Orhan

Add To collaction

عشق

عشق
از قلم اریج شاہ 
قسط نمبر12

صبح شہریار کی آنکھ کھلی تو مہر اس کے سینے پر سر رکھ کے سو رہی تھی اسے دیکھتے ہی شہر یار کو لگا جیسے اس کی زندگی مکمل ہوگئی ہو  وہ بے اختیار کے معصوم سے چہرے پر جھک گیا 
کیا شہر یار تم پھر صبح صبح شروع ہوگئے ساری رات مجھے سونے نہیں دیا اب تو مجھے نیند آرہی ہے مہراسے خود سے دور کرتے ہوئے دوبارہ سے ہونے کی کوشش کرنے لگی
نہیں میڈم آپ سو نہیں سکتی اگر آپ کو  یاد ہو تو ہمیں آپ کے گھر جانا ہے تاکہ آپ کے والدین سے ملاقات کر سکے آج شام ہی ہمیں نکلنا ہے شہریار نے اسے اٹھاتے ہوئے کہا 
ہاں تو ولمیے  پر ماما بابا آئیں گے نہ توہم ان سے مل لیں گے مہر کی بات پر حیران ہوتے ہوئے اسے دیکھ کر بولی 
نہیں میری جان ولیمہ یہاں پر نہیں حویلی میں ہوگا اور تب تک ہم لوگ جا چکے ہوں گے آج ہی شام کی فلائٹ ہے ہمیں آج ہی نکلنا ہوگا میرے پیچھے بابا ولیمہ کروائیں گے بنا دولہا اور دلہن کے وہ اپنے ہی باپ کی بات بتاتے ہوئے  حیرت سے مسکرایا تھا 
اور مہر کو یہ بات بتاتے ہوئے اسے اور بھی عجیب لگ رہا تھا 
یہ کیا بات ہوئی بنا دولہا اور دلہن کے ولیمہ ہوتا ہے کیا وہ اسے گھورتے ہوئے بولی تو شہریار مسکرا دیا 
ہم سارے کام یونیک کرتے ہیں یہ بھی یونیک کریں گے وہ اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے نہانے چلا گیا جب کہ وہ اس کی بات پر حیران اور پریشان دوبارہ سونے کی کوشش کرنے لگی
تقریباً گیارہ بجے وہ مہر کے ماں باپ کے گھر گئے تھے 
ولیمے کا انویٹیشن ان لوگوں کو مل چکا تھا جو حویلی میں تھا دو دن بعد 
وہ خود بھی اس بارے میں شہریار سے بات کرنا چاہتے تھے لیکن شہریار آج ہی واپس جا رہا تھا مہر کو ساتھ لے کر اسی لئے اپنی بیٹی کی دوری کا سوچتے ہوئے وہ اس سے کچھ بھی نہ پوچھ پائے 
جب کہ مہر بہت اداس تھی وہ پہلی بار اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر اتنی دور جا رہی تھی شہریار اس کی کنڈیشن سمجھ رہا تھا لیکن یہ اس کی بھی مجبوری تھی 
وہ چاہتا تھا کہ کچھ دن مہر کے ماں باپ کے ساتھ رہ کر انہیں یقین دلایا کہ وہ ان کی بیٹی کا بہت خیال رکھیے گا لیکن نجانے اس کے ماں باپ کو اسے بھیجنے کی اتنی جلدی آخر کیوں تھی 
اس کی ہر بات بس اسی سوال پہ آ کے رک جاتی 
شہریار اور مہر کے ساتھ زیان بھی آیا تھا وہ تو کب سے صرف اور صرف منال کو دیکھنا چاہتا تھا اور  منال آخر میں مہر سے ملی اس سے پہلے تو مہراور منال دونوں ہی کمرے میں نہ جانے کیا کیا باتیں کر رہی تھی 
منال میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں کیا تم ایک منٹ کے لئے یہاں آؤگی وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا 
ویسے تو یہاں آتے ہوئے شہریار نے مہر کے سامنے اسے چھیڑتے ہوئے مہر کو بتایا تھا کہ وہ منال کو پسند کرتا ہے 
لیکن اسے یقین تھا کہ مہرنےیہ بات راز ہی رکھی ہوگی 
جب کہ اس کی پکار پر منال کے چہرے پر سرخی کھلنے لگی
جی کہیں اس کے قریب آ کر کر پوچھنے لگی 
منال بات گھما پھرا کر کرنے کا عادی نہیں ہوں سیدھی سی بات ہے کہ تم مجھے پسند ہو اور میں تمہارے گھر اپنے ماں باپ کو لے کر آنا چاہتا ہوں اگر تم راضی ہو تو میں چاہتا ہوں کہ اگلی بار جب ہم تینوں یہاں آئے تو ہم چار لوگ واپس جائے وہ مسکراتے ہوئے مہر اور شہریار کی طرف اشارہ کر رہا تھا جب منال مسکرائی 
اس بارے میں آپ میرے والدین سے ہی بات کر لیجئے گا یعنی کے مہر اسے سب کچھ بتا چکی تھی منال آہستہ سے گردن جھکائے چہرے کی سرخی چھپاتی اسے خدا حافظ کہتی وہاں سے نکل گئی 
جبکہ زیان کا دل چاہا کہ اس پیاری سی بھابی پلس بہن کو دنیا کی ہر خوشی دے ڈالے جس نے اس کا کام اتنا آسان کر دیا تھا 
چھ مہینے گزر چکے تھے وہ علاقہ چھوڑے اس کے بعد سکندر وہاں کبھی نہ گیا اور نہ ہی جانے کا ارادہ رکھتا تھا ایک عجیب سی بے سکونی اس کی زندگی میں پھیل چکی تھی 
اپنی بیوی سے وہ بات کرتا نہیں تھا جب کہ ماں باپ اس کی خالی بے رنگ زندگی دیکھ کر دن با دن پریشان ہوتے جا رہے تھے وہ اپنے ماں باپ کی تکلیف دیکھ سکتا تھا سمجھ سکتا تھا لیکن وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا وہ ان کی پسند کی لڑکی کے ساتھ ساری زندگی نہیں گزار سکتا تھا جبکہ وہ خود ہی کسی کی زندگی برباد کر چکا تھا سکندر ہر وقت اس گلٹ میں رہتا کہ اس کی وجہ سے پریام ساری زندگی کے لیے قید ہوگئی اور اب اس سے ملنا نا ممکن ہو چکا تھا 
اپنے ماں باپ کی حالت دیکھتے ہوئے اس نے خوش رہنے کا فیصلہ کیا پریام کے بغیر بھی زندگی بھی اسے کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے لیکن وہ کیا کرتا مجبور تھا 
وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھا ان کاسہارا تھا وہ انہیں اس طرح سے  تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا چاہے اس کی اپنی زندگی کیسی بھی کیوں نہ ہو لیکن اسے اپنے ماں باپ کو سہارا دینا تھا 
اور وہ معصوم سی لڑکی وہ اسے جب بھی دیکھتا اسے اس پر بے اختیار ترس آتا جو ایک انجان رشتے میں اس کے ساتھ بندھی ہوئی تھی جسے نبھانے کی وہ ہر ممکن کوشش کر رہی تھی سکندر نے فیصلہ کرلیا کہ پریام چاہے اس کی زندگی سے جائے یا نہ جائے لیکن وہ اس لڑکی کو ایک مقام ضرور دیکھا جو کچھ بھی ہوا اس نے اس لڑکی کی کوئی غلطی نہیں ہے 
سب سے مل کر وہ تینوں ایئرپورٹ پر آ کر بیٹھے تھے یہاں سے آتے ہوئے اس کے ماں باپ حویلی کے لیے نکل چکے تھے اب تو ایئرپورٹ پر  بیٹھے ان کو تقریبا دو گھنٹے گزر چکے تھے ان کی فلائٹ کا وقت بھی ہو چکا تھا لیکن ابھی تک ان کی اناؤنسمنٹ  نہ ہوئی جب ایک ورکر ان کے پاس آئی 
سر ایم ریلی سوری پاکستان سے کینیڈا جانے والی فلائٹ کینسل ہو چکی ہے 
آپ سے نیو بکنگ آج سے ایک ہفتے بعد ہی ہوگی 
ایم ریلی سوری اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کی رہائش کا انتظام کروا دیں لڑکی نے معذرت خواہانہ انداز میں اس سے کہا تو مہر خوش ہوگئی 
کیا سچی فلائٹ کینسل ہو گئی کتنا اچھا ہوا شکر ہے ایک ہفتہ میں اپنے ماں باپ کے پاس رہوں گی اور شہر یار مجھے آپ کی حویلی دیکھنے کا بھی بہت شوق ہے وہ اکیلے میں اسے تم جب کہ کسی کے سامنے آپ کہہ کر بلاتی تھی شہریار نے یہ بات نوٹ تو کی تھی لیکن اسے ٹوکا نہیں تھا اس کا تم کہنا سے اچھا لگتا تھا 
فلائٹ کینسل ہونے کی خوشی اسے بھی بہت ہو رہی تھی اور وہ بھی اپنے ماں باپ کے ساتھ ایک اور ہفتہ گزار سکتا تھا لیکن اسے اسے نجانے کیوں لگ رہا تھا اس کے ماں باپ کو اس بات کی خوشی نہیں ہوگی 
وہ لوگ حویلی پہنچ گئے ہیں عابد نے سب سے پہلے اپنے ایک دوست کو پیرصاحب کا انتظام کرنے کو کہا تھا اور پیر صاحب ان کے گھر میں بیٹھے ان کا انتظار کر رہے تھے 
اور یہ بات پتہ چلتے ہیں وہ لوگ جلدی گھر کے لئے نکل چکے تھے 
راحیل صاحب آپ کے گھر میں کوئی سایا یا کوئی چڑیل نہیں بلکہ ایک پری کا قبضہ ہے 
اور وہ پری زاد کسی ناجائز رشتے سے نہیں بلکہ ایک جائز تعلق سے یہ رہ رہی ہے 
اس پر کمرے سے باہر نکلنے کی پابندی لگی ہوئی ہے اور کمرے میں تالے لگائے ہوئے ہیں اس تالوں کو لگانے کا کوئی فائدہ نہیں اسے جب بھی اس کے محبوب کی اجازت ملے گی وہ اس کمرے سے باہر نکل آئے گی اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک پائے گی پیر صاحب نے تفصیل سے بتایا 
اور اس بات سے بے خبر تو بھی نہ تھے 
وہ تو صرف احتیاط کے لیے لگاتے تھے کہ کہیں وہ باہر نکل آئے 
تو اب ہمیں کیا کرنا چاہیے کیا ہم اس سے چھٹکارہ پا سکتے ہیں 
نہیں یہ ممکن ہی نہیں وہ  22 سال سے اس رشتے میں باندھی ہوئی ہے آپ کبھی اس سے چھٹکارا نہیں پا سکتے جب وہ اپنی مرضی سے یہ جگہ چھوڑ کر نہ جائے 
اس کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہیں کیونکہ 22 سال پہلے وہ اتنی غلطیاں کر چکی ہے کہ اب مزید ایک غلطی سے بھی وہ ساری عمر کے لئے قید ہو سکتی ہے اب کسی کی جان لینا اس کے بس سے باہر ہے اگر اس نے کسی کی زندگی چھین لینا چاہی تو اسے قید کر لیا جائے گا کیونکہ پریوں کا یہ قبیلہ کسی کی جان لینے کے لیے نہیں بلکہ انسانوں کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا 
لیکن ساریسہ تین قتل کر چکی ہے اب اگر اس نے مزید کسی کی جان لی تو وہ ہمیشہ کے لئے قید ہو جائے گی اس لیے بے فکر ہو جائے وہ کسی کو جانی نقصان نہیں پہنچا سکتی 
اب میں چلتا ہوں مجھے بہت دیر ہو رہی ہے پیر صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا اور باہر کی راہ لی جہاں دروازے پر شہریار زیان اور مہر کو کھڑے دیکھ کر سب پریشان ہوگئے 
تم واپس کیوں آئی شہریار تمہیں وہیں سے چلے جانا چاہیے تھا اگر نہیں تو وہی کسی ہوٹل میں رک جاتے تمہیں حویلی آنے کی کیا ضرورت تھی بابا جان کا غصہ کسی طرح سے کم نہیں ہو رہا تھا
 اسے دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے  وہغصہ ہو رہے تھے  مہر اپنے کمرے میں آرام کرنے جا چکی تھی اور زیان بھی یہاں سے جا چکا تھا اگر ان کے سامنے وہ اسے اس طرح سے جانتے تو وہ دونوں کیا سوچتے کہ اس کے ماں باپ اس سے محبت نہیں کرتے 
جب کہ اس کے ماں باپ کی نظروں سے اٹھتے سوال تو وہ دونوں بھی پڑھ چکے تھے شاید اسی لیے منظر سے ہٹنا ضروری سمجھا 
بس کر دے بابا بہت ہوگیا کیا ہوگیا ہے آپ کو میں آپ کا بیٹا ہوں کوئی غیر نہیں اور یہ میرا گھر ہے اس گھر کو چھوڑ کر کہاں جاؤں گا میں 
ایم سوری غلطی ہوگئی مجھ سے وہاں کسی ہوٹل میں رہنے کے بجائے اپنے ماں باپ کے پاس آ گیا تھا کہ آپ لوگوں کو دیکھ سکوں اور لوگوں کے ساتھ وقت گزار سکوں لیکن شاید بہت بڑی غلطی کر دی ہے میں نے رات ہو چکی ہے صبح ہوتے ہی یہاں سے نکل جاؤں گا شہریار بدتمیزی اور غصے سے کہتا ہوااپنے کمرے کی طرف چلا گیا 
جب کہ بابا کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسے کیسے سمجھائیں کہ اس کا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں جبکہ بات تو وہ بھی جانتے تھے کہ آج اس کے ماں باپ نے اس سے بہت ہرٹ کیا ہے 
شہریا کمرے میں آیا تو بہت پریشان تھا مہف اس کی پریشانی نوٹ کر رہی تھی لیکن اس نے کچھ پوچھا نہیں شاید اس کے ماں باپ اسے یہاں دیکھ کر خوش نہیں ہوئے تھے 
شہری اچھا  ہوگیا نہ کل ولیمہ ہو گا تو دلہا دلہن دونوں وہاں موجود ہوں گے اور مسکراتے ہوئے اس کے گلے میں باہیں ڈال کر بولی 
اداس کیوں ہو تم کہ تم کچھ یونیک نہیں کر پائے اپنے ولیمے میں اس لیے اداس ہو اس کا چہرہ اپنی نظروں کے حصار میں لیے محبت سے بولی تو شہریار مسکرا دیا 
ہاں یار کتنا آکسائیڈ تھا میں اسے کچھ یو نیک کروں گا اور یہاں دیکھو کیا ہوگیا 
مجھے افسوس ہے شہریار کے انداز پر مہر نے گردن ہلا کر کہا 
اگر اتنا ہی افسوس ہے تو پاس آ کر اظہار افسوس کرو  اتنے دور سے کیا کرنا وہ اس کی کمر میں بازو ڈالتے ہوئے اس کی کمر کو جکڑتے ہوئے بیڈ پر لٹا چکا تھا 
جبکہ اس کے انداز نء مہر کو شرمانے پر مجبور کر دیا 
اوئے ہوےہوے میڈم شرم آ رہی ہیں کل رات یہ شرم و حیا کہاں غائب تھیں وہ اس کے چہرے کو تھوڑی سی اوپر کرتے ہوئے بولا 
شہریار اگر تم مجھے تنگ کرو گے تو میں چلی جاؤں گی کمرے سے وہ غصے سے گھورتے ہوئے بولے 
جب شہری نےا سے مزید تنگ کرنے کا ارادہ کینسل کرتے ہوئے اس کے لبوں پر اپنے ہونٹ جما دیئے 
رات دو بجے کا وقت تھا جب اسے آواز سنائی تھی مہر اس کے سینے پر سر رکھ کے آرام دہ نیند سو رہی تھی 
اسے لگا جیسے یہ سکیوں کی آوازیں باہر سے آ رہی ہیں وہ فوراً مہر کو تکیہ پر لٹاتا اٹھ کر باہر نکل آیا 
آواز اوپر کی طرف جاتی سیڑھیوں سے آ رہی تھی 
اس کا مطلب تھا کہ اب سکیوں کا تعلق ان سوالوں کا تعلق ان آوازوں کا تعلق اسی کے گھر کے کسی کونے سے تھا 
شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے ماں باپ اسے یہاں نہیں آنے دے رہے تھے شیر یار اوپر چڑنے لگا 
وہ جلد سے جلد اس راز سے پردہ اٹھانا چاہتا تھا
اسے یقین تھا اس کے ساتھ 22 سال سے جن آوازوں کا رشتہ جوڑا ہے اس کا تعلق اسی حویلی سے ہے سیڑھیوں سے اوپر جاتے ہوئے وہ ایک کمرے کے سامنے رک گیا 
وہ کچھ دن پہلے بھی رات کے وقت اسی کمرے کے پاس آیا تھا 
اس کے کمرے کے پاس آتے ہیں سسکیاں بند ہوگی 
وہ خاموشی سے مڑ گیا شاید اس کا وہم تھا وہ واپس اپنے کمرے کی طرف جانے لگا جب اس کے قدم رک گئے 
شہریار میں باہر آجاؤں۔ ۔۔۔؟
شہریار مجھے اجازت دیں
 کیا میں باہر آ سکتی ہوں ۔۔۔ 
شہریار مجھے بلا لیں ۔۔۔۔
 میں باہر آ جاؤں۔۔ ۔  ۔؟
وہی سوال وہی سسکیاں جو پچھلے 22 سال سے اسے ہر رات تنگ کر رہی تھی 
اتنے قریب سے ان آوازوں کو سنتے ہوئے شہریار کو غصہ آنے لگا 
ہاں آو تم باہر میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں
 بس بہت ہوا
 مجھے بھی میرے سوالوں کے جواب چاہیے 
میں کہتا ہوں باہر نکلو
 میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں 
میں تمہیں اجازت دیتا ہوں باہر نکلو شہریار چلاتے ہوئے بولا

   1
0 Comments