Orhan

Add To collaction

عشق

عشق
از قلم اریج شاہ 
قسط نمبر5

وہ جب بھی آنکھیں بند کرتا وہ  اس کے سامنے آکر کھڑی ہو جاتی ۔
اسنے شاید ہی زندگی میں اتنی خوبصورت لڑکی دیکھی ہوگی اس کی آنکھیں اس کی خوبصورت مسکراہٹ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سکندر اس کے چہرے میں کھونے  لگا ۔
نیند تو آنکھوں سے جیسے روٹھ چکی تھی۔
اس کا دل چاہا کہ وہ ایک بار پھر سے اسی پہاڑی پر چلا جائے اور اس لڑکی کے بارے میں پتہ کرےآخر وہ کون تھی پہاڑی پر کیا کر رہی تھی ۔
جبکہ اس پہاڑی کی طرف تو سکندر نے کوئی گھر کوئی مکان نہ دیکھا تھا صرف ایک ندی تھی 
ایک بہت ہی خوبصورت ندی بہتا صاف شفاف پانی
ہر گزرتے لمحے کے ساتھ وہ سکندر کے حواس پر چھاتی چلی جا رہی تھی ۔
وہ اس وقت بےچینی سے اگلے دن کا انتظار کر رہا تھا کہ کب وہ اس پہاڑی پر واپس جاکر اس پری وش کو دیکھے گا ۔
اسے دیکھنے کے لئے اس سے ملنے کے لئے اس سے باتیں کرنے کے لئے اتنا بے چین تھا کہ اس کی یہ رات گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔
اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ ابھی اسی وقت وہاں واپس پاس چلا جائے ۔
💕
روز کی با نسبت آج ہوٹل میں بہت بھیڑبھار تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے پیچھے حال میں کوئی شادی ہو ۔
خوبصورت  لڑکیاں اور ہینڈسم  لڑکے ادھر سے ادھر گھوم رہے تھے ۔
زیان اور شہریار کا ارادہ اس وقت باہر کہیں جانے کا تھا ۔
لگتا ہے آج یہاں کوئی شادی ہے زیان نے کہا ۔
یار چھوڑو ہمیں کیا ۔چلو چلتے ہیں شہریار نے کہا 
اس نے رات میں اپنے ساتھ ہوا واقعہ زیان کو نہیں بتایا تھا ۔
ابھی وہ ہوٹل سے باہر نکل ہی رہے تھے کہ  ان کی نظر سامنے کھڑی لڑکیوں کے گروپ پر پری 
یار یہ تو وہی لفٹ والی لڑکی ہے ۔
زیان انجانے میں شہریار کے دل کے تار چھیڑ دیے تھے ۔
شہریار نے بے ساختہ نظراٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور پھر دیکھتا ہی رہ گیا ۔
کتنی خوبصورت ہے نہ یہ زیان بڑبڑایا تو شہریار نے غصے سے اس کی طرف دیکھا
 کمینے بھابھی ہے تیری  ۔۔۔
جانو بھابھی کی بات نہیں کر رہا بھابھی کی سہیلی کی بات کر رہا ہوں دیکھنا کتنی پیاری ہے ۔
زیان نے مہر کے ساتھ کھڑی اس دوسری لڑکی کی طرف اشارہ کیا جو اس دن اس کے ساتھ لفٹ میں بھی تھی ۔
ہاں یار اس پر  تو میں نے دھیان ہی نہیں دیا یہ بھی بہت خوبصورت ہے
 کمینے بھابھی ہے تیری زیان نے اس کے الفاظ اسے ہی واپس لوٹائے تھے 
اچھا جی ۔شہریار نے ذہ معنی انداز میں سیٹی بجائی ۔
ہاں تو تیرا دھڑک سکتا ہے میری بھابھی کو دیکھ کر تو میرا  تیری بھابھی کو دیکھ کر نہیں دھڑک سکتا زیان برا مناتے ہوئے بولا ۔ابھی ان دونوں کی بحث جاری تھی جب وہ لڑکیاں وہاں سے کہیں چلی گئی ۔
یار تیری بھابی اور میری بھابی دونوں نے ہی چلی گئی ۔
چل ڈھونڈتے ہیں شہریار نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا ۔
ابے پاگل شادی میں کسی نے نہیں بلایا ہمیں کسی نے پوچھ لیا تو کیا کہیں گے ۔
اگر سامنے والا لڑکی والاہوا تو کہیں گے ہم لڑکے والے ہیں اور اگر سامنے والا لڑ کے والا ہوا تو ہم لڑکی  والے ہیں ۔شہریار بولتا ہوا آگے بڑھ چکا تھا جبکہ زیان اس کا  لاجک سمجھتے ہوئے اس کے پیچھے آیا 
 💕
صبح علی کی آنکھ کھلی تو سکندر تیار کھڑا تھا اس کا ارادہ اسی پہاڑی پر جانے کا تھا لیکن علی اسے دوبارہ اس جگہ لے کر نہیں جانا چاہتا تھا ۔
وہ جگہ بہت پرسرار اور بہت خطرناک تھی لیکن سکندر نے اس کے بات کو سمجھنا ضروری ہی نہ سمجھا ۔
دیکھ سکندر آج ہم وہاں نہیں بلکہ کہیں اور جانے والے ہیں دو دن کے بعد ہمیں واپس چلنا ہے ہمیں ساری جگہیں دیکھنی چاہیے علی نے سمجھاتے ہوئے کہا ۔
نہیں علی مجھے واپس اسی پہاڑی پر چلنا ہے اور ویسے بھی تو کل تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم واپس وہاں آئیں گے تو بس اپنا وعدہ نبھاو چلو وہاں  
سکندر نے اٹھتے ہوئے کہا 
سکندر سمجھنے کی کوشش کرو وہ جگہ جتنی خوبصورت ہے اتنی ہی پرسرار ہے ہمیں وہاں دوبارہ نہیں جانا چاہیے 
علی بہانے بنانا بند کرو تم میرے ساتھ چل رہے ہو یا نہیں ۔بس مجھے جواب دے دو اگر تم نہیں جانا چاہتے تو میں اکیلا چلا جاؤں گا ۔
اسے مسلسل بہانے کرتے دیکھ کر اب سکندر کو غصہ آنے لگا ۔
ٹھیک ہے سکندر میں تمہارے ساتھ چلنے کو تیار ہوں لیکن ہم صرف 15 منٹ کے لیئے ہی وہاں جائیں گے ۔
میں اس خطرناک اور پرسرار جگہ زیادہ دیر نہیں رکنا چاہتا علی نے اٹھتے ہوئے کہا
 اس خوبصورت اور حسین جگہ کو پرسرار اور خطرناک کہہ کر اس کی توہین مت کر و سکندر اس کے لئے اس کے بیگ سے کپڑے نکالنے لگا جبکہ علی نہانے کیلئے جا چکا تھا ۔
اگر سکندر کو اکیلے اس جگہ کا راستہ ٹھیک سے آتا تو وہ کبھی علی کی اتنی منتیں نہ کرتا ۔
💕
حال لوگوں سے بھرا ہوا تھا نہ جانے وہ دونوں لڑکیاں کہاں گئی ۔
زیان اور شہریارہر طرف تلاش کر رہے تھے جبکہ شادی میں موجود نہ جانے کتنے ہی لوگوں نے ان کے انجان چہروں کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا ۔
جو بھی انہیں گھورکر دیکھ رہا ہوتا وہ  اسے سلام کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ۔
ابھی بھی وہ اپنی نظریں چاروں طرف گھمائے دیکھ رہے تھے جب زیان نے اسٹیج کی طرف دیکھنے پر اشارہ کیا جہاں وہ دونوں دولہن کے ساتھ بیٹھیں خوش گپوں میں مصروف تھی ۔
اور پھر دلہے کی انٹری کے ساتھ ہی انہوں نے دو لہے سے جم کر پیسے ہتھیےتھے ۔
اب وہ دونوں اس رسم کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے تاکہ وہ دونوں ان دونوں لڑکیوں سے بات کر سکیں 
💕
پہاڑی کی طرف سفر کرتے ہوئے علی بار بار اس کے کہنے پر اسے راستہ سمجھا رہا تھا  
علی کو بالکل اندازہ ناتھا کے پہاڑی پر پہنچتے ہی سکندر اسے واپس چلے جانے کا کہے گا علی نے سارے راستے میں اسے ٹھیک سے راستہ سمجھایا تھا 
اب تو وہ اکیلے بھی واپس آ سکتا تھا ۔
علی نے پہاڑی پر پہنچتے کر اپنے کہے کہ مطابق  پندرہ منٹ کے بعد واپس چلنے کو کہا تو سکندر نے اسے کہا کہ تم اکیلے چلے جاؤ اب مجھے راستہ پتہ ہے میری طرف سے تم بے فکر ہو جاؤ میں ٹائم پر پہنچ جاؤں گا سکندر کی یہ بات سن کر علی کو غصہ آنے لگا ۔
ایک تو یہ جگہ جہاں وہ اسے غلطی سے لے آیا تھا اور اوپر سے اس کا واپس نہ چلنا ۔
دیکھو سکندر میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو کوئی چھوٹے معصوم بچے نہیں ہو جسے بار بار ایک بات سمجھانی پڑے تم یہاں میری ذمہ داری سے آئے ہو اور میں تمہیں اس طرح سے اکیلا چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا ۔وہ غصے سے بولا تھا ۔
وہی تو میں کہہ رہا ہوں علی کہ میں کوئی چھوٹا معصوم بچہ نہیں ہوں جو یہاں ڈر جاؤں گا تم آرام سے جاؤ اپنے کام نپٹاو اور واپس چلنے کی تیاری کرو تب تک میں بھی یہ پہاڑی ٹھیک سے دیکھوں گا تصویریں بناؤں گا اور آجاؤں گا ۔
علی انجانے میں ہی سہی لیکن سکندر کوضد دلاوا رہا تھا اور ضد کے معاملے میں سکندر کبھی کسی کی نہیں سنتا تھا ۔
یہی وجہ تھی کہ سکندر کو اس پہاڑی پر رہنے کی ضد ہو گئی تھی اور دوسری وجہ وہ لڑکی جس کی ایک ہی جھلک دیکھ کر وہ اس کا دیوانہ ہو چکا تھا ۔
علی نے اسے واپس کرنے کے لئے بہت منانا چاہا لیکن وہ اپنی ضد پر اڑا رہا ۔
 علی اسے سمجھا سمجھا کر واپس آگیا جبکہ سکندر اسی پہاڑی کو ہر طرف سے دیکھتا اس خوبصورت ماہ جبین کو ڈھونڈنے لگا ۔
💕
نا جانے یہ لڑکیاں کون کون سی رسم ادا کر رہی تھی شہریار اور زیان ایک طرف کھڑے ہوئے ان کا انتظار کر رہے تھے جب انہیں کے قریب ایک لڑکا اپنے والدین کے ساتھ کھڑا تھا ۔
وہ شکل سے کافی ڈیسینٹ اور بہت ہینڈسم تھا پہلے اس نے زیان اور شہریار کو مسکرا کر دیکھا ۔پھر پوچھنے لگا کے آپ دونوں کون ہیں آپ کو پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔
اس کا بات کرنے کا انداز زیان اور شہریار دونوں کو بھی بہت اچھا لگا تھا ۔
پہلے آپ بتائیں کہ آپ کون ہیں زیان اسی کے انداز میں بولا تو وہ مسکراتے ہوئے بتانے لگا کے میں لڑکی کے چاچے کا بیٹا ہوں ۔
آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہم لڑکے کے دور کے رشتہ دار ہیں زیان نے جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے کہا ۔
وہ کیا ہے نہ میں شادی پر نہیں آنے والا تھا یہ تو میری مجبوری تھی کہ مجھے یہاں آنا پڑا ۔
ماما بابا زبردستی گھسیٹ لائے ورنہ مجھے اس طرح کی شادیوں کے فنکشن ہرگز پسند نہیں شاید وہ لڑکا کافی بور ہو رہا تھا اسی لیے ان سے اپنا مسئلہ شیئر کرنے لگا۔
یہ تمہارے سگے چاچاکی بیٹی کی شادی ہے بھائی لگتے ہو تم لڑکی کے  یہ ہی  نہیں بلکہ ایک بہت خاص اور بھی وجہ ہے اس کی ماما نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ دونوں ان کی طرف متوجہ ہوگئے ۔
رحمان بھائی کا ارادہ اس سے ملنے کا تھا۔ یہ پچھلے تین سال سے امریکہ میں زیرتعلیم تھا پورے خاندان میں میرے بیٹے جیسا پڑھا لکھا اور قابل جاب کرنے والا لڑکا نہیں ہے اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ اس کی شادی مہر کے ساتھ ہو جائے ۔
آنٹی نے قریب کھڑے ہو کر مسکراتے ہوئے وجہ بتائیں تو شہریار مہر کا نام سن کر حیرانگی سے دیکھنے لگا  ۔
کون مہر اس نے پوچھا تھا ۔
وہ لڑکی کھڑی ہے نہ پرپل  رنگ کے کپڑوں میں ۔دلہن کے بالکل ساتھ وہی ہے مہر اس کی ہی بہن کی شادی ہے اور اب رحمان بھائی کا ارادہ اسے بھی بیانے کا ہے 
آنٹی نے مسکراتے ہوئے شہریار کے سر پر دھماکہ کیا شہریار کو ان کی باتیں سن کر غصہ آنے لگا تھا اس لیے زیان اس کا ہاتھ تھام کر زبردستی اسے وہاں سے لے آیا ۔
💕
سکندر پوری پہاڑی کا چپا چپا چھان چکا تھا اسے یہاں آئے ہوئے دو گھنٹے سے اوپر کا وقت ہو چکا تھا لیکن ناجانے وہ لڑکی کہاں تھی اور کس طرف سے آئی تھی ۔
وہ اتنا تھک چکا تھا کہ وہی ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔
علی بھی واپس جا چکا تھا اب تو یقیناًوہ واپسی کی تیاری بھی مکمل کر چکا ہوگا ۔
آج سکندر نےاس کے ساتھ جو کیا تھا اس کے بعد تووہ ویسے بھی یہاں مزید رکھنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا ۔
سکندر کو اپنے کیے کا افسوس ضرور تھا اس کا دوست اسے بہت چاہتا تھا 
اس پہاڑی  بارے میں اس نے ضرور کچھ ایسا سنا تھا تبھی وہ اسے اتنا فورس کر رہا تھا ۔
ورنہ وہ تو خود ہی اس کے ساتھ گھومنے پھرنے انجوائے کرنے کا عادی ہے ۔
اس وقت سکندر کو بہت شدید پیاس لگی تھی ۔
اس نے کچھ فاصلے پر نیچے کی طرف بہتی ہوئی ندی کو دیکھا ۔
شکر ہے یہاں پر پانی تو موجود تھا وہ اس  ندی کی طرف چلاآیا ۔
اور ہاتھ کے سہارے سے پانی پینے لگا ۔
جب اسے اپنی بالکل نزدیک ایک ملائم سے ہنسی سنائی دی ۔
اس نے مڑکر دیکھا تو وہی خوبصورت ماہ جبین اس کے کچھ فاصلے پر کھڑی مسکرا رہی تھی  
لیکن اس کےدیکھتے ہی وہاں سے بھاگنے لگی۔
میری بات سنو میں تمہارے لیے یہاں آیا ہوں وہ اس کے پیچھے آنے لگا ۔لیکن وہ لڑکی نہ روکی
اور پھر تھوڑی دیر میں وہ لڑکی گھنے درختوں کے بیچ میں کہیں غائب ہوگئی ۔
💕
شہریار پلیز اپنا غصہ کنٹرول کر وہ لوگ مہر کا رشتہ مانگنے والے ہیں ابھی مانگا نہیں ہے ۔
زیان نے سمجھاتے ہوئے کہا 
ہاں ٹھیک کہہ رہا ہے تو وہ لوگ ابھی  مہر کا رشتہ مانگنے والے ان سے پہلے میں مہر کا رشتہ مانگوں گا 
مجھے آج ہی مامابابا سے ملنا ہوگا ۔
میں مہر پر کسی قسم کا رسک نہیں لے سکتا وہ بے چینی سے ٹہلتے ہوئے بولا ۔
اس کا غصہ کسی طرح کم نہیں ہو رہا تھا رشتہ مانگے گا مہر کا رشتہ ملنے سے پہلے اس کا منہ توڑ دوں گا میں ۔
شہریار غصے سے بڑبڑایا ۔
ہمیں لاہور چلا ہوگا مجھے ماما بابا سے اس بارے میں بات کرنی ہوگی میں مہر کو نہیں کھول سکتا گیا  
تو میری فیلنگ سمجھ رہا ہے نا اس نے یقین سے اپنے دوست کو دیکھا جس نے ہاں میں سر ہلایا 
تو فکر مت کر ہم آج ہی لاہور جائیں گے اور انکل اور آنٹی کو مہر کے بارے میں بتائیں گے ۔
💕
حویلی میں بے حد بے سکونی تھی جیسے کچھ بہت برا ہونے جارہا ہے ۔
اتنی خاموشی اس حویلی میں پہلے کبھی نہ رہی تھی ۔
ہر گزرتے لمحے کے ساتھ یہ بے چینی بڑھتی چلی جارہی تھی نہ جانے کیا ہونے والا ہے کچھ ایسا جو بہت برا ہو
یارعاقب تجھے  حویلی میں خاموشی نہیں محسوس ہورہی طاہر نے پوچھا ۔
ہاں یار کچھ عجیب لگ رہا ہے ۔صاحب اور بیگم صاحبہ تو پہلے بھی اتنا نہیں بولتے تھے لیکن پتہ نہیں کیوں تو یہ خاموشی کچھ زیادہ محسوس ہونے لگی ہے ۔
طوفان سے پہلے جیسے  ہوتا ہے نہ بالکل ویسے ہی ایسا لگتا ہے جیسے اس حویلی میں کوئی طوفان آنے والا ہے عاقب نے کہا ۔
جبکہ کچن کے دروازے پر کھڑے پرانے ملازم نے ان دونوں کی گفتگو سنتے ہوئے اس بند کمرے کو دیکھا تھا ۔
ضرور یہ طوفان اسی کمرے کی طرف سے اٹھنے والا تھا ۔
💕
علی نے واپس آتے ہی جانے کی تیاری کی تھی اس نے پہلے سکندر کا سامان پیک کیا اور پھر اپنا ۔
اب وہ مزید تھوڑا وقت بھی یہاں  نہیں رکھنا چاہتا تھا وہ مزید دودن یہاں رکھنے کا ارادہ رکھتا تھا وہ بھی کینسل ہو چکا تھا ۔
سکندر اس کی کوئی بات نہیں مان رہا تھا وہ اس کی بات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہا تھا کہ وہ پہاڑی خطرناک اور پرسرار ہے ۔
وہ بچپن سے ہی اس پہاڑی کے اتنے قصے سن چکا تھا کہ اب وہ اپنے دوست پر رسک نہیں لے سکتا تھا لیکن سکندر کو یہ ساری باتیں محض مزاق لگ رہی تھی  ۔
ابھی وہ سامان پیک کر ہی رہا تھا کہ جب اسے باہر سے ایک فقیر کی دہائی سنائی دی ۔
تم چاہے جتنی بھی کوشش کرلو وہ واپس نہیں جائے گا ۔
وہ عشق کر بیٹھا ہے ۔
پھر سے داستان لکھی جا رہی ہے ۔
صدیوں سے ہوتا آرہا ہے ایک بار پھر سے ہوگا فقیر اونچی اونچی آواز ہے بول رہا تھا ۔وہ گہری نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا تھا ۔
یقینناً وہ سکندر کے بارے میں بات کر رہا تھا 
علی کے ہاتھ کانپنے لگے تھے
 ایسا نہیں ہو سکتا۔علی بڑبڑایا تھا 
ایسا ہو چکا ہے اب تو اکیلے لوٹ جا وہ اسے واپس نہیں جانے دے گی ۔
اور نہ ہی وہ کبھی جانا چاہے گا ۔
اک پری زاد کو اک انسان سے عشق ہوگیا ۔
عشق ہوگیا ۔
اب دنیا کی کوئی طاقت انہیں روک نہیں پائے گی ۔
اپنے عشق کی راہ میں آنے والے ہر رکاوٹ کو مٹا دے گی وہ ۔
فقیر آگے بڑھتے ہوئے بولا دوردور تک اس کے یہ الفاظ علی کو سنائی دے رہے تھے 
اک پری زاد کو اک انسان سے عشق ہوگیا ۔
عشق ہوگیا

   1
0 Comments