Orhan

Add To collaction

عشق

عشق
از قلم اریج شاہ 
قسط نمبر13

پوری حویلی میں عجیب سا سناٹا پھیلا ہوا تھا رات کی تاریخی کچھ الگ ہی لگ رہی تھی شہریار نہیں جانتا تھا کہ وہ اتنا ڈر ہے وں رہا ہے
 اس کا دل کسی سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا
 وہ اتنا ڈر کیوں رہا تھا اسے اتنا پسینہ کیوں آ رہا تھا 
کافی دیر کوئی آواز نہ آئی تو شہریار پر سکون سے واپس لیں اترنے لگا 
جب اچانک کسی پیچھے سے اپنے دروازے کی بیریاں کھلتی ہوئی محسوس ہوئی 
اس نے بے اختیار پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں تالا خود بخود کھل چکا تھا اور بیریاں اپنے آپ ٹوٹ رہی تھی 
اپنی آنکھوں سے یہ بے یقین منظر دیکھ کر شہریار کے قدم خود بخود نیچے کی طرف جانے لگے  
اس وقتے ساتھ ہی حویلی میں قہقوں کی آواز گونجنا شروع یوئی
وہ تیزی سے نیچے کی طرف جانے لگا کیونکہ پوری حویلی میں آوازیں گونجنے لگی تھی عجیب سی آواز ہیں وہ کبھی روتی تو کبھی قہقے لگاتی باہر کی طرف آ رہی تھی 
آسیہ بیگم اور راحیل صاحب بھاگ کر کمرے سے باہر نکلے 
جہاں سامنے شہریار کو سیڑھیوں سے نیچے اتر کر دیکھا 
بابا اس کمرے میں آوازیں  کمرے میں کوئی تھا ۔وہ کافی بوکھلایاہوا تھا
مجھے کسی نے کہا کہ شہریار میں باہر آجاؤں تو میں نے غصے میں کہ دیا کہ آ جاؤ میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں 
بابا پھر اسی وقت سے  اور یہ عجیب عجیب آوازیں آنے لگیں اور وہ بیریاں تالے ٹوٹ چکے ہیں 
بابا یہ وہی آواز ہے جو مجھے بچپن سے آتی ہے یہ وہی آوازیں ہیں جن کا ذکر کرنے سے آپ نے مجھے منع کیا تھا 
بابا یہ کیا راز ہے بتائیں مجھے بتائیں مجھے ان آوازوں کا تعلق میرے خوابوں سے ہے نا اس دروازے کا تعلق ان آوازوں سے ہے جو مجھے بچپن سے آتی ہیں 
بتائیں بانا آپ خاموش کیوں سے بتائیں مجھے اس کمرے میں کون ہے ۔ شہریار ان کے سامنے کھڑا ان سے جواب مانگ رہا تھا جبکہ راحیل صاحب کا سارا دھیان اوپر سیڑھیوں کی گرل پرکھڑی اس خوبصورت پریزاد پر تھا جو جتنی خوبصورت تھی اتنی خطرناک  تھی 
💘
نہ جانے وہ لڑکی کہاں غائب ہو چکی تھی اس کمرے سے نکلنے کے بعد وہ کہاں غائب ہوئی تھی کوئی نہیں جانتا تھا 
عابد اب کیا ہوگا وہ آزاد ہو چکی ہے عابد اب وہ سب کچھ تباہ کر دے گی کچھ کرو کچھ کرو خدا کے لئے کچھ کرو میرا بیٹا برباد ہو جائے گا 
آسیہ بیگم نے روتے ہوئے عابد سے کہا 
پریشان نہ ہوں بی بی جی خدا  سب کچھ بہتر کرے گا میں صبح ہوتے ہی ان پیر صاحب کو واپس لے آؤں گا 
اللہ رحم کرے گا ویسے بھی تو ساریسہ نجانے کہاں جا چکی ہے مجھے تو لگتا ہے کہ وہ جہاں سے آئی تھی وہیں واپس چلی گئی اللہ نے سب کچھ بہتر کر دیا آپ پریشان نہ ہوں بی بی جی
وہ راحیل صاحب اور آسیہ بیگم کو دلاسہ دیتے ہوئے بولا 
جبکہ شہریار آنکھوں میں سوال لیے ان دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا 
جب شہریار کو اپنے کمرے سے مر کی چیخنے کی آواز سنائی دی 
کچھ بھی پوچھنا یہ سمجھنے کی کا وقت نہیں تھا شہریار نے فورا کمرے کی طرف دوڑ لگائی آسیہ نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن یہاں سوال اس کی محبت کا تھا
 وہ کمرے میں داخل ہوا تو مہر بیڈ سے نیچے پڑی تھی اور اب اپنا سینے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے سانس لینے کی کوشش کر رہی تھی 
جب کہ اس کے آس پاس کوئی بھی نہ تھا وہ بھاگتے ہوئے مہر کے پاس آیا اور اسے اٹھا کر بیڈ پر رکھا 
مہر میری جان تم ٹھیک تو ہو کیا ہوا ہے تمہیں  وی  اس کے ہاتھ پیر سہلانے لگا 
جبکہ مہر کسی چیز سے خوف زدہ دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی
لیکن نہ تو وہ کچھ بول پا رہی تھی اور نہ ہی کسی کو مخاطب کر پا رہی تھی حتیٰ کے دروازے کی طرف اشارہ کرکے دروازے پر  کھڑی خوبصورت لڑکی کی  طرف کسی کو متوجہ نہیں کر پا رہی تھی 
پھر دیکھتے ہی دیکھتے مہر بے ہوش ہوگئی
کسی کے لئے سمجھنا  مشکل نہ تھا اگر وہ تھوڑی دیر یہاں اور نہ پہنچتے تو یقیناً وہ مر جاتی اور اس کی جان کی دشمن کون تھی یہ یہاں پر موجود سبھی لوگ جانتے تھے 
بس بابا میں مزید برداشت نہیں کر سکتا میں مہر کی جان پر رسک نہیں لے سکتا بتائیں  وہ کیا ہے اور کیوں کر رہی ہے وہ یہ سب کچھ  مہر کے ساتھ اس کی کیا دشمنی ہے 
اگر وہ آزاد ہو چکی ہیں تو چلی جائے نہ یہاں سے کیوں ہمیں مصیبت میں ڈالا ہوا ہے 
  آزاد ہے  نہ وہ اب مل گئی نہ اس کو آزادی تو اب چلے جانا چاہیے اسے وہاں جہاں سے آئی ہے ساری زندگی حرام کر دی ہے اس نے رات کو سو نہیں پاتا خدا کے لئے بتائے مجھے کہ وہ کیوں نہیں جاتی یہاں سے 
کیونکہ بیوی ہے وہ تمہاری نکاح میں ہے تمہارے وہ مرتے مر جائے گی لیکن تمہیں کبھی چھوڑ کر نہیں جائے گی 
نکاح کیا ہے اس نے تم سے 
میں مجبور ہوں شہریار اگر میں تمہارا نکاح اس کے ساتھ نہیں کرواتا تو تمہاری جان چلی جاتی 
میں اتنا مجبور تھا کہ اپنے بیٹے کی محبت میں اپنے ہی بیٹے کا نکاح پریزاد سے کروا دیا اور پریوں کی ہر نسل پہلی نسل سے زیادہ ضدی اور طاقتور ہوتی ہے 
وہ پریام نہیں ہے جو محبت میں ہار جائے گی وہ ساریسہ ہے اگر تم اسے نہ ملے تو وہ تمہیں بھی ختم کر دے گی وہ تمہارے لیے تین قتل کر چکی ہے اور اس کا چوتھا وار مہر پر ہوگا 
سکندر اپنی زندگی میں آگے بڑھ چکا تھا شادی کے تقریبا دو سال کے بعد اس کے ہاں ایک چاند سا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اس نے شہریار سکندر رکھا 
اور جتنا خوبصورت تھا اتنا ہی بیمار رہتا 
ڈاکٹر کے مطابق اسے کوئی بیماری نہ تھیی
 شہریار باقی بچوں کی نسبت الگ تھا وہ نہ تو زیادہ کھیلتا تھا اور نہ ہی روتا دھوتا تھا وہ تو اکثر بیمار رہتا 
اور اس کی بیماری آسیہ کو بھی پریشان رکھتی۔ 
سکندر جب اس علاقے سے واپس آیا تو اس نے اپنے دادا سکندرشاہ کا نام استعمال کرنا چھوڑ کر اب وہ اپنا اصل نام راحیل استعمال کرنا شروع کر دیا 
کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اب سکندر نام سے اسے کوئی بھی پکارے وہ نام پریام  کے ساتھ ہی چھوڑ چکا تھا 
اب لوگوں سے راجیل شاہ کے نام سے جانتے تھے 
جب کہ شہریار کی بیماری آئے دن پریشان  کیے رکھتی شہریار تین سال کا ہوا تو ڈاکٹر کی سمجھ سے اس کی بیماری باہر ہو گئی 
اس کا بخار کبھی کبھار خطرناک کی حد تک بھر جاتا اور ڈاکٹر بے بس ہو جاتے یہاں تک کہ ایک بار ڈاکٹر نے جواب دے دیا 
اس کے بعد سکندر اور زیادہ پریشان رہنے لگا جب  اسے ایک رات خواب میں پریام روتی ہوئی نظر آئی
وہ ا سے بلا رہی تھی شاید  اسی علاقے میں واپس 
لیکن وہاں سے اکیلے نہیں بلکہ شہریار کو بھی ساتھ بلا رہی تھی ۔
اس نے اسے خوابوں میں بہت روتے ہوئے دیکھا تو فیصلہ کیا کہ وہ پریام کے پاس ضرور جائے گا شاید وہ اس کی قید کبھی ختم نہ کر پائے لیکن اپنے کیے کی معافی ضرور مانگے گا 
اور اسی طرح سے وہ ایک دن اپنے تین سالہ بیٹے شہریار کو لے کر وہاں چلا گیا 
لیکن سفر کے دوران شہریار کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی آسیہ  اب اس کے ساتھ نہیں  تھی جو اس کا خیال رکھتی اور اکیلے اس کا خیال رکھنا سکندر کے لیے بہت مشکل تھا ۔
وہ اس علاقے میں واپس پہنچا تو اسی پہاڑی پر گیا جہاں وہ محل تھا اس بار بھی اس سے وہاں کوئی محل نظر نہ آیا 
لیکن وہاں ایک بزرگ تھے شاید وہی بزرگ پریام کے والد تھے انہیں پہچاننے میں زیادہ دیر نہ لگی تھی سکندر نے انہیں سلام کیا تو جواب دیتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کرنے لگے مجھے یہاں پریام نے بھیجا ہے اس نے کہا ہے کہ تمہارا بیٹا بہت بیمار رہتا ہے یہ ایک طرح سے ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن یاد رکھنا یہ تمہارے لیے بہت مشکل ہوگا 
انہوں نے بات کرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا 
آپ جو کہیں گے مجھے منظور ہے لیکن خدا کے لیے میرے بیٹے کو بچا لیں نہ جانے اسے کیا ہو گیا ہے اتنا بیمار رہتا ہے کہ میں اس کی امید ہی چھوڑ چکا ہوں شاید یہ کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا ڈاکٹر نے کہا ہے کہ یہ زیادہ سے زیادہ چند ماہ اور جی سکتا ہے اگر آپ کے پاس کوئی راستہ ہے اسے ٹھیک کرنے کا تو مجھے بتائیں میں آپ کا شکر گزار رہوں گا 
اگر تم اپنے بیٹے کی جان بچانا چاہتے ہو تو اس کا بس ایک ہی راستہ ہے کہ اس کا نکاح کسی پریزاد سے کردو ۔
ان حالات میں تو اس کی جان بچا سکتے ہو ورنہ تم اسے کھو دو گے ۔
انہیں نے  اپنے سے کچھ فاصلے پر کھڑی ایک چھوٹی سی پانچ سالہ بچے کی طرف اشارہ کیا جو چھوٹے چھوٹے گلابی پھولوں سے کھیل رہی تھی 
یہ ساریسہ کے پھول ہیں جب وہ مسکراتی ہے تب یہ پھول کھلتے ہیں خوبصورت گلابی پھولوں کو دیکھتے ہوئے اسے پریام کی بات یاد آئی اس نے اندازہ لگایا تھا کہ وہ ساریسہ تھی
مجھے منظور ہے اپنے بیٹے کی حالت دیکھتے ہوئے سکندر نے فورا ہی فیصلہ کیا تھا ۔اس کے لیے یہ کہنا مشکل نہیں تھا کہ وہ اس دنیا میں سب سے زیادہ محبت شہریار سے کرتا تھا اسے کبھی کھونے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا 
ٹھیک ہے سکندر لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا پریوں کی ہر نسل پہلی نسل سے زیادہ طاقتور مغرور اور ضدی ہوتی ہے 
اور ساریسہ سے زیادہ ضدی کوئی نہیں ہے وہ اپنی چیزیں کسی کو نہیں دیتی 
یہ بہیت مشکل ہو گا آگے چل کے
میرے بیٹے کی جان بچ جائے مجھے اور کچھ نہیں چاہے سکندر نے ابہیں دیکھتے ہوئے فصیلہ سنایا۔ 

   1
0 Comments