Orhan

Add To collaction

نفرت

نفرت
از قلم ناصر حسین
قسط نمبر6

وہ پوری طرح تیار ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔ ثوبیہ بھابھی انہیں بلانے آئی تھی ۔۔۔۔
" مولوی صاحب آ چکے ہیں جلدی آو نیچے ۔۔۔۔۔ " 
ساری لڑکیاں بھاگ کر نیچے چلی گئیں نرمین نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے وہاں سے اٹھایا ۔۔۔۔ اور اسے باہر لے جانے لگی ۔۔۔۔۔ دروازے کے پاس آ کر نرمین نے رک کر اس سے کہا ۔۔۔۔
" جو ہو چکا ہے اسے بھول جاو اب ایک نئی زندگی شروع کرو  " 
نرمین نے اس کا ہاتھ پکڑ کر محبت سے کیا تھا اور اس کی آنکھوں کے سامنے تہہ خانے کا تاریک کمرہ گھومنے لگا ۔۔۔۔ وہاں کے کیڑے مکوڑے ۔۔۔۔۔۔
" تم اپنی زندگی کے ساتھ سمجھوتہ کر لو ۔۔۔۔ جیسے باقی سب کر رہے ہیں ، یہی تمہاری زندگی ہے یہی تمہارا گھر ہے ۔۔۔ " 
نرمین اسے باہر لے جاتے ہوئے نصیحت کر رہی تھی ۔۔۔۔۔ اس نے جب نیچے جانے کے لئے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو سٹیج پہ سب سے پہلے وہی نظر آیا جو بڑے غرور کے ساتھ فاتحانہ انداز میں مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔ اس کے ساتھ آغا جان اور نکاح خواں بیٹھے تھے ۔۔۔۔ نیچے سارا ہال عورتوں اور بچوں سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔۔ تائی اور امی ادھر ادھر رشتے داروں کو ہینڈل کرنے میں لگی تھیں  ۔۔۔۔ وہ خاموشی سے کسی مشین کی طرح نیچے اترتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔
اس نے سفید شلوار قمیض اور پشاوری چپل پہنی ہوئی تھی وہ ہمیشہ سے کہیں زیادہ ہینڈسم اور پرکشش نظر آ رہا تھا لیکن وہ کبھی اس کے حسن سے متاثر نہ ہوا اسے ہمیشہ اسے دیکھ کر نفرت ہی ہوئی  ۔۔۔۔ وہ مسکرا رہا تھا جیسے جیت چکا ہو۔۔۔۔ نرمین نے لا کر اسے اس شخص کے برابر بٹھا دیا جسے وہ دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی ۔۔۔۔۔۔
آغا سمیت پورے گھر والے خوش نظر آ رہے تھے ۔۔۔۔ اور وہ بھی خوش تھی ۔۔۔۔۔
آغا جان کے حکم پر نکاح خواں نے نکاح پڑھانا شروع کیا ، سب خاموشی سے بیٹھ گئے ۔۔۔۔ امی اس کے پاس آ کر کھڑی ہو گئیں گھر کے باقی افراد بھی وہیں آس پاس کھڑے تھے ۔۔۔۔ سکندر نے نکاح کے لئے نماز والی ٹوپی بھی پہن لی ۔۔۔ اور ایسے اکڑ کر بیٹھا تھا جیسے کوئی قلعہ فتح کر رہا ہو ۔۔۔۔۔
قبولیت کے وقت بھی اس نے خوشی قبولیت کے لئے ہاں کیا اور دستخط بھی اسی خوشی سے کئے ۔۔۔۔ اس سے نمٹ کر نکاح خواں اس کی طرف متوجہ ہوا  ۔۔۔۔
" بی بی عشرت جمال آپ کا نکاح سکندر فیروز ولد فیروز سلطان سے حق مہر بالعوض دس لاکھ قرار پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ۔۔۔۔۔ " 
اس نے آنکھیں کرب سے بھینچ لیں ۔۔۔ اور سر اٹھا کر اعتماد سے مولوی صاحب کی طرف دیکھا ۔۔۔۔
" نہیں " 
سب نے صدمے سے اسے دیکھا ، آغا جان اور سکندر کی مسکراہٹ الگ غائب ہو چکی تھی ۔۔۔۔ سبھی رشتے دار ، مہمان منہ کھولے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔
مولوی نے ایک بار پھر اپنا جملہ دہرایا ۔۔۔۔
اس نے ایک بار پھر بنا کسی ڈر خوف کے " نہیں ' کہا تھا ۔۔۔۔
سعدیہ بیگم اور عضمی تائی آگے بڑھیں ۔۔۔۔
" کیا بکواس کر رہی ہو ۔۔۔ ہوش میں تو ہو ۔۔۔۔ " سعدیہ اس کے پاس آ کر سرگوشی میں کہنے لگیں ۔۔۔۔۔
" جی میں اپنے پورے ہوش و حواس میں یہ کہہ رہی ہوں "  اس کے اعتماد میں کوئی کمی نہ آئی ۔۔۔۔۔
آغا جان اور سکندر  دونوں غصے سے کھڑے ہوئے ۔۔۔۔ ماحول یک دم سنجیدہ ہو چکا تھا  اور معاملہ سنگین  ۔۔۔۔
" کیا بکواس کر رہی ہو ۔۔۔ ہاں بولو " 
سکندر نے اس کا بازو پکڑ کر جھنجھوڑا ۔۔۔۔
" ہاتھ چھوڑو میرا ۔۔۔  میری مرضی میں نکاح کروں یا نہ کروں تم ہوتے کون ہو مجھ پہ حکم چلانے والے ۔۔۔  یہ اختیار مجھے اللہ نے دیا ہے " 
آج وہ سب کے سامنے اسی ٹیون میں بات کر رہی تھی بنا آغا جان اور تایا جان کے کسی خوف کا سوچ کر  ۔۔۔۔۔۔
سعدیہ بیگم نے اسے دو تھپڑ مارے اور غصے سے اسے کہتی رہیں نکاح کے لئے ہاں کر دو لیکن اس کا جواب تھا " کبھی نہیں  " 
" اللہ کے واسطے ہاں کر دو " 
اب سعدیہ بیگم روتے ہوئے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ رہی تھیں ۔۔۔۔ لیکن اس کا جواب نہیں بدلہ ۔۔۔۔
آغا جان شرمندگی سے مہمانوں کی طرف دیکھ رہے تھے جو سرگوشیوں میں ہزاروں بات کر رہے تھے ۔۔۔ سکندر الگ غصے اور شرمندگی کے احساس سے لال ہو چکا تھا ۔۔۔۔ بس یہی درد، یہی ذلت تو وہ ان کے چہرے پر دیکھنا چاہتی تھی ۔۔۔ کوئی نہیں جانتا تھا اسے آغا جان اور سکندر کو اس حال میں دیکھ کر کتنا سکون آ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
" تماشا بند کرو اور ہاں کہہ دو " تائی بھی میدان میں آ گئیں ۔۔۔۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی ۔۔۔۔۔
آغا جان شرمندگی کے مارے کچھ بول نہیں پا رہے تھے لیکن اتنا وہ جانتی تھی وہ اسے قتل کر دینا چاہتے ہیں اور اتنے لوگوں کے سامنے وہ بھی نہیں کر پا رہے تھے ۔۔۔۔۔ 
سعدیہ بیگم کافی دیر تک اس کی منتیں کرتی رہیں روتی رہیں اسے بددعائیں دیتی رہیں لیکن اس نے اپنا فیصلہ نہیں بدلہ یہاں تک نکاح خواں نے آخری بار دہرایا ۔۔۔
" کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے " 
" بالکل نہیں  " 
سکندر نے غصے سے ٹوپی اتار کر پھینک دی اور وہاں سے چلا گیا ۔۔۔۔ وہ بھی پیچھے سعدیہ بیگم کو روتے ہوئے چھوڑ کر وہاں سے چلی آئی ۔۔۔۔ وہ انداذہ کر سکتی تھی نیچے کتنا بڑا طوفان آیا تھا لیکن وہ اس طوفان سے نکل کر سکون سے آ کر چھت پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔۔ دوپٹے کے ساتھ ساتھ اس نے چوڑیاں اور جیولری بھی اتار کر پھینک دی ۔۔۔ وہ جو کر کے آئی تھی اس سب کے نتائج سے واقف ہونے کے باوجود وہ آغا جان اور سکندر کی ذلت کا سوچ سوچ کر خوش ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
ایک ایک کر کے سارے مہمان چلے گئے اور وہ وہیں بیٹھی رہی یہاں تک کے تین گھنٹے گزر گئے ۔۔۔۔ رات کے ایک بجے وہ اس کے پاس آیا تھا جس کے بارے میں اسے یقین تھا وہ آئے گا ۔۔۔۔۔ اس نے آتے ہی اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھسیٹ کر کھڑا کیا ۔۔۔۔۔
" کیوں کیا تو نے ایسا " 
وہ غصے سے دھاڑا ۔۔۔۔  اور وہ سکون سے اسے دیکھتی رہی ۔۔۔ 
اس کے ہاتھ میں پسٹل بھی تھا شاید وہ اسے مارنے آیا تھا ۔۔۔ اتنا تو وہ جانتی تھی اس سب کے بعد اسے اب زندہ تو نہیں رہنے دیا جائے گا  ۔۔۔۔
" میں نے تم سے پہلے کہا تھا میں تم سے کبھی شادی نہیں کروں گی " 
اس نے غصے سے ٹیبل کو لات مار دی ۔۔۔ وہ شیشے کا ٹبیل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ۔۔۔۔
" میں تمہیں جان سے مار دوں گا "
اس نے غصے سے پسٹل آگے کیا ۔۔۔۔
" مارو ۔۔۔۔ میں بھی مرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ " 
وہ چلائی
وہ اس کے ماتھے پر پسٹل تانے کھڑا تھا اور اسے خونخوار نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔
" میں سچ میں گولی چلا دوں گا ۔۔۔۔ " 
" تو چلاو گولی ۔۔۔۔  مجھے مرنے کا ڈر نہیں ۔۔۔۔ ۔ تم لوگ ہمیشہ عورتوں کو غلام سمجھتے ہو جیسے چاہیں ان کی زندگی کے فیصلے کریں ۔۔۔۔۔ جو حقوق مذہب نے دیئے تم لوگ کون ہوتے ہو وہ حقوق چھیننے والے ۔۔۔۔۔۔ کم سے کم میں نے تمہارے اور آغا جان کے غلط فیصلوں کے آگے سر نہیں جھکایا ۔۔۔ تم ہار گئے مجھ سے سکندر فیروز ۔۔۔۔۔  " 
بکواس بند کرو ، میری غیرت کو مت چیلنج کرو نہیں تو سر توڑ دوں گا تمہارا ۔۔۔۔۔ " 
وہ جنونی ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔ 
" تب تمہاری غیرت کہاں تھی جب میں تہہ خانے میں اتنے دن سڑتی رہی ۔۔۔۔ " 
وہ زور سے چلائی  ۔۔۔۔
" چلاو مت میرے سامنے ۔۔۔۔ میں مذاق نہیں کر رہا گولی چلا دوں گا ۔۔۔ " 
سکندر  نے پسٹل اس کے ماتھے کے اور قریب کیا ۔۔۔۔
اس نے پسٹل اس کے ہاتھ سے چھین لیا ۔۔۔۔ اور پسٹل کا رخ موڑ کر اس کی طرف کر دیا ۔۔۔۔۔۔
" تم ایک بزدل مرد ہو گولی چلانے سے ڈرتے ہو ۔۔۔۔ " 
وہ پسٹل کو مضبوطی سے پکڑ کر اس کی طرف نشانہ لگائے کھڑی تھی ۔۔۔۔۔
" پسٹل واپس کرو یہ  کھلونا نہیں " 
وہ دھاڑا ۔۔۔۔۔
" نہیں آج میں گولی چلاوں گی ۔۔۔۔ " 
" تم مجھ پہ گولی چلاو گی ؟ " 
اس نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔
" نہیں خود پہ چلاوں گی ۔۔۔۔ " اس نے پسٹل کا رخ اپنی طرف کر لیا ۔۔۔۔۔
سکندر کی آنکھیں پھیل گئیں ۔۔۔۔
" تا کہ تم دیکھ لو میں تم سے کتنی نفرت کرتی ہوں ۔۔۔۔ " 
سکندر نے کچھ صدمے سے اسے دیکھا تھا ۔۔۔۔
" بے وقوف لڑکی ہے پسٹل لوڈ ہے  " 
وہ زور سے چلایا ۔۔۔۔۔
وہ ٹریگر پر ہاتھ رکھ چکی تھی  ۔۔۔۔ سکندر نے جمپ لگا کر اس تک پہنچا اور اس کے ہاتھ پکڑ لئے ۔۔۔۔ 
" چھوڑو مجھے " 
وہ چلائی ۔۔۔۔
" پاگل لڑکی پسٹل ادھر دو مجھے ۔۔۔۔ " 
" تم مجھے مارنے چاہتے تھے میں خود کو مارنا چاہتی ہوں "  وہ دونوں ہاتھا پائی کر رہے تھے ۔۔۔۔۔ سکندر اس کے ہاتھ سے پسٹل چھیننے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔۔
" کہا ناں پسٹل دو مجھے ۔۔۔۔ کوئی کچھ نہیں کہے گا تمہیں ۔۔۔۔ " 
اسی ہاتھا پائی میں ایک زور دار فائر کی آواز گونجی  ۔۔۔ دونوں کے ہاتھ ڈھیلے پڑ گئے ۔۔۔۔ گولی چل چکی تھی ۔۔۔۔ اس نے عشرت کو گرتے دیکھا ۔۔۔ پسٹل چھوٹ کر اس کے ہاتھ سے گر گئی ۔۔۔۔۔  وہ منہ کھول کر فرش پر گر رہی تھی جب اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اسے سنبھال لیا ۔۔۔۔۔
گولی اس کی ٹانگ پر لگی تھی ۔۔۔۔ جہاں سے بری طرح خون بہہ رہا تھا اور وہ خود بے ہوش ہو چکی تھی ۔۔۔۔
اس نے جیب سے رومال نکال کر اس کی ٹانگ پر باندھ دیا اور اسے اٹھا کر اندر لے جانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔
________________________________________
تحریر ناصر  حسین
__________________________________________
گولی اس کی ٹانگ کو چھو کر نکلی تھی اس لئے زیادہ کوئی مسئلے والی بات نہیں بنی وہ بس ایک ہی دن ہاسپٹل میں رہی اور اگلے دن تھوڑی بہت لنگڑاتی ہوئی ڈسچارج ہو کر گھر آئی ۔۔۔۔ ہاسپٹل میں اس کے  پاس صرف امی اور نرمین تھیں اور کوئی نہیں آیا اس کے پاس  ۔۔۔۔ نہ ہی تب اسے کوئی دیکھنے کے لئے آیا جب وہ گھر آئی ۔۔۔ کسی کو اس کی تکلیف سے فرق نہیں پڑتا تھا ۔۔۔۔۔
لیکن گھر آ کر جو اس پر بھیانک انکشاف ہوا اس نے اس کے پیروں تلے زمین نکال لی ۔۔۔ آغا حان انہیں گھر سے نکالنے کا فیصلہ کر چکے تھے اور یہ فیصلہ ان کے گھر میں قدم رکھتے ہی آغا جان نے غصے سے سنا دیا ۔۔۔۔۔
"سعدیہ اپنا سامان اٹھاو اور اپنی دونوں بیٹیوں کو لے کر نکل جاو یہاں سے ۔۔۔۔۔۔ " 
یہ فیصلہ آغا جان نے سب کی موجودگی میں سنایا تھا وہ نکاح والی بات دل میں لئے کھڑے تھے اور بھولے نہیں تھے ۔۔۔۔ دو دن وہ اس کے ہاسپٹل میں رہنے کی وجہ سے خاموش رہے  ۔۔۔۔۔
" آغا جان یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں " 
امی روتے ہوئے ان کے  پاس گئیں ۔۔۔۔۔
" نکلو میرے گھر سے " وہ گرج کر بولے ۔۔۔۔۔
 " آغا جان ہم کہاں جائیں گے خدا کے لئے ایسا غصب نہ کریں ۔۔۔۔۔  " 
سعدیہ کے آنسوؤں کی رفتار بڑھ چکی تھی، سب وہیں کھڑے دیکھ رہے تھے وہ بھی سپاٹ چہرے کے ساتھ  سب دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔
 " بے غیرت عورت دفع ہو جاو میرے گھر سے ۔۔۔۔۔ اس گھر میں تمہارے اور تمہاری بے حیا بیٹیوں کے لئے اب کوئی جگہ نہیں  " 
اس نے سعدیہ بیگم کو روتے اور آغا جان کے قدموں میں گرتے ہوئے دیکھا ۔۔۔۔۔
" اللہ کے واسطے یہ غضب نہ کریں ہم کہاں جائیں گے آغا جان ، ہمارا تو آپ کے علاوہ کوئی نہیں ہے " 
وہ روتے ہوئے آغا جان کے پیر پکڑ کر کہہ رہی تھیں ۔۔۔۔ اس نے غصے اور نفرت بھری نظر سے آغا جان پھر سکندر کو دیکھا ۔۔۔ وہ بڑی مہارت سے نظریں چرا گیا ۔۔۔۔۔
آغا جان نے سعدیہ بیگم کو لات مار کر دھکا دے دیا ۔۔۔۔
دھکا اتنے زور کا تھا ۔۔۔کہ سعدیہ بیگم کا سر صوفے سے ٹکرانے کی وجہ سے زخمی ہو گیا ۔۔۔۔۔
" نکلو بے غیرت عورت ۔۔۔۔۔ " 
نرمین اس کا ہاتھ پکڑے کھڑی رو رہی تھی ۔۔۔اس نے غصے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور آغا جان کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔۔
" یہ گھر آپ کا نہیں ہے آغا جان  " 
وہ غصے سے بالکل انہی کی ٹیون میں بولی ، آغا جان سمیت سبھی گھر والے شاک سی کیفیت میں اسے دیکھ رہے تھے کیونکہ آغا جان کے سامنے آج تک اس نے کھل کر کوئی بات نہیں کی اور آج پہلی بار وہ ان کے سامنے ڈٹ کر کھڑی تھی ۔۔۔۔۔
" یہ گھر تایا اور میرے ابو نے مل کر خریدی تھی اور اس گھر میں پورا آدھا حصہ ہے ہمارا ۔۔۔۔۔ " 
آغا جان صدمے اور غصے سے اسے دیکھ رہے تھے سکندر بھی ادھر ادھر پہلو بچا رہا تھا ۔۔۔۔
" تم آغا جان سے کس طرح بات کر رہی ہو عشرت ۔۔۔۔ " 
فیروز تایا غصے سے دھاڑے ۔۔۔۔ وہ غصے سے ان کی طرف مڑی ۔۔۔۔۔
" آپ بیچ میں مت بولئے تایا جان ، آپ تب نہیں بول سکے جب آغا جان نے امی کو دھکا دیا تھا تو اب بھی آپ کو بولنے کا کوئی حق نہیں  ۔۔۔۔ " فیروز تایا نے کچھ شرمندگی اور خجل کی کیفیت میں سر جھکا لیا ۔۔۔۔۔
اس کا اگلا جملہ منہ سے نکلنے سے پہلے ہی آغا جان نے ایک زناٹے دار تھپڑ اسے مار دیا ۔۔۔۔۔

   1
0 Comments