Orhan

Add To collaction

نفرت

نفرت
از قلم ناصر حسین
قسط نمبر7

گھر آ کر جو عشرت پر بھیانک انکشاف ہوا اس نے اس کے پیروں تلے زمین نکال لی ۔۔۔ آغا حان انہیں گھر سے نکالنے کا فیصلہ کر چکے تھے اور یہ فیصلہ ان کے گھر میں قدم رکھتے ہی آغا جان نے غصے سے سنا دیا ۔۔۔۔۔
"سعدیہ اپنا سامان اٹھاو اور اپنی دونوں بیٹیوں کو لے کر نکل جاو یہاں سے ۔۔۔۔۔۔ " 
یہ فیصلہ آغا جان نے سب کی موجودگی میں سنایا تھا وہ نکاح والی بات دل میں لئے کھڑے تھے اور بھولے نہیں تھے ۔۔۔۔ دو دن وہ اس کے ہاسپٹل میں رہنے کی وجہ سے خاموش رہے  ۔۔۔۔۔
" آغا جان یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں " 
امی روتے ہوئے ان کے  پاس گئیں ۔۔۔۔۔
" نکلو میرے گھر سے " وہ گرج کر بولے ۔۔۔۔۔
 " آغا جان ہم کہاں جائیں گے خدا کے لئے ایسا غصب نہ کریں ۔۔۔۔۔  " 
سعدیہ کے آنسوؤں کی رفتار بڑھ چکی تھی، سب وہیں کھڑے دیکھ رہے تھے وہ بھی سپاٹ چہرے کے ساتھ  سب دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔
 " بے غیرت عورت دفع ہو جاو میرے گھر سے ۔۔۔۔۔ اس گھر میں تمہارے اور تمہاری بے حیا بیٹیوں کے لئے اب کوئی جگہ نہیں  " 
اس نے سعدیہ بیگم کو روتے اور آغا جان کے قدموں میں گرتے ہوئے دیکھا ۔۔۔۔۔
" اللہ کے واسطے یہ غضب نہ کریں ہم کہاں جائیں گے آغا جان ، ہمارا تو آپ کے علاوہ کوئی نہیں ہے " 
وہ روتے ہوئے آغا جان کے پیر پکڑ کر کہہ رہی تھیں ۔۔۔۔ اس نے غصے اور نفرت بھری نظر سے آغا جان پھر سکندر کو دیکھا ۔۔۔ وہ بڑی مہارت سے نظریں چرا گیا ۔۔۔۔۔
آغا جان نے سعدیہ بیگم کو لات مار کر دھکا دے دیا ۔۔۔۔
دھکا اتنے زور کا تھا ۔۔۔کہ سعدیہ بیگم کا سر صوفے سے ٹکرانے کی وجہ سے زخمی ہو گیا ۔۔۔۔۔
" نکلو بے غیرت عورت ۔۔۔۔۔ " 
نرمین اس کا ہاتھ پکڑے کھڑی رو رہی تھی ۔۔۔اس نے غصے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور آغا جان کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔۔
" یہ گھر آپ کا نہیں ہے آغا جان  " 
وہ غصے سے بالکل انہی کی ٹیون میں بولی ، آغا جان سمیت سبھی گھر والے شاک سی کیفیت میں اسے دیکھ رہے تھے کیونکہ آغا جان کے سامنے آج تک اس نے کھل کر کوئی بات نہیں کی اور آج پہلی بار وہ ان کے سامنے ڈٹ کر کھڑی تھی ۔۔۔۔۔
" یہ گھر تایا اور میرے ابو نے مل کر خریدی تھی اور اس گھر میں پورا آدھا حصہ ہے ہمارا ۔۔۔۔۔ " 
آغا جان صدمے اور غصے سے اسے دیکھ رہے تھے سکندر بھی ادھر ادھر پہلو بچا رہا تھا ۔۔۔۔
" تم آغا جان سے کس طرح بات کر رہی ہو عشرت ۔۔۔۔ " 
فیروز تایا غصے سے دھاڑے ۔۔۔۔ وہ غصے سے ان کی طرف مڑی ۔۔۔۔۔
" آپ بیچ میں مت بولئے تایا جان ، آپ تب نہیں بول سکے جب آغا جان نے امی کو دھکا دیا تھا تو اب بھی آپ کو بولنے کا کوئی حق نہیں  ۔۔۔۔ " فیروز تایا نے کچھ شرمندگی اور خجل کی کیفیت میں سر جھکا لیا ۔۔۔۔۔
اس کا اگلا جملہ منہ سے نکلنے سے پہلے ہی آغا جان نے ایک زناٹے دار تھپڑ اسے مار دیا ۔۔۔۔۔
" بے غیرت تمہاری یہ جرات تم ہمارے سامنے آواز اٹھاو ۔۔۔۔  " ایک تھپڑ مار کر وہ اسے لاتوں سے مارنے لگے ۔۔۔۔
" لے جاو اس بے غیرت کو ۔۔۔۔۔ نہیں تو اسے مارنے میں صرف ایک گولی لگے گی ۔۔۔۔ " 
سعدیہ بیگم روتے ہوئے اس کے پاس آئیں اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر کمرے کی طرف لے جانے لگیں ۔۔۔۔  آغا جان کی دھمکی سے وہ ڈر گئیں تھیں۔۔۔  ان کے لئے قتل کرنا کوئی مشکل نہ تھا ۔۔۔۔۔ 
" اپنا سامان باندھو اور ایک گھنٹے تک اس گھر سے دفع ہو جاو تم سب ۔۔۔۔۔ " 
پیچھے سے آغا جان کی آواز آئی ۔۔۔۔ سعدیہ بیگم نے کمرے میں آتے ہی زور زور سے رونا شروع کر دیا اور وہ وہیں بیڈ پر سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔ نرمین الگ رو رہی تھی  ۔۔۔۔۔
" یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے اللہ غرق کرے تمہیں " 
سعدیہ اس کی پیٹھ پر مکے مارنے لگئیں۔۔۔ نرمین روتے ہوئے انہیں روک رہی تھی ۔۔۔۔ 
" بد بخت ، ذلیل یہ دن بھی دکھا دیئے تونے کہتی تھی اتنا اوپر نہ اڑو ۔۔۔۔ " 
وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھیں ۔۔۔۔۔
" اب کہاں جائیں گے ہم ۔۔۔۔ ہمارا تو اور کوئی ٹھکانہ بھی نہیں  ۔۔۔۔۔ اور تم میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو جا کر سامان باندھو ۔۔۔۔۔ " 
وہ نرمین کی طرف متوجہ ہوئیں ۔۔۔ اس نے سر اٹھا کر بے یقینی سے انہیں دیکھا جو خود بھی الماری سے سامان نکال رہی تھیں ۔۔۔۔ تو کیا سچ میں سب ختم ہو جائے گا ۔۔۔ آغا جان اپنے غلط ہونے کے باوجود جیت جائیں گے  ؟ 
وہ کمرے کی کھڑکی کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی ۔۔۔ اس نے جیسے ایک لمبی سانس لے کر سارے درد باہر نکالنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔
پھر اس نے موبائل نکالا اور ایک نمبر ملانے لگی ۔۔۔ پھر دوسرا نمبر ملایا ۔۔۔۔ وہ کافی دیر تک بات کرتی رہی  ۔۔۔ امی اور نرمین روتے ہوئے پیکنگ کر رہی تھیں ۔۔۔۔۔
________________________________________
تحریر ناصر  حسین
__________________________________________
ایک گھنٹے بعد اس گھر میں پولیس کچھ سپاہیوں کے ساتھ داخل ہوئی تھی ۔۔۔ پولیس کی آمد کا سن کر آغا جان سمیت سبھی چونک گئے ۔۔۔۔۔
" کیسے آنا ہوا انسپکٹر صاحب ۔۔۔۔ " 
" آپ کے خلاف رپٹ درج کرائی گئی ہے آغا صاحب ۔۔۔۔ " 
پولیس نے تحمل سے بتایا ۔۔۔ وہ ایک سنجیدہ اور سلجھے ہوئے پولیس آفیسر تھے ۔۔۔ 
" کس نے درج کرائی ہے رپورٹ ؟ " اب کی بار سوال کرنے والا سکندر تھا ۔۔۔۔۔
وہ نرمین اور امی کو لے جا کر سیڑھیوں پر کھڑی ہو گئی نیچے سے سب دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔۔۔
" آپ کی پوتی ۔۔۔ عشرت جمال نے " 
سب پر جیسے چھت گر گئی صدمے سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے ۔۔۔۔۔
وہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں اتر کر نیچے جانے لگے ۔۔۔۔۔
" عشرت جمال کون ہے یہاں "
" میں ہوں سر ۔۔۔۔ اور میں نے ہی آپ کو کال کیا تھا ۔۔۔۔۔ " 
وہ سیڑھیاں اتر کر ان کے پاس آئی سبھی منہ کھولے اسے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔ آغا جان کی نظروں سے قہر برس رہا تھا ۔۔۔۔۔
نرمین اور سعدیہ بیگم دور کھڑی ہو کر ماحول کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھیں ۔۔۔۔۔
" یہ گھر بیس سال پہلے میرے ابو اور تایا نے مل کر خریدا تھا ، میرے ابو کا اس گھر میں آدھا حصہ ہے اس بات کا ثبوت آپ کو عدالت اور اس گھر کے کاغذات میں سے بھی مل سکتا ہے ۔۔۔۔ " 
وہ پورے اعتماد سے بول رہی تھی ۔۔۔ اس کے چہرے پر کسی قسم کے ڈر ، خوف کے آثار نہیں تھے ۔۔۔۔۔۔  آغا جان غصے سے دانت پیس رہے تھے لیکن پولیس کے سامنے وہ کچھ کر نہیں سکتے تھے ۔۔۔۔ 
" آغا جان کئی بار مجھے اور میری ماں  کو ٹارچر کر چکے ہیں ، اور اب والد کی وفات کے بعد ہمیں گھر سے باہر نکال رہے ہیں ۔۔۔۔۔ اور نہ نکلنے کی صورت میں قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں آپ برائے مہربانی ان کے خلاف کاروائی کر کے ہمیں اس مشکل سے باہر نکالیں ۔۔۔۔۔۔ " 
اپنی بات پوری کر کے اس نے پولیس کی طرف دیکھا اور پولیس انسپکٹر نے آغا جان کی طرف ۔۔۔۔۔
" کیا یہ سچ بول رہی ہیں ۔۔۔۔۔ " 
سب خاموش تھے کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا لیکن تائی بیچ میں بول پڑیں ۔۔۔۔
" نہیں یہ جھوٹ بول رہی ہے آغا جان نے ایسا کچھ نہیں کہا ۔۔۔۔ "
تائی نے اپنا کردار گھر میں مضبوط کرنے کے لئے کہا تھا لیکن صاف لگ رہا تھا پولیس ان کی بات کا کوئی اعتبار نہیں کر رہی ۔۔۔۔۔۔
" آغا صاحب آپ عمر میں بڑے ہیں ہمیں شرم آئے گی آپ کو جیل لے جاتے ہوئے اس لئے وارننگ دے کر جا رہے ہیں آئندہ ہم یہاں نہ آنا پڑا ۔۔۔۔" 
اس پولیس آفیسر نے ادب کے دائرے میں رہ کر ان سے کہا اور وہ ذلت اور غصے کے صدمے سے زمین میں گڑ رہے تھے ۔۔۔۔۔  
" اور آپ ۔۔۔۔ " پولیس آفیسر اب اس کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔۔
" آپ جائیداد کے لئے کورٹ میں اپلیکیشن درج کرا دیں ۔۔۔۔ " انہوں نے مشورہ دیا تھا  ۔۔۔۔۔
" جی میں وکیل کو کال کر چکی ہوں ، وہ آتے ہی ہوں گے ۔۔۔۔ " 
پولیس والا ایک مسکراہٹ کے ساتھ اللہ حافظ کہہ کر باہر جانے لگا جب عشرت نے انہیں آواز دے کر روک لیا ۔۔۔۔ 
" سر " 
وہ پلٹے 
" جی " 
" اگر مجھے یا میری ماں بہن کو کسی قسم کی تکلیف، یا ٹارچر کیا گیا تو اس کے ذمہ دار آغا جان ہوں گے ۔۔۔۔ " 
" آپ بے فکر رہیں ، ہم آپ کے ساتھ ہیں ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔۔ " 
پولیس والا اسے تسلی دے کر باہر نکل گیا ۔۔۔۔  
تائی غصے سے آگے بڑھیں ۔۔۔۔
" بے شرم بے حیا شرم نہ آئی تمہیں پولیس بلاتے ہوئے " 
وہ اس کا بازو جھنجھوڑنے لگیں ۔۔۔۔ 
سکندر بھی غصے سے آگے آیا ۔۔۔۔
" پولیس کو بلانے کی کیا ضرورت تھی یہ گھر کی بات تھی گھر میں سلجھ جاتی ۔۔۔۔۔ " 
" گھر کی بات اب گھر کی نہیں رہی تھی " 
وہ غصے سے چلائی
آغا جان تو غصے اور صدمے سے صوفے پر گر گئے ۔۔۔ آج جو ہو رہا تھا ان کی زندگی میں پہلی بار ہو رہا تھا ورنہ وہ تو ہمیشہ عورتوں پر حکومت کرتے آئے تھے ۔۔۔۔۔  آج ان کے اپنے گھر کی ایک لڑکی ان کے خلاف کھڑی ہو گئی ان کے سبھی اصولوں سے بغاوت کر گئی ۔۔۔۔۔  تو وہ یہ غصہ برداشت نہیں کر پا رہے تھے ۔۔۔۔۔
___________________________________________
ناصر حسین کے مزید ناولز___
دسمبر لوٹ آنا تم_____
 دلہن _____
ایمان اور عشق __
برف کے پھول  ___ 
دل کے دو کنارے ___ 
دل توڑنا منع ہے ____ 
میرا دل میرا نہیں ____ 
_________________________________________
گھر میں پولیس آنے کے بعد ماحول کافی سنگین ہو چکا تھا سعدیہ الگ گھبرائی ہوئی تھیں اور اپنے ڈر کا اظہار کر رہی تھیں ۔۔۔۔
" اب پتا نہیں آغا جان کیا کریں گے " 
" کچھ نہیں کریں گے امی ، اب ان کے کرنے کے لئے کچھ بچا ہی نہیں " 
" پھر بھی احمق تمہیں پولیس کو نہیں بلانا چاہیے تھا ۔۔۔ " 
وہ اب اسے سرزد کرنے لگیں ۔۔۔۔ 
" آپ ہمیشہ ڈرتی رہنا ، کبھی اپنے حق کے لئے آواز اٹھائیں گی تو ہی کچھ ہوگا نہیں تو آغا جان ہمیشہ ہمیں قدموں تلے روندھ دیں گے ۔۔۔۔۔ " 
" ویسے عشرت سچ پوچھو تو مجھے بھی ڈر لگ رہا ہے " 
نرمین نے بھی اپنے ڈر کا اظہار کیا ۔۔۔۔۔
" کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔۔ " 
وہ مسکرائی ۔۔۔۔
" تم نے آغا جان کی حالت دیکھی ہے ، کتنا مزا آیا جب ان کی جھکی ہوئی گردن دیکھی ۔۔۔۔ " 
وہ خوش سے چہکی ۔۔۔۔۔
" اچھا اب میں وکیل کو کال کرنے جا رہی ہوں ۔۔۔۔ " 
وہ کھڑی ہوئی ۔۔۔
" اب وکیل کیوں " 
سعدیہ بیگم پھر گھبرائیں ۔۔۔۔
" امی اس سارے معاملے کو ختم تو کرنا ہے بس ہمیں ہمارا حصہ الگ چاہئے جہاں ہم ہنسی خوشی ایک آزاد زندگی گزار سکیں ۔۔۔۔۔ " 
سعدیہ بیگم  ابھی اسے سمجھانے کے لئے منہ کھولنے ہی والی تھیں کہ وہ کمرے سے باہر نکل گئی ۔۔۔۔۔ نیچے ہال میں تایا اور آغا جان بیٹھے سنجیدگی سے کچھ ڈسکس کر رہے تھے ۔۔۔۔ اس نے وہیں رک کر ان کی باتوں پر غور کیا ۔۔۔۔۔
" یہ بے غیرت اس حد تک ہمیں ذلیل کرائے گی ہم نے سوچا بھی نہیں تھا اگر پتا ہوتا تو اسے پیدا ہوتے ہی مار دیتے ۔۔۔ " 
اس نے آغا جان کو کہتے سنا ۔۔۔۔۔ وہ بے حد غصے میں تھے ۔۔۔
" یہ سب جمال بھائی کی دی ہوئی چھوٹ کا نتیجہ ہے نہ وہ اسے پڑھانے کی ضد کرتے اور نہ ہی یہ اس حد تک مقابلہ کرتی ۔۔۔۔۔ " 
تایا بھی غصے میں تھے لیکن ان کا غصہ نسبتا آغا جان سے کچھ کم تھا  ۔۔۔۔۔
" ہم اس لڑکی کو قتل کر دیں گے ، ہم سے مزید برداشت نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ " 
آغا جان دانت چبا کر بولے وہ وہیں سکون سے کھڑی انہیں سن رہی تھی ۔۔۔۔۔
" ابھی چند دن صبر کریں آغا جان  موقع مناسب نہیں ہے، الیکشن کا وقت ہے ، زرا سی جلد بازی ہمارے برسوں کی محنت پر پانی پھیر سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔" 
" اس لئے تو اب تک چپ نہیں ہوں ۔۔۔ نہیں تو ان تینوں بے غیرتوں کو کب کا ٹھکانے لگا چکا ہوتا ۔۔۔۔اور الیکشن تو ہم ہی جیتیں گے ۔۔۔ آج تک کسی کی ہمت نہیں ہوئی ہمارے مقابلے میں ٹک سکے ۔۔۔۔۔ " 
وہ اسی خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔۔ اور دروازہ اندر سے بند کر دیا ۔۔۔۔۔
اور ایک نمبر ملانے لگی ۔۔۔۔۔
" ہاں جی فرمائیے  " 
بہت ہی خوش مزاجی سے ایک عمر رسیدہ شخص کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔۔
" میں عشرت بات کر رہی ہوں کل بات ہوئی تھی ہماری ۔۔۔۔ " 
" جی جی آپ کو کیسے بھول سکتا ہوں اتنی پیاری آواز ہے آپ کی " وہ حد سے زیادہ شوخ مزاج تھے کل بھی کال پہ انہوں کچھ اس طرح سے بات کی ۔۔۔۔۔
" آپ میرا کیس لڑیں گے  " 
" اتنی خوبصورت آواز کے لئے تو میں پوری دنیا سے لڑ جاوں گا ۔۔۔۔ " 
وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی وہ وکیل صاحب سنجیدہ ہونے کے لئے تیار ہی نہیں تھے ۔۔۔۔
" آپ پلیز سیریز ہو کے میری بات سنیں ، بہت سنجیدہ مسئلہ ہے " 
" سنجیدہ مسئلہ تو صرف محبت ہے محترمہ باقی سب تو ڈرامے بازیاں ہیں " 
" آپ آخری بار سیریز کب ہوئے تھے  " 
" جب میری بیوی نے میرے سر پر بیلن مارا تھا " 
" اور میں حیران ہوں کہ صرف بیلن کیوں مارا تھا انہوں نے " 
وکیل صاحب نے ایک جاندار قہقہ لگایا ۔۔۔۔۔
" آپ بتائیں آپ کیس لڑیں گے یا میں کال کٹ کر دوں " 
" یہ غضب نہ کیجیے آپ کل کو میرے آفس تشریف لے آئیں ۔۔۔۔ " 
" اوکے " 
اس نے جلدی سے کال کٹ کر دی ۔۔۔۔ کوئی دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوا ۔۔۔ اور وہ سکندر کے علاوہ اور کون ہو سکتا تھا  ۔۔۔۔۔
" کیوں کر رہی ہو تم یہ سب ۔۔۔۔ " 
" کیا کیا ہے میں نے ۔۔۔۔ " 
اس نے کمال معصومیت سے کہا ۔۔۔۔
" یہ پولیس ، وکیل یہ سب کیا ہے ۔۔۔ " 
وہ غصے سے چلا رہا تھا ۔۔۔۔
" ایک تو میرے سامنے یہ چلایا نہ کرو ، ایسے لگتا ہے جیسے کسی پرانے ریڈیو کا سپیکر پھٹ گیا ہو ۔۔۔۔ " 
" بتاو مجھے ۔۔۔۔ " 
" میں اپنے حق کے لئے یہ سب کر رہی ہوں " 
" تم اب آغا جان کی برابری کرو گی ۔۔۔ " 
" کیوں آغا جان کوئی آسمان سے اتری انوکھی مخلوق ہے جو وہ جتنا غلط کریں انہیں کوئی کچھ نہ کہے  ۔۔۔۔۔ " 
" ایک بار الیکشن ہو جانے دو پھر دیکھتا ہوں تمہیں ۔۔۔۔  " 
" ابھی جتنا دیکھنا ہے دیکھ لو کیونکہ الیکشن کے بعد میں  کہیں نہیں ملنے والی "
وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بولی ۔۔۔۔
" تم اچھا نہیں کر رہیں  "
وہ انگلی اٹھا کر جیسے اسے وارن کر رہا تھا ۔۔۔۔۔
" اچھا تو تم بھی نہیں کر رہے ۔۔۔۔ " 
اس نے یک دم سنجیدگی اور اداسی سے کہا ۔۔۔۔ جیسے اس کی آنکھوں میں ایک شکوہ تھا  ۔۔۔۔۔
" میں ۔۔۔۔ وہ  ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔ " وہ نظریں چرا گیا اسے سمجھ نہیں آیا آگے کیا بولنا ہے  ۔۔۔
" میں دیکھ لوں گا تمہیں ۔۔۔۔۔ " 
غصے سے وہ باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔
_________________________________________
وہ اس وکیل کے آفس میں تھی اور وہ موٹی عینک کے شیشوں کے پیچھے سے بڑے غور سے اسے دیکھ رہے تھے ، وہ لگ بھگ ساٹھ سال کی عمر کے ایک خوش مزاج اور زندہ دل قسم کے انسان تھے جن کے چہرے پر ہر وقت ایک مسکراہٹ سی چھائی رہتی تھی ۔۔۔۔۔۔ ان کا نام شکیل الرحمان تھا ۔۔
" مجھے لگا آپ کی آواز بہت خوبصورت ہے  " 
بہت بڑے وقفے کے بعد وہ بولے ۔۔۔۔
" لیکن آپ کا چہرہ تو آپ کی آواز سے بھی زیادہ خوبصورت ہے " 
اور وہ جو ان سے کسی سنجیدہ بات کی امید کر رہی تھی تاسف سے سر ہلا کر رہ گئی ۔۔۔۔ 
" سر آپ پلیز بتائیں میں کیا کروں " 
" آرام کریں فی الحال " 
" کیا مطلب " 
" مطلب یہ کہ اس وقت الیکشن قریب ہونے کی وجہ سے ، ملک کا نظام بدل جائے گا ، ہر طرف ایک تہلکہ مچا ہوا ہے ۔۔۔ آپ کی فائل کہیں عدالت میں کھو جائے گی اس لئے بہتر ہے آپ الیکشن کے بعد کیس کریں ۔۔۔۔۔ " 
 " اور تب تک کیا کروں " 
" گول گپے کھائیں اور کیا ۔ ۔۔ " 
وہ مسکرائے   ۔۔۔
" اور اس دوران آغا جان نے اگر کچھ  ۔۔۔۔۔ " 
 وکیل نے ان کی بات کاٹ دی ۔۔۔ 
" وہ فی الحال ایسا کچھ نہیں کریں گے ایک تو پولیس کی دھمکی کی وجہ سے دوسرا ان کا پوتا ایم این اے کی سیٹ پر ووٹ مانگ رہا ہے تو فی الحال ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے " 
" آپ  یہ کیس جیت تو جائیں گے ؟ " 
" میں تو آپ کا دل بھی جیت لوں آپ کیس کی بات کرتی ہیں ۔۔۔۔ " 
وہ فائل بند کرتے ہوئے بولے ۔۔۔۔۔
" سر آپ پلیز کبھی سیریز بھی ہو جایا کریں ۔۔۔۔ " 
وہ تنک کر بولی ۔۔۔۔
" میں تو بھئ بالکل سنجیدہ ہوں آپ کا پتا نہیں " 
" اچھا میں چلتی ہوں اس وقت پھر آپ سے بات ہوگی ۔۔۔ " 
وہ کھڑی ہوئی ۔۔۔۔
" کیس سے متعلقہ کوئی مواد ملے تو مجھے کل کو دے جائیے گا تا کہ میں ابھی سے کام شروع کروں ، اور میں کل عدالت کی طرف سے تمہارے گھر پہلا نوٹس بھجوا رہا ہوں ۔۔۔۔ تیار رہنا " 
شکیل الرحمان نے اس سے کہا تھا ۔۔۔۔۔ اس نے سر ہلا کر  باہر کی طرف قدم بڑھائے پیچھے سے شکیل الرحمان نے انہیں روک لیا ۔۔۔۔
" بات سنیں " 
وہ واپس مڑی  ۔۔۔۔
" جی " 
" کیا آپ شادی کریں گی مجھ سے " 
وہ منہ کھول کر حیرت سے انہیں دیکھنے لگی ۔۔۔۔
" سر آپ بھی ناں " 
" میں مذاق نہیں کر رہا " 
" کیا آپ اپنی آفس میں آنے والی ہر لڑکی کو ایسے پرپوز کرتے ہیں " اس نے کچھ دلچسپی سے پوچھا 
" نہیں ۔۔۔۔ صرف کنواری لڑکیوں کو ۔۔۔۔ " 
وہ کھل کر مسکرائے ۔۔۔ وہ بھی مسکرا دی ۔۔۔
" اور اس چکر میں اب تک آپ کی گال مبارک پر کتنے حملے ہو چکے ہیں " 
" ایک بھی نہیں، کوئی سیریز لیتا ہی نہیں کمبخت ۔۔۔۔ حالانکہ میں بالکل سیریز ہوتا ہوں ۔۔۔۔ " 
" اچھا چلتی ہوں ۔۔۔۔ اللہ حافظ ۔۔۔۔ " 
وہ ہنسی تھی ۔۔۔۔
" بہرحال غور ضرور کیجئے گا میرے معاملے پہ ۔۔۔۔ " 
وہ مسکراتے ہوئے انہیں ایسے دیکھنے لگی جیسے ان کا کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔
گھر میں ماحول کافی سنجیدہ ہو چکا تھا ، آغا جان اور گھر کے سبھی افراد نے ان سے بات کرنا چھوڑ دیا تھا ۔۔۔ تائی اور ثوبیہ بھابھی کو بھی سختی سے آرڈر تھے کہ ان سے بات نہ کی جائے ، سب ان تینوں کو نفرت بھری نظروں سے دیکھنے لگے تھے ۔۔۔۔۔  مگر وہ ان چیزوں سے کبھی نہیں گھبرائی ۔۔۔ سعدیہ بیگم اور نرمین کو پتا تھا وہ کہاں گئی ہے اس نے انہیں وکیل کے بارے میں بھی بتا دیا تھا اور حیرت کی بات یہ تھی اب کی بار سعدیہ بیگم نے اسے منع بھی نہیں کیا اور نہ ہی اسے کچھ سمجھایا ، وہ خاموش ہو گئیں جیسے وہ جان گئیں تھیں کہ وہ جو کر رہی ہے صحیح  کر رہی ہے ۔۔۔۔۔
زویا سے اس کی کافی دنوں بعد ملاقات ہوئی تھی تو اس نے اسے گھر میں چلنے والی اب تک کی تمام باتیں بتا دیں اور زویا منہ کھولے حیرت سے اسے دیکھتی رہی ۔۔۔۔
" میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی تم اتنی ہمت کرو گی " 
وہ جوس کا سپ لے رہی تھی ۔۔۔۔
" یعنی کہ تم نے سب کے سامنے نکاح سے انکار کر دیا ۔۔۔ " 
وہ ابھی بھی بے یقین تھی ۔۔۔۔
" سکندر کی کیا حالت تھی " 
" سکندر اور آغا جان کی حالت ایسی تھی کہ دل میں ٹھنڈ پڑ گئی " 
اس نے مسکراتے ہوئے بتایا ۔۔۔ اور زویا کو اور بھی بہت کچھ بتاتی رہی ۔۔۔۔  زویا دلچسپی سے ساری باتیں سنتی رہی ۔۔۔۔۔
رات کو ایک بار پھر شکیل الرحمان کی کال آئی تھی ۔۔۔۔
" جی کہیے سر " 
اس نے نہایت احترام سے کہا ۔۔۔
" بس کہنا کیا ہے ہم نے تو فقط سننی ہے " 
" کیا " 
" آپ کی آواز " 
" خدا خوفی کریں ۔۔۔ سر کیوں مذاق کرتے ہیں آپ " 
وہ بیڈ پر بیٹھی چائے پی رہی تھی ۔۔۔۔۔
" بھئی ہمارے دل کے جذبات ہیں یہ باقی آپ جو سمجھیں " 
" آپ بھی ناں  ۔۔۔۔ " 
" اچھا کوئی نوٹس وغیرہ آیا یا نہیں  " 
" ابھی تک تو نہیں ملا ، اگر مل جاتا تو گھر میں اتنی خاموشی نہ ہوتی ۔۔۔۔ " 
اس نے ناخن چباتے ہوئے بتایا  ۔۔۔  دس ، پندرہ منٹ ان سے مزید باتیں ہوتی رہیں ۔۔۔ انہوں نے دوسری کال رات کو گیارہ بجے کی تھی یونہی بے وجہ بے مقصد ۔۔۔۔ دو باتیں کیس کے بارے میں کرتے دس باتیں شاعرانہ کرتے ۔۔۔ بہت ہی عجیب طبعیت کے انسان تھے ۔۔۔۔ ان کی تین شادیاں ہو چکی تھیں دو طلاقیں ۔۔۔۔ اور ایک بیوی کے ساتھ وہ بڑی ٹینشن بھری زندگی جی رہے تھے کیونکہ وہ کچھ کڑوے مزاج کی زبان دراز قسم کی عورت تھی ۔۔۔۔ پہلی دو بیویوں سے ان کی کوئی اولاد نہیں ہوئی اور تیسری بیوی سے دو بیٹے تھے ۔۔۔۔ وہ ایک گورنمنٹ سکول میں ٹیچر بھی تھیں ۔۔۔ ان کے اکثر و بیشتر جھگڑے ہوتے رہتے تھے ۔۔۔  شکیل الرحمان بہ مشکل بیوی کے مزاج کو برداشت کر رہے تھے ۔۔۔ وہ مزاجا کافی نرم دل قسم کے انسان تھے ۔۔۔ سوائے عاشقانہ مزاج کے ان میں اور کوئی بیماری نہ تھی  ۔۔۔ اور اس عمر میں تین شادیوں کے باوجود بھی وہ دل و جان سے چوتھی شادی کے لئے تیار بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
وہ ان کی باتوں کو صرف مزاح کی حد تک اہمیت دے رہی تھی لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کس قدر سنجیدہ ہیں ۔۔۔۔  اس گھر میں ماحول کافی سنگین ہو چکا تھا ۔۔۔ ہر ایک ان سے نفرت کر رہا تھا ، سعدیہ بیگم تو خاموش ہو کر رہ گئیں اکثر اپنے کمرے میں پڑی کچھ سوچوں میں گھری رہتیں ۔۔۔۔ نرمین بھی زیادہ وقت اپنے کمرے میں گزارتی ۔۔۔۔ اس سارے معاملات کے بعد اس کا دوبارہ سکندر یا آغا جان سے سامنا نہیں ہوا لیکن اس رات جب عدالت کی طرف سے پہلا نوٹس آیا تھا تو سکندر غصے سے اسے ڈھونڈتے ہوئے کچن تک آیا وہ کچن میں چائے بنا رہی تھی اور سکندر نے آتے ہی کورٹ پیپرز اس کے منہ پہ مارے تھے ۔۔۔۔
" یہ کیا بے ہودگی ہے " 
وہ غصے سے چلایا ۔۔۔ جب کہ اس کی چیخ کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔۔۔ وہ ڈھیٹ بنی چائے بنانے میں مصروف رہی ۔۔۔۔
" بے شرم تم میں زرا بھی شرم نہیں ہے ۔۔۔۔۔ گھر کی بات عدالت تک لے گئیں تم ۔۔۔۔۔ " 
وہ چائے میں سکون سے چینی ہلانے لگ گئیں ۔۔۔۔۔ 
" میں اپنے حق کے لئے عدالت گئی ہوں اگر تم چار جماعتیں پڑھ چکے ہو تو غور سے دیکھو میں وہ حصہ مانگ رہی ہوں جو میرے ابو کا تھا ۔۔۔۔۔۔ " 
" اس گھر میں آج تک کوئی پولیس یا عدالت تک نہیں گیا ۔۔۔۔ " 
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر چلایا ۔۔۔۔ 
اس نے چائے کا کپ زور سے کاونٹر پر پٹخ دیا ۔۔۔ اور اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔
" اگر اس گھر کی عورتیں زرا سا ہمت کر لیتیں تو تم لوگ یہاں ان پر حکمرانی نہ کر رہے ہوتے ۔۔۔۔ میری بات یاد رکھو سکندر فیروز تم لوگوں کی ناجائز حکومت تب تک ہے جب تک اس گھر کی عورتوں میں شعور نہیں جس دن ان کو اپنے حق کے لئے آواز اٹھانا آ گیا اس دن تم لوگوں کی حکومت کا سورج ڈوب جائے گا ۔۔۔۔۔۔ " 
وہ دانت پیس کر غصے سے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔
" ایسا کون سا ظلم ہو رہا ہے اس گھر کی عورتوں پر ۔۔۔۔ روٹی نہیں مل رہی کپڑا نہیں مل رہا ۔۔۔۔ " 
وہ بھی اسی کی ٹیون میں بولا ۔۔۔۔۔
" عورتوں کے حقوق صرف روٹی کپڑا نہیں ہے ، تم لوگ جب چاہتے ہو انہیں ذلیل کرتے ہو جب چاہتے ہو انہیں سب کے سامنے تھپڑ مار دیتے ہو ان کی شادیوں کے فیصلے کر دیتے ہو اور ان سے پوچھنا تو دور انہیں لڑکے کی شکل بھی نہیں دکھاتے ۔۔۔ تم لوگوں کی نظروں میں عورت صرف غلامی کرنے کے لئے پیدا ہوئی ہے ۔۔۔۔ " 
اس کی آواز بیٹھ گئی ۔۔۔۔سکندر نے ماتھے پر آیا پسینہ پونچھا پھر سوچنے لگا کیا جواب دے اسے ۔۔۔۔۔
" جو بھی ہو لیکن اب یہی تمہاری زندگی ہے ۔۔۔ میں زرا الکیشن سے نمٹ لوں پھر دیکھتا ہوں کیسے تم حقوق کی بات کرتی ہو اور کیسے نہیں کروں گی نکاح ۔۔۔۔۔ " 
" میں وہ منگنی توڑ چکی ہوں ۔۔۔۔ اب تم میرے لئے زرا بھی اہمیت نہیں رکھتے ایم این اے صاحب۔۔۔۔۔ " 
وہ استہزائیہ انداز میں ہنسا ۔۔۔۔
" جتنا خوش ہونا ہے ہو لو ۔۔۔ لیکن شادی تمہیں مجھ سے ہی کرنی ہوگی ۔۔۔۔ تم میری مرضی کے بغیر کبھی ہل بھی نہیں سکتیں  " 
کہتے ہوئے وہ باہر کی طرف جانے لگا ۔۔۔۔
" تو یہ بات تم بھی سن لو  ۔۔۔۔ جسے  تم ڈھونڈ رہے ہو میں تمہاری وہ خواہش کبھی نہیں پوری ہونے دوں گی ۔۔۔۔ " 
وہ اس کے پیچھے زور سے چلائی ۔۔۔۔
" یہ وقت ہی بتائے گا ۔۔۔ " وہ اس کی بات کو طنز میں اڑا گیا ۔۔۔۔ اور اسے اتنا غصہ تھا اتنا غصہ تھا کہ اس نے چائے کا کپ اٹھا کر فرش پر دے مارا ۔۔۔۔
" سمجھتا کیا ہے خود کو میں اس کی زرخرید غلام ہوں ۔۔۔۔ " وہ لمبی لمبی سانسیں لے کر اپنا غصہ کم کرنے کی کوشش کرتی رہی ۔۔۔۔۔
_____________________________________________
وہ ایک بار پھر شکیل الرحمان کے آفس میں تھی ۔۔۔ اور اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا وہ یہاں کیوں آئی تھی ۔۔۔  شکیل الرحمان نے اس کے سامنے پانی رکھا تھا اس نے خاموشی سے گلاس اٹھا کر ہونٹوں سے لگایا  ۔۔۔۔۔۔وہ انہیں کچھ پل دیکھتے رہے لیکن بولے کچھ نہیں یہاں تک کہ اسے خود اپنی آمد کی وجہ بتانی پڑی ۔۔۔۔۔۔
" آپ جتنی جلدی ہو سکے یہ کیس فنش کریں " 
اس نے تیزی سے کہا تھا ۔۔۔۔
" ارے ریلیکس ۔۔۔۔۔  آپ کے چہرے پر اتنا غصہ اچھا نہیں لگتا محترمہ " 
" بس مجھے یہ کیس جیتنا ہے اور اپنا حصہ الگ کرنا ہے " 
" تو الگ کیجئے کس نے روکا آپ کو ۔۔۔۔ لیکن یہ کام وقت کے ساتھ ہوگا ۔۔۔۔ " 
" اور میرا وقت کب آئے گا ۔۔۔۔  " 
" یہی تو میں بھی سوچ رہا ہوں کہ میرا وقت کب آئے گا ۔۔۔ " 
" کیوں آپ کے بھی گھر پہ قبضہ ہے کسی کا " 
" نہیں میرے تو دل پہ قبضہ ہے کسی کا " 
وہ مسکرائے ۔۔۔۔ اور وہ غصے کے باوجود بھی مسکرا دی ۔۔۔
" تین شادیاں کر چکے ہیں آپ ، کیا آپ کو ابھی تک کوئی ایسی لڑکی نہیں ملی جو آپ کے دل کی مراد پوری کر دیتی ۔۔۔ " 
وہ اپنا کیس بھول کر ان سے الگ موضوع پر گفتگو کر رہی تھی ۔۔۔۔
" ملی تو ہے لیکن عمر کے آخری حصے میں ۔۔۔۔ " 
انہوں نے معنی خیز انداز میں بات کرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ اور وہ مسکراتے ہوئے انہیں گھورنے لگی ۔۔۔۔۔۔
پھر اس نے پرس نکالا تھا ۔۔۔  شکیل الرحمان ٹہلتے ٹہلتے جب تھک گئے تو پھر اس کے سامنے بیٹھ گئے ۔۔۔۔
" آپ کی فیس " 
اس نے نوٹوں کی ایک گڈی ان کی طرف بڑھائی یہ سوچ کر کہ وہ پیسے دیکھ کر اس کا کام جلدی نمٹا دیں ۔۔۔۔۔
" ہمیں جو مسکرا کر دیکھ لے سمجھو ہماری فیس ادا ہو گئی ۔۔۔۔۔ " وہ رومانٹک انداز میں شاعری کرتے ہوئے بولے ۔۔۔۔
" خیال کریں سر جب بھوک لگتی ہے تو کھانا چاہئیے ہوتا ہے مسکراہٹ نہیں " 
وہ بھی مسکرائی  ۔۔۔۔۔۔
" یہ بات بھی درست ہے آپ کی محترمہ لیکن ابھی ہم فیس نہیں رکھ سکتے ، جب تک آپ کے کام کو صیح معنوں میں شروع نہیں کریں گے ۔۔۔۔۔۔ " 
وہ جملے کے آخر میں سنجیدہ ہوئے تھے ۔۔۔۔ 
" پھر بھی تھوڑا بہت تو رکھ لیں ایڈوانس سمجھ کر ہی سہی ۔۔۔۔۔ " 
اس نے وہ پیسے ابھی تک ٹیبل سے نہیں اٹھائے تھے ۔۔۔۔۔
" ویسے میرا آپ کو ایک سنجیدہ مشورہ ہے " 
وہ تھوڑا آگے ہوتے ہوئے بولے ۔۔۔ اس نے بھی توجہ سے ان کی بات سننے کے لئے اپنا سر آگے کیا ۔۔۔۔
" شادی کر لیں مجھ سے ۔۔۔۔ فیس نہیں دینی پڑے گی ۔۔۔۔ گھر کے پیسے گھر میں رہ جائیں گے ۔۔۔۔۔ تو کیا آپ کو قبول ہے تین عورتوں سے دھوکہ کھانے والا شخص" 
آخر میں انہوں نے زور کا قہقہ لگایا ۔۔۔۔ اپنے ہی مذاق پر وہ خود ہی ہنستے رہے  لیکن وہ بالکل سنجیدہ تھی اس نے ہونٹ بھینچ کر شکیل الرحمان کو دیکھا ۔۔۔۔۔
" ہاں ۔۔۔۔ " 
شکیل الرحمان کی ہنسی پر اچانک بریک لگ گئی انہوں نے کچھ الجھے ہوئے حیرت بھرے تاثرات سے اسے دیکھا ۔۔۔
" کیا " 
" مجھے آپ کی پرپوزل قبول ہے " 
اس نے سپاٹ چہرے کے ساتھ کہا تھا ۔۔۔ شکیلالرحمان بری طرح الجھے ہوئے تھے ۔۔۔ پھر وہ مسکرائے ۔۔۔ انہیں لگا شاید وہ مذاق کر رہی ہے ۔۔۔۔
" ویسے میں مذاق نہیں کر رہا تھا ۔۔۔۔ " 
" میں بھی مذاق نہیں کر رہی ۔۔۔۔ " 
 اس نے اسی سنجیدگی سے جواب دیا ۔۔۔
" میں سچ میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں " 
" میں بھی ۔۔۔۔ " 
" تو کب کریں نکاح " 
" اگر آپ ابھی کہیں گے تو بھی میں تیار ہوں ۔۔   " اس کی سنجیدگی ختم نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔ پھر شکیل الرحمان کو بھی سیریز ہونا پڑا ۔۔۔۔۔
" آپ جانتی ہیں آپ کیا کہہ رہی ہیں ۔۔۔۔ " 
انہوں نے پوری سنجیدگی سے اسے دیکھا اس نے بھی سر اٹھا کر ان کی آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔
" جی بالکل ۔۔۔ " 
" اس حامی کے پیچھے کیا وجہ ہے " 
" آپ بے فکر رہیں ، میں آپ کو استمعال نہیں کروں گی نہ کبھی چھوڑ کر جاوں گی اور نہ ہی بے وفائی کروں گی ۔۔۔ " 
شکیل الرحمان اسے دیکھتے رہے ۔۔۔ 
" مجھے یقین نہیں آ رہا " 
شکیل الرحمان اسے بے یقینی سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔
" تو کل اسی وقت کورٹ میں آ جائیں میں وہیں آپ کا انتظار کروں گی ۔۔۔۔ " 
وہ پرس اٹھا کر کھڑی ہوئی ۔۔۔۔۔
" آج مجھے اپنی امی اور بہن کو بتانا ہے " 
یہ آخری جملے کہہ کر وہ باہر نکلی ۔۔۔ شکیل الرحمان ان کو ان کے آفس میں گم سم حیران و پریشان چھوڑ کر وہ گھر چلی آئی ۔۔۔۔۔۔۔
____________________________________________
اس نے اپنے فیصلے کے بارے میں کسی سے نہیں پوچھا بس رات کو امی اور نرمین کو اطلاع دی جب وہ کھانا کھا رہی تھیں ۔۔۔۔
" میں شادی کر رہی ہوں " 
ان دونوں کے کانوں میں دھماکہ ہوا تھا ۔۔۔۔
" کیا مطلب ۔۔۔ کون کس سے ۔۔۔۔ " 
نرمین نے حیرت سے بے ترتیب سوال پوچھے  ۔۔۔۔سعدیہ بیگم بھی غور سے اسے دیکھنے لگیں ۔۔۔۔۔
" ایک وکیل ہے ، بہت اچھا انسان ہے بس عمر میں تھوڑا بڑا ہے لیکن میں رہ لوں گی اس کے ساتھ ۔۔۔۔۔ " 
سعدیہ بیگم نے نوالہ پلیٹ میں رکھا ۔۔۔۔
" تم ہوش میں تو ہو یہ کیا باتیں کر رہی ہو ، سکندر یا آغا جان نے سن لیا تو جینا حرام کر دیں گے ہمارا ۔۔۔۔۔ " 
" تو پہلے کون سا انہوں نے آپ کو پھولوں کی سیج پہ بٹھایا ہوا ہے ۔۔۔۔ " 
وہ بھی چلائی ۔۔۔۔
" تم خدا کا خوف کرو ۔۔۔ ایسے کیسے کسی سے بھی شادی کر لو گی تم ۔۔۔۔ " 
" ایسے کسی سے نہیں کر رہی اچھی طرح جانتی ہوں میں ان کو ۔۔  وہی میرا کیس لڑ رہے ہیں ، اور جلد ہی ہم کیس جیت کر اپنا حصہ الگ کر لیں گے پھر ہمیں کسی کا ڈر نہیں ہوگا ہماری اپنی علیحدہ ایک دنیا ہوگی ۔۔۔۔۔ " 
وہ انہیں پیار سے قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔  علحیدگی کی بات سن کر سعدیہ تھوڑی نرم پڑ گئیں ۔۔۔ سچ تو یہ تھا کہ اب انہیں بھی اس گھر میں اپنا آپ قیدی لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔
____________________________________________
میرا دل میرا نہیں      _____ جلد آ رہا ہے
_________________________________________
وہ سعدیہ بیگم اور نرمین کو اعتماد میں لینے کے لئے کافی دیر تک سمجھاتی رہیں ، کچھ دلائل اور کچھ خواب دکھا کر ۔۔۔۔ بہرحال وہ تھوڑی ناراضگی سے ہی سہی لیکن مان گئے ۔۔۔۔ کچھ باتیں وہ جان بوجھ کر چھپا گئی ، جیسے شکیل الرحمان کی یہ چوتھی شادی ہے ، اور ان کے پہلے سے ہی بیوی بچے ہیں اور وہ عمر میں اس سے کچھ زیادہ ہی بڑے ہیں ۔۔۔۔۔ 
نرمین اور سعدیہ بیگم کو راضی کرنے کے بعد وہ کافی خوش تھی اس کے ذہن میں بار بار سکندر کا چہرہ نظر آ رہا تھا ۔۔۔۔  وہ جو کہتا تھا کہ تم میرے بنا ہل بھی نہیں سکو گی اور ' تمہاری شادی مجھ سے ہی ہوگی ' 
کل جب اسے کسی اور کے ساتھ دیکھے گا تو اس کی شکل دیکھنے والی ہوگی ۔۔۔۔ اور وہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی ہار ہوگی ۔۔۔۔ وہ اس کے بارے میں سوچ سوچ کر ہی خوش ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔
اگلی صبح وہ پوری تیاری کے ساتھ گھر سے نکلی تھی سعدیہ بیگم نے اسے بہت ساری دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا تھا ، شکیل الرحمان عدالت میں آئے ضرور تھے لیکن انہیں یہ یقین نہیں تھا کہ وہ بھی سچ میں آ جائے گی ۔۔۔۔ جب وہ ان کے پاس گئی تو وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگے ۔۔۔۔ کورٹ روم میں جانے سے پہلے ایک بار پھر شکیل الرحمان سنجیدگی سے اس سے مخاطب ہوئے ۔۔۔۔
" کیا آپ سچ میں یہ کرنا چاہتی ہیں ۔۔۔۔ " 
اس نے پورے اعتماد سے سر ہلایا ۔۔۔۔ اگلے ایک گھنٹے بعد وہ ایک دوسرے کے میاں بیوی تھے ۔۔  شکیل الرحمان بہت خوش نظر آ رہے تھے اور پریشان وہ بھی نہیں تھی  ۔۔۔ وہ اسے سب سے پہلے ایک بہت بڑے ریسٹورنٹ میں کھانا کھلانے لے گئے کھانا کھانے کے بعد اس نے شکیل الرحمان سے کہا وہ انہیں اپنی امی اور بہن سے ملانا چاہتی ہے ۔۔۔۔ در حقیقت وہ انہیں سکندر سے ملوانا چاہتی تھی ۔۔۔۔ وہ ان کو گھر لے آئی ، سیڑھیوں پہ ہی سکندر اسے مل گیا تھا وہ بڑی تیزی سے چابی گھماتا کہیں جا رہا تھا لیکن ان دونوں کو دیکھ کر رک گیا ۔۔۔۔  اور ان کی طرف مڑا ۔۔۔۔۔
" کون ہیں یہ " 
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بڑے رعب سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔
" یہ میرے شوہر ہیں " 
عشرت نے شکیل الرحمان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فاتحانہ انداز میں کہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ 

   1
0 Comments