Orhan

Add To collaction

عشق

عشق
از قلم اریج شاہ 
قسط نمبر19

واپس آجاؤ ساریسہ بہت ہو چکا ہے وہ تم سے محبت نہیں کرتا وہ تم سے نفرت کرتا ہے تمہارے ساتھ آنے سے انکار کر چکا ہے اب اس سب کا کوئی فائدہ نہیں یہ ضد چھوڑ دو اور واپس آ جاؤ اس دنیا میں تمہارا کوئی کام نہیں یہ دنیا تمہارے لیے نہیں بنائی گئی 
ساریسہ کے کان میں آواز گونج رہی تھی لیکن اس پر جنون سوار تھا اسے شہریار چاہیے تھا کسی بھی قیمت پر 
شہریار ساریسہ سے نفرت کا اظہار کر چکا تھا تب سے ہی وہ بہت بے چین تھی۔ 
اس سے واپسی کا بلاوا آرہا تھا سب اسے وہاں پکار رہے تھے اسے باہر آنے کی اجازت اس کے شوہر نے دی تھی اسے گھر واپس جانا تھا وہ 22 سال سے لوگوں کے بیچ میں رہی تھی اب اس کا یہاں کوئی کام نہیں تھا 
لیکن شہریار کے بغیر وہ نہیں جا سکتی تھی وہ نہیں ہار سکتی تھی وہ پریام نہیں ساریسہ تھی اس نے ہار ماننا نہیں سیکھا تھا اسے کسی بھی حالت میں شہریار چاہے تھا 
شہریار بہت خوش تھا اپنے ہونے والے بچے کے بارے میں سن کر اس کی خوشی کی کوئی انتہا ہی نہ تھی ۔
لیکن وہ اپنی یہ خوشی کی  اپنے ماں باپ سے شیئر نہیں کر رہا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی بھی طرح سے یہ بات ساریسہ کو پتہ چلے اور وہ مہر کو دوبارہ نقصان پہنچانے کی کوشش کرے 
اب وہ مہر پر رسک نہیں لینا چاہتا تھا ۔
پیر صاحب نے کہا تھا کہ وہ   بار بار اس کے سامنے اپنی نفرت کا اظہار کرے  کہ وہ اس سے بد دل ہو جائے لیکن اس  کو اس بات کا بھی خیال رکھنا تھا کہ کہیں وہ غصے میں کوئی اور بڑا قدم نہ اٹھائے
وہ کچھ بھی کر سکتی تھی اس کی فیملی کو نقصان پہنچا سکتی تھی اور یہ نہیں چاہتا تھا 
اگر وہ اسے نقصان پہنچتی ہے تو ٹھیک ہے وہ ہنس کر اپنی فیملی کے لئے قربانی دے سکتا تھا لیکن اب  مہر کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ ایسے موڑ پر اسے تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا اس نے ان سب چیزوں سے بچنے کے لیے اپنی فیملی کو محفوظ رکھنے کے لئے ساریسی کی بات ماننے کا فیصلہ کیا تھا لیکن وہ فیصلہ بھی وہ نہیں ماننے والا تھا 
اب اس نے صرف اپنی فیملی کی ہی نہیں بلکہ اپنی بھی جان کی حفاظت کرنی تھی ۔
اپنے بچے کے لئے اپنی مہر کے لیے ۔اپنے ماں باپ کے لیے ۔
نہیں میں نہیں ہاری ہوں میں نہیں ہار سکتی وہ چاہے مجھ سے نفرت کرے لیکن میں پھر بھی اسے اپنے ساتھ لے کے جاؤں گی ساریسہ نے کبھی ہار ماننا نہیں سیکھا 
اور وہ اپنے عشق ہار جائے یہ ناممکن ہے وہ چلاتے ہوئے بولی 
نہیں ساریسہ ہار مان جاؤ وہ تمہارا کبھی نہیں ہو سکتا وہ کسی اور کا ہے کسی اور سے محبت کرتا ہے 
اس نے کبھی تمہیں نہیں چاہا بزرگ کی آواز آئی ۔
لیکن میں اسے چاہتی ہوں وہ میرا شوہر ہے میں اسے اپنے ساتھ لے کے جاؤں گی ساریسہ اپنی چیزیں کسی کو نہیں دیتی وہ پھر ست بدتمیزی اور غصے سے بولی 
ساریسہ میں مانتا ہوں میں قصور وار ہوں تمہارا اپنی بیٹی کا بدلا لینے کے لئے میں نے تمہاری قربانی تھی مجھ سے غلطی ہوگئی اس گناہ کی سزا مجھے مل چکی ہے میری بیٹی جو کبھی میرے خوابوں میں آکر مجھ سے بات کرتی تھی وہ بھی چھوڑ چکی ہے وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے کیونکہ میں نے اس کے سکندر سے بدلہ لینے کی کوشش کی
میں نے اس کے عشق کی توہین کی لیکن خدا کے لئے تم چھوڑ دو ہار مان جاؤ ساریسہ وہ تمہارا کبھی نہیں ہو سکتا وہ تم سے نفرت کرتا ہے ۔
پھر سے آواز آئی گی ساریسہ کو کوئی پروا نہ تھی وہ اس پکار کو سننا ہی نہیں چاہتی تھی وہ اب بھی اپنی ضد پر قائم تھی اسے شہریار چاہیے تھا کسی بھی قیمت پر ہو ایک عام سی لڑکی کے سامنے یوں ہار نہیں سکتی تھی وہ اس سے زیادہ خوبصورت تھی اس سے زیادہ طاقتور تھی اس سے زیادہ  اسے خوش رکھ سکتی تھی ۔
تو وہ اس سے کیوں ہارتی وہ کسی بھی قیمت پر مہر سے ہارنے کے لیے تیار نہ تھی۔ 
لیکن یہ آوازیں یہ پکارے اسے تنگ کر رہی تھی اس کا حوصلہ بڑھانے کی بجائے گٹا رہی تھی ۔
یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہوا ہے سکندر کم  تمہاری دنیا میں نہیں بلکہ تم ہماری دنیا میں آئے ہو تم نے سب کچھ برباد کیا ہے اب تمیں اس کی سزا ملے گی 
میں تمہاری جان لے لوں گی اور شہریار کو یہاں سے ہمیشہ کے لئے لے کر چلی جاؤں گی ۔
وہ سکندر صاحب کے قریب کھڑی تھی جب وہ کے گہری نیند سو رہے تھے 
اس کا ارادہ آج ان کا قصہ تمام کرنے کا اسے سب کا قصور وار صرف اور صرف سکندر لگتا تھا 
 اس نے اپنا گلابی پھول نکالا لیکن اس سے پہلے کے وہ سکندر پر ایک بار پھر سے وار کرتی اچانک کمرے کی لائٹ آن ہوئی 
کیا کرنے جا رہی تھی تم وہ دوڑتے ہوئے اس کے پاس آیا اور اسے دھکا دے کر پیچھے کی طرف دکھیلا 
میں اس کی جان لینے والی تھی شہریار یہ ہم دونوں کے بیچ آ رہا ہے اسے مر جانا چاہیے ۔وہ جنونی انداز میں بولی 
خبردار جو تم نے میرے بابا کو مارنے کی کوشش کی میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا اس کے انداز نے شہریار کو بھی غصہ دلادیا ۔
لیکن اس کے غصے کی پرواہ ساریسہ کونہ تھی۔ 
بلکہ اس کی دوپہر والی باتیں ابھی تک وہ اپنے دل پہ لیے بیٹھی تھی کتنی آسانی سے اس نے کہہ دیا تھا کہ وہ اس سے نفرت کرتا ہے جس سے عشق کی اس نے انتہا کر دی تھی 
تم مجھے مارنا چاہتے ہو اس شخص کے لئے جو ہمیں الگ کرنا چاہتا ہے تم مجھ سے نفرت کرتے ہو اس کے لیے جو اپنا عشق تک نہ نبھا سکا تم مجھ سے نفرت کرتے ہو جو 22 سال پر تمہارا انتظار کرتی رہی جو تمہارے ایک حکم پر ایک کمرے میں بند رہی اس سے نفرت کرتے ہو تم تم ۔۔۔۔ 
ہاں نفرت کرتا ہوں میں تم سے نفرت ہے مجھے تم سے بے تحاشہ نفرت ہے شہریار کی دھار نےسکندر صاحب کی آنکھ کھول دی
مجھ سے نفرت کرتے ہو تم ۔۔۔۔۔مجھ سے اگر تم میرے نہیں ہو سکتے شہریار تو تمہیں کسی کا نہیں ہونے دوں گی ۔۔
اگر میں نے مزید قتل کیا تومجھ سے پریوں کی طاقت سے چھین لی جائیں گی لیکن مجھے غم نہیں تھا اسے مارنے کا لیکن اب میں اسے نہیں تمہیں ختم کرو۔ گی جس کے لیے میں نے اتنا کچھ کیا تھا 
میں نے 22سال انتظار کیا 22 سال ایک  کمرے میں قیدر ہی 22 سال کی پریوں کی زندگی چھوڑ کر قیدی کی زندگی گزاری کس کے لئے تمہارے لئے اور تم مجھ سے نفرت کرتے ہو ۔۔۔۔
اگر تم مجھ سے نفرت کرتے ہو تو تمہیں جینے کا کوئی حق نہیں اگر تم میرے  نہیں ہو سکتے تو میں تمہیں کسی اور کا نہیں ہونے دوں گی ۔
جو میرا ہے وہ صرف میرا ہے اگر میرا نہیں تو کسی کا نہیں ساریسہ کہتے ہوئے اس کے بالکل قریب آ چکی تھی اور اس کا پھول اسی گردن پر وار کرتے ہوئے خنجر کا روپ دھار چکا تھا ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے فرش شہریار کے خون سے سرخ ہو گیا 
اس پر وار کرنے کے بعد وہ غائب ہوگئی وہ کہاں گئی کوئی نہیں جانتا تھا لیکن شہریار کی حالت بہت بگڑ چکی تھی ۔
سکندر صاحب اسے ہسپتال لے گئے جب کہ آسیہ بیگم نے رو رو کر اپنا حال خراب کر لیا تھا 
جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا نکاح کے برد ان بزرگوں نے کہا تھا کے اگرساریسہ شہریار کو حاصل نہ کر سکی تو اسے جان سے مار دے گی اور اس نے ایسا ہی کیا 
اور اگر وہ بچ گیا تب بھی وہ اس کی جان نہیں چھوڑے گی وہ واپس آئے گی اور پھر سے مارنے کی کوشش کرے گی کیونکہ اب وہ ساریسہ کے دل سے اتر چکا تھا 
ہاں شہریار کے لفظوں نے ساریسہ کو اس سے نفرت کرنے پر مجبور کر دیا تھا 
اب اس کا مقصد شہریار کو حاصل کرنا نہیں بلکہ اس کی جان لینا تھا ۔
پلیز مجھے جانے دو زیان خدا کے لیے شہر یار ہسپتال میں اس کی جان خطرے میں ہے  پلیز مجھے جانے دو مہر نے روتے ہوئے کہا
 آج بھی آسیہ نے فون پر اسے بتایا تھا کہ ساریسہ نےشہریار پر جان لیوا حملہ کیا ہے اور تب سے ہیں وہ بن پانی کے مچھلی کی تڑپ رہی تھی 
بھابھی سمجھنے کی کوشش کریں آپ بیمار ہیں شہریار نے مجھے آپ کا خیال رکھنے کے لیے کہا ہے میں اس طرح سے آپ کو نہیں جانے دے سکتا 
میں کچھ نہیں جانتی میرے شوہر کی جان خطرے میں ہے اسے میری ضرورت ہے مجھے جانا ہے جانے دیں میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں زیان بھائی 
وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر التجا کرنے لگی اور اس کی جوڑے ہاتھوں کو دیکھ کر زیان بے بس ہو گیا وہ خود بھی تو شہر یار کو دیکھنے کے لئے تڑپ رہا تھا 
اس پر جان لیوا حملے کا سن کر زیان بہت پریشان ہو چکا تھا ایک ہی تو دوست ہے اس کا جس کے بغیر رہ نہیں سکتا تھا اور اب وہ زندگی اور موت میں جنگ لڑ رہا تھا وہ اپنی دوستی کا فرض مہر کا خیال رکھ لر نبھا رہا تھا 
لیکن شہریار سے اتنا دور رہ کر وہ خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا اسی لیے اس نے شہر یار کا وعدہ توڑ دیتے ہوئے مہر کو اپنے ساتھ پاکستان لے جانے کا فیصلہ کیا 

   1
0 Comments