیجر کے اس وقت یہاں اور کوئی نہ تھا ۔
سنو یہاں کوئی کلب وغیرہ کی جگہ ہے کیا اس نے مینیجر سے پوچھا تو وہ ذومعنی انداز میں مسکرایا ۔
کیوں نہیں سر بیسمینٹ  میں آپ کو آپ کی خدمت کا ہر سامان ملے گا ۔
شہریار سمجھ چکا تھا کہ وہ کس بارے میں بات کر رہا ہے لیکن اس وقت وہ اس کی غلط فہمی دور کرنے کا کوئی ارادہ نہ رکھتا تھا اس وقت وہ صرف اس آواز سے جان چھڑانے کے لئے کوئی جگہ تلاش کر رہا تھا ِ۔ 
وہ مینیجر کی بتائی ہوئی جگہ پر آگیا یہاں بالکل کلب سا  ماحول تھا ۔
اور کافی شور شرابہ تھا وہ ایک طرف ہو کر کرسی پر بیٹھ گیا ۔
شاید وہ دنیا کا پہلا انسان تھا جو پرسکون ہونے کے لئے لوگوں کے ہجوم کو ڈھونڈا کرتا تھا 
زیان صبح میٹنگ اٹینڈ کرنے کے لیے جاچکا تھا جبکہ اس دوران شہریار نے اپنی نیند پوری کی تھی جورات کو بھی ان آوازوں  کی وجہ سے پوری نہ ہوسکی تھی ۔
ذیان میٹنگ اٹینڈ کر کے آیا تو شہریار بھی اپنی نیند پوری کر چکا تھا اب ان کا ارادہ کہیں باہر گھومنے پھرنے کے لئے جانے کا تھا ۔
اس وقت وہ مارکیٹ میں اپنے لئے کچھ خرید رہے تھے 
یار سب سے پہلے تو ایک سم کارڈ لینا پڑے گا  
کیونکہ وائی فائی سروسز ایشو کر رہی ہیں یہاں ۔
ذیان نے ایک دکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو شہر یار بھی اس کے ساتھ ہی  اندر آگیا ۔
سم کارڈ ایشو کرواتے ہوئے شہریار کی نظر اپنے بالکل قریب کھڑی ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی پر پڑی ۔
شکل سے وہ اتنی معصوم لگ رہی تھی کہ شہریار کو اپنے دل کے بہت قریب لگی ۔
نہیں بھیا یہ والا نہیں وہ والا موبائل فون دکھائیں ۔اس نے مسکراتے ہوئے سامنے دوسرے فون کی طرف اشارہ کیا تو آدمی نے بےزار سے شکل بناتے ہوئے فون اٹھا کر اسے دیا ۔
وہ کافی دیر سے کھڑی تھی شاید یہاں اسی لیے دوکاندار اس سے کافی مایوس لگ رہا تھا ۔
یہ بھی اچھا نہیں ہے کوئی اور دکھائیں کوئی اچھا سا دکھائیں وہ فون کو ٹٹولتے ہوئے ایک سائیڈ پر رکھ چکی تھی ۔
شہریار کافی دلچسپی سے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا  زیان نے بھی یہ بات نوٹ کرلی تھی ۔
آپ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے آپ کو میں نے کہیں دیکھا ہوا ہے وہ جو کب سے اس سے بیزار تھا اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے بولا 
اور شاید آپ نے مجھے دیکھا ہو گا میں آگے بھی اس مارکیٹ میں آتی رہتی ہیں ۔اس نے اگنور کرتے ہوئے دوسرا فون دیکھنے لگی ۔
نہیں میں نے کہیں دیکھا ہے آپ کو شاید میں آپ کو جانتا ہوں دکاندار شاید کوئی ٹھرکی آدمی تھا جو اس سے باتیں کرنے میں مصروف ہوگیا ۔
شاہد خان آفریدی کو جانتے ہیں آپ لڑکی نے چہرے پر معصومیت سجائے پوچھا دوکاندار کی آنکھیں کھل گئی 
ہاں بالکل جانتا ہوں انہیں کون نہیں جانتا ۔
وہ میرے کزن ہیں دوکاندار کے ہاتھوں سے فون چھوٹتے ہو چھوٹتے بچا ۔
جبکہ زیان اور شہریار کی ہنسی نکل گئی ۔
کیا سچ میں ۔۔۔۔
اس میں جھوٹ بولنے والی کونسی بات ہے شاہد خان آفریدی کوئی دوسرے پلانٹ کا تھوڑی ہے جو اس کے رشتہ دار نہیں نکل سکتے میں اس کی کزن سسٹر ہوں اگر آپ چاہیں تو قسم لے لیں ۔
وہ والا فون دکھائیں وہ دکاندار کی ایکسپریشنز کو اگنور کرتے ہوئے بولی ۔لڑکی کا اتنی بڑی بات  کو اس طرح سے اگنور کرنے پر دکاندار کو یقین ہوگیا تھا کہ وہ شاہد خان آفریدی کی کزن سسٹر ہے 
یہ والا کیوں آپ یہ والا لے دوکاندار نے سب سے مہنگا فون نکالا
ارے نہیں نہیں یہ میرے بچٹ سے باہر ہے لڑکی نے پریشانی سے کہا ۔
ارے ہمارا دماغ خراب ہے جوہم شاہد خان آفریدی کی بہن سے کچھ مانگیں گے ارے یہ تو پوری دکان آپ کی ہے آپ جو چاہے  لے لے آپ کو بلا پیسوں کی کمی ہے کیا ۔آپ بس یہاں آتی رہیے گا بس ایک شاہد خان آفریدی کا آٹوگراف مل جائے تو بڑی مہربانی ہوگی آپ کی 
دکاندار نے خوشامدی انداز میں موبائل اس کے ہاتھ میں پکڑایا 
جبکہ ساتھ کھڑی اس کی سہیلی پریشان ہو چکی تھی 
مہر چلو ۔ہمیں دیر ہو رہی ہے لالا انتظار کر رہے ہوں گے ۔
لڑکی نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا جبکہ ان کے ساتھ زیان اور شہریار بھی باہر نکل آئے ۔
اور ان کے ساتھ ہی لفٹ کا بٹن دبا کر نیچے والے فلور میں جانے لگے 
مہر تیرا دماغ خراب ہے کیا تو نے اسے جھوٹ کیوں بولا کہ تو شاہد خان آفریدی کی کزن ہے ۔تجھے پتا ہے اگر ہم پکڑے گئے تو کیا ہوگا اتنا مہنگا فون اٹھانے کی ضرورت کیا تھی  ۔
وہ دھیمی آواز میں اس پر چیخ رہی تھی شاید لفٹ میں موجود دو لڑکوں کا لحاظ کر رہی تھی ۔
اس میں اتنا پریشان ہونے والی کونسی بات ہے اور ایک اور بات یاد رکھنا مہرخان فریدی کبھی جھوٹ نہیں بولتی ۔
اور نجمہ خالہ کے بیٹے کا کیا نام ہے بتا مجھے ۔
وہ اس پر چڑھ دوڑی لڑکی نے سوچتے ہوئے شاہد نام لیا ۔
جی ہاں شاہد اور ہماری قوم کیا ہے آفریدی اور بلادری  پٹھان تو کیا ہوا شاہد خان آفریدی ۔
مہر نے خاصی اونچی آواز میں اسے کسی میتھ کے سوال کی طرح سمجھایا تھا ۔
جبکہ دوسری لڑکی اسےخاموش رہنے کا اشارہ کر رہی تھی کہ لفٹ میں دو لڑکے موجود ہیںں
 ارے ان سے کیا گھبرا رہی ہیں انگریزوں کی اولاد ہیں شکل سے نہیں لگ رہا ۔مہر نے لاپروائی سے کہا جبکہ اپنے متعلق اس تبصرے پر شہریار اور زیان نے  ایک دوسرے کو دیکھا تھا 
ویسے ایک بات ہے کہ انگریزہمارے پاکستان کا سارا حسن چرا کے لے گئے شکل دیکھ ان کی کتنے بیوٹیفل ہیں  مہر نے لڑکی کو دیکھتے ہوئے لڑکوں کے حسن کو سراہا تھا ۔
جب لفٹ نیچے والے فلور پر آرکی ۔
شہریار اور زیان لفٹ سے باہر نکل چکے تھے جبکہ مہر اور دوسری لڑکی نے شاید ابھی مزید نیچے جانا تھا
 ویسے آپ سے ایک بات کہنی تھی شہریار نےمڑتے ہوئے کہا جبکہ اسے اردو بولتے دیکھ کر مہر کا منہ کھل چکا تھا 
لڑکے بیوٹیفل نہیں ہینڈسم  ہوتے ہیں ۔لفٹ بند ہوتے وقت زیان کا قہقہ بے ساختہ تھا ۔
جبکہ لفٹ میں موجود دونوں لڑکیوں کے منہ حیرت اور صدمے سے کھلے ہوئے تھے

   1
0 Comments