Orhan

Add To collaction

عشق

عشق
از قلم اریج شاہ 
قسط نمبر18

وہ جیسے کمرے سے باہر نکلا ماما کو بے ہوش حالت میں دیکھ کر پریشانی سے اس کی طرف دوڑ کر آیا 
وہ جلدی سے اپنی بے ہوش ماں کو اٹھا کر روم میں لایا 
ماما کیا ہوگیا ہے آپ کو پلیز آنکھیں کھولیں اپنی ماں کی حالت دیکھ کر وہ بہت گھبرا گیا تھا 
سکندر صاحب اسیہ کی حالت دیکھ کر اس کے قریب آ گئے وہ ابھی کمرے میں داخل ہوئے تھے اور شہریار کو اس طرح دیکھ کر  اسے حوصلہ دینے لگے 
بابا دیکھے ماما کو کیا ہو گیا ہے کہیں اس پریذاد تونے کچھ نہیں کیا ۔بابااگر اس نے میری ماما کو نقصان پہنچایا تو میں 
اسے کبھی معاف نہیں کروں گا 
شہریار بابا سے کہتا ہوا غصے سے کمرے سے باہر نکلا بابا
اسے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ رکا نہیں 
اور بنا دروازہ کھٹکھٹائے اندر داخل ہوا اسے یقین تھا کہ وہ اس وقت اسی کمرے میں موجود ہو گی۔ 
او شہریار میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی اس نے مسکراتے ہوئے اسے ویلکم کیا 
تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری ماں کو اس حالت میں پہنچانے کی کیا کیا ہے تم نے ان کے ساتھ کہ انہیں ہوش ہی نہیں آ رہا وہ چلاتے ہوئے بولا 
وہ تمہیں مجھ سے الگ کرنے کی باتیں کر رہی تھی مجھے غصہ آگیا لیکن میں نے انہیں جان سے نہیں مارا مجھے پتا تھا تمہیں تکلیف ہوگی  تمہاری ماں ہے تمہاری ہر بیٹا اپنی ماں سے بہت محبت کرتا ہے میں نے تمہارے صدقے اس کی جان بخش دی وہ مسکراتے ہوئے بتا رہی تھی 
جب کہ شہریار کا دل چاہا کہ وہ اس کے منہ پر تھپڑ مار مار کے اس کا چہرہ لال کر دے 
پہلے مجھے تم پر ترس آتا تھا لیکن اب مجھے تم سے نفرت ہوتی جارہی ہے ساریسہ اگر تمہیں لگتا ہے کہ میرے گھر والوں کو نقصان پہنچا کر تم مجھے اپنے ساتھ لے جانے پر راضی کر لو گی تو یہ صرف تمہاری غلط فہمی ہے میں کبھی تمہارے ساتھ نہیں آؤں گا وہ غصے سے اس کی غلط فہمی دور کرنے لگاشاید پیار سے بہت سمجھا چکا تھا 
یہ سب کچھ تم ان لوگوں کی وجہ سے کر رہے ہو نا شہریار تمہیں لگتا ہے کہ یہ لوگ تمہارے اپنے ہیں 
تم ایک پریزاد کے شوہر ہو میں تمہیں دنیا کی ہر خوشی دے دوں گی یہ سب کچھ میرے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہے میں میں تو پوری دنیا لا کر تمہارے قدموں میں رکھ سکتی ہوں 
اوع ان کے لئے تم مجھے ٹھکرا رہے ہو ۔۔۔
 یہ عارضی رشتے ہیں لیکن ہمارا رشتہ مضبوط ہے وہ اسح سمجھاتے ہوئے مزید اس کے قریب آئی جب شہریار نے اس کے ہاتھ لسے پرے کرتے ہوئے سے دور جھٹکا 
نفرت ہو رہی ہے مجھے تم سے تمہارے وجود سے تمہاری ذات سے نہیں چاہیے مجھے تمہارے جیسے رشتے
میرے لئے میرے رشتہ اہم ہیں میری ماں میرا باپ میری بیوی تم کچھ نہیں لگتی میری مجھے لگا تھا میں تمہیں محبت سے سمجھاؤں گا لیکن تم محبت کے قابل ہی نہیں ہو ساریسا تم سے محبت نہیں کی جا سکتی تم سے صرف نفرت کی جا سکتی ہے 
وہ ہارتے ہوئے بولا 
جب کہ وہ غصے سے اسے گھور رہی تھی 
چلے جاؤ یہاں سے شہر یار ورنہ میں کوئی ایسی غلطی کر دوں گی جس کی وجہ سے مجھے ساری عمر پچھتانا پڑے گا 
بند کرو یہ ساری باتیں خبردار جو تم نے ہمیں نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچا تم چاہے جو کر لو میں  تمہارے ساتھ نہیں آؤں گا اسی لئے بہتر ہوگا ۔کہ تم یہاں سے چلی جاؤ شہر یار غصے سے بول رہا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ایک لمحے کو کھٹکا 
یہ سب کچھ تم اس سکندر کی باتوں میں آ کر کہہ رہے ہو نا تو مجھ سے قلندر کی بات مان رہے ہو نا چلو میں ایک اور غلطی کرتی ہوں اس سکندر کو ہمارے بیچ سے ہٹا دیتی ہوں اگر وہ سکندر ہی نہیں رہے گا تو تم ہمیشہ کے لئے میرے ہو جاؤ گے ہاں شہریار میرا اگلا شکار تمہارا باپ ہوگا 
پھر ہمارے بیچ اور کوئی نہیں آئے گا وہ غصے سے بول رہی تھی جب سکندر صاحب کمرے کے اندر داخل ہوئے 
اس سے پہلے کے شہر یار کچھ سمجھ پاتا ساریسہ نے ایک پھول نکالا اور ان کی طرف بھرنے لگی ایک گلاب پھول سے وہ ان کا کیا بگاڑ سکتی تھی یہ شہریار کی سوچ تھی
لیکن دیکھتے ہی دیکھتے سارسیہ نے اس پھول کوسکندر صاحب کے گر دن پر چلا دیا 
اور وہ نازک ساپھول خنجر کی دھار کی طرح ان کا گلا کاٹ چکا تھا 
شہریار فور ان کی طرف بھاگا 
اور اپنے باپ کو گرنے سے تھام لیا 
بابا  یہ کیا ہوگیا ہے آپ کو بابا آنکھیں کھولے آپ کو کچھ نہیں ہو گا میں ابھی آپ کو ہسپتال لے کے جاؤں گا سکندر کی حالت دیکھ کر شہریار بری طرح سے بوکھلا کر رہ گیا 
دفع ہو جاؤ یہاں سے نفرت ہے مجھے تم سے تمہاری شکل تک نہیں دیکھنا چاہتا میں ۔دفع ہو جاو۔ ۔وہ چلایا۔ 
اور بنا پلٹ کر دیکھے سکندر کو اٹھا کر باہر کی طرف بھاگ گیا 
عابد نے ڈاکٹر اور پولیس کو بڑی مشکل سے مطمئن کیا تھا یہ ایک جان لیوا حملہ تھا جس پر کوئی ڈاکٹر ہاتھ نہیں رکھ رہا تھا 
سکندرصاحب کی حالت بھگرتے دیکھ کر ڈاکٹر نے ان کا علاج شروع کر دیا لیکن پولیس ان کی جان نہیں چھوڑی تھی جن کا کہنا تھا کہ ان پر جان لیوا حملہ ہوا ہے 
پولیس نا تو کسی پری کی داستان پر یقین رکھتی تھی اور نہ ہی کسی جادوئی کہانی پر انہیں ہر چیز کا ثبوت چاہیے تھا 
وہ تو عابد نے ایک پولیس والے کو رشوت کا لالچ دے کر وہاں سے ہٹایا 
اس وقت ایک کمرے میں اس کا باپ اور دوسرے کمرے میں اس کی ماں تھی اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس کی ماں باپ کی زندگی اس کی وجہ سے کتنی مشکل میں پڑ جائے گی 
نہ جانے مہر کی حالت میں ہوگی 
شہریار بہت پریشان تھا جب عابد نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا ۔
اور وہ بنا سوچے سمجھے ان سے لپٹ کر کسی بچے کی طرح رونے لگا 
مجھے یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا عابد بابا میں نے بہت بڑی غلطی کر دی میرے ماں باپ نے مجھے وہاں رکھا تھا تاکہ میں محفوظ رہ سکوں لیکن میں نے ان کی بات نہیں مانی میں اپنی ضد میں یہاں آگیا اور اپنا سب کچھ کھو رہا ہوں 
میں اپنے ماں باپ کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا کاش سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے میں واپس چلا جاؤں گا میں کبھی پاکستان نہیں آؤں گا بس میرے ماں باپ کو زندگی مل جائے وہ عابد سے لپٹے مسلسل رو رہا تھا جب کہ عابد    اس کی حالت پر اسے حوصلہ دے رہا تھا 
وہ دو ہفتے کے بعد سکندر صاحب کوگھر واپس لایا تھا اور ان دو ہفتوں میں اس نے ساریسہ کو کہیں نہیں دیکھا تھا وہ واپس نہیں آیا تھا ان دو ہفتوں میں وہ ہسپتال میں ہی رہا آسیہ کی حالت اور ٹھیک ہوئی تو اس نے بتایا کہ ساریسہ نے اس پر حملہ کیا تھا 
اور وہ ہر اس انسان کو مار دے گی جو شہریار اور اس کے بیچ میں آئے گا 
یہ جان کر شہریار کو اس سے اور بھی زیادہ نفرت ہونے لگی تھی 
آج پندرہ دنوں کے بعد وہ اپنے والدین کو واپس گھر لے کے آیا تھا لیکن وہاں پر ساریسہ کو دیکھ کر اسے پھر سے غصہ آنے لگا اس کا دل چاہا کہ اسے جان سے مار دے 
اسے واپس پہنچنے کا اس کے پاس کوئی راستہ نہ تھا ۔
لیکن وہ اپنے انکار پر قائم تھا ۔
اپنے ماں باپ کمرے میں چھوڑ کر وہ کمرے سے باہر آیا تو ساریسہ اس کا انتظار کر رہی تھی 
پہلے 22 سال پھر یہ پندرہ دن تم چاہتے ہو میں تمہارے لیے تڑپتی رہوں تو مجھے یہ بھی منظور ہے شہریار بس ایک بار میرے ساتھ چلو میں تمہیں زندگی کی ہر خوشی دوں گی 
مجھ سے زیادہ تمہیں اور کوئی خوش نہیں رکھ سکتا 
میرے راستے سے ہٹ جاؤ میں آرام کرنے اپنے کمرے میں جانا چاہتا ہوں شہریار نے نظر اٹھا کر بھی اس کی طرف نہ دیکھا اس کی ہی بات ساریسہ کو تڑپا رہی تھی 
شہریار بنا اس کی طرف دیکھے ہوئے آگے بڑھنے لگا جب اس کا فون بجا 
مہر کا فون دیکھ کر اسے عجیب سا سکون مل رہا تھا مہر کو گئے ہوئے اکیس دن ہو چکے ہیں 
اور اب تک اس نے نہ تو مہر کا حال پوچھا تھا اور نہ ہی اسے فون کیا تھا وہ اسے کسی قیمت پر نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا 
لیکن اب اس کا فون آتا دیکھ کر وہ خود بھی تڑپ اٹھا 
مہر میری جان کیسی ہو تم اس نے فون اٹھاتے ہوئے پوچھا 
میں بالکل ٹھیک ہوں شہریار تم کیسے ہو ماما اور بابا کیسے ہیں ۔مہرنے پوچھا 
اسے ساریسہ نے  ان پر حملہ کیا ہے شہریار تم مجھے کچھ بتاتے کیوں نہیں ہوں کیوں مجھے ان سب باتوں سے دور رکھے ہوئے ہو 
وہ صرف تمہارے نہیں میرے بھی والدین ہیں مہر فون پر رونے لگی 
مہر میں بہت تنہا ہو گیا ہوں اس لڑکی نے میرا جینا حرام کر دیا ہے وہ مجھے اپنے ساتھ ہی لے کر جانا چاہتی ہے اور اگر میں نے اس کی بات نہیں مانی تو وہ گھر والوں کو مزید نقصان پہنچائے گی ۔
مجھے لگتا ہے کہ مجھے اس کی بات ماننی پڑے گی اگر میں اس کے ساتھ چلا گیا تو وہ سب کچھ چھوڑ دے گی سب لوگوں کی زندگی آسان ہو جائے گی شہریار کمرے کے اندر داخل ہوتے ہوئے کمرہ بند کر چکا تھا 
تو میرا کیا ہو گا شہریار 
میں تمہارے بغیر کیسے رہوں گی ہمارا بچہ تمہارے بغیر کیسے رہے گا مہر کی روتی ہوئی آواز آئی 
شہریار کو لگا جیسے اس نے کچھ غلط سنا ہے 
شہر یار ایم پریگنینٹ میری طبیعت خراب تھی تو زیان زبردستی مجھے ہسپتال لے گیا ہمارا بچہ اس دنیا میں آنے والا ہے شہریار
ہم تمہارے بغیر کیسے رہیں گے شہر یار میں تم پے کوئی زمہداری نہیں ڈال رہی بس اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ہم سب کے بارے میں ایک بار سوچ لینا مہے نے روتے ہوئے فون بند کر دیا جب کہ شہریار بس بند فون تو دیکھ رہا تھا 

   1
0 Comments