Orhan

Add To collaction

عشق

عشق
از قلم اریج شاہ 
قسط نمبر9

شہریار جب سے واپس آیا تھا بہت پریشان تھا اس کی پریشانی کی وجہ سے سب ہی جانتے تھے ان لوگوں کو شادی سے مسئلہ نہیں تھا مسئلہ تھا اس کے اچانک واپسی سے اور یہی وجہ  وہ اپنے گھر والوں سے پوچھنا چاہتا تھا کہ آخر وہ اسے اسطرح سے بھاگبناکیوں چاہتے ہیں وہ جب سے آیا تھا بار بارراحیل صاحب اور آسیہ بیگم سے پوچھ چکا تھا
کہ اب لوگوں کو اتنی جلدی اس کی واپسی کا کیوں کہا گیا جبکہ شہریار جتنا وقت چاہے یہاں رہ سکتا تھا 
پہلے تو وہ لوگ اس کی شادی کے لئے تیار نہیں ہو رہے تھے اور اب جب تیار ہوئے تب اتنی بڑی شرط رکھ دی 
وجہ یہ ہے شہریار کہ میں اپنا کامیاب بزنس اس طرح ڈوبتا ہوا نہیں دیکھ سکتا اسی لیے میں چاہتا ہوں کہ تم جلد ہی واپس لوٹ جاؤ اس کے بار بار پوچھنے پر راحیل صاحب نے وجہ بنائی ۔
بابا وہاں سب کچھ ٹھیک ہے سب کچھ میری نگرانی میں ہے میں سب کچھ ٹھیک سے سنبھال رہا ہوں اعتبار تو کر ہی سکتے ہیں آپ مجھ پر بزنس کے لیے کوئی اپنی زندگی نہیں چھوڑتا ۔
 اب کیا میں سکون سے شادی بھی نہیں کر سکتا اس کے چکر میں شہریار نے بے بسی سے پوچھا 
نہیں  میری جان لیکن کینیڈا میں تمہاری کامیابی کو پہلا سال ہے ہم نہیں چاہتے کہ اس میں تم بھی غلطی کرو بس اسی لئے تمہارے بابا نے یہ شرط رکھی 
اور اگر اس شرط کی وجہ سے انکار ہو گیا تو پھر کیا ہوگا بابا  شہریار اکے سامنے رک کر پوچھنے لگا 
دنیا  خوبصورت لڑکیوں سے بھری پڑی ہے شہری مہر کوئی آخری  لڑکی نہیں ہے جس سے شادی کی جا سکے بابا نے غصے سے کہا 
لیکن مہروہ اکلوتی لڑکی ہے جس سے میں محبت کرتا ہوں اس بار شہری کا لہجہ بلند تھا 
شہری میں بحث نہیں کرنا چاہتا بہتر ہوگا کہ تم بھی اپنے کمرے میں جاؤ بابا نے غصے سے کہا 
اور بنا اس کی طرف دیکھے آسیہ بیگم کا ہاتھ تھا میں اپنے کمرے میں چلے گئے 
شہریار نے ایک نظر عابد کی طرف دیکھا 
شہری بابا آپ کا روم کھلوا دیا ہے آپ جائیں آرام کریں اور فکر نہ کریں ان شاءاللہ ان کا جواب ہاؑ ہوگا عابد اس کا کندھا تھپتھپاتے اس سے نظریں چرا کر چلا گیا 
کچھ تو ہے جو یہ سب مجھ سے چھپا رہے ہیں کچھ تو ہے جو بابا کو پریشان کر رہا ہے لیکن کیا ۔۔۔۔وہ اپنے سر میں ہاتھ پھیرتا خود سے سوال کرنے لگا 
مطلب میرے لیے پریستان کا شہزادہ نہیں آئے گا ۔۔۔۔
نہیں بابا جان اس شادی کے لیے انکار کر دیں گے اور بتادیں مہر ایک خوبصورت پری ہے اور اس کے لئے کوئی پریوں کا شہزادہ آئے گا میں اس طرح سے کسی سے شادی نہیں کروں گی مہرانکار کرتے ہوئے بیڈ پر آ بیٹھی 
مہر یار یہ دور دیکھ 2020 ہے اور 2020 میں پریستان نہیں ہوتے کینیڈا لندن پیرس ہوتے ہیں وہیں سے آتے ہیں شہزیادے اور یہ نیو دور کا شہزادہ کینیڈا سے آیا ہے 
کیوں بابا جان میں ٹھیک کہہ رہی ہوں مہرماہ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے بابا جان سے مسکرا کر پوچھا 
وءسے ایک سے شہزادہ امریکہ سے بھی آیا ہوا ہے اسماء چاچی کا بیٹا اس کے بارے میں کیا خیال ہے مہرماہ نے اس کے کان میں سرگوشی کی تو وہ اسے گلاسیس والا چپکو سا لڑکا یاد آیا 
اور اسماء چاچی کیسے کہتی تھی ان کے بیٹے سے زیادہ پڑھا لکھا اور قابل لڑکا ان کے پورے خاندان میں تو کیا پورے پاکستان میں نہیں ہے 
آپی شہزادہ نہیں بلکہ شہزادے کے گھر میں کام کرنے والا باورچی ہے ۔
اب اسے شہزادہ بول کے شہزادوں کی توہین نہ کریں اور بابا جان میں بھی اس بات سے ایگری کرتی ہوں کہ آج کے زمانے میں شہزادے پرستان سے نہیں کینیڈا  سے آتے ہیں اسی لئے آپ کو جو بہتر لگتا ہے آپ فیصلہ کر لیں مہر نے مسکرا کریں نے جواب دیا 
تو بابا جان بھی مسکرا دیئے ویسے تو وہ اس کا جواب پہلے سے ہی جانتے تھے لیکن اس کا مزے دار قسم کا جواب سننا چاہتے تھے ۔اسی لئے اس سے پوچھا 
یہ کون سی جگہ ہے پریام میں نے زندگی میں اس سے خوبصورت جگہ نہیں دیکھی کہ تم یہاں پر رہتی ہو
اس خوبصورت جگہ کا نظارہ کرتے ہوئے پریام سے پوچھنے لگا 
ہاں میں ہی رہتی ہوں اگر تہمیں اتنی اچھی لگ رہی ہے یہ جگہ تو تم بھی یہیں رہو میرے پاس میرے ساتھ پریام نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھاما 
خوبصورت صاف شفاف بہتے پانی کے کنارے سے وہ دونوں آہستہ آہستہ چل رہے تھے 
یہ کون سے پھل ہیں میں نے تو کبھی ان کا ذکر نہیں سنا وہ ہلکے گلابی کلر کے پھولوں کے قریب کھڑا ہو گیا اس نے زندگی میں اس سے زیادہ خوبصورت پھول کبھی نہیں دیکھا تھا 
یہ ساریسہ کے پھول ہیں جب وہ مسکراتی ہے تب کھیلتے ہیں چلو آؤ وہ ایک بار پھر سے اس کا ہاتھ تھامیں آگے کی طرف چلنے لگی لیکن سکندر اس کی بات کو سمجھ نہیں پایا تھا 
لیکن حیرت اسے کو تب ہوئی جب اس نے چلتے ہوئے اپنے سامنے اچانک ایک بہت بڑا محل نما گھر دیکھا 
پریام دور سے یہ گھر نظر نہیں آرہا تھا اب اچانک یہ گھر کہاں سے آیا سکندر حیران پریشان اس سے پوچھنے لگا 
یہ میرا گھر ہے سکندر سب نظروں کا دھوکا ہے تمہیں دور سے شاید نظر نہیں آ رہا تھا چلو اندر چلیں
پریام خاموشی سے اندر کی جانب جلدی جبکہ سکندر حیرت زدہ اس کے پیچھے آیا 
اس سے اچھی اور کون سی بات ہو سکتی ہے رحمان صاحب ہم آپ کے بہت بہت شکر گزار ہیں 
 ان شاءاللہ ہم دو دن کے بعد نکاح کے لیے آئیں گے ہم جانتے ہیں کہ ہم بہت جلدی کر رہے ہیں لیکن یہ ہماری مجبوری ہے راحیل صاحب نے فون پر ان سے بات کرتے ہوئے کہا 
میں آپ کی مجبوری سمجھ سکتا ہوں راحیل صاحب شاید آپ کی مجبوری کو دیکھتے ہوئے میں اس رشتے کے لئے تیار نہ ہوتا لیکن پھر میں نے شہریار کی نظروں میں  اپنی بچی کے لیے محبت دیکھی ہے 
بے شک میں اپنی بیٹی کے لئے ایک شہر یارجیسے ہی انسان کی تلاش میں تھا مجھے یقین ہے کہ میری بچی شہریار کے ساتھ بہت خوش رہے گی ہم نکاح کے لیے تیار ہے آپ دو دن بعد تشریف لے آئے 
رحمان صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
جبکہ راحیل صاحب کے ساتھ زمین پر بیٹھا ان کی گفتگو سننے کی ناکام کوشش کرتا شہریار پوری طرح سے ان کی طرف متوجہ تھا 
جب راحیل صاحب نے فون رکھ کر اس کی طرف دیکھا 
ہم دو دن کے بعد نکاح کے لیے جائیں گے ان کے گھر بابا نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا 
او بابا جان آئی لو یو سو مچ 
ان کے بات مکمل ہونے سے پہلے ہی شہریار اٹھ کر ان کے سینے سے لگ چکا تھا 
جبکہ راحیل صاحب نے ایک نظر آسیہ اور عابد کی طرف دیکھا شاید وہ آنے والے وقت سے انجان نہیں تھے 
یہ سب کچھ کیا ہے پریام تم مجھے کہاں لے کے آئی ہو یہ جگہ اتنی عجیب کیوں ہے اتنے بڑے محل میں تمہارے علاوہ اور کون کون رہتا ہے ابھی تک کوئی بھی مجھ سے ملا کیوں نہیں اور وہ بچی کون تھی جو وہاں باہر کھیل رہی تھی وہ اتنی چھوٹی سی بچی اپنے پیروں پر کس طرح سے چل رہی تھی 
اور پھر اچانک غائب کہاں ہو گی۔
 تم نے تو کہا تھا کہ آج نکاح ہوگا تو نے کہاں سارا انتظام  کیا گیا ہے سکندر اس سے سوال در سوال کئے جا رہا تھا جبکہ پریام اس کے سامنے مسکرا رہی تھی 
ابھی اس کے سوالات جاری تھے جب ایک بزرگ اس جگہ داخل ہوئے 
بابا جان آپ نے نکاح کا انتظام کر دیا دیکھیں میں سکندر کو بھی اپنے ساتھ لے آئی پریار نے مسکراتے ہوئے تعارف کروایا 
آپ سے مل کر خوشی ہوئی بزرگ انسان بنا مسکرائے سنجیدہ انداز میں بولے 
اور پیچھے کی طرف اشارہ کیا جہاں سے وہ اندر داخل ہوئے تھے اور ان کے اشارے کے ساتھ ہی کچھ لڑکیاں چہرے پر جعلی سے نقاب کئے داخل ہوئیں
یہ منظر اتنا خوبصورت تھا کہ سکندر خوفزدہ ہو گیا اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا لیکن کیوں یہ سب کچھ تو اتنا خوبصورت تھا پھر کیوں اسے ڈر لگ رہا تھا کیوں سے یہ سب کچھ عجیب لگ رہا تھا 
ان دو دنوں سے شہریار بہت بےچین رہا وہ ایک سیکنڈ کو بھی وہ سو نہ سکا 
یہاں تک کہ بے چینی اور نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے اسے تیز بخار نے گھیر لیا زیان ہر وقت اس کے ساتھ رہتا تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہ ان آوازوں سے اپنا پیچھا نہیں چھوڑا پا رہا تھا ۔
اچانک خوف سے اس کا پورا بدن کپکپانے لگتا لیکن اسے کس چیز کا ڈر تھا یہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا اسیہ اور راحیل صاحب بہت پریشان تھے 
عابد تو کسی پیر سے اس کے لئے تعویذ بھی لے آیا تھا جسے پہننے سے شہریار نے انکار کر دیا اور بہت منانے کے باوجود بھی شہریار نہ مانا ۔
یار یہ تو وہی لڑکا ہے نہ جو لیفٹ میں ہم سے ملا تھا منال نے فوٹو دیکھتے ہوئے پوچھا 
ہاں وہی ہے گنگوتیلی مجھے لگا تھا کوئی شہزادہ آئے گا میری زندگی میں یاراب تو میں نے بابا کے سامنے بھی ہاں کر دی وہ بھی بنا تصویر دیکھے اب جمعہ کو نکاح ہے انکار بھی نہیں کر سکتی 
ہائے کہاں پھوٹی میری قسمت ایک بار گنگوتیلی کو دیکھ تو لیتی پھر ہاں کرتی ۔
اے ساری زندگی میرا مذاق اڑائے گا کہ میں نے اسے بیوٹیفل کہا تھا ہینڈسم نہیں ۔مہر اپنا سر پیٹتے ہوئے بولی 
مجھے تو لگتا ہے وہی لفٹ پر میں تجھ پر فدا ہو گیا تھا منال نے تصویر دیکھتے ہوئے کہا ۔
ہاں تو فدا تو ہونا ہی تھا اب میں ہوں ہی ۔
بندریہ ۔اس سے پہلے کہ مہر بولتی منال بولی
اپنی شکل دیکھی ہے تو نے چوہیا جیسی مجھے بنرریہ کہتی ہے اپنی خوبصورت شکل کا مذاق اڑاتے دیکھ کر مہرغصے سے بولی اور کھینچ کر کشن اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا ۔جبکہ خود کو چوییا کہلانے پر منال نے بھی اس سے خوب بدلہ لیا 
اللہ کرے میرے لئے ایک بیوٹیفل کا رشتہ آیا ہے جو ساتھ میں بیوٹیفل تھا اس کے لیے تیرا رشتہ آئے اور تیرے ابّا ماں تجھ سے پوچھے بغیر رشتہ پکا کر دیں پھر دیکھ میں تیری شادی پہ کیسے بنگڑے ڈال ڈال کے ناچتی ہوں 
مہرنے ایک بار پھر سے کشن مارتے ہوئے بددعا دی 
ہاں یار وہ بھی کافی ہینڈسم  ہے آمین ثم آمین اس کی بد دعا پر آمین کہتے باہر کی طرف دوڑ لگائی 
بے وقوف میں نے بد دعا دی تھی دعا نہیں مہر پیچھے سے بتانا نہ بھولی 
سکندر سامنے بیٹھے ہیں سب لوگوں کو گھورے جا رہا تھا جبکہ پریام مسکرا رہی تھی 
اسے حیرت کا اصل جھٹکا تب لگا جب ایک سفید دوپٹہ ہوا میں اڑتا پریام کے سر پر پیار کا 
نکاح کی کارروائی شروع کی جائے بزرگ کی آواز کمرے میں گونجی 
ایک منٹ یہ سب کچھ کیا ہے یہ دوپٹہ اپنے آپ کیسے آیا اور یہاں پر کچھ دیر پہلے جو لڑکیاں کھڑی تھی وہ کہاں غائب ہو گئیں یہاں پر کیا ہو رہا ہے یہ سب کچھ کیسے  پہلے یہاں پر محل نہیں تھا پھر اچانک یہ محل کہاں سے آیا باہر جو بچی پھولوں سے کھیل رہی تھی وہ کہاں چلی گئی
پہلے میرے سارے سوالوں کے جواب دیں پھر نکاح کی کارروائی شروع ہوگی یہ سب کچھ کیا ہے مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا سکندر نے کھڑے ہوتے ہوئے پریشانی سے پوچھا 
یہ پہاڑی ایک پریوں کا قیلہ ہے جس کے ساتھ تمہارا نکاح ہو رہا ہے وہ ایک پری ذاد ہے اس قیلہ کی اصل مالکن  تم سے محبت کرتی ہے اسی لئے ہم تمہارا نکاح اس کے ساتھ کر رہے ہیں ورنہ ایک انسان کے ساتھ ایک پریزاد کا نکاح ہماری اور تمہاری نسلیں برباد کر سکتا ہے 
لیکن ہم پھر بھی اپنی بیٹی کی خواہش کے سامنے بے بس ہیں اب خاموشی سے بیٹھ جاؤ تاکہ نکاح کی کاروائی شروع ہو بزرگ نے سمجھاتے ہوئے کہا  
نکاح کون سا نکاح میں ایک انسان سے نکاح کرنے جا رہا تھا اگر مجھے ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ پر یام کوئی پری ہے تو میں کبھی ہم واپس نہ آتا 
میں یہاں ایک پل نہیں روکنا چاہتا ہوں مجھے یہاں سے واپس جانا ہے سکندر ان سب کو دیکھتے ہوئے باہر کی طرف جانے لگا 
نہیں سکندر تم اسے واپس نہیں جا سکتے تم نے ہماری بچی سے وعدہ کیا ہے اگر تم نے وعدہ خلافی کی تو وہ اپنی زندگی گوا دے گی ۔
اس سے اس کی آزادی چھین لی جائے گی اس سے اس کے جینے کےحق چھین لے جائیں گے ۔
سمجھنے کی کوشش کر سکندر تم اس طرح اسے واپس نہیں جا سکتے یہ سچ ہے کہ ہم تمہارے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے اس نے کہا کے لئے لیکن ہم اپنی بچی کوکھو بھی نہیں کر سکتے ۔
میں کچھ نہیں جانتا میں  نہیں کرنا چاہتا نکاح میں نے پرمام سے محبت اسے انسان جان کر کی تھی یہاں جو کچھ میں دیکھ چکا ہوں اس کے بعد پریام کو ایک پری کے طور پر قبول کرنا میرے بس سے باہر ہے مجھے معاف کیجئے میں یہاں شادی نہیں کرنا چاہتا ۔
مجھے جانے دیں یہاں سے سکندر ان کے سامنے ہاتھ جوڑے 
بولا 
میں تمہارے ساتھ ساری زندگی  انسان کی طرح رہوں گی  تم سے کبھی کچھ نہیں مانگوں گی سکندر مجھے چھوڑ کے مت جاؤ میں تم سے بے تحاشا محبت کرتی ہو مجھ جیساعشق کوئی نہیں کر سکتا 
پریام بھی اسی کے سامنے اسی کے انداز میں ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو چکی تھی 
مجھے معاف کردو پریام مجھے لگا تم  ایک عام انسان ہو اگر مجھے پتا ہوتا کہ تم ایک پریزاد ہو تو میں اپنے قدم روک لیتا ۔
میں یہ نکاح نہیں کر سکتا مجھے یہاں سے واپس جانا ہے خدا کے لئے مجھے جانے دیں یہاں سے 
سکندر تمہارے یہاں سے چلے جانے سے پریام کو اپنی زندگی ختم کرنی پڑے گی تم کیوں نہیں سمجھ رہے ہو اسے ساری زندگی ایک تابوت میں گزارنی پڑے گی ۔
یہ اصول ہے ایک پریزافاگر ایک انسان کے عشق میں مبتلا ہو جائے اور وہ انسان اسے اپنانے سے انکار کرکے تو اسے ساری زندگی قیدخانے میں گزارنی پڑتی ہے جہاں سے نہ تو وہ کبھی نہیں نکل سکتی ہے ۔اور نہ ہی جی سکتی ہے 
ٹھیک ہے اگر تم اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو بھی کوئی بات نہیں لیکن اس سے نکاح کر لو تاکہ اسے آزادی تو ملے جینے کی اجازت تو ملے اگر تم نے اس سے نکاح سے انکار کر دیا تو سزا کے طور پر اسے ایک تابوت میں بند کر دیا جائے گا 
جس سے وہ ساری زندگی کبھی آزاد نہیں ہو پائے گی وہ تمہیں اپنا محرم مانتی ہے تمہارے علاوہ وہ کسی کے خوابوں میں بھی نہیں آ سکتی ۔
یا تو تم اسے اپنا لو ۔نہیں تو بس اس سے نکاح کر لو تاکہ وہ ساری زندگی قید خانے  میں تو نہ رہے 
بزرگ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا 
نہیں میں کچھ نہیں کر سکتا آپ مجھے معاف کر دیجیے مجھے نہیں رہنا یہاں پر سکندر نے ایک نظر اس محل کی طرف دیکھا اور پھر باہر کی طرف چلا گیا 
نہیں سکندر تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو کیوں مجھے پل پل کی موت دے رہے ہو سکندر میں نے تم سے سچا عشق کیا ہے خدا کے لئے واپس آ جاؤ ورنہ پچھتاؤ گے 
ہایم پریام کو تابوت میں بند کر دیا جائے ایک انسان سے عشق کرنے کی سزا اسے ضرور ملے گی ۔
بزرگ نے ایک نظر اپنی روتی بیٹی کو دیکھا اور پھر بنا اس کی طرف دیکھے چلے گئے 
تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا سکندر تمہیں اس کی سزا ضرور ملے گی ۔تم نے مجھ سے میری زندگی چھین لی ہے میں تمہاری نسلیں برباد کر دوں گی 

   1
0 Comments