سنگ مر مر
سنگ مر مر
از قلم اسامہ رحمن مانی
قسط نمبر3
آرزو تم۔۔۔۔؟؟؟
وہاں موجود لڑکی کو دیکھ کر فیصل کو زبردست حیرت کا جھٹکا لگا۔۔۔۔۔
فیصل۔۔۔۔۔؟؟ آرزو کے چہرے پر بھی حیرت اور خوشی کی لہر دوڑ گئی۔۔۔
واٹ آ سرپرائز کامران۔۔۔۔۔تُو تو بہت تیز نکلا میرے بھائی۔۔۔۔
کیسی ہو تم۔۔۔۔فیصل نے فوراً پوچھا۔۔۔۔
ایبسولیوٹلی فائن۔۔۔۔تم کیسے ہو فیصل۔۔۔۔آرزو نے جواباً اس سے پوچھا۔۔۔
ٹھیک ہوں۔۔۔۔بلکہ بہت خوش ہوں آج تو۔۔۔۔اس وقت فیصل کے ذہن کے کسی کونے میں بھی ایمان کا تصور نہ تھا۔۔۔
اپنے سامنے آرزو کو دیکھ کر وہ بہت خوش لگ رہا تھا۔۔۔
ویسے کہاں سے ڈھونڈ نکالا اسے۔۔۔۔ فیصل کامران کی طرف مڑا۔۔۔۔
باقی کی کہانی خود ہی جان لو اس سے۔۔۔۔میرا ایک چھوٹا سا کام ہے۔۔۔فری ہو کے دوبارہ آتا ہوں۔۔۔۔جب تک تم دونوں باتیں کرو۔۔۔۔
کامران یہ کہتے ہوئے اندر کی جانب مڑا۔۔۔۔
پہلی دفعہ فیصل نے اس تقریب کے لیے کی گئی کامران کی تیاریوں پر نگاہ دوڑائی تو دیکھتا ہی رہ گیا۔۔۔۔
برقی قمقموں سے سجایا گیا وسیع لان پوری طرح جگمگا رہا تھا۔۔۔۔۔اس کا شاندار گھر بھی کسی میرج ہال کا ہی سماں پیش کر رہا تھا۔۔۔۔
اس نے تمام چیزوں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی پھر وہ آرزو کے ساتھ باتوں میں مشغول ہو گیا۔۔۔۔۔۔
تو اب بتاؤ تم کہاں تھیں؟
انڈر گراؤنڈ ہو گئی تھیں یا آسمان کھا گیا تھا تمہیں۔۔۔جو ایک سال سے کوئی رابطہ ہی نہیں کیا تم نے۔۔۔۔نہ میرا فون اٹھایا کتنی بار کوشش کی میں نے۔۔۔۔
میرا فون کھو گیا تھا فیصل۔۔۔۔۔۔
کیسے رابطہ کرتی تم لوگوں سے۔۔۔۔
آرزو نے صفائی پیش کی۔۔۔۔۔
حد ہو گئی یارر۔۔۔۔تمہیں میرا نمبر تک نہیں یاد تھا۔۔۔۔؟
تمہارا نمبر کیسے بھول سکتی ہوں میں۔۔۔۔
لیکن ٹرائی کر کر کے تھک گئی تھی، ہمیشہ آف ملتا تھا۔۔۔۔
کونسا نمبر ؟۔۔۔۔وہ پرانا والا۔۔۔۔؟
ہاں وہ تو بند ہو گیا تھا یار۔۔۔۔دیکھو زرا۔۔۔۔میں بھی کیسا پاگل ہوں سوچا ہی نہیں کہ تم وہ والا ٹرائی کر رہی ہو گی۔۔۔۔ ایم سوری۔۔۔۔فیصل شرمندہ سا ہو گیا۔۔۔۔
اور کامران کا۔۔۔۔؟ فیصل نے دوبارہ پوچھا۔۔۔۔
نہیں یاد تھا۔۔۔۔۔صرف تمہارا ہی یاد تھا......آرزو نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔۔
جیسے وہ اپنے جواب میں ایک اور جواب یا کوئی نیا سوال چھپائے ہوئے ہو۔۔۔۔۔جسے شاید فیصل نے بھی بھانپ لیا۔۔۔۔۔۔
تم کراچی سے کب آئیں۔۔۔۔اور یہ کامران سے پھر کیسے کانٹیکٹ ہو گیا تمہارا؟۔۔۔
قسمت سے مال میں ملاقات ہو گئی تھی ہماری ایک ہفتہ پہلے۔۔۔۔
وہیں اس نے بتایا پارٹی کا بھی اور انوائیٹ کر دیا۔۔۔۔۔
اوووہ اچھا۔۔۔۔۔۔دیٹس گریٹ۔۔۔۔۔فیصل نے ہونٹوں کو ہلکی سی جنبش دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
تو تم کیا کر رہی ہو آج کل۔۔۔۔؟
ٹی وی پروڈکشن کا کورس کیا تھا...لیکن...
لیکن کیا.....؟فیصل نے فوراً پوچھا..
پریکٹس نہیں کی....بس ایک پرائیویٹ چینل میں ٹالک شو کیا تھا کچھ ماہ...اور مارننگ شوز...
لیکن پھر چھوڑ دیا...اب فری ہوں...
ایسا کیوں...تمہیں تو کانٹینیو کرنا چاہیے تھا اس کو...
دل نہیں چاہ رہا تھا...اس لیے چھوڑ دیا...
اوکے...
اور تم....؟آرزو نے پوچھا...
میں....شہر کے بڑے ہوٹل کا مالک ہوں....پیرا ماؤنٹ ہوٹل...وزٹ کرنا تم بھی....
ضرور... کیوں نہیں....بلکہ میٹ اپ رکھ لیں گے وہیں کسی دن...کامران سے پوچھ لینا....
آئی لائیک اٹ....گڈ آئیڈیا....ایسا ہی کریں گے....
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد فیصل دوبارہ بولا....
یہاں سے جاتے ہوئے تم نے یہی بتایا تھا کہ تمہارے ڈیڈ کا ٹرانسفر ہو گیا ہے اس لیے تم کراچی جا رہی ہو.....
پھر اس کے بعد تم سے کوئی رابطہ نہیں ہوا...سچ پوچھو تو جب بھی کامران سے میری بات ہوتی تھی میں لازمی تمہارا پوچھتا تھا....مگر اس کا بھی تم سے کوئی رابطہ نہ ہو پایا....وہ بول رہا تھا اور آرزو اس کی آنکھوں میں وہ جذبات تلاش کر رہی تھی جن کی وجہ سے اس نے سوائے فیصل کے سب کے نمبرز بھلا دیے تھے...................
آرزو، فیصل اور کامران نے اسلامک یونیورسٹی میں ایک ساتھ ماسٹرز کیا تھا.....
ایک سی نیچر ہونے کے باعث تینوں کی اچھی دوستی تھی....مگر بعد ازاں آرزو اسلام آباد سے کراچی چلی گئی......اور آج سال بعد وہ دونوں اس سے دوبارہ ملے تھے.....
___________________________
ڈنر پہ فیصل کو اچانک دن میں پیش آنے والا واقعہ یاد آ گیا۔۔۔۔وہ اسی تصور میں کھویا تھا کہ کامران نے اسے جھنجھوڑا۔۔۔۔کہاں کھو گئے ہو ؟۔۔۔۔وہ جا رہی ہے۔۔۔۔
کون؟ فیصل نے حیرت سے پوچھا۔۔۔
آرزو۔۔۔اور کون۔۔۔۔
اوہ۔۔۔تم جلدی جا رہی ہو؟ کیا ہوا۔۔۔۔
جلدی۔۔۔؟؟؟ گیارہ بجنے والے ہیں مسٹر۔۔۔۔۔۔اور ایکچوئلی میری زرا طبیعت بھی صحیح نہیں ہے سو میں۔۔۔۔اب جانا چاہتی ہوں۔۔۔۔
اوکے۔۔۔۔۔تھینک یو آرزو۔۔۔۔کامران بولا۔۔۔۔
او...اوکے....آرزو...پھر ملتے ہیں...بائے......
کچھ دیر میں فیصل بھی وہاں سے نکل آیا........
ایک بار پھر سے اس کا ذہن انہی سوچوں میں پلٹ گیا...جو اس کے دل میں اک نیا احساس پیدا کیے دے رہی تھیں....
گھر پہنچنے کے بعد بھی وہ ٹیرس پہ کھڑا اپنی تھوڑی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے آسمان کی جانب انہماک سے دیکھ رہا تھا جیسے اسے چاند پر کسی کا نقش دکھ رہا ہو.....وہ حیران تھا کہ یہ انوکھے احساسات اس کے دل میں کیوں جنم لے رہے ہیں.... سفر کرنے کے باوجود بھی وہ کہیں سے تھکا ہوا معلوم نہیں ہو رہا تھا...
کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا...
ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں...
رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی....وہ اپنے کمرے میں جا کر سو گیا.........