Orhan

Add To collaction

نفرت

نفرت
از قلم ناصر حسین
قسط نمبر3

عشرت سیدھا انم کے پاس آئی ۔۔۔۔۔ 
اس وقت وہ اداسی سے شکل بنائے، بازوں میں سر دیئے بیٹھی تھی  ۔۔۔۔
" انم تم ٹھیک ہو ناں " 
انم نے چونک کر سر اٹھایا ۔۔۔۔
" ہاں ۔۔۔۔ ہاں میں ٹھیک ہوں " 
یہ بولتے ہوئے بھی وہ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔
" خاک ٹھیک ہو ۔۔۔ چہرہ دیکھو اپنا ۔۔۔۔ ایسا لگتا ہے ایک ہفتے سے سوئی نہیں ہو ۔۔۔۔۔  " 
وہ اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔۔
" تم یہ شادی نہیں کرنا چاہتیں " 
انم نے سپاٹ چہرے کے ساتھ اسے دیکھا ۔۔۔ کوئی جواب نہیں دیا ۔۔۔۔ اسے ایک بار پھر اپنا سوال دہرانا پڑا ۔۔۔۔
" انم کیا تم شادی نہیں کرنا چاہتیں  " 
انم نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔ وہ کچھ لمحے اسے دیکھتی رہی ۔۔۔۔
" کیا تم کسی اور سے شادی کرنا چاہتی ہو ؟ " 
اس نے اندھیرے میں تیر چلایا تھا لیکن انم کے اعتراف نے اسے حیران کر دیا ۔۔۔۔۔ اس نے سوچا نہیں تھا اتنی جلدی وہ اس بات کا اعتراف بھی کر لے گی ۔۔۔۔۔
 " کون ہے وہ  " 
" ہمارا پڑوسی ہے ۔۔۔۔ " 
" تم کب سے اور کیسے جانتی ہو اسے ۔۔۔ " 
" اس کا نام کبیر ہے ۔۔۔۔ وہ سات مہینے پہلے ہی لنڈن سے واپس آیا ہے اور کچھ دنوں بعد واپس چلا جائے گا ۔۔۔۔۔ ہماری پہلی ملاقات بھی تقریبا سات مہینے پہلے ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ " 
" اور تم لوگوں کی ملاقات کہاں پہ ہوتی ہے گھر سے باہر تو تم جا نہیں سکتیں ۔۔۔۔ " 
" گھر کے پچھلے حصے لان کی طرف ایک چھوٹا حصہ ٹوٹا ہوا ہے ۔۔۔۔ جس کے ساتھ اس کا گھر ہے وہ یہاں کرائے پر رہتا ہے ۔۔۔۔ ہم دونوں ہر شام کو وہیں پہ ملتے ہیں ۔۔۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے اور مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔ میں نے اب اسے اپنی شادی کی بات بتائی تو وہ کافی ناراض ہے مجھ سے کہتا ہے ہم دونوں چھپ کر نکاح کر لیتے ہیں اور پھر وہ مجھے ہمیشہ کے لئے لنڈن لے جائے گا ۔۔۔۔۔  " 
انم نے روتے ہوئے اپنی بات پوری کی ۔۔۔۔ اس کی پوری بات سننے کے دوران وہ خاموشی سے سنتی رہی۔۔۔۔
" تو پھر مسئلہ کیا ہے " 
انم نے اسے گھور کر دیکھا ۔۔۔۔۔
" کیا تم سچ میں نہیں جانتیں مسئلہ کیا ہے ۔۔۔۔ " 
" دیکھو اگر مسئلے سے تمہارا مراد آغا جان یا فیروز تایا ، دلاور بھائی یا سکندر ہیں تو ان کے لئے تم آگ میں نہیں کود سکتیں ۔۔۔۔ یقین کرو مجھے تو بہت خوشی ہوئی جب تم نے مجھے یہ بات بتائی ۔۔۔۔ میں تو کہتی ہوں تم کبیر کی بات مان لو اور نکاح کر لو اس کے ساتھ ۔۔۔۔۔ پرانی رسم و رواج میں اپنی زندگی برباد نہ کرو ۔۔۔۔ یہاں ایک جہنم سے نکلو گی دوسرے جہنم میں جانے کے لئے ۔۔۔۔۔ مردوں کی دنیا سے باہر نکلو اور ایک آزاد فضا میں سانس لو ۔۔۔۔۔  تم پوری زندگی سمجھوتے میں نہیں گزار سکتیں ۔۔۔۔۔۔ تمہارا فیوچر کبیر کے ساتھ ہے ۔۔۔۔ آج تمہیں زندگی موقع دے رہی ہے کل جب تمہارا شوہر تمہارے منہ پر تھپڑ مار کر تمہاری نے عزتی کرے گا تب تم سوچو گی کاش اس دن زرا سی ہمت کر لیتی تو آج یوں سسک سسک کر زندگی نہ جی رہی ہوتی ۔۔۔۔ " 
انم گھبرا کر کھڑی ہوئی  ۔۔۔۔۔۔
" امی کہاں ہیں ۔۔۔۔ " 
" وہ بازار گئیں ہیں ثوبیہ بھابھی سے کنفرم کر کے آئی ہوں ۔۔۔۔ تم بس سوچ لو " 
" ایسا ممکن نہیں ہے عشرت ۔۔۔۔ میں اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتی ۔۔۔۔ آغا جان مار دیں گے اسے بھی اور مجھے بھی ۔۔۔ " 
اس نے انم کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔۔۔ 
" تم دونوں نکاح کر کے ہمیشہ کے لئے پاکستان چھوڑ جاو گے ۔۔۔۔ لنڈن میں آغا جان کی سات نسلیں بھی تمہیں ڈھونڈ نہیں پائیں گی ۔۔۔۔۔  " 
"  مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔۔ میں یہ نہیں کر سکتی " 
" تو کیا تم ساری زندگی امی اور تائی کی طرح مردوں کے ظلم سہہ کر گزار دو گی ۔۔۔۔۔ یاد رکھو اپنی مرضی سے نکاح کرنے کا حق تمہیں مذہب بھی دیتا ہے  " 
" میں سوچوں گی تم ابھی جاو یہاں سے ۔۔۔۔۔ " 
" میں انتظار کروں گی تمہارے جواب کا " 
وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکل کر اپنے کمرے میں آئی ۔۔۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا انم کے دل میں ایسی کوئی بات ہوگی لیکن اب جان کر اسے اچھا لگ رہا تھا اور یہ ڈر بھی کہ وہ بے وقوف انکار کر کے اپنی زندگی مشکل نہ بنا دے ۔۔۔۔۔ وہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ سوئی رہی ۔۔۔۔ لیکن انم اس کے ذہن سے نہیں نکلی ۔۔۔۔۔ دو گھنٹے بعد انم خود اس کے پاس آئی تھی ۔۔۔ یہ رات کا وقت تھا جب تقریبا سب سو چکے تھے ۔۔۔۔۔ وہ چھت پر اس کا انتظار کر رہی تھی لاشعوری طور پر اسے یقین تھا وہ آئے گی ۔۔۔۔۔
" میں کبیر سے نکاح کرنے کے لئے تیار ہوں " 
اسے اتنی جلدی انم کے مان جانے پر یقین نہیں آیا وہ سمجھی تھی وہ ڈر کر اپنا فیصلہ بدل لے گی ۔۔۔۔۔
" اب تم بتاو عشرت تم میری کیا مدد کر سکتی ہو ۔۔۔۔ " 
" میں تمہیں اس گھر سے صیح سلامت باہر نکال سکتی ہوں باقی کا کام کبیر کا ہے ۔۔۔۔۔ " 
وہ دونوں وہیں چھت پر بیٹھ کر سرگوشی کے انداز میں باتیں کرنے لگیں ۔۔۔۔۔
" لیکن مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔۔ " 
انم کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار تھے ۔۔۔ لگ نہیں رہا تھا وہ اپنے فیصلے سے پوری طرح متفق ہے ۔۔۔۔۔۔
" جب فیصلہ کر چکی ہو تو ڈرنا کیسا۔۔۔۔۔ ایک انجان آدمی کے ساتھ زندگی گزارنے سے بہتر ہے ایک ایسے انسان کا انتخاب کرو جسے تم جانتی تو ہو جسے تونے دیکھا تو ہے ۔۔۔۔۔ اچھا یہ بتاو کبیر کا کوئی نمبر وغیرہ ہے تمہارے پاس ۔۔۔۔۔ " 
" ہاں نمبر تو ہے لیکن میرے پاس موبائل نہیں ہے ۔۔۔۔ " 
" موبائل میرے پاس ہے تم بس نمبر دو ۔۔۔۔ " 
انم نے نمبر لکھوایا ۔۔۔ اور اس نے تیزی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے نمبر نوٹ کر لیا ۔۔۔۔۔۔
" ٹھیک ہے اب تم جاو یہاں سے کوئی دیکھ لے گا تو شک کرے گا میں کل اس سے تفصیلی بات کر کے تمہیں بتا دوں گی ۔۔۔۔۔۔ " 
" میں انتظار کروں گی " 
" مجھے معلوم ہے ۔۔۔ اب تم جاو ۔۔۔۔ "
انم ادھر ادھر دیکھتی بھاگتے ہوئے سیڑھوں سے نیچے اتری ۔۔۔۔
___________________________________________
" اس گھر میں ایک بہت بڑا طوفان آنے والا ہے " 
کچن میں اس اعلان کیا ۔۔۔ جب سعدیہ بیگم کے علاوہ نرمین بھی وہیں تھی ۔۔۔۔۔
" کیا مطلب " نرمین نے پوچھا ۔۔۔ سعدیہ نے بھی چولہا جلاتے ہوئے اس کی بات پر دھیان دیا ۔۔۔۔۔ 
" آغا جان کو زندگی کا سب سے بڑا صدمہ لگنے والا ہے ۔۔۔ " 
نرمین اور سعدیہ بیگم حیران ہو کر اسے دیکھنے لگیں ۔۔۔۔
" آہستہ بول کم بخت پھر سے کیا کر دیا تو نے ۔۔۔۔ " 
سعدیہ بیگم نے گھبراتے ہوئے دروازے کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ 
" میری پیاری امی ۔۔۔۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔۔ بس یوں سمجھ لیں ایک پرندہ سونے کے اس پنجرے سے آزاد ہونے والا ہے ۔۔۔۔ " 
وہ دونوں نا سمجھی کے عالم میں اسے دیکھنے لگیں ۔۔۔۔۔
" امی مجھے اس کے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے لگام ڈال کے رکھیں اس کو ۔۔۔۔ " 
نرمین نے تشویش ظاہر کیا ۔۔۔۔
" اس کو تو خدا ہی سنبھالے مجھ سے نہیں ہوتی " 
سعدیہ بیگم سر پیٹ کر رہ گئیں ۔۔۔۔۔  وہ مسکرا کر باہر نکلی ۔۔۔۔آج کے دن اس کا سب سے بڑا مشن کبیر سے مل کر آگے کی انفارمیشن لینی تھی ۔۔۔۔ اسے یہ سب جلد ہی کرنا تھا کیونکہ گھر میں شادی کے لئے رشتے داروں کی آمد شروع ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔ ناشتے کے بعد معمول کے مطابق گھر کے سارے مرد باہر نکل گئے اسے جب تسلی ہو گئی تو امی کے کمرے سے سیاہ چادر بغل میں دبا کر باہر نکلی اور لان میں آ کر اس نے سیاہ چادر اوڑھ لی ۔۔۔۔ اور آگے پیچھے دیکھتے ہوئے چپکے سے باہر نکل آئی ۔۔۔۔ اس کے باہر آنے کا کسی کو علم نہیں ہوا ۔۔۔۔ اس کے گھر کے ساتھ دوسرا گھر کبیر کا تھا ۔۔۔ اس نے تیزی سے دو چار بار بل بجائی ۔۔۔ وہ دو منٹ بعد دروازہ کھولنے آیا تھا اور ایسے لگ رہا تھا جیسے نیند سے جاگ کر آیا ہو ۔۔۔۔۔۔
وہ ایک درمیانی شکل والا اور عمر میں انم سے کہیں بڑا سنجیدہ قسم کا آدمی لگ رہا تھا ۔۔۔ پہلی نظر میں اسے سمجھ نہیں آئی انم کو ایسے لڑکے سے محبت کیسے ہو گئی ۔۔۔۔۔۔
" جی آپ کون " 
وہ بنا اس کی اجازت کے کبیر کے گھر میں گھس گئی اور اسے اپنا تعارف اور آنے کا مقصد بتایا ۔۔۔۔۔۔ تقریبا ایک گھنٹے تک وہ وہیں اس کے گھر میں بیٹھ کر اس سے حالات کے بارے میں ڈسکس کرتی رہی ۔۔۔ وہ ایک پڑھا لکھا اور سلجھا ہوا انسان تھا ۔۔۔۔۔ اس کی باتوں سے لگا وہ انم کو لے کر کافی سیریز تھا اور ان کے گھر کے حالات اور ماحول اچھے سے جانتا تھا ۔۔۔۔ اس نے آگے کی ساری پلانگ پہلے سے کر رکھی تھی اور اس نے اپنے خیالات اس کے ساتھ بھی شئر کر دیئے ۔۔۔۔۔  وہ اسے سمجھاتی رہی کہ اسے کب کہاں کیا کیا کرنا ہوگا اور کس ہوشیاری سے نکلنا ہوگا ۔۔۔۔۔ 
" آپ ٹیشن نہ لیں ۔۔۔۔ ہم لوگ یہاں سے سیو نکل جائیں گے انشااللہ " 
" ٹکٹ کب کی کروائی " 
" کل رات کی " 
" تمہیں ہر بات کا اچھے سے خیال رکھنا ہوگا ۔۔۔۔ آغا جان کی رسائی وہاں تک ہے جہاں پہ تمہاری سوچ بھی نہیں جا سکتی ۔۔۔۔۔ " 
اس نے کبیر کو خبردار کیا ۔۔۔۔
" اور میری اڑان وہاں تک ہے جہاں آپ کے آغا جان کا سایہ بھی نہیں پہنچ  سکتا ۔۔۔۔۔ " 
وہ کھڑی ہوئی ۔۔۔۔۔
" ٹھیک ہے باقی باتیں کال پہ کروں گی ۔۔۔۔ " 
وہ جانے لگی پھر مڑی ۔۔۔
" دھوکہ تو نہیں دیں گے آپ انم کو ۔۔۔۔ " 
" ایسا کروں تو سڑک پر کھڑا کر کے سو جوتے ماریئے گا " 
وہ مسکراتا ہوا کہہ رہا تھا وہ باہر نکل آئی ۔۔۔ جس خاموشی اور احتیاط سے وہ چادر اوڑھ کر باہر نکلی اسی احتیاط سے واپس اپنے گھر میں داخل ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔
لیکن مسئلہ یہ ہوا اسے گھر میں داخل ہوتے اور بھاگتے ہوئے عظمی تائی نے دیکھ لیا تھا جو لان میں پودوں کو پانی دے رہی تھیں ۔۔۔۔۔ 
اسے دیکھتے ہی تائی چور چور چلانے لگیں ۔۔۔ وہ رکی نہیں اور بھاگتی ہوئی گھر کے اندر داخل ہوئی ۔۔۔۔۔ باہر ہال میں کوئی نہیں تھا وہ تیزی سے انم کے کمرے میں گھس گئی ۔۔۔۔ اور دروازہ اندر سے بند کر لیا ۔۔۔۔ 
پھر اس نے تیزی سے چادر اتاری ۔۔۔۔۔
" کیا ہوا عشرت تمہارا سانس کیوں پھولا ہوا ہے " 
" بھاگ کر آئی ہوں تائی نے مجھے دیکھ لیا تھا ۔۔۔۔ " 
" کیا " 
انم کا منہ حیرت سے کھل گیا ۔۔۔
" انہیں شک تو نہیں ہوا ؟ " 
" نہیں تم بس یہ چادر کہیں چھپا دو " 
انم نے چادر اس کے ہاتھ سے لے کر بیڈ کے نیچے چھپا دیا ۔۔۔۔اسی وقت دروازہ زور سا بجا ۔۔۔ باہر تائی تھیں وہ دروازہ کھولنے چلی گئی ۔۔۔۔۔۔ تائی اسے انم کے کمرے میں دیکھ کر حیران بھی ہوئیں اور کافی غصہ بھی کیا ۔۔۔۔۔
" تم یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔۔ " 
انہوں نے چلاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔ اس کی بجائے انم آگے بڑھی ۔۔۔
" امی آپ اتنی پریشان کیوں ہیں خیر تو ہے ۔۔۔۔۔ " 
" گھر میں چور گھس آیا ہے تم دروازہ بند کرو اپنا کہیں کوئی زیور وغیرہ نہ لے جائے ۔۔۔۔۔ اور تم ۔۔۔۔۔ " 
تائی نے قہر بھری نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔
" تم تو دفعہ ہو جاو یہاں سے ۔۔۔ کیوں آتی ہو یہاں ۔۔۔۔ " 
وہ چپ چاپ شانے اچکاتی وہاں سے چلی گئی ۔۔۔۔۔
" دلاور یا سکندر کو کال کرتی ہوں ۔۔۔۔ " 
تائی بڑبڑاتی ہوئیں باہر نکلیں ۔۔۔۔ شام کو سارے مرد اکھٹا تھے ۔۔۔ تائی انہیں تفصیلات بتا رہی تھیں انم سر جھکائے کھڑی تھی اور وہ اس ساری سچوئیشن کو انجوائے کر رہی تھی ۔۔۔۔
" سمجھ میں نہیں آتا پھر وہ چور غائب کیسے ہو گیا " 
دلاور نے کچھ سوچ کر کہا تھا ۔۔۔۔
" وہ کچھ لے کر تو نہیں گیا " 
فیروز تایا نے تائی کی طرف دیکھا 
" نہیں ۔۔۔۔ لے کر تو کچھ نہیں گیا ہو سکتا ہے وہ ہمارے شور مچانے پر ڈر کر بھاگ گیا ہو۔۔۔۔ " 
" تو تمہیں کیا ضرورت تھی شور کرنے کی بے وقوف عورت ۔۔۔ فیروز یا سکندر کو کال کر دیتیں ۔۔۔۔  " 
آغا جان تائی پر برس رہے تھے ۔۔۔۔ وہ مسکرا رہی تھی اور سکندر اس کی مسکراہٹ کو نوٹ کر کے غصے سے اسے گھور رہا تھا ۔۔۔ پتا نہیں اتنے سیریز سچوئیشن میں دانت کیوں نکال رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
" اچھا تو یہی تھا وہ طوفان ۔۔۔۔  " 
رات کو نرمین نے اس سے پوچھا ۔۔۔۔۔
" نہیں وہ طوفان ابھی باقی ہے یہ صرف ٹریلر تھا ۔۔۔۔ " 
وہ دوپٹہ بیڈ پر پھینک کر ادائے بے نیازی سے بولی ۔۔۔۔۔
" مجھے تو ابھی سے ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔۔ " 
نرمین واقعی گھبرائی ہوئی تھی لیکن اسے فرق نہیں پڑا ۔۔۔۔ انم کے ساتھ اس کی دوسری ملاقات رات دس بجے کچن میں ہوئی جب سارے گھر والے کھانا کھا کر ریلکیس ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔ انم برتن دھونے کے بہانے اس سے بات کر رہی تھی اور وہ بھی فریج سے پانی نکال کر پینے کا ڈرامہ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔
" کیا کہا اس نے ؟ " 
انم نے بے چینی سے پوچھا ۔۔۔ صبح وہ بات ادھوری رہ گئی تھی ۔۔۔۔
" وہ ٹکٹ کروائے گا اور کل رات تم لوگ یہاں سے نکلو گے ۔۔۔ " 
" کس وقت " 
" رات کے ایک یا دو بجے شاید " 
" لیکن کل تو مہندی کا فکنشن ہے ۔۔۔ گھر میں کافی رش ہوگا ۔۔۔۔ " 
" رش میں گھر سے نکلنا کافی آسان ہوگا ۔۔۔ گھر کے دروازے کھلے ہوں گے ۔۔۔۔ لیکن تم ابھی سے پیکنگ شروع کر دو ۔۔۔۔۔ اور ایسی خوفناک شکل نہ بناو ۔۔۔۔ بھاگنے سے پہلے پکڑی جاو گی ۔۔۔۔۔  " 
انم نے سر ہلایا ۔۔۔۔ 
باہر ڈھولکی بج رہی تھی ۔۔۔۔ کچھ لڑکیوں نے سنگیت کی محفل لگا رکھی تھی ۔۔۔ اس لئے ان کی آواز باہر نہیں جا رہی تھی ۔۔۔۔
" کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگا ناں ۔۔۔۔ " 
" اللہ نہ کرے ۔۔۔ فضول باتیں نہ سوچو ۔۔۔۔ اچھا ہی ہوگا ۔۔۔۔  " 
اس نے انم کو یقین دلایا ۔۔۔۔ ویسے دل میں تھوڑا بہت وہ خود بھی گھبرا رہی تھی ۔۔۔۔ باہر آئی تو عورتوں اور لڑکیوں نے ہلا گلہ مچایا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ وہ بھاگتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی جب سامنے سے فیروز تایا اور سکندر کوئی بات کرتے ہوئے آ رہے تھے ۔۔۔۔ 
اس نے رک کر تایا کو سلام کیا ۔۔۔جوابا تایا نے اسے جھڑک دیا ۔۔۔
" یہ کیا اچھل کود کر رہی ہو ۔۔۔۔ تمیز سے چلو ۔۔۔ اور دوپٹہ کہاں ہے تمہارا " 
سکندر بھی غصے سے اسے دیکھ رہا تھا 
" وہ۔۔۔ وہ کمرے میں ہے۔۔۔ " 
" تو جا کر پہن لو ۔۔۔ آئندہ تمہیں بنا دوپٹے کا نہ دیکھوں ۔۔۔ " 
بظاہر تو اس نے اثبات میں سر ہلایا مگر لگتا نہیں تھا وہ دوپٹہ پہنے گی بھی ۔۔۔۔۔ سکندر الگ اسے فاتحانہ انداز میں دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔
" جی تایا ۔۔۔۔ " 
وہ اپنے کمرے میں چلی آئی ۔۔۔۔ اور دروازہ بند کر کے کبیر کا نمبر ملانے لگی ۔۔۔۔
____________________________________________
مہندی والی رات تھی ۔۔۔ گھر پہ حد سے زیادہ رش تھا ۔۔۔ مرد سارے گیسٹ روم کی طرف تھے ۔۔۔۔ گھر کے باہر کھانے کا انتظام ہو رہا تھا گھر کے اندر عورتوں کی ڈھولک وغیرہ ۔۔۔۔ وہ بھی دروازہ بند کر کے کہیں آغا جان یا گھر کا کوئی دوسرا مرد برا نہ مان جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ہاف بازو والا لہنگا پہنا ہوا تھا جو اس نے نیلم کی شادی پر بنوایا تھا اس وقت امی نے پہننے نہیں دیا اب بھی وہ زبردستی پہن کر گھوم رہی تھی امی منع کرتی رہیں ۔۔۔۔ 
" گھر کا کوئی مرد دیکھ لے گا تو ٹانگیں توڑ دے گا تمہاری ۔۔۔ ایسے کھلے بازوں والے کپڑے پہن کر گھوم رہی ہو " 
مگر اسے بالکل ڈر نہیں لگا ۔۔۔۔۔ کبیر سے اس کی بات ہو چکی تھی ٹکٹس وغیرہ سارے کام کلیئر تھے اب بس گھر سے نکلنے کی دیر تھی اور یہ آخری کام تھا جو انہوں نے کرنا تھا ۔۔۔۔۔۔
کل کے بعد وہ انم سے دوبارہ نہیں ملی ۔۔۔ وہ اپنے کمرے میں تھی اور تائی اسے باہر نہیں آنے دے رہی تھیں وہ خود بھی وہاں اس سے بات نہیں کر سکتی تھی کیونکہ مہندی لگانے والی لڑکیاں تھیں اور کئی عورتوں کا ہجوم تھا اس کے کمرے میں ۔۔۔۔۔۔۔
" بھابھی انم اپنے کمرے میں ہے کیا " 
اس نے ثوبیہ سے پوچھا ۔۔۔ بات شروع کرنے کے لئے اسے اور کوئی جملہ نہیں ملا تھا ۔۔۔۔۔
" ظاہر ہے عشرت " 
اس نے کچھ گھور کر اسے دیکھا ۔۔۔۔
" اور تائی کہاں ہیں ۔۔۔۔ " 
" پہلے تو انم کے کمرے میں تھیں اب پتا نہیں کہاں ہے ۔۔۔۔ کوئی کام تھا کیا ۔۔۔۔"
" نہیں ۔۔۔۔ اچھا انم کے کمرے میں رش تھا کیا " 
" ہاں کچھ عورتیں تو تھیں لیکن تو یہ سب پوچھ کر مجھے شک میں کیوں ڈال رہی ہے ۔۔۔۔۔ " 
ثوبیہ مسلسل اسے گھور کر  دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔
" بس ایسے ہی ۔۔۔۔۔ اچھا مجھے امی بلا رہی ہیں ۔۔۔۔۔ " 
وہ ثوبیہ کو وہاں سے ٹالتے ہوئے جلدی سے غائب ہو گئی ۔۔۔۔۔
انم کے کمرے کے باہر آئی جہاں اندر باہر رش تھا ۔۔۔ بات کرنے کا کوئی موقع نہیں تھا وہ واپس پلٹ آئی ۔۔۔۔
ایک کمرے میں کچھ لڑکیاں دروازہ بند کر کے میوزک لگا کر ڈانس کر رہی تھیں ۔۔۔ شاید تائی نے ہی انہیں یہ مشورہ دیا ہوگا ۔۔۔۔ اسے بھی ایک لڑکی اندر کھینچ کر لے گئی ۔۔۔۔
اور زبردستی اس سے دو منٹ ڈانس کروایا ۔۔۔۔ اسے رش میں گھٹن ہونے لگی وہ چھت پر چلی آئی ۔۔۔۔۔۔
نیچے سے سارے مرد مہمان نظر آ رہے تھے ۔۔۔۔ وہ غیر ارادی طور پر انہیں دیکھنے لگی ۔۔۔ آغا جان اور فیروز تایا اپنی نگرانی میں کام کروا رہے تھے ۔۔  سکندر بھی ان کے پاس کھڑا تھا ۔۔۔ اس نے کالے رنگ کی جینز  پر سفید کرتا پہنا ہوا تھا اور ایک روایتی شال بھی اس کے کاندھوں پر نظر آ رہی تھی ۔۔۔۔۔ سکندر کی بہت اچانک اس پر نظر پڑی تھی اور وہ غصے سے اسے دیکھنا لگا ۔۔۔۔ اور پھر وہاں سے غائب ہو گیا ۔۔۔ دو منٹ بعد وہ اس کے سامنے چھت پر تھا ۔۔۔۔
" چھت پہ کیا کر رہی ہو " 
وہ اس کے سامنے کھڑا غصے سے چلا رہا تھا ۔۔۔ اور وہ سکون سے نیچے دیکھ رہی تھی بنا اسے کوئی اہمیت دیئے ۔۔۔۔ سکندر کو مجبورا اس کے بازو کھینچ کر اسے توجہ دلانی پڑی ۔۔۔۔
" سارے مرد ہیں نیچے ۔۔۔۔ یہاں چھت ۔۔۔۔۔ اور تم نے یہ کپڑے کیسے پہنے ہیں ۔۔۔۔۔ " 
وہ اس کے کھلے بازو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
" میری مرضی میں جیسے کپڑے پہنوں ۔۔۔۔۔ " 
" تمہاری مرضی نہیں چلے گی ۔۔۔۔ چلو یہ کپڑے ابھی تبدیل کر کے آو ۔۔۔۔ " 
" بالکل نہیں ۔۔۔ " وہ ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو ۔۔۔۔
" دیکھو ضد نہ کرو ۔۔۔ مار کھاو گی مجھ سے ۔۔۔ " 
اس کا اشتعال بڑھتا جا رہا تھا ۔۔۔۔
" تو مارو ۔۔۔۔ تم بزدل مرد عورت کو مارنے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہو ۔۔۔۔ " 
وہ ادھر ادھر ٹہل کر جیسے اپنا غصہ کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔۔
" مجھے مجبور نہ کرو کہ تمہارا منہ توڑ دوں ۔۔۔۔۔ " 
" تم اور آغا صاحب جب عورتوں کے حقوق نہیں پورے کر پاتے تو مار پٹائی شروع کر دیتے ہو ۔۔۔۔" 
وہ غصے سے اسے دیکھتا رہا ۔۔۔۔
" اگر تم نے یہی مار پٹائی ہی کرنی تھی تو لنڈن جا کر تعلیم پہ اتنا پیسہ کیوں ضائع کیا ۔۔۔۔ " 
اب وہ چلا رہی تھی 
" تعلیم بے حیائی نہیں سکھاتی ۔۔۔۔ "
وہ بھی چلایا  ۔۔۔۔
" تو میں کون سا کپڑے اتار کر گھوم رہی ہوں ۔۔۔۔ ہاف بازو والی چولی پہنی ہے وہ بھی عورتوں کی محفل میں ۔۔۔۔ " 
وہ اب اسے انگلی دکھا رہی تھی ۔۔۔ وہ اس خاندان کی پہلی لڑکی تھی جو یوں کسی مرد سے انگلی اٹھا کر بات کرتی تھی ورنہ آج تک اتنی ہمت کسی کی نہ ہوئی ۔۔۔۔ 
" دیکھو بحث نہ کرو اور دفع ہو جاو یہاں سے ۔۔۔۔۔ " 
وہ آپے سے باہر ہو گیا ۔۔۔ شور کی وجہ سے ان دونوں کا جھگڑا کوئی سن نہیں پا رہا تھا ۔۔۔۔۔
" تم یہاں آئے ہو تم جاو یہاں سے ۔۔۔۔۔ " 
وہ مقابلے بازی پر اتر آئی ۔۔۔۔۔
" تو مرے گی ۔۔۔۔۔ ایک بار شادی ہو جانے دو ۔۔۔ سارے حساب برابر کرتا ہوں ۔۔۔۔۔ " 
وہ غصے سے نیچے جانے کے مڑا ۔۔۔۔۔
" تم سے شادی کرنے کی بجائے میں خودکشی کو زیادہ ترجیح دوں گی ۔۔۔۔ " 
وہ اس کے پیچھے چلا کر بولی ۔۔۔ وہ سنی ان سنی کرتا ہوا نکل گیا ۔۔۔۔
اس نے زور سے کرسی کو لات ماری اور وہیں بیٹھ گئی ۔۔۔ نیچے کافی شور تھا وہ وہیں سر پکڑ کر بیٹھ گئی اسے کسی طرح انم سے مل کر اسے تیار کرنا تھا ۔۔۔۔۔ 
نیچے کھانے کا شروع ہوا ۔۔۔۔ کھانا لگ چکا تھا اور سبھی کھانے میں مصروف ہو گئے ۔۔۔۔وہ تیزی سے نیچے آئی ۔۔۔ ہال میں سارے بچے ، آنٹیاں سبھی کھانوں پہ ٹوٹ پڑے ۔۔۔۔۔
امی اور تائی ادھر لوگوں سے باتوں میں مصروف تھیں ۔۔۔ گھر کی باقی عورتیں بھی کہیں نہ کہیں مصروف تھیں ۔۔۔۔
سعدیہ بھابھی پانی کا ایک بہت بڑا جگ اٹھائے جانے کہاں جا رہی تھیں وہ اس کے پاس گئی ۔۔۔۔
" انم نے کھانا کھایا " 
" نہیں ابھی دینے جا رہی ہوں " 
سعدیہ بھابھی تیزی سے چل رہی تھیں انہیں جیسے بات کرنے کی فرصت نہیں تھی وہ اس کے پیچھے تیزی سے چل رہی تھی ۔۔۔۔
" میں دے آوں " 
" ہاں تو ہی دے آ مجھے کیا ۔۔۔۔۔۔ بلکہ تو رک ۔۔۔۔ آنٹی جی نے منع کیا ہے تمہیں انم کے کمرے میں جانے سے " 
وہ تائی کا کہہ رہی تھیں ۔۔۔۔
" ان سے میں خود بات کر لوں گی ۔۔۔۔ " 
وہ دونوں کھانے کے کاوئنٹر کے پاس آئیں ۔۔۔۔ اس نے تیزی سے ایک ٹرے اٹھایا اور اس میں چاول ، قورمہ اور سلاد جلدی جلدی ڈالنے لگی ۔۔۔۔۔۔ ثوبیہ بھابھی اسے اس کے حال پہ چھوڑ کر کب کی جا چکیں تھیں  ۔۔۔۔۔
وہ ٹرے اٹھا کر لہنگا سنبھالتی سیڑھیاں چڑھنے لگی تائی اسے دیکھ چکی تھیں اور اس کے پاس بھی آ گئیں ۔۔۔۔
" کہاں جا رہی ہو تم " 
" انم کو کھانا دینے " 
" کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔۔ ثوبیہ دے آئے گی ۔۔۔۔ " 
تائی نے اسے برہمی سے دیکھا۔۔۔۔۔
" کیا تائی آپ بھی ہمیشہ غصے میں رہتی ہیں اب ویسے بھی دو دن بعد وہ یہاں سے چلی ہی جائے گی آخری بات بات تو کر لینے دیں  ۔۔۔۔ " 
تائی نے غور سے اسے دیکھا ۔۔۔۔
" چل اچھا مر ۔۔۔۔ " 
وہ خوشی ہوتی انم کے کمرے تک آئی لیکن یہاں الگ ناچ گانے کی محفل تھی ۔۔۔۔۔
" ساری لڑکیاں نیچے جاو کھانا سارا ختم ہونے کو ہے اور تم لوگ یہیں کودتی رہو ۔۔۔ " 
اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اعلان کر دیا ۔۔۔۔ ساری لڑکیاں سر پر پیر رکھ کر بھاگیں ۔۔۔۔
اس نے تیزی سے دروازہ بند کیا ۔۔۔۔ 
انم نے گھبرا کر دوپٹہ اتارا ۔۔۔۔۔
" ساری پیکنگ ہو گئی ۔۔۔۔ " انم نے سر اثبات میں ہلایا ۔۔۔۔ 
"اس سے کوئی بات ہوئی " 
" ہاں ۔۔۔ رات کے دو بجے نکلنا ہے ۔۔۔۔ " 
" کوئی گڑ بڑ تو نہیں ہوگی ۔۔۔۔ "
" کچھ نہیں ہوگا ڈرپوک ۔۔۔۔ یہ لے کھانا کھا ۔۔۔ پتا نہیں بعد میں کب تک سفر میں رہو گے ۔۔۔۔ " 
انم نے کھانے کی ٹرے پر دھکیل دی ۔۔۔۔۔
" اتنے سارے لوگوں میں سے نکلیں گے کیسے ۔۔۔۔ " 
" رات کے دو بجے تقریبا سب سو چکے ہوں گے ۔۔۔۔ اور باقی جو ایک دو مہمان جاگ رہے ہوں گے ان کے لئے گھر کا مین سوئچ آف کر دوں گی ۔۔۔ پورے گھر میں اندھیرا ہو جائے گا اور تم اس اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر باہر نکل جاو گی ۔۔۔۔۔ بس دو منٹ ہی تو سارے لگنے ہیں اس کمرے سے مین گیٹ تک جانے میں ۔۔۔۔۔۔ اور پھر  تم آزاد ۔۔۔۔۔ " 
کہتے ہوئے اس نے انم کی بیگ کی طرف دیکھا ۔۔۔ ایک چھوٹا سا بیگ تھا ۔۔۔وہ اٹھ کر بیگ کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی ۔۔۔
" کیا کیا رکھا ہے اس میں ۔۔۔۔ " 
" کچھ زیور ، پیسے اور ایک دو سوٹ ۔۔۔۔۔ " 
" اچھا کیا ۔۔۔۔ اور ہاں میرے نمبر بھی لکھ کر اپنے پاس رکھ لو ۔۔۔۔۔ لنڈن پہنچتے ہی کال کرنا ۔۔۔۔ " 
وہ دراز سے پین کاغظ ڈھونڈنے لگی ۔۔۔۔۔
" نیچے والے دراز میں دیکھو  ۔۔۔۔ " 
اس نے کاغظ قلم اٹھایا اور اپنا نمبر اس پہ لکھنے لگی  ۔۔۔۔ 
" عشرت کیا میں واپس کبھی اس گھر میں نہیں آ سکوں گی ۔۔۔ تم سے سکندر بھائی سے امی سے نہیں مل سکوں گی ۔۔۔۔ " 
وہ کچھ اداسی سے بولی ۔۔۔۔ عشرت نے نمبر والا کاغظ اس کی مٹھی میں دیا اور اس کے پاس بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔
" ایسا کچھ نہیں ہوگا انم ۔۔۔  تم اس گھر میں تب تک نہیں آ سکو گی جب تک آغا جان زندہ ہیں ۔۔۔۔  جس دن وہ چلے گئے ان کے اصول روایات سب کچھ انہی کے ساتھ جائیں گے ۔۔۔۔ تایا اتنے پرانے خیالات کے نہیں ہیں اور تائی بھی تمہیں خود واپس بلائیں گی تم ان کی اکلوتی اولاد ہو ۔۔۔۔ ساری زندگی تم سے نفرت نہیں کر سکیں گے ۔۔۔۔۔۔ تائی اور تایا کی محبت کے سامنے سکندر اور دلاور بھائی بھی کچھ نہیں کر سکیں گے ۔۔۔۔۔۔ اور میں بھی تو تم سے ہمیشہ وڈیو کال پہ بات کرتی رہا کروں گی ۔۔۔۔  " 
اس نے انم کو اچھی امید دلائی ۔۔۔ اس کا غم کچھ کم ہوا ۔۔۔۔۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔۔
" یہ کھانا کھا لینا ۔۔۔ اور میری بات غور سے سنو ۔۔۔۔ ٹھیک دو بجے اس گھر کی ساری لائٹ آف ہوگی اور تم تیزی سے بیگ اٹھا کر گھر کے دروازے کی طرف آو گی جہاں میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں گی ۔۔۔۔ یاد رکھنا میرے پاس تم سے رابطے کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے اس لئے مقررہ وقت پر مقررہ جگہ پر پہنچ جانا ۔۔۔۔۔" 
اس نے محبت سے انم کے گالوں کو چھوا ۔۔۔ انم نے سر اثبات میں ہلایا اور وہ کمرے سے باہر نکل آئی ۔۔۔۔
کھانے کا دور ختم ہو چکا تھا ایک بار پھر محفل لگی تھی  ۔۔۔وہ چپکے سے گھر کے پچھلے حصے کی طرف آئی جہاں گھر کا مین سوئچ تھا ۔۔۔ وہ غور سے سوئچ کو دیکھنے لگی اس کے پاس کئی اور تاریں بھی تھیں ۔۔۔۔ کچھ رنگی برنگی لائٹوں کے تاریں بھی وہیں سے کنکیٹڈ تھیں ۔۔۔ وہ غور سے ترتیب دیکھنے لگی ۔۔۔ مین سوئچ کے بٹن تک ہاتھ لے جانے کے لئے کافی تاروں میں سے ہاتھ کو گزارنا تھا ۔۔۔ اور وہ پاس پڑی لکڑی سے ادھر ادھر کی اضافی تاروں کو ہٹانے لگی تا کہ رات کو وہ مین سوئچ کو آسانی سے بند کرے  ۔۔۔۔ رنگی برنگی لائٹوں کی تار کو اس نے لکڑی کی مدد سے ہٹایا ۔۔۔۔۔۔
پھر اچانک کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے زور سے کھینچا ۔۔۔۔ اور وہ منہ کے بل فرش پر جا گری ۔۔۔ وہ خود بھی فرش پر گرا ہوا تھا اور وہ سکندر تھا ۔۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آیا اتنی جلدی کیا ہوا ۔۔۔۔۔
" بے وقوف لڑکی کیا کر رہی تھیں تم یہاں "
 اب وہ غصے سے چلا رہا تھا اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا کئی تار نیچے گری ہوئی تھیں ۔۔۔۔ شاید وہ تاریں اس پر گرنے والی تھیں اور اس نے پیچھے سے آ کر اسے کھینچ لیا تھا ۔۔۔۔ وہ کپڑے سیدھے کرتے ہوئے کھڑی ہوئی وہ بھی کھڑا ہو کر اسے غصے سے گھور رہا تھا ۔۔۔۔۔
" وہ ۔۔۔۔۔ ادھر کچھ لائٹوں میں روشنی نہیں آ رہی تھی وہی دیکھنے آئی تھی ۔۔۔۔ " اس نے لڑکھڑاتے ہوئے کچھ شرمندگی سے کہا تھا ۔۔۔۔ سکندر نے اسے ایسے دیکھا جیسے وہ کوئی ذہنی مریض ہو ۔۔۔۔
" دماغ تو نہیں خراب تمہارا  ۔۔۔ تم کوئی الیکٹریکل انجینئر ہو ۔۔۔۔  بڑی آئی تاروں کو ٹھیک کرنے والی ۔۔۔۔ ابھی اگر میں نہیں آتا تو اس گھر میں تیری قل خوانی کی رسم ہو رہی ہوتی ۔۔۔۔ " 
اس نے کچھ شرمندگی سے پہلو بدلا ۔۔۔۔
" اب میرا منہ کیا دیکھ رہی ہے چل دفع ہو جا یہاں سے ۔۔۔ " 
وہ غنیمت پا کر فورا وہاں سے بھاگی ۔۔۔۔۔
__________________________________________
دلہن ناول _ صفحات 50 گوگل سے مل جائے گا
_________________________________________
دو بجنے میں دس منٹ باقی تھی  ۔۔۔۔ رات دیر تک لڑکیوں کا ہلا گلہ چلتا رہا ۔۔۔ قریبا ایک بجے سب سونے چلے گئے اس نے شکر ادا کیا ورنہ ان سب کے ارادے تو صبح تک جاگ کر شغل لگانے کا تھا ۔۔۔۔۔ 
چپکے سے وہ کمرے سے باہر  نکلی ۔۔۔۔  سبھی کمروں میں سوئے ہوئے تھے باہر ہال میں سناٹا تھا ۔۔۔ وہ آگے پیچھے ، دائیں بائیں دیکھتے ہوئے آگے بڑھی ۔۔۔۔
کوشش اس کی یہی تھی بنا کوئی آواز پیدا کئے وہ مین سوئچ تک پہنچ جائے اور دو منٹ بعد وہ مین سوئچ کے سامنے تھی ۔۔۔۔ بسم اللہ پڑھ کر اس نے چاروں طرف دیکھا پھر تیزی سے بٹن آف کیا ۔۔۔۔ پورا گھر اندھیرے میں ڈوب گیا ۔۔۔۔ وہ تیزی سے چل کر گھر کے مین گیٹ کی طرف آئی ۔۔۔ اور سائیڈ پہ ہو کر کھڑی ہو گئی ۔۔۔ اسے یہ ڈر بھی تھا کہیں کوئی لائٹ وغیرہ بند ہونے کی وجہ سے چیکنگ کے لئے نہ آ جائے ۔۔۔۔۔انم کو وہ ہدایت دے چکی تھی کہ لائٹ بند ہونے کے فورا بعد ہی وہ دروازے کے پاس پہنچ جائے یقینا وہ بھی لائٹ بند ہونے کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔۔
مین گیٹ مہمانوں کے آنے جانے کی وجہ سے کھلا رکھا گیا تھا ورنہ عموما بند ہوتا تھا ۔۔۔۔۔
انم سر پر سفید چادر ڈالے اپنا سیاہ بیگ اٹھائے بنا کوئی آواز پیدا کئے اس کے پاس آ گئی ۔۔۔۔۔ اس نے بولنے کی بجائے اشارے سے کام لیا اور انم کو باہر چلنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ وہ خود آگے آگے چلنے لگی انم اس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی ۔۔۔۔۔
بھاگتے ہوئے وہ چاروں طرف بھی دیکھ رہے تھے ۔۔۔ کبیر سے وہ پہلے ہی رابطے میں تھی وہ اپنی طرف سے تیاری مکمل کر چکا تھا ۔۔۔۔ اور اب باہر نکلنے سے پہلے اس نے کبیر کو میسج کیا تھا جوابا اس نے اوکے لکھا تھا ۔۔۔۔۔ ایک منٹ سے بھی کم وقت میں وہ آغا جان کی حویلی سے باہر کھڑے تھے ۔۔۔۔ جہاں روڈ تھا اور سامنے کبیر کھڑا تھا ۔۔۔۔ وہ ٹیکسی وغیرہ کا انتظام شاید پہلے ہی کر چکا تھا کیونکہ ان کے آنے سے پہلے ٹیکسی وہیں موجود تھی  ۔۔۔۔ 
ان کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا اس لئے کوئی الوداعی ایموشنل گفتگو نہیں ہوئی ۔۔۔ بس کبیر نے اسے مسکراتے ہوئے تھینک یو کہا اس نے جوابا اسے رابطے میں رہنے کے لئے کہا ۔۔۔۔ انم سے وہ گلے ملی ۔۔۔۔۔ وہ دونوں ٹیکسی میں بیٹھ کر ہاتھ کے اشارے سے اسے خدا حافظ کہہ رہے تھے ۔۔۔۔ نظروں سے اوجھل ہونے تک وہ اندھیرے میں اسی سنسان سڑک پر کھڑی رہی اور پھر تیزی سے اندر آئی اور اسی احتیاط سے ایک بار پھر مین سوئچ تک آئی اس نے لائٹ آن کر دی ۔۔۔۔۔
ہر طرف روشنی پھیل گئی ۔۔۔ اس نے ایک بار پھر چاروں طرف دیکھا اور ڈرتے ، بھاگتے اپنے کمرے تک آئی ۔۔۔۔۔ اس نے سکون کا سانس لیا اور بستر پر لیٹ گئی ۔۔۔۔  یہ جانتے ہوئے کہ آنے والی صبح ایک بہت بڑا طوفان آنے والا ہے ۔۔۔۔ 
وہ سونا نہیں چاہتی تھی لیکن اسے نیند آ گئی ۔۔۔ ۔
_____________________________________________
Subscribe  Channel " Cartoon call  " 
for More Novels
__________________________________________
صبح اسے نرمین جگانے آئی تھی ۔۔۔  اس کی آواز میں حد سے زیادہ گھبراہٹ اور پریشانی تھی ۔۔۔۔وہ تیزی سے اٹھ بیٹھی ۔۔۔۔۔
" انم کہیں چلی گئی عشرت " 
اس نے تقریبا روتے ہوئے اطلاع دی ۔۔۔ فوری طور پر وہ سمجھ نہ سکی کیا بات ہو رہی ہے ۔۔۔ پھر رات والا سین اسے یاد آیا ۔۔۔ اور تب اسے یاد آیا آج کے دن بہت بڑا طوفان آنا تھا ۔۔۔۔ اس کی نیند پوری نہیں ہوئی تھی پھر بھی اس کی آنکھیں پوری کھل چکی تھیں ۔۔۔۔ اس نے تیزی سے واش روم میں جا کر چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے اور نرمین کے ساتھ تقریبا بھاگتی ہوئی سیڑھیاں اترنے لگی ۔۔۔۔۔
وہ اسی گھر کا منظر تھا ۔۔۔۔ ہال کے درمیان پورا گھر موجود تھا ۔۔۔۔وہ دونوں تیزی سے نیچے اترنے لگیں ۔۔۔۔ اسے نہیں معلوم کسی نے اسے جگانے کے لئے کہا ہے یا نرمین خود اسے جگانے آئی تھی ۔۔۔۔۔
گھر کی خاموشی سے لگ رہا تھا مہمان سارے جا چکے ہیں ۔۔۔ سامنے آغا جان اپنے جاہ و جلال کے ساتھ کھڑے تھے گھر کے باقی مرد بھی غصے سے ادھر ادھر ٹہل رہے تھے ۔۔۔۔۔ تائی تو باقاعدہ زور زور سے بین کر رہی تھیں ۔۔۔ اماں اور ثوبیہ بھابھی کی بھی ہلکی ہلکی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں ۔۔۔۔ وہ دونوں ایک سائیڈ پر جا کر کھڑی ہوئیں ۔۔۔۔۔ نرمین کافی گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔
اور اب اسے بھی تھوڑی بہت گھبراہٹ ہو رہی تھی کہیں وہ پکڑی نہ جائے ۔۔۔۔۔۔
" میں نے اسے خود جا کر دیکھا تھا رات کے بارہ بجے اپنے کمرے میں تھی " 
خاموش ہال میں سعدیہ بھابھی کی روتی ہوئی آواز گونجی ۔۔۔۔
" تو پھر گئی کہاں وہ ۔۔۔۔۔ " آغا جان زور سے چلائے ۔۔۔ ان کی آواز دیواروں سے ٹکرا کر واپس پلٹ آئی  ۔۔۔۔۔
" خدا جانے میری انم کہاں چلی گئی  " 
تائی دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی ۔۔۔۔۔
 " خاموش ۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم نے پہلے اس نیچ پر نظر رکھی ہوتی تو آج ہم سب کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ۔۔۔۔ " 
آغا جان تائی پر برس پڑے ۔۔۔۔۔ 
" اتنا بڑا گھر ہے اتنے سارے لوگ تھے ۔۔۔۔  ایسے کیسے وہ نکل گئی اور کسی نہ اسے دیکھا تک نہیں  ۔۔۔۔۔۔ " 
یہ دلاور تھا جو غصے سے آگ بگولہ ہو رہا تھا ۔۔۔۔ سکندر ایک طرف ہاتھ باندھ کر کھڑا تھا اور ایک دو بار اسے غصے سے گھور بھی چکا تھا ۔۔۔۔۔۔ اسے نہیں لگتا سکندر کو اس پر شک ہوگا وہ عادتا اسے غصے سے گھورتا رہتا تھا ۔۔۔۔
" آغا جان کیا ہم پولیس میں رپورٹ درج نہیں کرا سکتے " 
دلاور نے انہیں مشورہ دیا ۔۔۔ جس پر آغا جان مزید بھڑک اٹھے ۔۔۔۔۔
" نہیں بے وقوف ۔۔۔۔ یہ گھر کی بات ہے پولیس تک جائے گی تو پورے شہر اور گاوں میں ہماری ناک کٹ جائے گی ۔۔۔۔۔ کچھ دن بعد الیکشن بھی شروع ہونے والے ہیں اس لئے یہ بات زیادہ نہیں پھیلنے چاہیے  ۔۔۔۔۔۔۔" 
آغا جان کی آواز میں غصے کے ساتھ ایک شرمندگی بھی تھی جو صرف وہ دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔ دیکھ رہی تھی ہمیشہ دوسروں کو نیچا دکھانے والا آغا جان آج خود کسی سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہے تھے ۔۔۔۔ وہ دل ہی دل میں اپنی جیت پر مسکرا رہی تھی ۔۔۔۔ آغا جان کی  جھکی ہوئی نظریں اور شرمندگی کا سوچ کر اسے بہت خوشی ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔
" تم دونوں میری شکل کیا دیکھ رہے ہو جا کر ڈھونڈو اس بدذات کو ۔۔۔۔۔ " 
اب وہ دلاور اور سکندر سے مخاطب تھے ۔۔۔۔۔
" اور کہیں مل جائے تو گولی مار دینا اسے ۔۔۔۔۔ " 
انہوں نے حتمی انداز میں کہا ۔۔۔۔ تائی کا رونا اور زیادہ ہو گیا ۔۔۔ وہ آغا جان کے اصول جانتی تھیں اس خاندان میں بھاگی ہوئی لڑکی کی سزا موت ہوتی تھی ۔۔۔۔۔۔
اور وہ ایک بار پھر مسکرا رہی تھی  ۔۔۔۔ آغا جان کے پنجرے سے جو پرندہ اڑ گیا اب وہ ان کی شکاریوں کو نہیں ملنے والا تھا ۔۔۔۔۔
صبح سے دن ۔۔۔۔ اور دن سے شام ہو گئی ۔۔۔۔ پھر رات بھی ہو گئی ۔۔۔ ڈھونڈنے والے خالی ہاتھ واپس آ گئے انم کا کوئی سراغ انہیں نہیں ملا۔۔۔۔۔ آغا جان اپنے سارے اثر و رسوخ استمعال کر کے دیکھ لئے لیکن یہاں وہ بری طرح بے بس تھے ۔۔۔۔۔ ان کے اندر خون ابل رہا تھا لیکن کچھ نہیں ہو سکتا تھا ۔۔۔۔ 
دوسرے دن سب لوگ ایک دوسرے سے نظریں چرا کر گھر کے کام کر رہے تھے گھر میں ایک خاموشی تھی ۔۔۔۔ دلاور اور سکندر ۔۔۔۔ اور آغا جان کے کچھ خاص آدمی دوسرے دن بھی انم کو ڈھونڈتے رہے لیکن وہ کہیں نہ ملی ۔۔۔۔۔ آغا جان کے لئے یہ بہت بڑی بے عزتی تھی ۔۔۔۔ وہ مسلسل غصے میں سب کو ڈانٹ رہے تھے ۔۔۔۔۔ تائی کو انہوں نے اب رونے سے بھی منع کر دیا تھا اور اس گھر میں کسی کو انم کا نام لینے کی بھی اجازت نہ تھی ۔۔۔۔۔
آغا جان انم کے بھاگنے کا ذمہ دار تائی کو قرار دے رہے تھے اور وہ بار بار انہیں ڈانٹ کر کہہ رہے تھے یہ سب اس کی ڈھیل کا نتیجہ ہے ۔۔۔۔۔ 
انم نے دوسرے دن بھی اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا ۔۔۔ اس کے پاس جو کبیر کا نمبر تھا وہ پاکستان کا تھا جو لنڈن میں کام نہیں کرتا تھا ۔۔۔۔ اسے تشویش سی ہونے لگی لیکن رات کو بارہ بجے کبیر نے خود کال کی تھی ۔۔۔۔۔ اور اس کی انم سے بھی بات کرائی وہ بہت خوش تھی جیسے ایک پرندہ آزاد ہونے کے بعد ہوتا ہے اور بار بار اس کا شکریہ ادا کر رہی تھی ۔۔۔۔ انم کو گھر کے حالات جاننے کا بڑا تجسس تھا اس نے سارے حالات بتا دیئے  ۔۔۔ اور یہ بھی کہ اب سب اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک چکے ہیں ۔۔۔۔ اس لئے اب گھر میں آغا جان اس کے حوالے سے کوئی بھی بات کرنے سے سب کو منع کر دیا ۔۔۔ وہ انم سے کافی دیر تک باتیں کرتی رہی ۔۔۔۔۔۔
___________________________________________
دل توڑنا منع ہے  
جلد آ رہا ہے
____________________________________________
انم والے واقعے کو چار دن گزر چکے تھے ۔۔۔ گھر میں خاموشی تھی ۔۔۔ جو طوفان آیا وہ اپنے خوفناک اثرات چھوڑ گیا اب کوئی کسی سے بات نہیں کرتا تھا ۔۔۔۔ تائی نے تو کمرے سے نکلنا ہی چھوڑ دیا تھا ۔۔۔۔ آغا جان بھی شرمندہ شرمندہ سے رہتے اور گھر سے باہر کم ہی جاتے تھے ۔۔۔ اپنا رعب اور دبدبہ ثابت کرنے کے لئے وہ گھر کی عورتوں پر پہلے سے بھی زیادہ سختی کرنے لگے تھے ۔۔۔۔۔
نرمین کو اس پر شک تھا ۔۔۔۔  وہ کئی بار اس سے باتیں کرنے کی کوشش بھی کرتی رہی لیکن اس نے ٹال مٹول سے کام لیا  ۔۔۔۔ لیکن جب مسلسل نرمین اس سے پوچھتی رہی ۔۔۔۔
" کیا تم نے انم کو گھر سے نکالا ہے " 
تو اس نے صاف صاف " ہاں " کہہ دیا ۔۔۔۔ نرمین اسے کافی دیر تک حیرت سے دیکھتی رہی ۔۔۔۔
" کیوں ۔۔۔ کیوں کیا تم نے ایسا " 
" کیونکہ انم کسی اور سے شادی کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔ " 
نرمین نے جلدی سے جا کر دروازہ بند کیا ۔۔۔ آج جب وہ بتانے کے موڈ میں تھی تو وہ سب کچھ جاننا چاہتی تھی ۔۔۔۔
" تو تم نے کیسے نکالا اسے یہاں سے ۔۔۔۔ " 
اس نے نرمین کو سات ، آٹھ جملوں میں ساری سٹوری سنائی ۔۔۔ انم اس کی کارکرگی پر گھورتی رہی ۔۔۔۔۔ 
" بے وقوف لڑکی اگر آغا جان یا تایا جان کو پتا چلا تو وہ گلہ کاٹ دیں گے تمہارا " 
اس نے بے نیازی سے سر جھٹکا اور موبائل پہ گیم کھیلنے لگی ۔۔۔۔
" مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے عشرت ۔۔۔۔ اگر کسی کو پتا چلا تو کیا ہوگا ۔۔۔۔ "  اس نے نرمین کو روتے ہوئے بھی دیکھا ۔۔۔ پھر خود اس کے آنسوؤں بھی پونچھ ڈالے ۔۔۔۔۔۔
" زیادہ سے زیادہ کیا کریں گے مار دیں گے مجھے ۔۔۔۔ ویسے بھی جو زندگی ہم یہاں پر جی رہے ہیں موت اس سے مشکل تو نہیں  ۔۔۔۔۔۔ " 
جملے کے اختتام پر وہ خود بھی اداس ہوئی ۔۔۔۔ 
نرمین نے اسے گلے سے لگایا ۔۔ ۔
" تم پلیز کبھی یہ بات اپنے منہ سے نہ نکالنا ۔۔۔۔ امی کو بھی نہ بتانا کہیں ان کی زبان سے سب کے سامنے کوئی ایسی ویسی بات نہ نکل جائے ۔۔۔۔۔ " 
نرمین تنبیہی نظروں سے دیکھتی ہوئی ہدایت کر رہی تھیں ۔۔۔۔
" اب اتنی بھی بے وقوف نہیں ہوں آپی ۔۔۔۔۔ " 
نرمین اس کی تسلی کے باوجوڈ ڈرتی رہی اگر اسے پہلے معلوم ہوتا کہ وہ ایسا کوئی قدم اٹھانے والی ہے تو وہ اسے ایسا کرنے ہی نہیں دیتی ۔۔۔۔ اب کیا وہ نہیں جانتی آغا جان کو وہ کس طبیعت کے انسان ہیں ۔۔۔۔ جب تک انم والا معمالہ سلجھ نہ جائے وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے اور اگر انہیں زرا بھنک پڑ گئی کہ اسے بھگانے میں عشرت کا ہاتھ ہے تو وہ اسے موقع پر گولی مار دیں گے ۔۔۔۔۔۔ وہ کافی ڈر رہی تھی اور اسے جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا ۔ ۔۔۔۔  ثوبیہ بھابھی ان دونوں کو بلانے آئیں تھیں ۔۔۔ کہ آغا جان انہیں بلا رہا ہے ۔۔۔۔
" یا اللہ خیر " ان دونوں نے گبھرا کر ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔۔۔ اور اپنے دوپٹے درست کر کے نیچے آ گئیں ۔۔۔ ایک بار پھر چار دن پہلے والی عدالت لگی ہوئی تھی سارے گھر والے اکھٹے تھے ۔۔۔ آغا جان نے ان دونوں کو غصے سے دیکھا لیکن وہ دونوں سعدیہ بیگم کو دیکھ رہی تھیں جس رو رہی تھی ۔۔۔۔۔
" اسی نے بھگایا ہے میری بیٹی کو ۔۔۔۔ " عظمی تائی نے جب روتے ہوئے انگلی اس کی طرف اشارہ کیا تو اسے لگا پورے ہال کی چھت اس پر آ گری ہو ۔۔ ۔۔ نرمین نے صدمے سے اسے دیکھا ۔۔۔ سارے گھر والوں کی نظریں اسی کی طرف اٹھ گئیں ۔۔۔۔ اس کا گلہ سوکھ گیا ۔۔۔ اس قدر مہارت سے کئے گئے منصوبے کا پکڑے جانا اس کے لئے حیرت کا باعث تھی ۔۔۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی اس کی چوری اتنی جلدی پکڑی جائے گی اور اب اسے یقین تھا وہ مر جائے گی ۔۔۔۔ لیکن جب آغا جان نے اگلا سوال کیا تو وہ کچھ الجھ گئی ۔۔۔۔۔
" کیا کہہ رہی ہے عظمی  "  انہوں نے گرج دار آواز کے ساتھ اسے دیکھا ۔۔۔ سب کے سوالیہ چہرے اسی کی طرف تھے ۔۔۔ سکندر بھی اسے دیکھ رہا تھا لیکن آج اس کی نظروں میں غصہ نہیں تھا ۔۔۔۔۔  گھبراہٹ تھی ۔۔۔۔ بالکل وہی گھبراہٹ جو نرمین اور سعدیہ بیگم  کی آنکھوں میں تھی ۔۔۔۔
یعنی کہ یہ ایک معمہ تھا جو ابھی تک حل نہیں ہوا ۔۔  کسی کو یقین نہیں تھا یہ صرف شک تھا تائی کو اس پر ۔۔۔۔۔۔ 
" یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں آغا جان ۔۔۔۔ کیا میں ایسی حرکت کر سکتی ہوں ۔۔۔۔ " دنیا جہان کی معصومیت اپنے چہرے پر سجا کر وہ اس انداز میں بولی کہ آغا جان جنہیں سو فیصد اس پر شک تھا وہ بھی کنفیوز ہو گئے ۔۔۔۔۔
" جھوٹ مت بولو ۔۔۔ بد بخت لڑکی تو نے ہی بھگایا ہے انم کو " تائی تیزی سے کھڑی ہوئی اور اس کے سامنے آ کر چلانے لگیں ۔۔۔۔
" کیا ثبوت ہے آپ کے پاس ۔۔۔۔۔  کس بنیاد پر آپ اتنا بڑا الزام لگا رہی ہیں مجھ پہ ۔۔۔۔۔ " اس کا لہجہ اعتماد سے بھر پور تھا وہ غلط ہونے کے باوجود ایسے ری ایکٹ کر رہی تھی جیسے اس پر الزام لگایا جا رہا ہو ۔۔۔۔۔۔ 
" میں نے خود دیکھا ہے تمہیں ۔۔۔ تم بار بار اس کے کمرے کے چکر لگا رہی تھیں ۔۔۔۔ " 
تائی پھٹ پڑی تھی ۔۔  سب لوگ ان دونوں کے بیان سن رہے تھے ۔۔۔۔
" انم کے کمرے میں اور بھی سیکڑوں لڑکیاں گھوم رہی تھیں تو کیا آپ سب پر الزام لگائیں گی ۔۔۔۔  " 
وہ تائی سے بھی بلند آواز میں چلائی  ۔۔۔۔۔
" تیرے کرتوت میں اچھے سے جانتی ہوں ۔۔۔۔ مجھے یقین ہے تونے ہی یہ سب کیا ہے ۔۔۔۔۔ " 
" آپ کے یقین سے کچھ نہیں ہوگا ۔۔  اگر ثبوت ہے تو سامنے لائیں نہیں تو مجھ پہ اتنا بڑا الزام نہ لگائیں ۔۔۔۔۔ " 
وہ اہنے دفاع میں چلا رہی تھی ۔۔۔۔
" ٹھیک ہے تو یہی بات تم قرآن شریف پر ہاتھ رکھ کر کہو ۔۔۔۔ " 
تائی کے اس جملے پر ایک پل کے لئے پورے ہال میں سناٹا چھا گیا ۔۔۔ خود وہ بھی شاکڈ ہو کر انہیں دیکھنے لگی ۔۔۔۔ اس نے مدد طلب نظروں سے ادھر ادھر دیکھا کہ شاید کوئی تائی کو روک لے لیکن سب خاموش تھے ۔۔۔۔۔
" عظمی ٹھیک کہہ رہی اب سچ جھوٹ کا فیصلہ قرآن شریف پر ہاتھ رکھ کر ہوگا ۔۔۔۔ " اس کی آخری امیدوں پر بھی پانی پھر گیا جب فیروز تایا بھی تائی کے حق میں بول پڑے ۔۔۔۔ اور باقی سب کی نگاہیں بھی یہی کہہ رہی تھیں کہ وہ تائی کے فیصلے سے متفق ہیں ۔۔۔۔۔

   1
0 Comments