Orhan

Add To collaction

نفرت

نفرت
از قلم ناصر حسین
قسط نمبر4


اور اپنے دوپٹے درست کر کے نیچے آ گئیں ۔۔۔ ایک بار پھر چار دن پہلے والی عدالت لگی ہوئی تھی سارے گھر والے اکھٹے تھے ۔۔۔ آغا جان نے ان دونوں کو غصے سے دیکھا لیکن وہ دونوں سعدیہ بیگم کو دیکھ رہی تھیں جس رو رہی تھی ۔۔۔۔۔
" اسی نے بھگایا ہے میری بیٹی کو ۔۔۔۔ " عظمی تائی نے جب روتے ہوئے انگلی اس کی طرف اشارہ کیا تو اسے لگا پورے ہال کی چھت اس پر آ گری ہو ۔۔ ۔۔ نرمین نے صدمے سے اسے دیکھا ۔۔۔ سارے گھر والوں کی نظریں اسی کی طرف اٹھ گئیں ۔۔۔۔ اس کا گلہ سوکھ گیا ۔۔۔ اس قدر مہارت سے کئے گئے منصوبے کا پکڑے جانا اس کے لئے حیرت کا باعث تھی ۔۔۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی اس کی چوری اتنی جلدی پکڑی جائے گی اور اب اسے یقین تھا وہ مر جائے گی ۔۔۔۔ لیکن جب آغا جان نے اگلا سوال کیا تو وہ کچھ الجھ گئی ۔۔۔۔۔
" کیا کہہ رہی ہے عظمی  "  انہوں نے گرج دار آواز کے ساتھ اسے دیکھا ۔۔۔ سب کے سوالیہ چہرے اسی کی طرف تھے ۔۔۔ سکندر بھی اسے دیکھ رہا تھا لیکن آج اس کی نظروں میں غصہ نہیں تھا ۔۔۔۔۔  گھبراہٹ تھی ۔۔۔۔ بالکل وہی گھبراہٹ جو نرمین اور سعدیہ بیگم  کی آنکھوں میں تھی ۔۔۔۔
یعنی کہ یہ ایک معمہ تھا جو ابھی تک حل نہیں ہوا ۔۔  کسی کو یقین نہیں تھا یہ صرف شک تھا تائی کو اس پر ۔۔۔۔۔۔ 
" یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں آغا جان ۔۔۔۔ کیا میں ایسی حرکت کر سکتی ہوں ۔۔۔۔ " دنیا جہان کی معصومیت اپنے چہرے پر سجا کر وہ اس انداز میں بولی کہ آغا جان جنہیں سو فیصد اس پر شک تھا وہ بھی کنفیوز ہو گئے ۔۔۔۔۔
" جھوٹ مت بولو ۔۔۔ بد بخت لڑکی تو نے ہی بھگایا ہے انم کو " تائی تیزی سے کھڑی ہوئی اور اس کے سامنے آ کر چلانے لگیں ۔۔۔۔
" کیا ثبوت ہے آپ کے پاس ۔۔۔۔۔  کس بنیاد پر آپ اتنا بڑا الزام لگا رہی ہیں مجھ پہ ۔۔۔۔۔ " اس کا لہجہ اعتماد سے بھر پور تھا وہ غلط ہونے کے باوجود ایسے ری ایکٹ کر رہی تھی جیسے اس پر الزام لگایا جا رہا ہو ۔۔۔۔۔۔ 
" میں نے خود دیکھا ہے تمہیں ۔۔۔ تم بار بار اس کے کمرے کے چکر لگا رہی تھیں ۔۔۔۔ " 
تائی پھٹ پڑی تھی ۔۔  سب لوگ ان دونوں کے بیان سن رہے تھے ۔۔۔۔
" انم کے کمرے میں اور بھی سیکڑوں لڑکیاں گھوم رہی تھیں تو کیا آپ سب پر الزام لگائیں گی ۔۔۔۔  " 
وہ تائی سے بھی بلند آواز میں چلائی  ۔۔۔۔۔
" تیرے کرتوت میں اچھے سے جانتی ہوں ۔۔۔۔ مجھے یقین ہے تونے ہی یہ سب کیا ہے ۔۔۔۔۔ " 
" آپ کے یقین سے کچھ نہیں ہوگا ۔۔  اگر ثبوت ہے تو سامنے لائیں نہیں تو مجھ پہ اتنا بڑا الزام نہ لگائیں ۔۔۔۔۔ " 
وہ اہنے دفاع میں چلا رہی تھی ۔۔۔۔
" ٹھیک ہے تو یہی بات تم قرآن شریف پر ہاتھ رکھ کر کہو ۔۔۔۔ " 
تائی کے اس جملے پر ایک پل کے لئے پورے ہال میں سناٹا چھا گیا ۔۔۔ خود وہ بھی شاکڈ ہو کر انہیں دیکھنے لگی ۔۔۔۔ اس نے مدد طلب نظروں سے ادھر ادھر دیکھا کہ شاید کوئی تائی کو روک لے لیکن سب خاموش تھے ۔۔۔۔۔
" عظمی ٹھیک کہہ رہی اب سچ جھوٹ کا فیصلہ قرآن شریف پر ہاتھ رکھ کر ہوگا ۔۔۔۔ " اس کی آخری امیدوں پر بھی پانی پھر گیا جب فیروز تایا بھی تائی کے حق میں بول پڑے ۔۔۔۔ اور باقی سب کی نگاہیں بھی یہی کہہ رہی تھیں کہ وہ تائی کے فیصلے سے متفق ہیں ۔۔۔۔۔ 
" بولو اب کیوں چپ ہو گئی تم ۔۔۔۔ " 
تائی نے اس کا بازو پکڑ کر زور سے جھنجھوڑا ۔۔۔۔ وہ مراقبے سے باہر نکلی ۔۔۔۔
" میں تیار ہوں " اس نے خود کو کہتے سنا ۔۔۔۔۔
آدھے گھنٹے بعد گھر کے تمام افراد ایک بار پھر اسی ہال کے نیچے تھے ۔۔۔  وہ وضو کر کے آئی تھی ۔۔۔۔
سامنے میز پر قرآن پاک غلاف میں رکھا ہوا تھا وہ قرآن پاک کو دور سے دیکھ کر ہی گھبراہٹ کا شکار ہو رہی تھی  ۔۔۔۔  تائی اسے غصے سے گھور رہی تھیں  ۔۔۔۔ باقی سب گھر والے بھی اسے دیکھ رہے تھے وہ قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر جھوٹ نہیں بول سکتی تھی ۔۔۔۔۔
" آو اور قرآن پاک پر ہاتھ کر کہو تم نے اسے نہیں بھگایا " آغا جان کی رعب دار آواز خاموش ہال میں گونجی ۔۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی قرآن پاک کی طرف جا رہی تھی ۔۔۔۔ نرمین اور سعدیہ بیگم کی تو سانس رکی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔
" کیا ہر چھوٹی بات پہ قرآن پاک کو بیچ میں لانا ضروری ہے  " اس نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔
" ہاں تا کہ تم جیسے جھوٹے لوگوں کا جھوٹ پکڑا جا سکے ۔۔۔ " 
تائی غصے سے شعلے اگل رہی تھیں ۔۔۔۔ سکندر اور گھر کے دوسرے مرد خاموش تماشائی بنے کھڑے تھے ۔۔۔۔۔
" جنہیں جھوٹ بولنا ہوتا ہے وہ قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر بھی جھوٹ بولتے ہیں   
" زیادہ تقریر نہ کرو اور قرآن پاک پر ہاتھ رکھو ۔۔۔۔ " 
" میں قرآن پاک کی بے حرمتی نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔۔ باقی آپ میرے ساتھ جو قانونی کروائی کرنا چاہتی ہیں میں تیار ہوں ۔۔۔۔ مجھے جیل بھجوا دیں ۔۔۔۔۔ میرا قتل کر دیں ۔۔۔۔  لیکن سچ یہی ہے میں نے آپ کی بیٹی کو نہیں بھگایا ۔۔۔۔۔ " 
وہ ڈٹ کر کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔ سارے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے وہ گھر کے مردوں کے سامنے پہلی بار اس ٹیون میں بات کر رہی تھی ۔۔۔۔۔
" کیا فضول باتیں کر رہی ہو تم ۔۔۔۔ قرآن پاک پر ہاتھ رکھو ۔۔۔ " 
" آپ میرے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں آغا جان ۔۔۔۔۔  " 
وہ ایموشنل ہو گئی ۔۔۔۔ اس کی آواز بھرا گئی ۔۔۔۔۔
پورے گھر میں سناٹا چھا گیا ۔۔۔۔
" میں یتیم ہوں اس لئے آپ یہ سب کر رہے ہیں میرے ساتھ " 
اب وہ باقاعدہ رو رہی تھی ۔۔۔۔ دو چار آنسوؤں بھی کہیں سے نکال لائی تھی ۔۔۔۔
" آج میرے ابو زندہ ہوتے تو آپ لوگ کبھی میرے ساتھ اتنی بڑی زیادتی نہ کرتے ۔۔۔۔۔ " 
وہ قرآن پاک کے پاس کھڑی تھی جب روتے روتے اس کے قدم لڑکھڑا گئے ۔۔۔  پھر سب نے دیکھا وہ غش کھا کر فرش پر گر پڑی ۔۔۔۔ سعدیہ اور نرمین بھاگ کر اسے اٹھانے آئیں ۔۔۔۔ سارے گھر والوں کو سانپ سونگھ گیا  ۔۔۔۔۔  اس کے منہ سے تھوڑا بہت خون بھی نکلا تھا ۔۔۔۔
سکندر اسے اٹھا کر کمرے میں لے آیا ۔۔۔۔ اور بیڈ پر لٹا دیا ۔۔۔۔ اس نے سکون کا سانس لیا ۔۔۔ اسے کچھ دوائیاں بھی کھلائی گئیں ۔۔۔ پانی کے چھینٹے بھی مارے گئے ۔۔۔ تقریبا دو گھنٹے بعد اس نے ہوش میں آنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔  وہ تین دن تک مسلسل بیڈ پر پڑی رہی باہر بھی نہیں نکلی تا کہ کوئی اس پر شک نہ کرے ۔۔۔۔ امی کو بھی اس پر شک ہو گیا تھا کہ اس نے ہی انم کو بھگایا ہے ۔۔۔ اس نے انہیں کوئی صفائی بھی نہیں دی ۔۔۔۔ گھر میں دوبارہ یہ بات نہیں ہوئی  ۔۔۔۔ انم والا واقعہ پرانا ہو گیا ۔۔۔۔ نرمین بتا رہی تھی ایک بار اس نے ثوبیہ بھابھی کی زبانی سنی ۔۔۔ کہ تائی نے آغا جان سے دوسری بار یہ بات کہی ۔۔۔ کہ اس کے ہوش میں آتے ہی دوبارہ اسے قرآن پاک پر ہاتھ رکھوایا جائے ۔۔۔ لیکن آغا جان نے سختی سے منع کر دیا ۔۔۔۔
" اب اس گھر میں اور کوئی تماشا نہیں ہوگا ۔۔۔۔ " تائی بھی آغا جان کے سامنے اور کچھ بول نہ سکیں ۔۔۔۔۔
ویسے بھی آغا جان آنے والے الیکشنز کے بارے میں سوچ رہے تھے نہیں تو انم والے واقعے پر اچھا خاص افسوس کرتے ۔۔۔۔۔ دو ہفتے بعد سب کچھ نارمل ہو گیا ۔۔۔۔ آغا جان اور فیروز تایا نے سب کو یہ بات پھیلانے سے سختی سے منع کیا ہوا تھا نہیں تو یہ بات بہت دور جاتی ۔۔۔۔۔۔
اس کی جان میں جان آئی ۔۔۔۔  تائی کے علاوہ سب انم کو بھول گئے ۔۔۔۔ اس کا ذکر دوبارہ وہاں نہیں ہوا زندگی ایک بار پھر پہلی والی روٹین میں لوٹ آئی ۔۔۔۔۔
اس دوران تائی نے اس سے بات کرنا بالکل ختم کر دیا تھا بلکہ سعدیہ بھابھی کو بھی منع کر دیا کہ ' عشرت کا نہ کوئی کام کرنا نہ اس سے بات کرنا  " 
انم اور کبیر سے اس کا رابطہ ہوتا رہتا تھا وہ لوگ آن لائن اپنی نئی زندگی کی تصاویر شئر کرتے رہتے تھے ۔۔۔۔ انم بہت خوش تھی اور ہر بات پہ اس کا شکریہ ادا کرتی رہتی  ۔۔۔۔
_________________________________________
ناول نفرت  تحریر ناصر حسین 
___________________________________________
زویا نے اسے کال پہ ہی کمپیوٹر کلاسز کے شروع ہونے کی اطلاع دی ۔۔۔ اور اس نے بنا کسی وقفے کے اگلے دن سے آنے کی حامی بھر لی ۔۔۔۔
" تم آغا جان سے پوچھ تو لو ۔۔۔۔ " 
" پوچھنا کیا ہے میری زندگی ہے میں جو چاہوں کروں ۔۔۔ " 
اس نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا ۔۔۔۔
" اگر سکندر برا مان گیا تو ۔۔۔ " 
" مناتا رہے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا  ۔۔۔ اچھا سن میرا سارا سامان تمہارے یہاں پڑا ہے کل صبح لازمی یاد سے لیتی آنا ۔۔۔۔۔ " 
" لیکن عشرت تم پلیز ایک بار اپنے گھر بتاو تو سہی نہیں تو بہت بڑا تماشا ہوگا ۔۔۔۔۔ " 
زویا ابھی تک اسی ٹاپک پہ کھڑی تھی ۔۔۔۔۔
" اوکے میں بات کرتی ہوں " 
پتا نہیں اس نے اتنی جلدی حامی کیسے بھری تھی ۔۔۔ سب سے پہلے اس نے نرمین کو یہ بات بتائی اس نے صرف اتنا کہا تھا ۔۔۔۔
" آغا جان تمہیں کبھی اجازت نہیں دیں گے  " 
اور جب یہ بات امی کے سامنے کی تو وہ حسب توقع بھڑک اٹھیں ۔۔۔
" تم جیسی احمق لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی ۔۔۔ بڑی مشکل سے انم والے معمالے سے زندہ بچی ہے اور اب ایک نیا تماشا شروع کر دے ۔۔۔۔ " 
" مجھے سمجھ نہیں آ رہا آپ لوگ ہر بات پہ اتنا ڈرتی کیوں ہیں ۔۔۔۔ " 
اس نے نرمین اور سعدیہ بیگم دونوں کی طرف بیک وقت دیکھا ۔۔۔۔ 
" اور مجھے سمجھ میں نہیں آتا تم آغا جان اور فیروز بھائی جان سے ڈرتی کیوں نہیں ۔۔۔۔۔ " 
سعدیہ بیگم دانت چبا کر غصے سے اسے احساس دلا رہی تھیں ۔۔۔۔
" آغا جان خدا نہیں ۔۔۔۔ خواہ مخواہ سر پر چڑھایا ہوا ہے آپ لوگوں نے سارے مردوں کو ۔۔۔۔۔ " 
" تونے جو کرنا ہے کر ۔۔۔۔ میں نے تمہیں جنم دیا ہے اس کی سزا تو ملی گی ناں مجھے ۔۔۔۔۔۔ " 
سعدیہ بیگم زور سے اس کی پیٹھ پر ایک جھاپڑ لگا کر باہر نکل گئیں ۔۔۔۔ وہ ایموشنل بلیک میل نہیں ہونے والی تھی ۔۔۔۔ رات کو جب آغا جان گھر واپس آئے تو وہ کھانے کے بعد فورا ان کے پاس چلی گئی ۔۔۔۔ وہ اپنی جاہ و جلال کے ساتھ تخت پر بیٹھے غرور سے سر تانے ہوئے تھے سکندر بھی ان کے پاس بیٹھا تھا ۔۔  ان دونوں کے درمیان کوئی سیاسی گفتگو چل رہی تھی ۔۔۔۔ احتیاطا اس نے دوپٹہ سر پر لے لیا تھا اور چہرے پر دنیا جہان کی معصومیت سمیٹ کر وہ آغا جان کے پاس چلی گئی ۔۔۔۔ مجبوری تھی یہ تو کرنا تھا ۔۔۔۔ دونوں نے اپنی بات ادھوری چھوڑ کر اسے دیکھا ۔۔۔ سکندر کی ناک پر ہمیشہ کی طرح اسے دیکھ کر غصہ آ گیا ۔۔۔۔ اس نے بنا کسی تہمید کے اپنے آنے کا مقصد آرام سے آغا جان کے گوش گزار کیا ۔۔ اور وہ کسی مینڈک کی طرح پھدک کر اپنی جگہ سے اٹھے ۔۔۔۔
" تمہیں پتا ہے تم کیا کر رہی ہو " 
وہ گرج کر بولے 
" جی آغا جان " اس نے تحمل سے جواب دیا ۔۔۔۔ سکندر کی گھوریوں کی پرواہ کیے بنا ۔۔۔۔۔
 " تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے "  انہوں نے دانت چبا کر اسے دیکھا ۔۔۔۔
" جی آغا جان " اس نے اسی تحمل سے جواب دیا جس سے آغا جان مزید بھڑک اٹھے ۔۔۔۔۔۔
" دفع ہو جاو یہاں سے ۔۔۔۔۔  " وہ کچھ پل کھڑی انہیں گھور کر دیکھتی رہی پھر خاموشی سے پیچھے چلی آئی ۔۔۔۔ سکندر بھی اس کے پیچھے پیچھے آیا تھا ۔۔۔۔۔
" تم ہوش میں تو ہو ۔۔۔۔ " 
وہ اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا اور اسے غصے سے دیکھ رہا تھا وہ بنا اس کی طرف دیکھے تیز تیز چلتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی ۔۔۔۔۔
" ہوش میں ہوں تبھی تو چل رہی ہوں " 
" بکواس نہ کرو دانت توڑ دوں گا تمہارے  ۔۔۔۔۔  " 
وہ تیزی سے چلتے چلتے رک گئی اس نے سکندر کی طرف دیکھا ۔۔۔۔
" توڑو دانت ۔۔۔۔ " وہ ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو گئی ۔۔۔ وہ اسے کچھ حیرت اور بے بسی کی کیفیت میں دیکھتا رہا ۔۔۔۔ اور پھر اس نے مٹھیاں بھینچ لیں  ۔۔۔۔۔
" توڑ دو دانت میرے  ۔۔۔۔۔ لیکن اس سے تم میرے دل کی آواز کبھی نہیں دبا سکتے ۔۔۔۔ " 
وہ چلا اٹھی ۔۔۔۔۔
" تم جانتی ہو اس گھر کے اصول ۔۔۔۔ اب اس عمر میں باہر جا کر کمپیوٹر کوورسز کرو گی تم ۔۔۔ ہزار مردوں کے سامنے ۔۔۔۔ " 
وہ بھی چلایا ۔۔۔۔۔
" میں نہیں مانتی اس گھر کے تھرڈ کلاس اصول ۔۔۔۔ جہاں سانس لینے کی بھی پابندی ہو ۔۔۔۔۔  اور  اس گھر کے اصول صرف عورتوں پر ہی کیوں لاگو ہوتے ہیں ۔۔۔۔ اس وقت کہاں تھے یہ اصول جب تم امریکہ گئے تھے ۔۔۔۔۔ " 
وہ بنا کوئی لحاظ کئے مقابلے بازی پر اتر آئی ۔۔۔۔
" میری بات اور ہے  ۔۔۔ میں مرد ہوں ۔۔۔۔ " 
وہ بے بسی سے چلایا ۔۔۔۔۔
" تو یہ ہے تمہارے اور آغا صاحب کی مردانگی کہ اس گھر کی عورتوں پر زندگی تنگ کر دو ۔۔۔۔۔ یہی سیکھ کر آئے ہو امریکہ سے ۔۔۔۔ " 
" بے غیرتی نہیں سیکھی میں نے ۔۔۔۔  اور نہ ہی بے غیرتی برداشت کروں گا ۔۔۔۔  " 
" میں تم سے بحث نہیں کرنا چاہتی اس لئے میرے منہ نہ لگو تم ۔۔۔۔۔ " 
" تمہیں یہ بغاوت بہت مہنگی پڑے گی عشرت جمال ۔۔۔۔ " 
وہ دانت چبا کر دھمکی دینے والا انداز میں بولا ۔۔۔۔ 
اور وہ بنا اس کی کسی بات کو اہمیت دیئے کمرے میں آئی ۔۔۔ اس گھر کے مردوں کو بلیک میلنگ، ظلم اور دھمکی دینے کے علاوہ اور آتا ہی کیا تھا لیکن کمپیوٹر کلاسز میں وہ ایڈمیشن لے کر ہی رہے گی ۔۔۔۔ اس نے تہیہ کر لیا وہ اب بنا ان کو بتائے چوری سے کلاسز لینے جائے گی ۔۔۔۔ اور یہی بات اس نے رات کو زویا کو بھی بتا دی ۔۔۔۔۔
___________________________________________
ناول نفرت  تحریر ناصر حسین 
___________________________________________
آغا جان کے انکار کے بعد امی اور نرمین نے بھی وہی کہا کہ جب آغا جان نے منع کیا ہے تو اسے کلاسز نہیں لینے چاہئے ۔۔۔ مگر اس نے وہی کیا جو اس کا دل چاہ رہا تھا  ۔۔۔ آغا جان اور سکندر کی دھمکیوں کو ہوا میں اڑا کر اگلے دن وہ کلاسز لینے پہنچ گئی ۔۔۔۔ وہ روزانہ صبح زویا کے گھر تک جاتی اور پھر وہی اسے کمیپیوٹر کلاسز لینے کے لئے اپنے ساتھ لے جاتی ۔۔۔۔۔ گھر کی باقی عورتوں نے شاید ہی اس کی یہ روٹین نوٹ کی ہو لیکن کسی نے کہا کچھ نہیں ۔۔۔۔ مردوں کے جانے کے بعد وہ چلی جاتی تھی اور ان کے آنے سے پہلے ہی واپس آ جاتی ۔۔۔۔۔
تائی اس دوران اسے مسلسل اگنور کر دیتیں ۔۔۔ یا غصے سے گھورنے لگتیں ۔۔۔ امی کو تو وہ بات بات پر طعنے مارتی رہتی ۔۔۔۔۔ اور ایک دن جب اس کا سامنا براہ راست تائی سے ہوا تو انہوں نے اسے بھی نہ بخشا ۔۔۔۔۔۔
" میرے سامنے یہ ڈھونگ زرا کم کیا کر ۔۔۔۔ میں جانتی ہوں انم کو تو نے ہی بھگایا ہے اور اس دن تو ڈرامہ کر کے بچ گئی لیکن جلد ہی تیری اصلیت سامنے لاوں گی ۔۔۔۔ " 
تائی نے خونخوار نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔
وہ پہلو بچا کر وہاں سے نکل آئی ۔۔۔ تائی کو اس کے بارے میں سو فیصد یقین تھا کہ انم کو بھگانے میں اسی کا ہاتھ ہے اور  اس بات کے چلتے انہوں نے ایک رات امی سے کہا ۔۔۔
" سعدیہ کسی خوش فہمی میں نہ رہو کہ تمہاری آوارہ بیٹی کو میں سکندر کے لئے قبول کر لوں گی  ۔۔۔۔ میں سکندر کے باپ سے بات کر کے جلد ہی سارے رشتے ختم کر دوں گی ۔۔۔۔۔ " 
یہ بات اسے نرمین سے پتا چلی ۔۔۔ اس کے سر سے جیسے بوجھ اتر گیا ۔۔۔ لیکن امی نے رو رو کر اپنا برا حال کر دیا تھا اور اسے باتیں سنانے کے علاوہ وہ کئی بار اس پر ہاتھ بھی اٹھاتیں ۔۔۔۔ لیکن اس کے لئے سکندر کی نسبت سے آزاد ہونے کی خوشی ہی اتنی تھی کہ وہ امی کی کسی بات کو برا نہ مناتی ۔۔۔۔۔۔
کمپیوٹر کلاسز لیتے ہوئے اسے ایک ہفتہ ہونے کو تھا جب ایک دن سکندر نے اسے زویا کے ساتھ دیکھ لیا ۔۔۔ وہ زویا کی گاڑی میں تھی اور گاڑی ریڈ سنگلز ہونے کے بعد روڈ پر کھڑی تھی اور اس کے بالکل لفٹ سائیڈ پر سکندر کی گاڑی آ کر رک گئی ۔۔۔۔ ناداستہ طور پر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ان دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ٹکرائیں ۔۔  پھر اس نے فورا منہ دوسری طرف کر کے دوپٹے سے چہرہ چھپا دیا ۔۔۔۔ اور زویا کو چپکے سے ٹھسکا لگایا ۔۔۔۔
" جلدی گاڑی نکالو یہاں سے ۔۔۔۔ " 
" کیا ہوا ۔۔۔۔ " زویا نے ہیڈ فون کان سے نکالے ۔۔۔۔۔
" وہ لفٹ سائیڈ پر سکندر  کی گاڑی ۔۔۔۔ " 
اس نے سرگوشی کے انداز میں کہا ۔۔۔۔۔ زویا نے ادھر ادھر دیکھا پھر سکندر کو دیکھ کر فورا گاڑی وہاں سے نکالی ۔۔۔۔ اور دوسری طرف موڑ دی ۔۔۔۔ 
ان لوگوں کو لگا وہ سکندر کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں لیکن اس کی گاڑی اچانک سے ان کی گاڑی کے سامنے آ کر رک گئی زویا نے فورا بریک لگایا ۔۔۔ اگر نہ لگاتی تو کار ٹکرا جاتی ۔۔۔۔ وہ اپنی گاڑی کا دروازہ کھول کر جب اپنی لمبی قد اور رعب دار شخصیت سے باہر نکلا تو وہ دونوں گھبرا گئیں ۔۔۔۔ وہ سیدھا اسی کی طرف آیا اور اس کے سائیڈ والی ونڈو کھول کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔۔۔
اور غصے سے باہر کھینچا ۔۔۔۔ زویا منہ کھول کچھ شرمندگی کے عالم میں اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
" یہاں کیا کر رہی ہو تم ۔۔۔۔۔ " 
'" ہاتھ چھوڑو میرا ۔۔۔۔ سب دیکھ رہے ہیں  "
 آس پاس کچھ لوگ بھی متوجہ ہو گئے تھے ۔۔۔ سکندر نے ادھر ادھر دیکھا اور گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر اسے دھکا دیا ۔۔۔۔ وہ بنا کوئی مزاحمت کے آرام سے بیٹھ گئی ۔۔۔۔ وہ غصے سے لال ہو چکا تھا ۔۔۔۔ اس کی شرمندگی اور خوف اب ختم ہو چکی تھی اسے اب یہ سوچنا تھا کہ آگے کیا کرنا ہے ۔۔۔۔ کیونکہ سکندر یہ بات ضرور آغا جان کو بتا دیتا ۔۔۔۔۔۔
گھر پہنچ کر سکندر نے اسے کھینچ کر گاڑی سے باہر نکالا اور ہال میں لے جا کر زور سے دھکا دیا وہ صوفے پر بل کھا کر گر پڑی ۔۔۔۔ 
" کس سے پوچھ کر تم باہر گئی تھیں ؟ " 
اب وہ کھڑا زور سے چلا رہا تھا ۔۔۔۔ شور سن کر تائی اور امی بھی وہاں آ گئیں ۔۔۔۔۔
" کیا ہوا سکندر " 
تائی اس کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔۔ 
" مجھے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے " 
وہ ہذیانی انداز میں چلائی ۔۔۔۔
سکندر شاید اسے مارنے کے لئے آگے بڑھا لیکن تائی نے اسے روک لیا ۔۔۔۔
" دفع کرو اسے ۔۔۔۔ آو تم پانی پیو ۔۔۔۔" 
" چھوڑو مجھے آج میں اس کی ساری اکڑ نکالتا ہوں ۔۔۔ " 
تائی اسے زبردستی گھسیٹ کر اندر لے جانے لگی ۔۔۔۔
" ہاں ہاں تم اور کر بھی کر سکتے ہو بزدل مرد ۔۔۔۔ " 
وہ اس کے پیچھے جتنے زور سے چلا سکتی تھی چلائی ۔۔۔۔  اس نے سنا مگر ٹھنڈی سانس لے کر نظر انداز کر گیا ۔۔۔۔۔۔
سعدیہ بیگم نے کمرے میں اس کی الگ کلاس لی ۔۔۔۔ 
" میں اس کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کراوں گی " 
وہ چادر اٹھا کر بولی ۔۔۔ سعدیہ بیگم نے زور سے ایک تھپڑ اس کے چہرے پر مار دیا ۔۔۔ 
" تم ہمیں گھر سے نکالنا چاہتی ہو کیا ۔۔۔ دفع ہو جاو یہاں سے ۔۔۔۔ " 
" میں آج اس نواب زادے کو اچھے سے سبق سکھاوں گی ۔۔ اس کی ہمت کیسے ہوئی مجھے گھسیٹ کر لانے کی ۔۔۔۔ " 
" یہ سکندر تھا جو تمہیں زندہ لے آیا اگر آغا جان ہوتے تو تمہیں وہیں گولی مار دیتے ۔۔۔۔۔ " 
وہ مضبوط ارادہ کر چکی تھی کہ سکندر کے خلاف رپٹ لکھوائے گی لیکن سعدیہ بیگم نے کچھ دھمکی اور کچھ ایموشنل بلیک میلنگ سے اس کا غصہ کم کیا ۔۔۔۔ لیکن سکندر کے لئے اس کے دل میں جو نفرت تھی اس میں مزید اضافہ ہوا تھا  ۔۔۔۔۔۔
اس دوران اچھی بات یہ ہوئی تھی آغا جان گھر پہ نہیں تھے اس لئے ان کو کبھی اس بات کا علم ہی نہیں ہو سکا ۔۔۔۔ آنے والے دنوں میں اس نے کلاسز کو سٹاپ کر دیا تھا لیکن وہ اس طرح گھٹ گھٹ کر نہیں جینا چاہتی تھی اس کی ہمیشہ سے خواہش تھی وہ اس کے پنجرے سے باہر نکل کر آزاد ہو سکے ۔۔۔۔۔
__________________________________________
انم کے ساتھ اس کی وڈیو چیٹ ہوئی تھی جس پہ اس نے اپنی پریگننسی کی خوشخبری سنائی ۔۔۔۔ وہ حقیقتا یہ جان کر خوشی ہوئی اور سب سے زیادہ خوشی اسے انم کو خوش دیکھ کر ہوئی  ۔۔۔۔ گھر پہ کس قدر ڈری سہمی سی رہنے والی لڑکی آزاد ہو کر کس قدر خوش تھی ۔۔۔ اس نے انم کو کچھ گھر کی تصویریں بھی بھیجیں اور اسے موجودہ حالات سے بھی آگاہ کیا۔۔۔۔۔۔۔
عموما رات کو وہ سکون کے لئے چھت پر آتی تھی جہاں کوئی نہیں ہوتا تھا ۔۔۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی ہوتی اور یہاں آ کر وہ سکون محسوس کرتی ۔۔۔۔ نیچے گھر  کا آنگن نظر آتا تھا اور مین گیٹ بھی ۔۔۔۔۔۔
اس وقت وہ زویا سے کال پہ بات کر رہی تھی ۔۔۔۔۔
" سچ میں عشرت تم کمال کرتی ہو جو ایسے ماحول میں سانس لے رہی ہو ۔۔۔۔۔ " 
" چلو آج تو تم بھی مان گئیں نہیں تو تم بھی ہمیشہ کہتی رہتی تھیں کہ میں اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتی ۔۔۔۔ " وہ کچھ دکھی انداز میں مسکرائی ۔۔۔۔۔
" کیا تم سچ میں ساری زندگی ایسے گھر میں گزارو گی ۔۔۔ " 
" کبھی نہیں ۔۔۔ مجھے یہاں سے جانا ہے بہت دور ۔۔ ۔۔ میں اپنی زندگی ایسی چھوٹی سوچ کے  لوگوں کے ساتھ نہیں گزار سکتی ۔۔۔۔ " 
" قسم سے یار شہر میں ایسا ماحول کہاں ہوتا ہے ، مجھے تو ابھی تک اس کی آنکھوں کا سوچ سوچ کر  خوف آ رہا ہے کتنے غصے میں تھا وہ ۔۔۔۔۔ " 
اسے پیچھے کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی ۔۔۔ اس نے پیچھے پلٹ کر دیکھا وہ سکندر تھا جو ہمیشہ کی طرح اسے غصے سے دیکھ رہا تھا اس نے انگلی سے کال کٹ کر دی ۔۔۔۔۔
" موبائل کہاں سے آیا تمہارے پاس ۔۔۔۔ " 
اس نے سرد لہجے میں پوچھا ۔۔۔۔
" وہ ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔"  اسے اچانک وہاں دیکھ کر اس کی زبان لڑکھڑا گئی ۔۔۔۔ 
" بتاو کہاں سے آیا یہ موبائل ۔۔۔۔ " اب وہ اس کے دونوں بازوں پکڑ کر چلایا ۔۔۔۔
" ایک تو یہ بار بار میرے ہاتھ نہ پکڑا کرو ۔۔۔۔ " 
وہ اپنے ہاتھ چھڑاتے ہوئے برہمی سے بولی ۔۔۔۔
" تم میری ہونے والی بیوی ہو جو چاہوں کروں ۔۔۔۔ " 
" تمہارا یہ خواب خواب ہی رہ جائے گا ۔۔۔۔ " 
" بات کو بدلو مت بتاو یہ موبائل کہاں سے آیا اور کب سے استعمال کر رہی ہو ۔۔۔۔ " 
وہ اس کے ہاتھ سے موبائل چھین کر بولا ۔۔۔۔
" سکندر موبائل مجھے دو ۔۔۔۔ " 
" شٹ اپ ۔۔۔۔ " 
اس نے موبائل کو غصے سے دیکھا پھر اپنی پوری قوت سے موبائل کو چھت سے نیچے گھر کے باہر روڈ پر پھینک دیا ۔۔۔۔۔ وہ اسے بے بسی اور شاک کی کیفیت میں دیکھتی رہ گئی ۔۔۔۔ اسے یقین نہیں آیا وہ ایسا کچھ کر سکتا ہے ۔۔۔۔
" ذلیل انسان تمہاری جرات کیسے ہوئی میرا موبائل پھینکنے کی ۔۔۔۔۔ " 
وہ غصے اور بے بسی سے چلائی اس کی آواز بھرا گئی ۔۔۔۔۔
" شکر کرو تمہارا موبائل پھینکا ہے نہیں تو تم نے جو حرکت کی ہے اس پہ تمہارا قتل بنتا ہے ۔۔۔۔ " 
وہ کچھ بے بسی کے عالم میں اسے دیکھتی رہ گئی ۔۔۔۔
" اب بتاو یہ موبائل کہاں سے آیا اور کس سے بات کر رہی تھیں تم ۔۔۔۔۔ " 
اس نے غصے بھری سانس خارج کی اور دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر مطمئن ہو کر اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔
" یہ موبائل مجھے سمیر نے دیا ہے اور میں اسی سے بات کر رہی تھی۔۔۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور جلد ایک دوسرے سے شادی کریں گے ۔۔۔۔۔ " 
وہ اسے اسے تکلیف دینے کے لئے جھوٹ بولے جا رہی تھی ۔۔۔۔ 
سکندر نے غصے سے اپنا آسمان کی طرف بلند کیا اور روک دیا ۔۔۔۔ وہ اس پر ہاتھ نہیں اٹھا سکا ۔۔۔۔ اور غصے سے اسے دیکھتا رہ گیا ۔۔۔۔
" تم جان بوجھ کر یہ کر رہی ہو ناں مجھے غصہ دلانے کے لئے اور مجھے درد دینے کے لئے  " 
وہ دانت چبا کر بولا۔۔۔۔
وہ استہزائیہ انداز میں ہنسی ۔۔۔۔
" میں تمہیں وہ درد دے جاؤں گی تم ساری زندگی یاد رکھو گے سکندر فیروز  ۔۔۔۔ "  
نفرت سے اسے کہتی وہ وہاں سے چلی آئی اور وہ وہیں کھلے آسمان تلے کھڑا رہ گیا ۔۔۔۔۔
___________________________________________
دل توڑنا منع ہے  
جلد آ رہا ہے
__________________________________________
ساری رات وہ اس کے ذہن پر چھایا رہا ، دل چاہا اسے شوٹ کر دے ۔۔۔ وہ کمرے میں ادھر ادھر ٹہلتی رہی کسی طرح اس کا غصہ کم نہ ہوا ۔۔۔۔ اس نے کس بے رحمی سے اس کا موبائل چھین کر پھینکا تھا ۔۔۔۔ اس کے دل میں اس گھر میں رہنے والوں مردوں کے لئے نفرت اور بڑھ گئی ۔۔۔۔۔
" مجھے اس سونے کے پنجرے سے آزاد ہونا ہے " 
وہ بار بار خود سے کہتی رہی ۔۔۔۔ 
اگلے دو دنوں میں اس نے اپنے لئے ایک نئے موبائل کا انتظام کیا ، وہ موبائل کے بنا رہنے والی نہیں تھی ۔۔۔۔ اس نے زویا سے رابطہ کیا اور کئی گھنٹوں اس کے سامنے اپنے دل کا غبار نکالتی رہی ۔۔۔۔
نرمین نے اسے ایک نئی ٹینشن میں ڈال دیا ۔۔۔۔
" آج گھر میں تمہاری شادی کی بات ہو رہی تھی ۔۔۔ " 
" کس کے ساتھ " اس نے احمقانہ سوال پوچھا تھا  ۔۔۔۔
" آف کورس سکندر کے ساتھ اور کس کے ساتھ " 
" اس گھر والوں کو خوش فہمی ہے ، میں کبھی اس  منحوس سے شادی نہیں کروں گی ۔۔۔۔ " 
" شادی تو تمہیں کرنے پڑے گی ۔۔۔ سنا ہے آغا جان جلد ہی ڈیٹ کا اعلان کر دیں گے ۔۔۔۔ " 
" لیکن تم تو کہہ رہی تھیں تائی نے انکار کر دیا تھا " 
" وہ تو خود سے ہی ایسے کہہ رہی تھیں نہیں تو گھر کے مردوں نے تو کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی ۔۔۔۔ کیا خاندانی اصول جانتی نہیں ہو جو رشتہ جڑ جائے وہ کبھی نہیں ٹوٹتا پھر ۔۔۔۔۔ " 
" میں سارے اصول توڑ دوں گی ۔۔۔ " 
" تم اپنا سر تڑواو گی ۔۔۔۔ " 
اس نے اس بات کو کچھ خاص اہمیت نہیں دی کیونکہ وہ جانتی تھی شادی اس نے سکندر سے کبھی نہیں کرنی۔۔۔ ابھی کچھ ہی دنوں میں الیکشنز ہونے والے تھے ، آغا جان سمیت تقریبا سبھی گھر والے انہی تیاریوں میں مصروف تھے ۔۔۔ اس بار آغا جان ایم این اے کی سیٹ پر اپنی جگہ سکندر کو کھڑا کر رہے تھے ۔۔۔  پینا فلیکسز اور پوسٹرز بھی چھپ چکے تھے اور تقریبا ہر جگہ آویزاں بھی تھے ۔۔۔۔ اس لئے وہ شادی کی بات کو لے کر ابھی اس قدر سیریز نہیں تھی کیونکہ جو بھی بڑا فیصلہ ہوگا وہ الیکشن کے بعد ہی ممکن تھا ایسے نرمین کو ثوبیہ بھابھی سے کوئی اڑتی پھرتی خبر ملی ہوگی ۔۔۔۔
لیکن گھر میں ہونے والے فیصلوں سے وہ اس قدر لا علم
بھی نہیں ہونا چاہتی تھی ۔۔۔۔ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا تھا  ۔۔۔۔ وہ اوپر والی منزل پر کھڑی تھی نیچے ہال میں اسے سکندر اور آغا جان باتیں کرتے ہوئے دکھائی دیئے ۔۔۔ دونوں ہی کسی سیریز مسئلے پہ بات کر رہے تھے وہ دور سے انہیں دیکھ رہی تھی ان کی آواز اس تک نہیں پہنچ پا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ ممکن تھا وہ شادی کے حوالے سے کوئی بات کر رہے ہوں اور آگاہ رہنا اس کے لئے ضروری تھا ۔۔۔۔
وہ چپکے سے نیچے آئی اور ہال کے پچھلے حصے کی طرف پلر کے پیچھے چھپ کر کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔۔  اب ان کی آواز واضح آ رہی تھی وہ ایسی جگہ چھپ کر کھڑی تھی جہاں سے وہ اسے نہیں دیکھ سکتے تھے لیکن وہ انہیں اچھے سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
" الیکشن سمجھداری کا کام ہے پیار محبت کا  ۔۔۔۔۔ " 
اس نے سکون بھرا سانس لیا وہ اپنی ہی کوئی بات کر رہے تھے ۔۔۔۔
" بس یہی ایک مہینہ ہے اس میں لوگوں کے سامنے زرا جھک جاو پھر باقی کے پانچ سال سر اٹھا کر جینا " 
اس نے آغا جان کو کہتے سنا ۔۔۔ پھر اس نے جانے کے لئے قدم آگے بڑھائے لیکن اچانک ایک خیال آنے پر رک گئی ۔۔۔۔ اس نے ہاتھ میں موجود موبائل کا کیمرہ آن کیا اور وڈیو ریکارڈنگ پر کلک کر دیا  یہ وڈیو اس کے بہت کام آ سکتی تھی ۔۔۔۔۔
' عوام کا کیا ہے انہیں بے وقوف بنانا کون سا مشکل ہے ،پورا سال بیٹھ کر کھاو علاقے میں کوئی کام نہ کراو بس الیکشن سے پہلے آخری سال ایک دو سڑک پکی کرا لو یہ عوام تمہارا غلام بن جائے گا " 
آغا جان کی یہ باتیں اور کچھ ایسی باتیں اس نے کیمرے میں ریکارڈ کر لیں ۔۔۔۔ یہ بہت قیمتی وڈیو تھی جو آنے والے وقتوں میں اس کے بہت کام آ سکتی تھی ۔۔۔۔۔
________________________________________
ناصر حسین کے مکمل ناول ' کتابی شکل میں حاصل کرنے کے لئے وٹس ایپ کریں
_______________________________________
دوسروں کا وڈیو بناتے بناتے اس کا خود کا وڈیو وائرل ہو گیا اسے یقین نہیں آیا یہ کیسے ہوا کب ہوا اور کیوں ہوا ۔۔۔۔ ایک بے یقینی سی کیفیت تھی۔۔۔۔ اسے اپنے چاروں طرف دھماکے ہوتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ 
سکندر نے ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے چہرے پر لگایا تھا ۔۔۔۔ اور اس کے کان سن ہو گئے ۔۔۔۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔۔۔۔۔ 
ہال میں پورا خاندان کھڑا تھا ۔۔۔۔ 
" دیکھو ۔۔۔۔ دیکھو کیا ہے یہ ۔۔۔۔۔  " 
سکندر نے اپنا موبائل اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا ۔۔۔۔  نے پھٹی آنکھوں سے موبائل سکرین پر چلنے والی وڈیو کو بے یقینی سے دیکھا ۔۔۔۔ وہ سب کب اور کیسے ہوا تھا  ۔۔۔۔ 
وہ اسی کی وڈیو تھی جہاں وہ ڈانس کر رہی تھی ۔۔۔۔۔ وہ انم کی مہندی پر کسی کمرے میں لڑکیوں کے ساتھ ڈانس کر رہی تھی کسی بچے یا کسی لڑکی نے اس کی وڈیو بنا لی ۔۔۔۔ اور اب وہ وڈیو پورے سوشل میڈیا پر وائرل ہو کر ٹاپ ٹرینڈ بن چکی تھی ۔۔۔۔ 
" اور دیکھو ساتھ ٹائٹل کیا لکھا ہوا ہے " 
سکندر کی آواز پورے ہال میں گونجی ۔۔۔ اس نے موبائل آنکھوں کے سامنے کیا ۔۔۔۔
" آغا جان کی پوتی مجرہ کرتے ہوئے  " 
اور اسے لگا پوری چھت اس پر آن گری ہو ۔۔۔۔ 

   1
0 Comments