Orhan

Add To collaction

عشق

عشق
از قلم اریج شاہ 
قسط نمبر7

یہ تم کیا کہہ رہے ہو شہریار تم کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو ۔آسیہ گھبرائے ہوئے لہجے میں سرگوشیانہ انداز میں بولی 
جی ماما میں شادی کرنا چاہتا ہوں ایک لڑکی مجھے بہت پسند ہے اور آپ لوگوں کو میرے ساتھ چل کر اس لڑکی کا ہاتھ مانگنے جانا ہوگا وہ بھی جلدی 
کیونکہ کچھ لوگ اس لڑکی کا رشتہ مانگنے والے ہیں اور وہ لوگ ان کی فیملی میں  سے ہیں وہ ضرور  مہر کا رشتہ انہیں دے دیں گے اسی لیے میں چاہتا ہوں کے آپ لوگ پہلے چلییں اور مہر کا رشتہ مانگنے میرے لئے 
لیکن یہ ممکن نہیں ہے راحیل اس کی بات کاٹتے ہوئے بولے 
کیوں ممکن نہیں ہے بابا میں مہرکی کو چاہتا ہوں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور آپ لوگوں کو میرے ساتھ چلنا ہوگاوہ ضدی لہجے میں بولا 
دیکھو شہریار میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو یہ اتنا آسان نہیں ہے ۔تمہاری شادی نہیں ہو سکتی راحیل نے سمجھاتے ہوئے کہا 
شادی نہیں ہو سکتی کا کیا مطلب ہے بابا شہریار پریشان سا انہیں دیکھنے لگا 
شاید وقت آگیا تھا اسے سب کچھ سچ بتانے کا 
دیکھو شہریار یہ نہیں ہے کہ تم مہر سے شادی نہیں کر سکتے تم کسی سے بھی شادی نہیں کر سکتے آسیہ سمجھانے والے انداز میں بولیں 
تو اس چیز کی کوئی وجہ بھی تو ہو گی شہریار انہیں دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا
 فی الحال اسے اپنے ماں باپ کی بالکل بھی بات سمجھ نہیں آرہی تھی 
دیکھو بیٹا ضد مت کرو کوئی وجہ ہی ہے جو ہم تمہیں منع کر رہے ہیں فی الحال ہم تمہارا رشتہ لے کر کہیں نہیں جا سکتے اور نہ ہی تم اس لڑکی سے شادی کر سکتے ہو بھول جاؤ اس لڑکی کو راحیل صاحب نے سمجھاتے ہوئے کہا 
کیا ہوگیا ہے بابا آپ کو میں اس سے محبت کرتا ہوں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں کچھ ہی دنوں میں اس کی فیملی ممبرز کا رشتہ لے کے آ جائیں گے اور میری پہلی محبت کسی اور کی ہو جائے گی
 اور آپ لوگ چاہتے ہیں کہ میں اسے بھلا دوں یہ ممکن نہیں ہے بابا وہ میری پہلی محبت ہے میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں اسے اپنے گھر لے کے آنا چاہتا ہوں اس کے ساتھ اپنی دنیا بسانا چاہتا ہوں 
ایک بات کان کھول کر سن لے بابا اگر بندہ اپنے مہر کو میری زندگی میں شامل نہیں کیا تومیں یہاں سے چلا جاؤں گا ہمیشہ کے لئے آپ لوگوں کو تو ویسے بھی عادت ہے مجھے خود سے دور رکھنے کی لیکن میں بھی آپ لوگوں سے دور چلا جاؤں گا مجھے وہ لڑکی چاہیے کسی بھی قیمت پر میں محبت کرتا ہوں اس سے شہریار  صدمے سے اپنے ماں باپ کو سمجھانے کی آخری کوشش کر رہا تھا 
وہ اسے کوئی وجہ بھی نہیں بتا رہے تھے اور اس کے مہر کی شادی بھی کروانے کے حق میں نہ تھے 
شہریار نے آسیہ اور راحیل صاحب کو بہت پریشان کر دیا تھا جب کہ وہ انہیں پریشان حالت میں چھوڑ کر اپنے کمرے میں چلا گیا 
آج  میں نے مہر کی ساری انفارمیشن نکالی ہے مجھے اس کے بارے میں سب کچھ پتہ چل چکا ہے میں تمہیں ایڈریس سینڈ کرتا ہوں تم اس کا رشتہ لے کر آ جاؤ 
زیان نے اسے ساری خبر دی 
تھینک یو زیان لیکن مامابابانہیں مان رہے وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ میری شادی نہیں کروائیں گے صرف مہر سے ہی نہیں بلکہ کسی سے بھی نہیں اور وجہ بھی نہیں بتا رہے 
نجانے کیا ریزن ہے لیکن جو بھی ہے وہ میرے ماں باپ ہیں میں انہیں منا لوں گا لیکن تم دھیان رکھنا تب تک مہر کے لئے اس چلکٹ کا رشتہ نہ آئے 
تم میری بات کو سمجھ رہے ہو نہ زیاد شہریار نے اسے سمجھانے والے انداز میں کہا ت  زیان نے اسے مطمئن کیا 
تم پریشان مت ہو شہر یار تم پر اپنے ماں باپ کو مناؤ انہیں یہاں لے کے آؤ جب تک تمہیں ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہے اس کو میں دیکھ لوں گا ۔
تھینک یو سو مچ زیان تم واقعی میرے سچے دوست ہو اس نے دل سے کہا تھا 
جانتا ہوں جانتا ہوں زیادہ مسکا  لگانے کی ضرورت نہیں ہے چل جا اور اپنے ماں باپ کو منازیان نے ہنستے ہوئے فون بند کیا 
شہریار بیٹا کچھ دکھاؤ تو میری جان 
آسیہ نے اس کے کمرے میں آتے ہوئے کہا وہ جب آیا تھا اس نے کہا تھا اسے بہت سخت بھوک لگی ہے 
اور پھر ڈائننگ ٹیبل سے وہ اٹھ کر اندر آ گیا بنا ایک بھی نوالا کھائے 
مجھے کچھ نہیں کھانا مجھے بس یہ پتہ ہے کہ مجھے مہر سے شادی کرنی ہے کسی بھی قیمت پر آپ لوگوں میرےساتھ چل رہے ہیں یا نہیں مجھے جواب دیں وہ ضدی لہجے میں بولا 
شہریار بیٹا یہ ممکن نہیں ہے 
لیکن کیوں ممکن نہیں ہے ماما کوئی وجہ تو بتائیں آپ کی یہ آدھی ادھوری بات میری سمجھ سے باہر ہے 
مجھے وجہ بتائیں کہ میں مہر سے شادی کیوں نہیں کر سکتا آپ مجھے وجہ بتائیں ابھی میں کھانا کھاؤں گا وہ جتنا اپنے ماں باپ سے دور رہا تھا اتنا ہی وہ ان کے دل کے قریب تھا وہ دونوں اسے دکھی نہیں دیکھ سکتے تھے 
لیکن اس کمرے کا راز بھی اس پر کھولنا ان کے بس سے باہر تھا 
نہیں ماما آپ ایسے نہیں جا سکتی آپ کو مجھے وجہ بتانی ہوگی انہیں کھڑے ہوتے دیکھ کر شہریار نے ان کا ہاتھ تھام لیا 
ہم کل صبح مہر کا رشتہ مانگنے اس کے گھر جائیں گے اور اگر وہ لوگ اس رشتے کے لئے مان گئے تو کراچی والے بنگلے میں ہی ہم تمہارا نکاح کریں گے اور وہی سے تم مہر کو لے کر ہمیشہ کے لیے کینیڈا واپس لے جاؤ گے 
بابا نے اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا 
کیا مطلب آپ لوگ نہیں چاہتے کہ میں یہاں روکوں وہ شکی انداز میں ان دونوں کو دیکھتے ہوئے بولا 
ہاں ہم نہیں چاہتے کہ تم یہاں رکو اور اب کوئی بحث نہیں ہوگی ہم تمہاری بات مان رہے ہیں اور تمہیں خاموشی سے ہماری بات ماننی ہوگی 
اب آرام سے بیٹھ کر کھانا کھاؤ راحیل صاحب نےسخت لہجے میں کہا جبکہ شہریار تو بس یہی بات سوچ کر خوش ہو چکا تھا کہ اس کے من کی مراد پوری ہونے جارہی ہے 
آخر دو گھنٹے بھوکے رہ کر اس نے اپنی خواہش پاہی ہی لی تھی 
سکندر اور علی کو واپس آئے ہوئے آج تین دن گزر گئے تھے علی جب کسی بھی حال میں نہ مانا تو سکندر نے ایک آخری بار اس کی منت کی کہ اسے اس لڑکی سے ملنے جانے دے 
علی تو اس بات کے لیے بھی تیار نہیں ہو رہا تھا لیکن سکندر کی ضد کے آگے بے بس ہوگیا اور سکندر جانے سے پہلے اس لڑکی سے ملنے گیا 
تم کہاں ہو حسین لڑکی میں آج واپس جا رہا ہوں وہ اسی پہاڑی پر کھڑا اونچی  آواز سےاسے پکار رہا تھا 
میں تم سے محبت کرتا ہوں بے پناہ محبت جلدی واپس آنے کی کوشش کروں گا لیکن میرے جانے سے پہلے تم مجھے کوئی امید تو دو میں کس امید پر واپس آؤں ۔کیا تم بھی میرے لیے وہی محسوس کرتی ہو جو میں محسوس کرتا ہوں 
مجھے کوئی تو اشارہ دوتم میرے سامنے کیوں نہیں آتی ہو ۔وہ اونچی آواز میں بول رہا تھا جب اسے اپنے پیچھے کسی کی آہٹ محسوس ہوئی 
وہ اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی آنکھوں میں آنسو لیے اسے دیکھ رہی تھی 
میں جلدی واپس آ جاؤں گا میں تم سے وعدہ کرتا ہوں میں تمہیں یہاں سے لے جاؤں گا میری دنیا میں میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے میں ایک بار اپنے ماں باپ سے اس بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں ۔
کیا تم مجھے اجازت دیتی ہو اس امید پر جانے کی کہ میرے جانے کے بعد تم میرا انتظار کروگی وہ آہستہ آہستہ چلتا اس کے قریب آیا 
میں تمہارا انتظار کروں گی لیکن اگر تم واپس نہ آئے تو میں مر جاؤں گی یاد رکھنا میری موت کے ذمہ دار تم ہوگئے ۔
میں تم سے عشق کرتی ہوں سکندر تمہارے لیے میں کچھ بھی کر جاؤں گی ۔۔ جاؤ میں تمہیں جانے کی اجازت دیتی ہوں لیکن لوٹ کے آنا میں تمہارا انتظار کروں گی ۔
اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ذرا سا مسکرا ئی اس کی مسکراہٹ نے سکندر کو دنیا کا سب سے حسین منظر دکھایا تھا 
کیا کوئی اتنا بھی حسین ہو سکتا ہے وہ تو کسی کو بھی بہکانے کا ہنر رکھتی تھی ۔
میں تم سے وعدہ کرتا ہوں میں واپس آؤں گا بس ایک بار اپنے والدین کو تمہارے بارے میں بتا دوں پھر انہیں بھی اپنے ساتھ لے کے آؤں گا تمہارے ماں باپ سے تمہارا ہاتھ مانگنے ۔
سکندر خوشی سے کہتے ہوئے اسے ایک آخری بار دیکھ کر پہاڑی اترنے لگا جہاں پہاڑی کے نیچے علی  اس کا انتظار کر رہا تھا 
۔
وہ تھوڑی دیر میں پلٹ کر دیکھتا تو وہ اسے وہیں کھڑی نظر آتی اسے یقین تھا کہ اس کے ماں باپ مان جائیں گے وہ تو اس کی ہر خواہش پوری کرتے تھے تو یہ خواہش پوری نہ کریں ایسا تو ناممکن تھا ۔
علی نیچے  گاڑی لئے اس کا انتظار کر رہا تھا جب وہ نیچے آیا تو چلنے کا اشارہ کیا 
مجھے سمجھ میں نہیں آتا تم اس پہاڑ کو پرسرار اور خطرناک کیوں کہتے ہو یقین کرو اس سے زیادہ خوبصورت پہاڑی میں نے زندگی میں نہیں دیکھی 
اس  میں ایسا کیا ہے جو تمہیں یہ پرسرار خطرناک لگتی ہے کیا یہاں جن چڑیل بستی ہیں  سکندر نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا 
 نہیں ان سے بھی خطرناک محلوق یہاں " پریاں" رہتی ہیں
 اس کے پراسرار انداز نے سکندر کو مسکرانے پر مجبور کر دیا یقینا وہ اس کی بات پر یقین نہیں کر رہا تھا 
وہ کہتی ہے وہ مجھ سے عشق کرتی ہے سکندر کے الفاظ نے علی کے پیروں سے زمین کھینچی 
میں بہت جلد واپس آؤں گا موم ڈیڈ کو لے کر اور اسے اپنی دلہن بنا کر اپنی دنیا میں لے جاؤں گا سکندر نے اپنی خوابوں کا نگر سجاتے ہوئے کہا جبکہ گاڑی چلاتے علی کے ہاتھ کانپ رہے  تھے 

   1
0 Comments