رخصتی
(افسانہ) "رخصتی"
سورج اپنی کرنوں کو سمیٹ کر صبح کے ڈھلوان سے اتر چکا تھا ۔ چاند ، رات کی سواری پر روشنی کی تھالی لئے چڑھ رہا تھا ۔ اذان کی آواز نے چاروں سمت کی فضاء کو مسحور کر دیا تھا ۔ آسمان کی کالی چادر سجنی شروع ہو گئی تھی ۔ نمودار ہوتے ہوئے جِھلمل ستاروں کی روشنیاں مسکرا مسکرا اس کو نئ زندگی کا احساس دلا رہی تھیں۔ ذہن کو ایک انوکھی فرحت کا احساس ہو رہا تھا ، لیکن نرم ہوا کی شرارت ایک بے معنیٰ نقوش ترتیب دے رہی تھی_______ تم ان سے لاکھ درجے بہتر ہو ، جو دلوں کو توڑنے کا ہنر جانتے ہیں ، اعتبار کے ٹکڑے کرکے ان کو ہوا میں اچھالنے میں ماہر ہیں ۔ جو جذبات کی عزمت کا گلا گھونٹنے میں کمالِ فن کی معراج کو پہنچنے ہوئے ہیں ۔ کم سے کم تم کسی کی بےبسی پر مسکراتے تو نہیں ہو ، کسی کی ذلت پر قہقہے تو نہیں لگاتے ، نفرت تو نہیں کرتے ، تم انسانوں سے بہتر ہو ، صابرہ نے اس کی چمکتی ہوئی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا تو اس نے اپنے بدن کو لمبا تان کر انگڑائی لی ، اور اس کے بالکل قریب جاکر لیٹ گیا، جیسے اس کی کہی گئی ساری باتوں کی تصدیق کر رہا ہو ۔ لیکن پھر بھی محبت کی طلب ہمیشہ رہتی ہے ۔ انسان بے بس ہے ، وہ ہمیشہ چاہت کا خواہش مند رہتا ہے ۔ اس کے لئے انسانوں کی چاہ ، ان کی پیاس ایک نشہ ہے جو ہمیشہ باقی رہتی ہے ۔
صابرہ کا پورا خاندان ایک ہی گاؤں میں بسا ہوا تھا ، اور محلہ بھی کٹر مسلمانوں کا محلہ ۔ جس نے کئ مرتبہ حج کیا تھا ، لوگ انہیں " الحاج" صاحب کہہ کر پکارتے ۔ جس نے ایک حج کیا تھا اس کو حاجی فلاں ۔۔۔۔۔۔ حاجی فلاں کہتے ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ شیخ ، سیّد ، سنِّی ، جماعتی اور کئ ناموں سے الگ الگ محلے بنے ہوئے تھے ۔ الگ الگ ناموں سے الگ الگ مسجدیں بنی ہوئی تھیں ۔ ہر جمعرات کو دینی مجلس قائم ہوتی ، حدیثیں بتائی جاتیں اور فتوے دیئے جاتے ، رشتے داروں کے حقوق اور پڑوسیوں کا خیال رکھنے کی ترغیب دی جاتی تھی۔ لیکن ہر فرد ایک دوسرے کا معیار قائم کرنے میں لگا ہوا تھا ۔ دوسروں کے اعمال کے پیمانے مقرر کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی جدوجہد جاری تھی ۔ ہر طرف ایک تجسّس قائم تھا۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ ، کوئی بھی تحریک بےمعنیٰ نہیں ہوتی ہے ۔ ہمارا تجسّس ہی کائنات کی عقدہ کشائی کرتا ہے ۔ تجسّس نہ ہوتا تو شاید انسان ابھی تک بدستور پہاڑوں اور غاروں کا باسی بن کر زندگی گزار رہا ہوتا ۔ دنیا کوئی شکل اختیار نہ کرتی ۔ تجسّس نے ہی کائنات کے ہر بَستہ راز حل کئے ، یہاں تک کہ ہم آسمان کی بلندیاں ناپنے لگے ۔ تجسّس کا حدِمعیار اتنا بڑھ گیا کہ ، ہم نے آسمان کی بلندیوں کو ناپنے کے لئے زمین والوں کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ لیکن ایسے تجسّس اور ترقی کا کیا حاصل ، جس میں انسان کی بھلائی کا مَحور و مَرکز صرف اس کی اپنی ذات کے نفع و نقصان تک محدود ہو کر رہ جائے ۔
نعمتوں کو ٹھکرانا انسان کی سب سے بڑی حماقت ہے ۔ یہی سوچ کر اور گھر والوں کے اسرار پر اس نے افضل سے شادی کے لئے حامی بھری تھی ۔ افضل ایک ٹیچر تھا ۔ بارعب، لحیم و شحیم ، قدآور ، چہرے پر جاذبیت اور سمجھدار معلوم ہوتا تھا ۔ صابرہ بھی حسین خدوخال کی مالک تھی ، چہرے پرایک عجیب قسم کی تمکنت اور وقار ، بڑی بڑی شعلہ فگن آنکھیں اور سرخی مائل ہونٹ ، آواز میں ساز تھا ۔ افضل نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے والد کی زبان دینے کی غیرت ، سماج میں ان کی عزت قائم کرنے کے عوض اور سب سے بڑی بات حاجی صاحب کا فیصلہ تھا وہ اس فیصلے کی خلاف ورزی کیسے کر سکتا تھا۔ افضل نے اس کو " قبول ہے" کے بول میں باندھ تو لیا تھا ، لیکن وہ اس عورت کے تاریک اور بھیانک مستقبل سے بےخبر تھا ، جس کے جذبات کی عزمت کا خون کرکے اس نے سماج اور اپنے خاندان کی بڑائی کو ترجیح دی تھی ۔
وقت گزرتا رہا ۔ ایک سال ،دو سال ،تین سال یہاں تک کہ اس کے ابّا کو رخصت ہوئے بھی پورا ایک سال گزر گیا ۔ بھائیوں کی شادی ہوگئی۔ بہنیں اپنے اپنے گھر رخصت ہو گئیں ، لیکن وہ اپنی "وِداعِی" کی گھڑی کا انتظار کرنے لگی ۔ افضل ہر چار ،چھ مہینے میں اس کے گھر آتا ۔ اس کی ضرورت کی چیزیں گھر والوں کو دے کر چلا جاتا ، لیکن" رخصتی " کے لئے کبھی نہیں کہتا ۔ انتظار کر کر اس کی آنکھیں بھی تھک گئیں ۔ ایک عرصے کے بعد وہ گھر والوں پر بوجھ بن کر رہ گئی ۔ بھابھیوں نے مل کر اس کو گھر سے نکال دیا ۔ کچھ عرصے تو حاجی صاحب نے اپنے گھر میں رکھا ، لیکن جب وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ممبئی جانے لگے۔ انہوں نے صابرہ کو کہیں اور جانے کے لئے کہا تو اس کی آنکھوں میں اشکِ خوں ، ہونٹوں پر آہوں کا دھواں پھیل گیا اور دل میں جیسے خنجرِ جلاّد کے پیوست ہونے کا احساس ہوا ۔
محرم کا نیا چاند نظر آگیا تھا ۔ آج افضل کی دسویں برسی تھی ۔ اس کے سر پر اگر چھت ہوتی تو ، وہ آج بھی اس کے نام کا حلوہ پوری پکا کر، غرباء میں تقسیم کرتی ۔ لیکن وقت ہمیشہ ایک جیسا کہاں رہتا ہے ۔ آنکھیں "آبدیدہ" ہو گئیں ، دل میں ملال کی ایک چنگاری بھڑکی اور پورے وجود کو راکھ کر گئ ۔
افضل نے اس کے سر پر نہ تو کبھی مسیحائی کا ہاتھ پھیرا تھا ۔ نہ ہی کبھی اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر کوئی عہد وپیمان کیا تھا ۔ لیکن صبر وضبط کا دامن صابرہ کے ہاتھوں سے کبھی نہ چھوٹا ۔ وہ جب کبھی اس کے آنے کی خبر سنتی تو اس کی بانچھیں کِھل اٹھتیں ۔ وہ سجتی ، سنورتی ، نئے کپڑے پہنتی ، اس کے لئے اس کے پسند کا کھانا پکاتی ، لیکن افضل نے نہ تو کبھی اس کو دیکھا تھا ، نہ ہی اس کے ہاتھ کے پکے ہوئے کھانے کو ہاتھ لگایا تھا ۔ کیوں کہ اس نے پہلے ہی لوگوں کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ " صابرہ کو چمڑے کی کوئی بیمار ہے جو اس کے ہاتھوں میں ہے ۔ وہ اس کے قریب نہیں جانا چاہتا تھا ۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے ایسے بچے پیدا ہوں جن کو یہ بیمار لاحق ہو " ۔ افضل کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ________
" ایک عورت کے لئے اس سے بڑا عذاب اور کیا ہوگا کہ اس کا ساتھی جیتے جی اس کو چھونے سے گھِن کھاۓ ۔ "
صابرہ نے پہلی مرتبہ______ پچاس سال میں پہلی مرتبہ ، رات کو ان سب کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا ۔ اور وہ بھی اس لئے کہ اس کی طبیعت سخت گھبرائی ہوئی تھی ۔ وہ محض اپنے دل سے مجبور کچھ دیر کے لئے اپنے بھائی بہنوں سے مل کر دلجوئی اور دل بہلانے کے لئے آگئی تھی ۔ وہ باری باری ہر ایک کے دروازے کی کُنڈی کھٹکھٹاتی رہی ، لیکن ان کے دروازوں پر بیگانگی کا قُفل ، دلوں اور زبانوں پر بے حسی کی مُہر لگ چکی تھی ۔ تبھی اندر سے ایک دِلخراش آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی ______
"جس کو اس کے شوہر نے چھونے سے انکار کردیا ، ہم اس کو اپنے گھر میں پناہ دیں گے ؟ ہمارے بچوں کو بھی یہ بیمار کر دے گی ۔ چلو جاؤ، آگے دیکھو - "
اس کو ایسا لگا کہ جسم کے ہر حصے میں درد کی ٹیس اور ہر انگ میں زہر کی کھولن دوڑ گئی ہو ۔
کیا افضل بھی اس سے گِھن کھاتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔؟؟ نہیں وہ ایسا نہیں تھا ۔ کیا وہ میرے قریب اس لئے نہیں آیا کیونکہ میرے ہاتھ ۔۔۔۔۔۔۔؟؟ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں خود کو جکڑ لیا ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ ایسا کچھ نہیں سوچتا تھا ۔ کیا اس نے اس لئے اپنی نسل نہیں بڑھائی کیونکہ اس کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایسا بالکل نہیں کر سکتا تھا ۔ اس نے مجھے قبول کیا تھا ۔ وہ مجھے ایسے"پامال" نہیں کر سکتا تھا ۔ وہ میرے جذبات کی توہین صرف اس لئے نہیں کر سکتا کہ بظاہر دیکھنے میں ، میرے ہاتھ میرے دل کے مقابلے بھدَّے اور بدصورت نظر آتے تھے ۔ بھلے وہ میرے قریب کبھی نہیں آیا۔۔۔۔۔۔کبھی بھی نہیں، لیکن نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس کا ظرف اتنا چھوٹا نہیں ہو سکتا ، کہ وہ پہلے مجھ سے شادی کرے اور بعد میں صرف اس وجہ سے ہر لمحہ میرے جذبات کا "جنازہ " اٹھاۓ کیونکہ میرے ہاتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔یہ جھوٹ ہے ۔ لیکن تجسّس مصلحت پر غالب آگیا ، اور وہ سوچنے لگی۔ اگر یہ سچ ہوا تو ! یہ سوچ کر اس کی آنکھوں کے سامنے اپنی پچاس سالہ زندگی کا ہر وہ لمحہ پھِر گیا ، جس کے آگے اس کے جذبات نے دم توڑے تھے ۔ اس کا دل غم سے پھٹ رہا تھا ۔ ایک دِلخراش چیخ حلق سے آزاد ہونے کے لئے تڑپ رہی تھی ۔ ایسا لگا کسی نے اس کے سر پر ہتھوڑے سے ایک تیز وار کیا ، اور دماغ تیز جھنجناہٹ کے بعد پوری طرح سُن ہو گیا ہو ۔ وہ اول فول بکنے لگی اور چیخ چیخ کر گالیاں دینے لگی ۔ دن میں ادھر اُدھر بھٹکتی ۔ لوگ گھر سے باہر نکلتے ، اس کو دیکھتے اور کھانے پینے کی کچھ چیزیں اس کے سامنے رکھ دیتے ۔ لیکن رات گزارنے کے لئے کسی نے اس کو اپنے گھر میں پناہ نہیں دی ۔ جب جی چاہتا وہ کھا لیتی ، جب جی چاہتا ان لوگوں کی دی ہوئی چیزیں ان کے سامنے پھینک کر واپس کر دیتی ۔ چالیس دن سے زیادہ گزر گئے ۔ اب اس میں حرکت کی تاب نہیں تھی ۔ آنکھیں آنسوؤں کے مسلسل بہاؤ کی وجہ سے ، عرصے سے ویران پڑے کنویں کے مثل خالی اور گہری ہوگئی تھیں ۔ اس کے جسم کا ڈھانچہ " بجوکا " کی صورت اختیار کر گیا تھا ۔ لوگوں کا اس کے پاس ایک لمحے کے لیے بھی کھڑا رہنا برداشت سے باہر تھا۔ بول و براز کی بدبو سے لوگوں کا دم گھنٹے لگتا ، لیکن اس کے پاس بیٹھا ہوا " کتّا " سکون سے اپنی آنکھیں بند کئے اونگھتا رہتا ۔ جب کوئی کھانے کی اشیاء دور رکھ کر چلا جاتا تو وہ جھٹ سے اٹھتا ، اور تھیلی اپنے منہ میں دبا کر لاتا اور اس کے پاس رکھ دیتا ۔ اس دنیا میں ، ہر طبقے کے لوگوں کی اتنی بڑی بھیڑ میں صرف وہی ایک تھا ، جس کو اس سے کبھی گھِن نہیں آئی ۔ جس کے احسان سے وہ کبھی سبکدوش نہیں ہو سکتی تھی ۔
صبح کی سفیدی چاروں طرف پھیل چکی تھی ۔ کسان اپنے کھیتوں کی دیکھ ریکھ ، چرند پرند اپنی غذا کی تلاش میں ، بچے اسکول اور افسران اپنے دفتر جانے کے لئے نکل رہے تھے ۔ گھرگھروں میں عورتیں عید کی تیاریوں میں جٹی ہوئی تھیں، دوشیزائیں بالوں کو مہندی کے رنگ میں رنگنے کی تیاری کر رہی تھیں ۔ گویا ہر شخص فانی دنیا کے کاموں مصررف تھا تبھی بے وقت مائک کی ہلکی گڑگڑاہٹ پر سب کے کان کھڑے ہو گئے ۔ چاروں طرف سنّاٹا چھا گیا۔ آہ ! اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ " لوگوں میں افراتفری مچ گئی۔ ایک جمِ غفیر نے ، جو مہینوں غائب تھی اس کو گھیر لیا۔ جب وہ ہمیشہ کے لئے سو گئ تو بھائیوں ،بہنوں اور رشتےداروں کی رسمی محبت جاگ اٹھی ، جو کسی بھی زندہ شخص کے دل میں مرنے والے کے لئے جاگ اٹھتی ہے۔ فطری تقاضے کے مطابق ہر شخص کی زبان سے پہلا جملہ " آہ وہ رخصت ہو گئی" نکلتا اور آنکھیں بہنے لگتیں ۔ آہ و بُکا نے فضاء میں الم کا ساز پیدا کر دیا تھا ۔ وہ اس رات کی قیمت جس نے اس کو اپنی تیرگی میں چھپایا تھا ، اس تختے کا احسان جس نے اس کے وجود کا بار اپنے اوپر اٹھایا تھا ، اس کتّے کی ہمدردی کا قرض وہ بِنا چکاۓ جا رہی تھی ، جس نے اندھیری رات کے سنّاٹے میں کُھلے آسمان میں ٹمٹماتے تارے گننے میں اس کا ساتھ دیا تھا ۔ جس کے وجود کو لوگ گالی سے منسوب کرتے ہیں ، جس کو انسان حیوان کہتے ہیں ، جس نے اپنے سے زیادہ لوگوں میں حیوانیت اور تفرقہ دیکھا ۔ جو آج اکیلا دور کھڑا، جنازے میں ہر گروہ کے لوگوں کی اُمنڈتی بھیڑ اور صابرہ کی" رخصتی" کو اداس ڈبڈُبائی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ________ایک دلدوز آواز سب کے کانوں سے ٹکرائی " میت کو قبرستان کی طرف لے جایا جا رہا ہے" ۔ گھر میں موجود عورتیں، بھاگ کر اپنی اپنی چھتوں پر کھڑی ہو گئیں ۔ ان کی آنکھیں اداس ، مایوس اور "سراب " کی تاریک زندگی سے آزادی حاصل کرکے ، حقیقت کا سفر طے کرنے والی صابرہ کی "رخصتی" اور اس کے پیچھے بلند آواز سے روتے ہوئے بھاگتے کّتے کو دور تک تکتی رہ گئیں________
افسانہ نگار ( ثروت فروغ)
شعبہء تعلیم
جامعہ ملیہ اسلامیہ