Orhan

Add To collaction

نفرت

نفرت
از قلم ناصر حسین
قسط نمبر5

دوسروں کا وڈیو بناتے بناتے عشرت کا خود کا وڈیو لیک ہو گیا اسے یقین نہیں آیا یہ کیسے ہوا کب ہوا اور کیوں ہوا ۔۔۔۔ ایک بے یقینی سی کیفیت تھی۔۔۔۔ اسے اپنے چاروں طرف دھماکے ہوتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ 
سکندر نے ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے چہرے پر لگایا تھا ۔۔۔۔ اور اس کے کان سن ہو گئے ۔۔۔۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔۔۔۔۔ 
ہال میں پورا خاندان کھڑا تھا ۔۔۔۔ 
" دیکھو ۔۔۔۔ دیکھو کیا ہے یہ ۔۔۔۔۔  " 
سکندر نے اپنا موبائل اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا ۔۔۔۔  نے پھٹی آنکھوں سے موبائل سکرین پر چلنے والی وڈیو کو بے یقینی سے دیکھا ۔۔۔۔ وہ سب کب اور کیسے ہوا تھا  ۔۔۔۔ 
وہ اسی کی وڈیو تھی جہاں وہ ڈانس کر رہی تھی ۔۔۔۔۔ وہ انم کی مہندی پر کسی کمرے میں لڑکیوں کے ساتھ ڈانس کر رہی تھی کسی بچے یا کسی لڑکی نے اس کی وڈیو بنا لی ۔۔۔۔ اور اب وہ وڈیو پورے سوشل میڈیا پر وائرل ہو کر ٹاپ ٹرینڈ بن چکی تھی ۔۔۔۔ 
" اور دیکھو ساتھ ٹائٹل کیا لکھا ہوا ہے " 
سکندر کی آواز پورے ہال میں گونجی ۔۔۔ اس نے موبائل آنکھوں کے سامنے کیا ۔۔۔۔
" آغا جان کی پوتی مجرہ کرتے ہوئے  " 
اور اسے لگا پوری چھت اس پر آن گری ہو ۔۔۔۔ اس نے کرب سے آنکھیں بھینچ لیں ۔۔۔ پھر کسی نے آگے بڑھ کر اسے بالوں سے پکڑا ۔۔۔ اور زور سے دھکا دیا وہ فرش پر منہ کے بل جا کر گر پڑی ۔۔۔۔۔۔
وہ آغا جان تھے ۔۔۔ جو اب غصے سے اسے لات مار رہے تھے ۔۔۔۔اور گالیاں بھی دے رہے تھے  ۔۔۔ وہ وہیں بے سدھ پڑی تھی ۔۔۔۔ سعدیہ بیگم اور نرمین دور کھڑی رو رہی تھیں ۔۔۔۔ ثوبیہ بھابھی اور تائی بھی تماشائی بنے کھڑے تھے ۔۔۔۔۔کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی وہ آغا جان کا ہاتھ روک سکتے ۔۔۔۔  
" بے حیا ، بے غیرت ۔۔۔۔ آج میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا " وہ کافی دیر تک اسے بالوں سے پکڑ پکڑ کر مارتے رہے اور وہ وہیں پتھر بنی پڑی رہی ۔۔۔۔ پھر شاید وہ خود ہی تھک گئے انہوں نے اسے چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔ اسے نہیں یاد اس کے بعد کیا ہوا تھا کیونکہ اس کے بعد وہ بے ہوش ہو گئی تھی  اور اس نے جب آنکھ کھولی تو وہ ایک اندھیرے کمرے میں بند تھی ۔۔۔۔ جہاں چاروں طرف کباڑ کا پرانا سامان تھا ۔۔۔۔ وہ حیرت اور بے یقینی سے اپنے ہاتھوں کے زخموں کو دیکھتی رہی اس کے بال الجھے ہوئے تھے اور جسم کا انگ انگ درد کر رہا تھا۔۔۔  اسے اپنے زندہ ہونے پر حیرت تھی ۔۔۔۔۔۔ وہ بڑی دیر تک ادھر ادھر دیکھتی رہی ۔۔ کچھ سوچ نہیں پا رہی تھی ایک بار پھر بے ہوش ہو گئی ۔۔۔۔ 
___________________________________________
وہ مسلسل تین گھنٹوں سے اسی تہہ خانے میں قید تھی  ، اسے اندھیرے اور کباڑ خانے سے وحشت سی ہونے لگی ۔۔۔۔ جب کچھ ہوش میں واپس آئی تو اسے باہر نکلنے کا خیال آیا ۔۔۔۔ بھاگ کر دروازے تک گئی لیکن دروازہ باہر سے بند تھا ۔۔۔ وہ بہت دیر تک دروازے کو کھٹکھٹاتی رہی ۔۔۔ روتی رہی چیخ چیخ کر سب کو آوازیں دیتی رہی لیکن کوئی نہیں آیا ۔۔۔۔ وہ تھک کر پھر سے وہیں آ کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔
سامنے سلاخوں والی کھڑکی تھی جہاں سے کچھ روشنی اندر آ رہی تھی وہ وہیں اس کھڑکی کے پاس بیٹھ گئی اس نے سر کو دیوار سے ٹیک لگا دیا اور کچھ اداسی سے باہر دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔۔ 
کچھ گھنٹوں پہلے والا واقعہ تو وہ قیامت تک نہ بھولتی ۔۔۔ اتنا بڑا طوفان ٹوٹا تھا اس پر ۔ ۔۔۔
مسلسل سات گھنٹے وہ وہیں اسی تہہ خانے میں بھوکی پیاسی پڑی رہی ۔۔۔ اب رات ہو چکی تھی ہر طرف اندھیرا پھیل چکا تھا ۔۔۔ اور وہ اندھیرے میں بیٹھی تھی ۔۔۔ بس روشن دان سے لکیر کی صورت میں تھوڑی روشنی اندر داخل ہو رہی تھی اسے خوف بھی آ رہا تھا وحشت بھی ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
پھر کوئی کھڑکی کے پاس آیا وہ قدموں کی آہٹ محسوس کر کے کھڑکی کی طرف بھاگی ۔۔۔۔ وہ ثوبیہ بھابھی تھی اور اس کے لئے کھانا لے کر آئی تھی ۔۔۔۔
" بھابھی پلیز مجھے یہاں سے باہر نکالیں ۔۔۔۔ " 
وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی 
" تم جانتی ہو عشرت میں ایسا نہیں کر سکتی ۔۔۔۔ یہ لو کھانا لو " 
وہ کھڑکی کی سلاخوں کے نیچے کھانا اسے دے رہی تھی ۔۔۔ 
" مجھے کھانا نہیں کھانا بس مجھے یہاں سے باہر نکالو پلیز ۔۔۔۔ " 
وہ ثوبیہ کے سامنے ہاتھ جوڑ رہی تھی ثوبیہ نے کچھ بے بسی سے اسے دیکھا اور کھانا رکھ کر چلی گئی ۔۔۔۔ وہ پیچھے سے انہیں آواز دیتی رہ گئی ۔۔۔۔ 
کھانا وہیں پڑا رہ گیا وہ روتی رہی سلاخوں کو کھینچتی رہی ۔۔۔ رات کا دوسرا پہر بھی ختم ہو گیا  ۔۔ نہ وہ سوئی اور نہ ہی کھڑکی کے پاس سے ہٹی ۔۔۔ یہ وہ تہہ خانہ تھا جس میں اس کی امی کو بھی ایک بار بند کیا گیا تھا یہ اسے نرمین سے معلوم ہوا ۔۔۔ کسی غلطی کے لئے آغا جان نے انہیں بھی یہی سزا دی ۔۔۔ اس وقت شاید وہ بہت چھوٹی تھی  ۔۔۔۔ امی پورے ایک مہینے تک اسی تہہ خانے میں بند رہیں ۔۔۔۔ 
اور آج یہ وقت اس پر آیا تھا ۔۔۔۔ جیسے ماضی ایک بار پھر سے پلٹ کر اس کے سامنے آئی تھی ۔۔۔۔ رات کے دو بجے نرمین اور امی بھی ڈرتے ڈرتے اس کے پاس آئیں اور کافی دیر تک اس سے سرگوشی میں کہتی رہیں کچھ ۔۔۔ امی نے اپنی قسم دے کر اسے کھانا بھی کھلایا تھا ۔۔۔ وہ آغا جان اور گھر کے باقی مردوں سے چھپ کر آئیں تھیں اس لئے کافی ڈر رہی تھیں اور بہت کم وقت ہی اس کے پاس رہیں ۔۔۔ اسے اکیلے وہاں ڈر لگ رہا تھا ۔۔۔۔ وہ چاہتی تھی وہ دونوں وہاں سے نہ جائیں لیکن ان کی مجبوری بھی وہ اچھے سے سمجھ سکتی تھی ۔۔۔۔۔ 
اگلے دن بھی وہ اسی تہہ خانے میں پڑی رہی جانے کب اس کی سزا ختم ہونی تھی اس نے تو باہر جانے کی خواہش ہی اب ترک کر دی ۔۔۔۔ 
یہ دوسری شب کے تیسرے پہر کا واقعہ تھا جب اسے باہر کھڑی سے کچھ فاصلے پر ایک ہیولہ دکھائی دیا ۔۔۔ وہ اندھیرے میں نظر نہیں آ رہا تھا وہ نہیں جانتی تھی وہ کون ہے شاید تائی تھیں یا دلاور بھائی جو یہ دیکھنے آئے تھے کوئی اس سے ملنے تو نہیں آتا ۔۔۔۔۔
لیکن اس کے باوجود امی اور نرمین تقریبا روزانہ رات کو چھپ کر اس کے پاس آتی تھیں اور اس سے باتیں کرتیں اسے احساس دلاتیں ۔۔۔ وہ بے جان پتھر کی طرح سب سنتی رہتی ۔۔۔۔۔
وہ ہیولہ اور سایہ جس کا بھی تھا اسے روزانہ دکھائی دیتا شاید کوئی پہرہ دے رہا تھا اس کی نگرانی کر رہا تھا۔۔۔۔۔
تقریبا ایک ہفتے تک وہ وہیں سڑتی رہی ۔۔۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے چہرے دھول اور گندگی سے اٹا ہوا تھا کپڑوں سے بدبو آ رہی تھی ہونٹ اور آنکھیں بنجر ہو چکی تھیں جب ساتویں دن وہ آیا ۔۔۔۔۔۔
" چلو باہر آو " 
وہ سکندر تھا اور اس کا دل چاہا وہیں اس شخص کا گریبان پکڑ کر اسے قتل کر دے ۔۔۔۔۔ 
وہ اپنی جگہ سے ہلی بھی نہیں اور نہ ہی اس شخص کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ 
" چلو اٹھو میں کہہ رہا ہوں "
وہ اب اسے جھنجھوڑ رہا تھا " 
اس نے پلٹ کر اس شخص کو دیکھا ۔۔۔ اس کی آنکھوں میں اس وقت نفرت سے بڑھ کر کچھ تھی ۔۔۔جو وہ دیکھ نہ سکا ۔۔۔۔
" مجھے یہیں رہنے دو ، اسی میں تم لوگوں کی بہتری ہے " 
اس کی آواز دھیمی مگر سرد تھی ۔۔۔۔
" او ۔۔۔۔ چلو تم ۔۔۔۔ " 
وہ غصے سے اس کا ہاتھ کھینچنے لگا بنا اس کی دھمکی کی پرواہ کئے ۔۔۔۔
 اگر میں یہاں سے باہر گئی تو تمہارے زندگی میں طوفان لے کر آوں گی ۔۔۔۔۔ پچھتاوے کے لئے بھی تمہارے پاس وقت نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔ " 
اس نے نفرت بھری نظر سے سکندر کو دیکھا ۔۔۔ وہ بھی اس کی سرخ آنکھوں میں دیکھتا رہا  پھر آنکھیں جھٹک کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے تہہ خانے سے باہر لے آیا ۔۔۔۔۔۔
________________________________________
تحریر ناصر  حسین
__________________________________________
اس کی سزا اتنی جلدی کیسے ختم ہو گئی اور تہہ خانے سے اسے اتنی جلدی کیوں نکالا گیا تھا اس سوال کا جواب اسے باہر آ کر ملا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
" آغا جان دو دن بعد تمہارا اور سکندر کا نکاح کرنا چاہتے ہیں  "
نرمین نے اسے گھر میں داخل ہوتے ہی یہی اطلاع دی ۔۔۔اس نے کوئی جواب نہیں دیا ہاں البتہ وہ آغا جان اور سکندر فیروز کی کرم نوازیوں کی وجہ سمجھ رہی تھی ۔۔۔۔
" تم کچھ بولو ناں ۔۔۔۔ " 
وہ پھر بھی کچھ نہ بولی ۔۔۔ اور بیڈ پر جا کر سو گئی ۔۔۔ پچھلے ایک ہفتے سے وہ جس اذیت میں رہی اس کا اندازہ اس دنیا کا کوئی انسان نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔۔ وہ اس سب کو برا خواب سمجھ کر جھٹک نہیں سکتی تھی ۔۔۔ وہ بھیانک حقیقت اب اس کی زندگی کا حصہ بن چکے تھے ۔۔۔۔  اور گزرے لمحے آنکھوں کے سامنے چل رہے تھے ۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد امی کمرے میں آئیں نکاح کی  بات انہوں نے بھی رپیٹ کی اور کچھ نصیحتیں بھی کئیں ۔۔۔۔
جیسے اب اسے آگے کیا کیا کرنا ہے  ، کیسے سر جھکا کر گھر کے مردوں کے فیصلوں کو تسلیم کرنا ہے۔۔۔۔ اور کس قدر سنجیدگی سے اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہیں ۔۔۔۔
وہ خاموشی سے انہیں سنتی رہی بولی کچھ نہیں ۔۔۔ آج کل ہر جگہ اس کی یہ حالت تھی وہ خاموشی سے سب سنتی اور بولتی کچھ نہیں ۔۔۔۔۔
کچن میں تائی نے بھی اس سے یہی بات کی ۔۔۔۔
" اب سدھر جاو لڑکی ۔۔۔۔ میری بہو بننے جا رہی ہوں ۔۔۔۔ اور میں آغا جان کے فیصلے کو مانتے ہوئے تمہیں تسلیم کر رہی  ہوں ۔۔۔۔ " 
وہ وہاں بھی کچھ نہ بولی اور پانی کی بوٹل اٹھا کر  واپس آئی ۔۔۔۔۔ آغا جان سے اس کا دوبارہ سامنا نہیں ہوا تھا وہ ان کے سامنے جانا بھی نہیں چاہتی تھی وہ الیکشن کی وجہ سے کچھ مصروف رہتے تھے ۔۔۔۔ سکندر اور گھر کے باقی مرد بھی ووٹوں کے لئے جگہ جگہ جلسے کرتے ہوئے نظر آ رہے تھے  ۔۔۔۔  اور گھر گھر جا کر کمپین چلا رہے تھے ۔   ۔۔ روزانہ بریانی کی سیکڑوں دیگیں گاوں والوں میں تقسیم کی جا رہی تھیں ووٹ بینک بڑھانے کے لئے ۔۔۔ آغا جان کے مخالف بھی ایک پرانی تگڑی پارٹی کھڑی تھی اس لئے اس بار انہیں کچھ زیادہ ہی محنت کرنی پڑ رہی تھی ۔۔۔۔۔
اور گھر کی عورتیں سب کچھ بھلا کر نکاح اور شادی کی تیاریوں میں لگی تھیں ، کوئی شاپنگ کر رہا تھا کوئی گھر کو سجا رہا تھا اور وہ بنا کسی کی طرف توجہ دیئے سب کچھ خاموشی سے  دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔  جس دن امی اور تائی اسے شاپنگ کے لئے لے کر گئیں تھیں اس دن بھی وہ خاموش رہی یہاں تک کہ اس کے لئے کپڑے بھی نرمین اور ثوبیہ بھابھی نے پسند کئے اس نے اپنی کوئی پسند نا پسند نہیں بتائی ۔۔۔۔۔ 
کوئی اس کے ماتھے پر جھومر لگا کر دیکھ رہا تھا کوئی گلے میں ہار اور کوئی سر پر دوپٹے رکھ رکھ کر چیک کر رہا تھا وہ خود کو وقت پر چھوڑ چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔اور اپنے وقت کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔۔
انہیں وہاں سے گھر لے جانے کے لئے سکندر آیا تھا اس نے ایک نظر اٹھا کر بھی اسے نہیں دیکھا لیکن اس کی نظروں کو محسوس کر سکتی تھی ۔۔۔۔۔۔
جب وہ سیڑھیوں سے اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی تو سکندر نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اس نے پلٹ کر اس کی آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔۔ بہت غرور تھا اس کی آنکھوں میں جیسے کچھ جیت جانے کے بعد ہوتی ہے ۔۔۔۔۔
" تو کیا کہا تھا تم نے کہ تم مجھ سے کبھی شادی نہیں کرو گی " 
اس کی آواز طنز میں ڈوبی ہوئی تھی اور چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ  ۔۔۔۔
" دیکھ لو عشرت جمال ۔۔۔۔ تم ہار گئیں ۔۔۔۔ "
اس نے ہونٹ بھینچ لئے جیسے برداشت کرنے کی کوشش کر رہی ہو ۔۔۔۔۔
" بس دو دن اور پھر تم میری ملکیت ہوگی "
وہ اس کا ہاتھ پکڑے کھڑے تھا۔۔۔ بے اختیار اس کی نظر اس کے ہاتھ کی طرف گئی جہاں سفید پٹی بندھی ہوئی تھا ۔۔۔ لگتا تھا کوئی زخم ہے ۔۔۔ یہ پٹی اس نے کچھ روز قبل جب وہ اسے تہہ خانے سے نکالنے آیا تھا تب بھی دیکھی تھی ۔۔۔۔ کمپین ہے دوران شاید اس کی کسی سے لڑائی ہوئی ہوگی وہ اکثر ایسے جھگڑے کرتا رہتا تھا ۔۔۔۔۔
وہ اس سے اپنا ہاتھ چھڑا کر اوپر کمرے میں چلی آئی ۔۔۔ اس کا ذہن ویران تھی وہ خشک آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہی تھی ۔۔۔ کوئی نہیں جانتا تھا اس کے دل میں کیا چل رہا ہے ۔۔۔۔۔
________________________________________
تحریر ناصر حسین 
_________________________________________
نکاح کی رسم گھر کے ہال میں رکھی گئی تھی  ۔۔۔ اور وہ نکاح کی رات تھی ۔۔۔ دو دراز کے بہت سارے رشتے دار جمع ہو چکے تھے کچھ مہمان گیسٹ روم میں بھی تھے ۔۔۔۔۔
موقعے کا فائدہ اٹھانے کے لئے آغا جان گاوں کے بھی بہت سے لوگوں کی دعوت دی تھی  ، ایک سیاست دان ہمیشہ سیاسی سوچ رکھتا ہے ۔۔۔۔ گھر کو چاروں طرف پھولوں اور روشنیوں سے سجا دیا گیا تھا ۔۔۔۔
وہ ان کے لاڈلے پوتے کا نکاح تھا جسے وہ یاد گار بنانا چاہتے تھے ۔۔۔ کھانے پینے کا بھی وسیع انتظام تھا ۔۔۔۔ وہ صبح سے اپنے کمرے میں پڑی تھی اس نے کسی سے بات نہیں کی ۔۔۔۔ نرمین اور ثوبیہ بھابھی کئی چکر لگا چکی تھیں اس کے کمرے کی ۔۔۔ اور امی بھی وہیں بیٹھ کر اسے نصیحتیں کرتی رہیں ۔۔۔۔ اس کے ہاتھ میں مہندی کسی رشتے دار لڑکی نے لگائی تھی وہ خاموشی سے سب کچھ ہوتا دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
اس لڑکی نے مہندی سے اس کی ہتھیلی پر اس شخص کا نام بھی لکھ دیا جس سے وہ انتہا کی نفرت کرتی تھی ۔۔۔۔۔ اس کا میک اپ بھی کچھ لڑکیوں نے کیا تھا ۔۔۔ نرمین اس کے پاس بیٹھی رہی نیچے سے بہت شور آ رہا تھا لگتا تھا مہمان سارے آ چکے ہیں ۔۔۔۔۔ نکاح کا وقت دس بجے کا تھا ۔۔۔نکاح سے آدھا گھنٹہ پہلے ہی اسے لال عروسی جوڑا پہنا کر تیار کیا گیا تھا اس کے اوپر ڈھیر ساری جیولری بھی لاد دی گئی تھی ۔۔۔۔ آخر میں ایک بڑے سائز کا لال کام والا دوپٹہ بھی اس کے سر پر رکھ دیا تھا ۔۔۔۔ وہ پوری طرح تیار ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔ ثوبیہ بھابھی انہیں بلانے آئی تھی ۔۔۔۔
" مولوی صاحب آ چکے ہیں جلدی آو نیچے ۔۔۔۔۔ " 
ساری لڑکیاں بھاگ کر نیچے چلی گئیں نرمین نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے وہاں سے اٹھایا ۔۔۔۔ اور اسے باہر لے جانے لگی ۔۔۔۔۔ دروازے کے پاس آ کر نرمین نے رک کر اس سے کہا ۔۔۔۔
" جو ہو چکا ہے اسے بھول جاو اب ایک نئی زندگی شروع کرو  " 
نرمین نے اس کا ہاتھ پکڑ کر محبت سے کہا تھا اور اس کی آنکھوں کے سامنے تہہ خانے کا تاریک کمرہ گھومنے لگا ۔۔۔۔ وہاں کے کیڑے مکوڑے ۔۔۔۔۔۔
" تم اپنی زندگی کے ساتھ سمجھوتہ کر لو ۔۔۔۔ جیسے باقی سب کر رہے ہیں ، یہی تمہاری زندگی ہے یہی تمہارا گھر ہے ۔۔۔ " 
نرمین اسے باہر لے جاتے ہوئے نصیحت کر رہی تھی ۔۔۔۔۔ اس نے جب نیچے جانے کے لئے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو سٹیج پہ سب سے پہلے وہی نظر آیا جو بڑے غرور کے ساتھ فاتحانہ انداز میں مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔ اس کے ساتھ آغا جان اور نکاح خواں بیٹھے تھے ۔۔۔۔ نیچے سارا ہال عورتوں اور بچوں سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔۔ تائی اور امی ادھر ادھر رشتے داروں کو ہینڈل کرنے میں لگی تھیں  ۔۔۔۔ وہ خاموشی سے کسی مشین کی طرح نیچے اترتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔
اس نے سفید شلوار قمیض اور پشاوری چپل پہنی ہوئی تھی وہ ہمیشہ سے کہیں زیادہ ہینڈسم اور پرکشش نظر آ رہا تھا لیکن وہ کبھی اس کے حسن سے متاثر نہ ہوا اسے ہمیشہ اسے دیکھ کر نفرت ہی ہوئی  ۔۔۔۔ وہ مسکرا رہا تھا جیسے جیت چکا ہو۔۔۔۔ نرمین نے لا کر اسے اس شخص کے برابر بٹھا دیا جسے وہ دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی ۔۔۔۔۔۔
آغا سمیت پورے گھر والے خوش نظر آ رہے تھے ۔۔۔۔ اور وہ بھی خوش تھی ۔۔۔۔۔
آغا جان کے حکم پر نکاح خواں نے نکاح پڑھانا شروع کیا ، سب خاموشی سے بیٹھ گئے ۔۔۔۔ امی اس کے پاس آ کر کھڑی ہو گئیں گھر کے باقی افراد بھی وہیں آس پاس کھڑے تھے ۔۔۔۔ سکندر نے نکاح کے لئے نماز والی ٹوپی بھی پہن لی ۔۔۔ اور ایسے اکڑ کر بیٹھا تھا جیسے کوئی قلعہ فتح کر رہا ہو ۔۔۔۔۔
قبولیت کے وقت بھی اس نے خوشی قبولیت کے لئے ہاں کیا اور دستخط بھی اسی خوشی سے کئے ۔۔۔۔ اس سے نمٹ کر نکاح خواں اس کی طرف متوجہ ہوا  ۔۔۔۔
" بی بی عشرت جمال آپ کا نکاح سکندر فیروز ولد فیروز سلطان سے حق مہر بالعوض دس لاکھ قرار پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ۔۔۔۔۔ " 
اس نے آنکھیں کرب سے بھینچ لیں ۔۔۔ اور سر اٹھا کر اعتماد سے مولوی صاحب کی طرف دیکھا ۔۔۔۔
" جی نہیں " 
" جی ۔۔۔۔۔جی ۔۔۔۔۔۔ کیا فرمایا آپ نے  " نکاح خواں نے حیرت سے اسے دیکھا 
" میں نے کہا جی نہیں ۔۔۔۔ مجھے یہ نکاح نہیں قبول " 
بنا ڈر خوف اور اعتماد سے کہے گئے اس جملے نے پورے گھر پر قیامت توڑ دی ۔۔۔۔۔۔ 

   1
0 Comments