سنگ مر مر
سنگ مر مر
از قلم اسامہ رحمن مانی
قسط نمبر5
اگلی صبح بھی فیصل اپنے معمول کے وقت سے پہلے اٹھ کر باہر چلا گیا...
اتفاق سے آج بھی اس کو اماں صدیقہ اسی جگہ ملیں جہاں گزشتہ روز ملیں تھیں...
اس نے غور نہ کیا کہ ان کے تھیلے میں آج کیا ہے...
وہ دوبارہ ان کو گھر تک چھوڑ آیا...
ابھی وہ وہاں سے نکلنے ہی والا تھا کہ اماں نے پوچھ لیا...
بیٹا تمہارا نام کیا ہے...؟
فیصل نے ایک نظر ان کو دیکھا اور دھیرے سے بولا...
میرا نام فیصل ہے...اور اپنی راہ ہو لیا...
وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ پیچھے اماں کو کس حال میں چھوڑ آیا ہے...
اماں صدیقہ کے لیے قدم بھرنا بھی دشوار ہو گیا تھا...
کافی دیر وہ گھر کی دہلیز پر کھڑی نم آنکھیں لیے فیصل کی سمت دیکھتی رہیں...
معلوم ہوتا تھا گویا فیصل کے ساتھ ان کا کوئی قریبی تعلق ہے...
___________________________
ایمان...ایمان...تم یہاں بیٹھی ہوئی ہو ابھی تک...سارے وہاں پہنچ چکے ہیں آڈیٹوریم میں...جلدی کرو...
زارا نے کلاس میں داخل ہوتے ہوئے ایمان پر گویا دھاوا بھول دیا...
اوہ ہاں...آج تو سپیچ کمپیٹیشن کے ونرز کی اناؤسمنٹ ہونی ہے...
میں بھول ہی گئی...چلو چلو...وہ یہ کہتے ہوئے فوراً اٹھ کھڑی ہوئی...
مجھے یقین ہے تم ہی ونر ہو گی...
زارا نے بند مٹھی لہراتے ہوئے کہا...
میرے علاوہ بھی چار لڑکیوں نے حصہ لیا تھا...
کوئی بھی ونر ہو سکتی ہے...وہ آہستگی سے بولی...
نہیں تم دیکھ لینا...تم ہی ہوگی...
یہ باتیں کرتے کرتے وہ دونوں آڈیٹوریم میں پہنچ گئیں...
وہاں صرف آخری نشستیں باقی تھیں...باقی بھر چکیں تھا...
وہ دونوں بھی سیکنڈ لاسٹ رو میں جا کر بیٹھ گئیں...
تھوڑی دیر میں اناؤنس ہوا...
پچھلے ہفتے منعقد ہونے والے سپیچ کمپیٹیشن کی ونر ہیں...ایمان...
تالیوں کی گونج میں وہ سٹیج پر پہنچی...
یہ مقابلہ جیتنے پر اس کی خوشی کی انتہا نہ تھی...
یوں تو وہ پہلے بھی کئی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں یا مقابلوں میں جیت سے ہمکنار ہوئی تھی... مگر کسی تقریری مقابلے میں اس نے پہلی بار حصہ لیا تھا...
اس دن وہ کالج میں بھی بہت خوش دکھائی دے رہی تھی...
___________________________
حمزہ۔۔۔میں تھوڑی دیر میں واپس آتا ہوں زرا کام سے جا رہا ہوں۔۔۔
ایک بار پھر فیصل ڈیڑھ بجے کے قریب ہوٹل سے نکل رہا تھا۔۔۔
حمزہ نے ایک عجیب سی نظر اس پر ڈالی جیسے سوچ رہا ہو۔۔۔
یہ کون سا کام ہے جو تین دن سے ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔۔۔
کچھ دیر میں فیصل نے انہیں اپنی جانب آتے دیکھا۔۔۔
لیکن آج فیصل کی جانب ایمان تو کیا نور کا بھی دھیان نہ تھا۔۔۔۔
وہ دونوں آج خلاف معمول ہنستی مسکراتی باتوں میں مشغول تھیں۔۔۔اسی اثناء میں فیصل کے قریب پہنچ کر ایمان کی نگاہ بے اختیار اس کی جانب اٹھ گئی۔۔۔
وہ اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ لیکن فوراً ہی دونوں نے اپنی نظریں جھکا لیں۔۔۔گاڑی کا اے سی آن ہونے کے باوجود فیصل کی پیشانی پر کچھ قطرے نمودار ہو گئے جن کو اس نے ٹشو کی مدد سے پونچھتے ہوئے اپنی بے ترتیب سانسوں کو درست کیا۔۔۔
بس ایک جھلک ہی اس نے ایمان کو دیکھا تھا مگر اس کی رات کی گئی خواہش پوری ہو گئی تھی۔۔۔
آج وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ ایمان نے اسے دوبارہ بھی دیکھا تھا۔۔۔
وہ حیران تھا کہ اس درجہ حیا اس میں کب آئی کہ وہ اس سے لمحہ سے زیادہ نظر تک نہ ملا پایا۔۔۔
___________________________
وہ دوبارہ ہمت کر کے کیسے بھی ہوٹل تو پہنچ گیا۔۔۔
مگر اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپائے نہ جانے کن خیالات میں غرق ہو گیا۔۔۔
اچانک اس نے اپنے پیشانی پر ہاتھ رکھا تو اسے عجیب سی حدت محسوس ہوئی۔۔۔
یہ سب اس کے لیے نیا تھا۔۔۔
وہ اس ساری صورتحال سے گھبرا رہا تھا۔۔۔
اس نے فوراً دو گلاس ٹھنڈا پانی پیا اور گھر چل دیا۔۔۔
اب حمزہ کی حیرت اور تجسس میں بھی مزید اضافہ ہو چکا تھا۔۔۔لیکن فی الوقت اس نے کچھ پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔۔۔۔
کیا ہوا یہ تمہارے چہرے کا رنگ کیوں اڑا ہوا ہے فیصل۔۔۔؟
اس کے گھر پہنچتے ہی عظمی بیگم نے پریشان ہو کر پوچھا۔۔۔
کچھ نہیں بس سر میں درد ہے۔۔۔
میں کچھ آرام کرنا چاہتا ہوں۔۔۔
اسی لیے واپس چلا آیا۔۔۔وہ ان سے نظریں ملائے بغیر بولا۔۔۔
ہاں ٹھیک ہے اچھا کیا۔۔۔جاؤ تم آرام کرو۔۔۔انہوں نے جلدی سے کہا۔۔۔
اور وہ اپنے کمرے میں جا کر بے سدھ سا بیڈ پر گر گیا۔۔۔
کچھ دیر میں اسے نیند آ گئی۔۔۔
___________________________
نور۔۔۔نور بات سنو۔۔۔
جی جی۔۔۔بولیں کیا ہوا۔۔۔ایمان نے یکے بعد دیگرے اسے آوازیں تو وہ تھوڑا ہڑبڑا گئی۔۔۔
وہ۔۔۔۔۔میری طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔
کون۔؟نور نے جواباً پوچھا۔۔۔
وہی لڑکا۔۔۔جس کا تم نے بتایا تھا۔۔۔
اوہ۔۔۔تو وہ آج بھی وہاں موجود تھا۔۔۔اس کے منہ سے نکلا۔۔۔
کل ابا کو بتائیں گے۔۔۔انہوں نے شاید دھیان نہ دیا ہو۔۔۔نور یہ کہتے ہوئے جانے لگی۔۔۔
ایک منٹ۔۔۔ایمان نے اس کابازو تھام لیا۔۔۔مجھے وہ۔۔۔دکھنے میں ایسا ویسا نہیں لگا۔۔۔اس نے نیچے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
ایسا ویسا نہیں لگا؟ پھر کیسا لگا؟۔۔۔
کیا مطلب۔۔۔؟
مطلب یہ کہ۔۔۔آپ نے آج اس کو دیکھا۔۔۔اور وہ آپ کو پہلی نظر میں اچھا لگ گیا۔۔۔؟
یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔۔۔ہوش میں تو ہو۔۔۔میں نے ایسا کب کہا۔۔۔میں تو بس یہ کہہ رہی ہوں کہ وہ۔۔۔
برا نہیں ہے۔۔۔نور نے خود ہی ایمان کی بات مکمل کی۔۔۔
پتہ نہیں۔۔۔ایمان جھنجھلا گئی اور کمرے سے باہر نکلنے لگی۔۔۔
جو برا نہ ہو وہ اچھا ہی ہوتا ہے۔۔۔نور کے جملے نے اس کے قدم روک دیے۔۔۔
میری بہن کی نظر تو غلط نہیں ہو سکتی۔۔۔
آپکو اچھے برے کی تمیز ہے۔۔۔پھر بھی اگر کوئی شخص پہلی نظر میں آپ کو برا نہیں لگا۔۔۔تو میں کیسے مان لوں کہ وہ اچھا نہیں ہے۔۔۔نور سنجیدہ لہجے میں بولی۔۔۔
تم پتہ نہیں کیا کہہ رہی ہو۔۔۔میری سمجھ سے باہر ہے۔۔۔وہ تیز تیز قدم اٹھاتی کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔
نور اپنے چہرے پر ملے جلے تاثرات لیے اس کو جاتا دیکھ رہی تھی۔۔۔
___________________________
اس وقت شام کے ساڑھے چھ بجے تھے جب فیصل کی آنکھ کھلی۔۔۔
اس نے نوٹ کیا کہ اب اس کے جسم میں حدت باقی نہیں ہے۔۔۔
وہ فریش ہو کر نیچے گیا اور کھانے کا پوچھا۔۔۔کچھ دیر میں کھانا اس کے سامنے تھا۔۔۔عظمی بیگم خود بھی اس کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔۔۔
کیا ہوا کوئی پریشانی ہے بیٹا؟ انہوں نے اس کے بال سہلاتے ہوئے پوچھا۔۔۔
نہیں امی۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہے بس۔۔۔تھوڑا سر درد تھا دن میں اب بہتر ہے۔۔۔
مجھے کیوں ایسا لگ رہا ہے جیسے تم کچھ چھپا رہے ہو۔۔۔
فیصل ان کی یہ بات سن کر کھسیانی ہنسی ہنس دیا۔۔۔اس وقت اس کے پاس بتانے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔۔۔