Orhan

Add To collaction

عشق

عشق
از قلم اریج شاہ 
قسط نمبر14

نکاح کے بعد وہ شہریار کو لے کر واپس آ گیا انجام کی فکر کئے بغیر 
نکاح ہو چکا تھا  
سکندر نے سوچا تھا کہ آگے دونوں کی مرضی تھی کہ وہ اس نکاح کو نبھاتے ہیں یا نہیں نبھاتے 
لیکن ایک پری ذاد کے ساتھ ساری زندگی گزارنا شہریار کے بس میں سے نہ تھا وہ بھی عمر میں وہ سے چار سال بڑی تھی 
 لیکن پریوں کا عمر سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا یہ بات ان بزرگوں نے پہلے بھی بتا دی تھی ۔
سکندر شہریار کو لے کر واپس آ گیا شہریار اب بالکل عام بچوں کی طرح تھا ہنسنا کھیلنا ضد کرنا بالکل عام بچوں کی طرح رہنا
اس نکاح کے بارے میں سکندر نے کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا اور نا ہی بتانے کا ارادہ رکھتا تھا 
کیونکہ ان بزرگوں نے کہا تھا کہ جب ساریسہ اس نکاح کو سمجھے گی  وہ شہریار کو ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ لے جائے گی اور یہ بات انہوں نے نکاح سے پہلے نہیں بلکہ نکاح کے بعد بتائی تھی 
اور سکندر اپنے بیٹے کو کھونے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا اسی لیے اس نے اس نکاح کی بات کو چھپا دیا 
اگر پریام اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ پائی تھی تو اسے نہیں لگاتا کہ ایک چھوٹی سی بچی اسے کچھ کہہ سکتی ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی غلط فہمی تھی 
اور اس کی یہ غلط فہمی دور ہوئی جب دو سال کے بعد ساریسہ شہریار کو لینے آ گئی 
سکندر آفس سے لوٹا تو اپنے شہریار کے ساتھ ایک چھوٹی سی بچی کو بیٹھے دیکھ کر پریشان ہو گیا اسے پہچاننے میں اس نے زیادہ دیر نہیں لگائی تھی ہاتھوں میں گلابی پھول پکڑے وہ مسکرا کر شہریار سے باتیں کر رہی تھی 
سکندر کے آتے ہی وہ اٹھ کر اس کے قریب آئے اور ادب سے سلام کیا 
بہت پیاری بچی ہے اپنا نام ساریسہ بتاتی ہے نہ جانے کہاں سے آئی ہے یہ کہتی ہے کہ میں پری ہوں آسیہ نے مسکراتے ہوئے بتایا 
میں شہریار کو لینے آئی ہوں سکندر ۔آپ کو سب کچھ پتہ ہے نہ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ شہریار کو اپنے اپنے ساتھ لے جاؤں
اور ویسے بھی میں اپنی چیزیں کسی کو نہیں دیتی اسی لئے میں شہریار کو لینے کے لئے آئی ہوں ہمیشہ کے لئے 
وہ ان کے قریب کھڑی ان  کی نظروں سے نظریں ملائیے بول رہی تھی 
آسیہ شہریار کو اندر لے کر جاؤ انہوں نے آسیہ کی طرف دیکھ کر اشارہ کیا 
تو وہ بنا کچھ بولے شہریار کا ہاتھ تھام کر اسے اندر لے جانے لگی جب اچانک ہی ساریسہ نے شہریار کا دوسرا ہاتھ تھام لیا 
میں اپنی چیزیں کسی کو نہیں دیتی اور شہریار میرے شوہر ہیں انہیں مجھ سے کوئی دور نہیں کر سکتا اس کی باتیں سنتے ہوئے آسیہ کا ہاتھ اپنے آپ شہریار کے ہاتھ سے چھوٹ گیا وہ اس ننھی سی بچی کو دیکھنے لگی 
میں اپنے شوہر کو یہاں سے لے جانے آئی ہوں تم لوگوں کے پاس صرف سات دن ہیں میں سات دن کے بعد اسے یہاں سے ہمیشہ کے لئے لے جاؤں گی یہ میرا ہے ۔
وہ شہریار کا ہاتھ تھامے ہوئے اسے صوفے پر بٹھاتی ہوئی اس کے ساتھ بیٹھ گئی 
وہ ننھی سی بچی ہاتھوں میں پھول تھامیں اتنی پیاری اور معصوم لگ رہی تھی کہ اس سے ایسے لفظوں کی امید کسی کو کوئی امید نہ تھی 
سکندر نے مجبور ہو کر گھر میں سب کو سب کچھ بتا دیا کسی کو سکندر سے ایسی امید نہ تھی اتنا بڑا قدم  وہ بھی بنا سوچے سمجھے بنا کسی سے مشورہ کیے وہ اٹھا کیسے سکتا تھا 
سکندر نے بہت بڑی غلطی کر دی تھی ایک پری کے ساتھ اپنے بیٹے کا نکاح کرکے 
اور اب اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے اس لڑکی سے جان چھڑانے کے لئے ۔
جب ان کے خاندانی نوکر عابد نے انہیں پیر بابا کا مشورہ دیا ان سب باتوں پر یقین نہ کرتے ہوئے بھی وہ اس وقت عابد کی بات ماننے پر مجبور تھے 
ساریسہ سائےکی طرح شہریار  کے ساتھ رہتی تھی وہ اس کی ماں کو بھی اس کے قریب نہ طھٹکنے دیتی
یہ ان کی کی پریوں کی نگری کا ایک رواج تھا کے پری سات دن تک پہلے شوہر کے گھر پر رہ کر اسے ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ لے جاتی ہے 
اور یہی وجہ تھی کہ ساریسہ یہاں سات دن رہنے آئی تھی سات  دنوں کے لئے  اس نے شہریار کو ان سے بہت دور کر دیا تھا 
شہریار روتا رہتا تڑپتا رہتا وہ اسے اس کی ماں کے پاس نہ جانے دیتی ہے اور نہ ہی گھر میں کسی اور کے پاس 
 اگر ان لوگوں میں سے کوئی اس کے پاس جاتا تو وہ اپنی جادوئی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان کے ساتھ برا سلوک کرتی گھر کے مالک تو مالک نوکر بھی اس چھوٹی سی بچی سے ڈرے سہمے سہمے رہنے لگے تھے 
گھر میں سب لوگ بہت پریشان تھے اور پریشانی کی وجہ تھی ساریسہ تھی جو شہریار کو ایک سیکنڈ کے لئے خود سے دور نہیں کر رہی تھی 
یہاں تک کہ اس کا سخت رویہ دیکھتے ہوئے آسیہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی جس پربابا جان کو بہت غصہ آنے لگا انہوں نے اپنا غصہ نکالتے ہوئے ایک بار نہیں سوچا کہ اس کا کیا انجام ہوگا 
اور بنا سوچے سمجھے ساریسہ کو بہت سارا ڈالتا اور زبردستی شہریار کو اٹھا کر اسی کی گود میں ڈال دیا لیکن اس کے بعد وہ اپنے انجام سے بے خبر تھے وہ عجیب نظروں سے نانہیں دیکھتی واپس وہاں کرسی پر بیٹھ گئی اس کے چہرے سے اس کے غصے کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہ تھا ۔لیکن اس وقت تو بہت کچھ نہیں بولی
رات دو بجے وقت تھا تقریبا سب ہی لوگ سو گئے تھے شہر یار آج اپنی ماں کے پاس تھا صبح پیر صاحب یہاں آنے والے تھے وہی سب کا کوئی حل نکانے والے تھے 
اسی لئے گھر کے سبھی افراد کل صبح ہونے کا انتظار کر رہے تھے  ان دنوں وہ سب ہی بہت پریشان ہو چکے تھے 
رات کے اندھیرے گہرے ہوئے تو باہر سے عابد بیوی کے چیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگیں پریشانی حد سے سوار تھی  کوئی بھی سو نہیں رہا تھا نوکرانی کی آواز سنتے ہی سب لوگ  باہر آئے پر کہیں پر بھی عابد کی بیوی نظر نہ آئی 
وہ تیزی سے بھاگ کر گھر سے باہر نکلے تو سامنے بڑے سے درخت پر اس کی گردن  لٹکی ہوئی تھی جب کہ ہاتھ کاٹے دور پڑے تھے  اور جسم  وہی زمین پر پڑا تھا 
آج دوپہر میں جب بابا جان اسے ڈانٹ رہے تھے تب  یہی نوکرانی مسکرا رہی تھی اور ان کے جاتے ہی اس نے کہا تھا 
بڑی آئی پری ۔اور اس سے ساریسی نے اسے دیکھا تھا طے حد غصہ تو ہھر اس کا شاید یہی انجام ہونا تھا ۔
ساریسہ کہاں گئی کوئی نہیں لیکن وہاں باہر نہیں تھی شہریار کمرے میں اکیلا سو رہا تھا یہ سوچتے ہی آسیہ اور اپنے کمرے کی طرف بھاگی لیکن اپنا کمرہ بند دیکھ کر پریشان ہو گئی 
وہ ساری رات اپنے کمرے کے باہر بیٹھی رہی لیکن اس نے دروازہ نہیں کھلا
صبح چھ بجے پیر صاحب گھر آ چکے تھے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ شہریار ساریسہ  کے پاس ہے اور وہ اسے کسی سے بھی ملے نہیں دے رہی ۔
یہاں تک کہ اسے بالکل چھپا کے رکھ لیا ہے اور سات دن کے بعد وہ اسے ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ لے جانے والی ہے
 ایک قتل کرچکی تھی ۔
اگلے قتل کے لیے بھی تیار تھی وہ شہر یار اور اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ختم کر دینے والی تھی پیر صاحب نے زندگی میں اس سے زیادہ ضدی پری نہیں دیکھی تھی 
پیر صاحب نے ساریسہ کو سمجھانے کی بہت کوشش کی نہ تو اس پر ان کے عمل کا اثر ہوا تھا اور نہ ہی ان کی باتوں کا ۔
شہریار کو بچانے کا بس ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ایک پریزاد کا شوہر خود اسے کسی بات کا حکم دے تو وہ جان لٹا کر بھی اس کا حکم بجا لاتی ہیں 
 تین دن کے بعد دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں پائے گی اور وہ شہریار کو ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ لے جائے گی 
اب آگے آپ لوگوں نے کچھ ایسا کرنا ہے کہ خود شہریار اسے کوئی حکم دے کہ وہ شہریار سے دور ہو جائے جائے و ہی شہریار کی جان بھی چھوٹ سکتی ہے 
لیکن پیر صاحب شہریار صرف پانچ سال کا ہے وہ ان سب باتوں کو سمجھتا بھی نہیں وہ کیسے اس پری زادکو کوئی بھی حکم دے سکتا ہے  سکندر نے پریشانی سے کہا 
سکندر صاحب بچہ شہریار ہے آپ لوگ نہیں آپ لوگوں سے سمجھائیں تو آپ لوگوں کی باتوں کو سمجھے گا بس کسی بھی طرح سے آپ کو شہریار سے اکیلے میں ملنا ہوگا پیر صاحب جتنا سمجھا سکتے تھے سمجھا کر چکے تھے سے زیادہ وہ ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تھے  ۔

   1
0 Comments