Orhan

Add To collaction

عشق

عشق
از قلم اریج شاہ 
قسط نمبر4

💕
جانے کیا وجہ تھی کہ شہریار آج پرسکون تھا اس کے ذہن میں صرف ایک ہی لڑکی کا خیال تھا ۔
رات کا ڈیڑھ بج رہا تھا دل اور دماغ پر مہر بڑی طرح سے سوار تھی آج نہ تو اسے کسی چیز کا ڈر تھا اور نہ ہی کسی چیز کی فکر 
آج تو اسے خیال بھی نہ آیا کہ وہ آواز کچھ ہی دیر میں ایک بار پھر سے اس کے ہر خیال پر سوار ہو جائے گی ۔
نا تو اسے نیند آ رہی تھی ۔اور نہ  ہی آج وہ کسی بھیڑوالی جگہ پر جانا چاہتا تھا آج تو وہ تنہا رہ کر صرف مہر کو سوچنا چاہتا تھا 
وہ اسے سوچے جا رہا تھا کیوں وہ خود بھی نہیں جانتا تھا ۔
وہ کوئی اتنی خوبصورت بھی نہ تھی اس سے کہیں زیادہ حسین لڑکیاں وہ اپنی زندگی میں دیکھ چکا تھا لیکن نہ جانے مہر میں کیا تھا ۔
وہ اپنا دھیان آگے پیچھے کسی اور بات میں لگانے کی کوشش کرتا تو پھر سےمہر اس کے ذہن و دل پر سوار ہو جاتی ایک بار لیا گیا نام  اسے اکثر یادنہیں رہتا تھا لیکن نہ جانے کیوں مہر کا نام وہ بھلا بھی نہیں پایا تھا 
مارکیٹ سے واپس آنے کے بعد زیان نے اسے کہا گھمونے چلو لیکن نہ جانے کیوں شہریار کا دل ہر چیز سے اٹھ چکا تھا 
وہ صرف مہر کو سوچنا چاہتا تھا ۔
وہ تو اس کے نام کے علاوہ اس کے بارے میں کچھ بھی نہ جانتا تھا اسے تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ شاید زندگی میں آگے کبھی اس کی اس لڑکی سے ملاقات بھی ہوگی یا نہیں ۔
لیکن سچ کہتے ہیں لوگ دل پر کسی کا زور نہیں چلتا ۔
اور اس وقت وہ اپنے دل کے ہاتھوں بےحد مجبور تھا ۔
وہ جتنا مہر کو اپنی سوچ سے نکالنے کی کوشش کرتا وہ اتنی ہی اس کی ہر سوچ پر سوار ہوگئی
۔
💕
مہر تم ابھی تک جاگ رہی ہو بیٹا ۔
آدھی آدھی رات تک جاگ کر کیا کرتی رہتی ہو تم ۔اس کے ہاتھ میں فیری ٹیل بک دیکھ کر امی نے اس کے  ہاتھ سے کتاب لینا چاہیں 
اوہو مما پلیز تھوڑی دیر کے بعد ہے ابھی رکھ دوں گی 
تقریبا اینڈ پے ہوں اگر یہاں پر چھوڑ دیا تو سارا مزہ خراب ہو جائے گا ۔
مہر نے منت بھرے انداز میں کہا ۔  
 کچھ دن کے بعد تمہاری بہن کی شادی ہے اور تم ساری ساری رات جاگ کر یہ کتابیں پڑھتی رہتی ہو ۔
اگر کچھ سیکھنے والی کتابیں ہوں  تو الگ بات ہے یہ پریوں کی داستان اس سے حقیقی دنیا کا کوئی تعلق نہیں ہوتا رابعہ نے بیٹی کو سمجھاتے ہوئے کہا 
نہیں مما اصل زندگی میں پریاں ہوتی ہیں 
اور وہ آج بھی دنیا میں موجود ہیں مجھے یقین ہے ۔
لیکن ہر کسی کے سامنے وہ نہیں آتی وہ صرف خوش قسمت لوگوں کو نظر آتی ہیں  
میری تو خواہش ہے کہ میں کسی پری کو اپنی زندگی میں دیکھوں مہر نے حسرت سے کہا تو رابعہ نے نفی میں گردن ہلائی ۔
جتنی خوبصورت یہ کہانیاں ہوتی ہیں نہ مہر اصل زندگی میں ایسا نہیں ہوتا ۔
پریوں کو پریوں کی کہانی تک محدود رکھو ان کی خواہش اپنی زندگی میں مت کرو ورنہ پچھتاوگی ۔رابعہ نے اس کے ہاتھ سے کتاب چھین کر اپنے پاس رکھ لی
 مما وعدہ کرتی ہوں میں یہ اینڈ سے پڑھ کر بس سو جاؤں گی بس تھوڑی دیر اور ۔
مہر میں نے کہا جا کر سو جاؤ بہت وقت ہوگیا ہے رابعہ نے غصے سے کہا تو مہر منہ بناتے ہوئے اپنے بیڈ پر آگئی
 جب دھیان اچانک ہی دوپہر والے ان دو لڑکوں پر چلا گیا جو اس کا مزاق اڑا کر گئے تھے ۔
زندگی میں کبھی تو تم دونوں سے دوبارہ ملاقات ہوگی نہ دیکھنا اس بےعزتی کا بدلہ میں کیسے لیتی ہوں مہر  دل ہی دل میں عہد کرتی نیند کی وادیوں میں گم ہوگئی 
💕
سکندر پہلی بار علی کے آبائی گاؤں آیا تھا یہ اتنی خوبصورت جگہ تھی کہ سکندر یہیں کا ہو کر رہ جانا چاہتا تھا ۔
وہ تین دن سے یہاں تھا اور واپس جانے کا اس کا کوئی ارادہ نہ تھا ۔
اس وقت وہ اس پرسرار پہاڑی کے قریب تصویریں بنا رہا تھا جب علی نے اسے واپس کرنے کے لئے کہا ۔
چلتے ہیں یار تھوڑی دیر میں کچھ فوٹو تو لینے دے سکندر نے اسے ٹالتے ہوئے کہا تو وہ اس کے ساتھ چل دیا ہم اور اوپر نہیں جائیں گے سکندریہ پہاڑی پرسرارہے ۔
ہمیں یہیں سے واپس جانا چاہئے 
یہ علاقہ خطرناک ہونے کی وجہ سے علی کے والدین یہ علاقہ چھوڑ کر کافی سال پہلے ہی شہر شفٹ ہو چکے تھے اور وہیں پر سکندر اس کا دوست بنا تھا سکندر کو آگے پیچھے گھومنے کا شوق تھا اور علی بھی اس کے شوق میں اس کا بھرپور ساتھ دیتا تھا ۔
اس بار علی بہت عرصہ سے ہی اپنے آبائی گاؤں جانے کا پلان بنا رہا تھا جب سکندر بھی اس کے ساتھ ہی یہاں آگیا اور تب سے ہی اس کا واپس جانے کا کوئی ارادہ نہ تھا یہ پراسرار پہاڑی اسے اپنی طرف کھینچتی تھی ۔
جبکہ علیا سے کتنی بار اس طرف جانے سے منع کر چکا تھا 
علی پہاڑی کے اس طرف ندی بہہ رہی ہیں وہ پہاڑی کی چوٹی پر کھڑا علی کو آواز دے رہا تھا جو اس سے کافی فاصلے پر تھا وہ مزید اوپر نہیں جانا چاہتا تھا بلکہ اسے بھی واپس چلنے کے لئے کہہ رہا تھا لیکن سکندر  نے کسی کی بات ماننا تو اس نے سیکھا ہی نہ تھا ۔
بس سکندر بہت ہوگیا اندھیرا ہونے والا ہے میں جارہا ہوں اگر تجھے آنا ہے تو آعلی کے پاس بس یہی آخری راستہ تھا وہ جانتا تھا کہ وہ اکیلا یہاں نہیں رکے گا کیونکہ اسے واپسی کا راستہ ٹھیک سے پتا نہ تھا ۔
اوکے فائن چلو لیکن ہم صبح یہاں واپس آئیں گے سکندر نے شرط رکھتے ہوئے کہا تو علی نے گردن ہلائی اور شکر ادا کیا کہ کم ازکم کو اس کے ساتھ واپس آ رہا تھا ۔
پہاڑی سے اترتے وقت سکندر نے ایک نظر اس پہاڑی کی طرف دیکھا ۔
یار کتنی خوبصورت جگہ ہے وہ بے ساختہ بولا تھا 
خوبصورت سے کہیں زیادہ یہ پرسرار اور خطرناک جگہ ہے سکندر چلو یہاں سے علی اسے سمجھاتا ہوا آگے بڑھ چکا تھا جبکہ سکندر اس کے ڈر پر نفی میں گردن ہلا تا اس کے پیچھے آیا۔ 
جب اچانک اسے یوں محسوس ہوا کہ کوئی پیچھے سے اسے دیکھ رہا ہے وہ ایک بار پھر سے رکا پیچھے پہاڑی کی طرف دیکھنے لگا لیکن وہاں دور دور تک کوئی نہ تھا ۔
وہ سر جھٹکتا آگے کی طرف جانے لگا
 جب اسے پیچھے سے پھر اسی طرح سے نظروں کا حصار محسوس ہوا ۔
کیا ہوا چل نا علی نے اسے پیچھے دیکھتے ہوئے کہا تو وہ  اس کے پیچھے آیا ۔
آگے کی طرف قدم اٹھاتے ہوئے سکندر کو ایسے محسوس ہوا جیسے پیچھے کوئی بہت مایوسی سے اسے جاتا دیکھ کر ۔
کسی کی نظروں کے حصار نے  اسے  ایک بار پھر سے پیچھے دیکھنے پر مجبور کردیا ۔
لیکن ہر بار کی طرح اس بار سکندر کو کوئی مایوسی نہ ہوئی تھی اسی پہاڑی کی چوٹی پر اسے سفید لباس میں ایک خوبصورت لڑکی نظر آئی
 اتنی  دور سے وہ دیکھ نہیں سکتا تھا کہ وہ خوبصورت ہے یا نہیں لیکن سکندر کو ایسا لگا جیسے وہ اسے  دل کی نظروں سے دیکھ رہا ہو۔
بے شک اس سے زیادہ خوبصورت لڑکی سکندر نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی تھی ۔
اس لڑکی کو دیکھتے ہوئے اس کے لب مسکرائے تھے ۔
سکندر اب کیوں روکا ہے چل یہاں سے علی نے پھر سے پکارا تو سکندر نے پہاڑی کی چوٹی کی طرف اشارہ کیا 
کیا ہے۔ ۔۔۔؟علی نے پہار دیکھتے ہوئے پوچھا 
جبکہ سکندر کی نظروں نے اس بار وہاں کسی کو بھی نہ دیکھا تھا 
ارے وہ ابھی ۔۔۔۔۔سکندر کچھ بولتے بولتے رک گیا 
جبکہ علی پریشانی سے اسے دیکھنے لگا تھا 
وہاں کیا سکندر۔۔۔۔۔؟ علی نے خوفزدہ انداز میں پوچھا ۔
کچھ نہیں ۔۔۔مجھے لگا جیسے میں اپنے سگریٹ کی ڈبی وہاں گراآیا ہوں سکندر نے بہانہ بنایا نہ جانے کیوں علی کو اس بارے میں نہیں بتایا تھا ۔
بازار برا پڑا ہے مل جائیں گے اور چل یہاں سے علی نے اس بار خفگی سے کہا تو وہ مسکراتا ہوا اس کے ساتھ آیا
💕
وہ کافی دیر سے سونے کی کوشش کر رہا تھا کبھی اس طرف کروٹ بدلتا تو کبھی اس طرف  اکثر اس وقت سے پہلے سو جاتا تھا لیکن نہ جانے کیوں آج مہر کی باتوں نے سونے نہ دیا 
اس لڑکی کو دیکھے ہوئے ابھی مشکل سے اسے چند گھنٹے ہوئے تھے وہ اتنی خوبصورت تو نہ تھی کہ وہ اس کی وجہ سے اپنی نیند خراب کر تا۔
کچھ ہی دیر میں ان آوازوں کا سلسلہ پھر سے شروع ہونے والا تھا شہریار کو ہمیشہ سے لگتا تھا کہ وہ آواز صرف  اس کا وہم ہے ورنہ ان آوازوں کو کوئی اور بھی تو سنتا  صرف اسے ہی وہ آوازیں کیوں آتی ہیں ۔
یہی وجہ تھی کہ اب ان آوازوں کا خوف اس کے اندر ختم ہوچکا تھا ۔
 اس نےڈاکٹر سے بھی اپنا چیک اپ کروایا تھا اور ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ یہ صرف ایک وہم ہے اور کچھ نہیں ۔
اسی لئے شہریار نے بھی آہستہ آہستہ گھبرانا چھوڑ دیا ۔
وقت دو سے اوپر جا چکا تھا اسے اس وقت تک اس طرح کی کوئی آواز نہ آئی ۔
آج سے صحیح معنوں میں یقین ہوچکا تھا کہ وہ آوازیں صرف وہم ہے اور کچھ نہیں ۔
ورنہ آج جب وہ خود ان آوازوں کا منتظر ہے وہ انتظار کر رہا ہے کہ کب اسکی نیند خراب ہو تو وہ آوازاسے کیوں نہیں آ رہی کیونکہ وہ لاشعوری طور پر اس وہم کو حقیقت میں بدلتےدیکھنا چاہتا تھا 
وہ اپنا سر جھٹکتا بیڈ پر آ گیا ۔
اور ایک بار پھر سے مہر اس کے چاروں طرف حاوی ہونے لگی
کیا چیز ہے وہ لڑکی اس نے ہنستے ہوئے کروٹ بدلی ۔
مہر خان آفریدی ۔۔۔۔۔تم سے تو ملنا پڑے گا ۔شہریار مسکراتا ہوا اس بار سیدھا ہو کر لیٹا اور چھت کو گھورنے لگا نا جانے کیوں آج اسے کمرے کے ہرایک کونے میں مہر کا عکس محسوس ہورہا تھا ۔
ابھی تک وہ مہر کو محسوس کر رہا تھا جب اسے خود اپنا آپ کسی کی نظروں کے حصار میں محسوس ہوا اس نے کمرے کے چاروں طرف نظریں گھمائیں لیکن وہاں کوئی بھی موجود نہ تھا وہ اپنا وہم سمجھتا ہوا لائٹ آف کر کے لیٹ گیا ۔
پھر اسے محسوس ہوا کہ کوئی بہت قریب اس کے بیٹھا اسے گھور رہا ہے کوئی ہے اس کے کمرے میں اس کے علاوہ بھی ۔
اس نے لائٹ آن کی اور  کمرے کو دیکھا لیکن کوئی بھی نہیں تھا ۔
کیا ہو رہا ہے مجھے وہ بڑبڑاتا ہوا واپس لیٹ گیا ۔
ابھی اسے لیٹے ہوئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک بار پھر سے اسے اپنے قریب کوئی محسوس ہوا ۔
اسے لگ رہا تھا کہ جو بھی کوئی اس کے قریب ہے وہ اس سے سخت خفا ہے ۔
لیکن اسے نظر کوئی نہ آیا ۔
تھوڑا وقت مزید سرکا ۔اسے اپنے سینے پر دباؤ محسوس ہوا اس طرح کا دباؤ کہ اسے لگا کے کوئی اس کا دل اپنی مٹھی میں بھیجے مسل رہا ہو
اس کے دل سے درد کی ٹھیسیں  اٹھنے لگی ۔
اس کے سانس اکھڑنے لگی ایسا محسوس ہوا جیسے سانسوں کی ڈوری ابھی ٹوٹنے والی ہو ۔
اس نے اٹھنے کی کوشش کی چلانا چاہا لیکن اس کی زبان تلو سے چپک چکی تھی ۔
خوف سے پورے جسم پر پسینہ آ چکا تھا ۔وہ پوری طرح سے پسینے میں بھیگ چکا تھا ۔
درد کی شدت نہ سہتے   ہوئے اس کی سانسیں اکھڑنےلگی
۔اسے لگا کے مزید اگر دو منٹ وہ اسی کیفیت میں رہا تو وہ یقیناً مر جائے گا اسے اپنی موت آپنے بالکل قریب محسوس ہو نے لگی ۔
جب اسے اپنے کان کے بلکل قریب آواز سنائی دی ۔
اس دل پر اور تم پر صرف ساریسہ کا حق ہے خبردار جو تم نے اس دل میں کسی اور کو بسانے کی کوشش کی ۔میرے بائیس سال کا انتظار بےمول مت کرو شہریار اگر میں مر بھی گئی تو بھی تمہیں زندہ نہیں رہنے دوں گی تمہارے سانسوں کی ڈوری میری سانسوں سے جڑی ہے ۔
میرے ساتھ بے وفائی کرنے کی غلطی ہرگز مت کرنا ۔
عشق کیا ہے تم سے ہر عشق کی انتہا کر کے ۔
بہت مشکل سے یہاں تک آئی ہوں میری بدقسمتی  دیکھو کہ میں تمہیں چھو تک نہیں سکتی سواۓ تمہارے دل کے تمہیں محسوس کرنے کا بھی حق نہیں دیا گیا مجھے ۔
22 سال سے پل پل تڑپی ہوں میں لیکن تمہاری اجازت کے بغیر میں آزاد بھی نہیں ہو سکتی ۔
لیکن تمہارے عشق سے میں آزاد ہونا بھی نہیں چاہتی ۔
اپنے دل پر قابو کرو جو ساریسہ کا ہے وہ صرف ساریسہ کا ہے سنا تم نے تم صرف ساریسہ کے ہو
اپنےبالکل قریب یہ آواز محسوس کرتا اسے اپنے اوپر بوجھ کم ہوتا محسوس ہوا ایسے لگا جیسے اس کے دل کو کسی نے اچانک آزاد کر دیا ہو
وہ زندگی کی طرف لوٹ آیا تھا ۔
شہریار نے فورا لائٹ ان کی پورے کمرے کا جائزہ لیا لیکن یہاں کوئی نہ تھا اور شیشے کے سامنے آ کر رک اور تیزی سے اپنی شرٹ اتارنے لگا 
کیا یہ میرا وہم تھا وہ سوچ رہا تھا ۔
جب نظر سامنے شیشےپردل کے مقام پر ہاتھ کا چھاپا تھا یہ وہم نہیں حقیقت تھی ۔
شہریار نے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھا اس کا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا جیسے ٹوٹی ہوئی سانسوں کا سلسلہ واپس جڑ رہا ہو ۔
اس وقت بھی خوف سے اس کا جسم کانپ رہا تھا سامنے نظر آتا اپنے سینے کے بیچ ہاتھ کا نشان اسے مزید خوف میں مبتلا کر رہا تھا ایک بات تو آج کلیئر ہوگئی تھی وہ آواز  وہم نہیں بلکہ حقیقت تھی کوئی تو تھا جس کا وجود اس کے ساتھ جوڑ ہوا تھا

   1
0 Comments