Orhan

Add To collaction

سنگ مر مر

سنگ مر مر
 از قلم اسامہ رحمن مانی 
قسط نمبر18

مجھے یاد آیا... اس دن ایک ڈرامہ کی شوٹنگ بھی ہوئی تھی یہاں اور اس میں شادی ہوئی تھی کسی کی... شاید تم اس کی بات کر رہے ہو...
فیصل اور کامران نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔۔۔ 
ایمان اور ایکٹنگ۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔ فیصل بڑبڑایا۔۔۔
اچھا آپ ہمیں اس کے ڈائریکٹر کا نمبر یا پتہ وغیرہ دے دیجیے برائے مہربانی۔۔۔
اممم۔۔۔اسسٹنٹ ڈائریکٹر کا نمبر ہے میرے پاس۔۔۔ میں دیتا ہوں۔۔۔
اب وہ وہاں سے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے پاس پہنچے۔۔۔ 
لیکن وہاں بھی ان کو وہی جواب ملا کہ وہ کسی ایمان کو نہیں جانتا۔۔۔
پھر اس کے بتانے پر وہ دوسری منزل پر موجود پروڈیوسر کے آفس میں گئے۔۔۔
آفس میں داخل ہونے کے لیے قریباً ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑا۔۔۔
السلام علیکم سر۔۔۔ فیصل نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔۔۔
وعلیکم السلام۔۔۔ جی بتائیے۔۔۔
سر آپ کے ایک ڈرامے کا سین ریکارڈ ہوا تھا حسان میرج ہال میں۔۔۔ اس میں ایک ایمان نام کی لڑکی بھی تھی۔۔۔ ہمیں اس سے ملنا ہے۔۔۔ آپ کائنڈلی ان کا پتہ بتا دیجیے۔۔۔
 پروڈیوسر صاحب فوراً بولے۔۔۔ کون ایمان۔۔۔ ؟۔۔۔ میں تو کسی ایمان کو نہیں جانتا۔۔۔
فیصل ہونک بن کر پروڈیوسر صاحب کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ اس کا دل بجھ گیا۔۔۔ یہی ایک آخری امید تھی اس کے لیے۔۔۔ لیکن اس بار بھی جواب باقیوں سے مختلف نہ تھا۔۔۔
ایک لمحے کے لیے اس کی آنکھوں کے سامنے وہ معصوم سا چہرہ گھوم گیا۔۔۔ جس کو دیکھ کر اس نے پہلی بار یہ جانا کہ محبت کیا ہے۔۔۔ اسے پتہ چلا کہ دل کے موسموں میں بہار بھی آیا کرتی ہے۔۔۔ وہ لڑکی کہ جس کے خاطر اس نے اپنی تکلیف کی بھی پروا نہ کی اور چل پڑا اسے ڈھونڈنے۔۔۔ جس کے پیچھے وہ جیل چلا گیا۔۔۔ وہی اس سے کھو گئی تھی۔۔۔ 
وہ خاموشی سے اٹھا اور باہر نکل گیا۔۔۔ کامران بھی اس کے پیچھے گیا اس نے دیکھا فیصل کے چہرے پر ایک سنجیدگی تھی۔۔۔ اس کی توقع کے برعکس اس کے چہرے پر کسی قسم کی اداسی یا محرومی کے تاثرات نہ تھے۔۔۔ 
فیصل۔۔۔ اس نے کندھے پر ہاتھ رکھا مگر فیصل نے اس کا ہاتھ ہی ہٹا دیا۔۔۔ وہ مسلسل چلے جا رہا تھا۔۔۔ 
فیصل۔۔۔ کامران نے ایک بار پھر اسے مظبوطی سے پکڑا۔۔۔ اس بار وہ رک گیا۔۔۔
دیکھ یار۔۔۔کچھ چیزیں۔۔۔انسان کی قسمت میں نہیں بھی ہوتیں۔۔۔اب قسمت سے کیسا لڑنا۔۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔ وہ جہاں رہے۔۔۔ امید ہے خوش رہے گی۔۔۔ اب تو بھی اس کا پیچھا چھوڑ دے۔۔۔ ملنی ہوتی تو اب تک مل جاتی۔۔۔ کب تک یوں خود سے لڑے گا۔۔۔ کھانا چھوڑ دینا، راتوں کو جاگنا ، یہ کوئی عقل کی بات تھوڑی نا ہے ۔۔۔
کامران میں یہ گلی محلے کے عاشقوں کی طرح کھانا پینا نہیں چھوڑ رہا۔۔۔ رات کو سوؤں گا بھی۔۔۔ لوگوں سے ملنا جلنا بھی نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ چلو اسے بھولنے کی بھی کوشش کر لوں گا۔۔۔
لیکن۔۔۔ پھر بھی اس سب کے باوجود ایک کمی اس دل کو ہمیشہ ستائے گی۔۔۔وہ کسی کا ہاتھ، وہ کسی کا ساتھ ، وہ یادیں، وہ باتیں ، زندگی میں ہر موڑ پر میرے سامنے آ کر کھڑی ہو جائیں گی۔۔۔ ایک کسک رہے گی دل میں۔۔۔ کسی سے کیے گئے کچھ وعدے، وہ عہد و پیمان ، وہ امیدیں، یہ سب، کچھ دن کا کھیل نہیں تھا کامران۔۔۔ ایک ذندگی تھی۔۔۔ 
بس زندگی میں سے یہ کمی دور کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ پیار کا یہ سورج جو طلوع ہونے سے پہلے ہی غروب ہو گیا۔۔۔ اسے دوبارہ طلوع کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ اس کے لیے چاہے کچھ بھی کرنا پڑے۔۔۔
فیصل تو چلا گیا مگر اس کا لہجہ بتا رہا تھا کہ اب وہ جس جانب چل پڑا ہے وہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔۔۔ 
کامران نے جاتے وقت اس کے لہجے میں چھپے محبت کے سچے جذبات کو جان لیا تھا۔۔۔
اس نے ٹھان لی تھی کہ اب وہ بھی اس سفر میں فیصل کا ساتھ دے گا۔۔۔
اس کے لیے وہ اگلے دن سب سے پہلے پروڈیوسر صاحب کے آفس گیا۔۔۔
آپ تو کل بھی آئے تھے نا۔۔۔ تو آج پھر۔۔۔ 
سر بس اس ڈرامے کی لیڈ کاسٹ کا بتا دیجیے۔۔۔ مجھے یقین ہے اسی میں ہے ایمان۔۔۔ 
یار کیا ایمان ایمان لگا رکھی ہے۔۔۔ کل بھی آپکو بتایا تھا کہ ہماری کاسٹ میں کوئی ایمان نہیں ہے۔۔۔ بہتر ہو گا کہ آپ اپنا اور میرا قیمتی وقت ضائع مت کیجئے۔۔۔
ایمان۔۔۔ آفس میں داخل ہوتی لڑکی کے منہ سے نکلا۔۔۔
یہ کومل نایاب تھی۔۔۔ 
کامران نے اسے حیرت سے دیکھا۔۔۔
وہ بھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے کامران کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
آپ جانتی ہیں ایمان کو۔۔۔؟ اس نے کامران کے سوال کا جواب نہ دیا۔۔۔
وہ آفس سے باہر نکل گئی۔۔۔
کامران بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔۔۔
سنیے پلیز۔۔۔ وہ کامران کی آواز سن کر رکی۔۔۔
کیا تم فیصل ہو۔۔۔
کامران کوئی جواب نہ دے سکا۔۔۔
وہ گھبرا گیا۔۔۔ اسے ایمان کے بارے میں معلوم کرنا تھا کہ وہ کہاں ہے۔۔۔ اور اس کے بارے میں صرف کومل جانتی تھی یہ کامران کو اس کا سوال سن کر اندازہ ہو گیا تھا۔۔۔
اب اگر کامران خود کو فیصل نہ بتاتا تو کومل اسے کچھ بھی نہ بتاتی۔۔۔ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔۔۔ ہاں ۔۔۔ میں ہی فیصل ہوں۔۔۔ لیکن ایمان کہاں ہے۔۔۔ 
کیوں جاننا چاہتے ہو اب اس کے بارے میں۔۔۔ تم نے اس کے ساتھ جو کچھ کیا ۔۔۔ اس کی توقع کسی انسان سے تو نہیں کی جا سکتی۔۔۔
دیکھئیے آپ کو بھی وہی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔جس کا شکار باقی لوگ ہیں۔۔۔ دراصل میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔
تم لڑکوں کا کیا بھروسہ۔۔۔ کسی کی زندگی سے کھیل کر کہ دو کہ میں بے قصور ہوں۔۔۔ آئندہ یہاں آنے کی کوشش مت کرنا۔۔۔میں تو پولیس کو ایک کال کر کے تمہیں اریسٹ کروا دیتی۔۔۔ مگر نہ جانے کیوں اس پگلی نے مجھے ایسا کرنے سے روک دیا۔۔۔
کامران کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔۔۔ وہ بتانا چاہتا تھا کہ میں فیصل نہیں فیصل کا دوست ہوں۔۔۔
لیکن اب بھی اسے بہت کچھ جاننا تھا۔۔۔ 
خدا کے لیے مجھے بس ایک بار ایمان سے ملنا ہے۔۔۔ میں آپکے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں۔۔۔ اس کی غلط فہمی دور کرنی ہے کہ اس کا مجرم میں نہیں ہوں۔۔۔ اسے بتانا ہے کہ فیصل نے ۔۔۔ میرا مطلب میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔ بلکہ یہ کسی کی سازش تھی۔۔۔
 میں نے کہا نا تم اس سے نہیں مل سکتے۔۔۔ تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ جہاں سے آئے ہو وہیں واپس چلے جاؤ۔۔۔ اگر تم نے زیادہ اصرار کیا تو میں پولیس کو بلوا لوں گی۔۔۔ 
کومل نایاب کسی طور اسے ایمان سے ملنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔۔۔ وہ اتنا کہ کر واپس مڑ گئی۔۔۔
پھر کامران نے آخری حربہ آزمایا۔۔۔ اچھا اگر میں اس کی بہن نور سے آپکی بات کرا دوں تو آپ کو یقین آ جائے گا؟ 
کومل جاتے جاتے رک گئی۔۔۔ 
کیا کہا؟ 
ہاں۔۔۔ میں آپ کی بات کرا دیتا ہوں۔۔۔وہ آپکو بتائے گی کہ کیا مس انڈرسٹینڈنگ ہے۔۔۔ اس نے اپنا فون نکالتے ہوئے کہا۔۔۔ اس کے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے۔۔۔

   1
0 Comments