Orhan

Add To collaction

نفرت

نفرت
از قلم ناصر حسین
قسط نمبر8

اگلی صبح عشرت پوری تیاری کے ساتھ گھر سے نکلی تھی سعدیہ بیگم نے اسے بہت ساری دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا تھا ، شکیل الرحمان عدالت میں آئے ضرور تھے لیکن انہیں یہ یقین نہیں تھا کہ وہ بھی سچ میں آ جائے گی ۔۔۔۔ جب وہ ان کے پاس گئی تو وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگے ۔۔۔۔ کورٹ روم میں جانے سے پہلے ایک بار پھر شکیل الرحمان سنجیدگی سے اس سے مخاطب ہوئے ۔۔۔۔
" کیا آپ سچ میں یہ کرنا چاہتی ہیں ۔۔۔۔ " 
اس نے پورے اعتماد سے سر ہلایا ۔۔۔۔ اگلے ایک گھنٹے بعد وہ ایک دوسرے کے میاں بیوی تھے ۔۔  شکیل الرحمان بہت خوش نظر آ رہے تھے اور پریشان وہ بھی نہیں تھی  ۔۔۔ وہ اسے سب سے پہلے ایک بہت بڑے ریسٹورنٹ میں کھانا کھلانے لے گئے کھانا کھانے کے بعد اس نے شکیل الرحمان سے کہا وہ انہیں اپنی امی اور بہن سے ملانا چاہتی ہے ۔۔۔۔ در حقیقت وہ انہیں سکندر سے ملوانا چاہتی تھی ۔۔۔۔ وہ ان کو گھر لے آئی ، سیڑھیوں پہ ہی سکندر اسے مل گیا تھا وہ بڑی تیزی سے چابی گھماتا کہیں جا رہا تھا لیکن ان دونوں کو دیکھ کر رک گیا ۔۔۔۔  اور ان کی طرف مڑا ۔۔۔۔۔
" کون ہیں یہ " 
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بڑے رعب سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔
" یہ میرے شوہر ہیں " 
اس نے پورے اعتماد کے ساتھ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا اور ساتھ ہی شکیل الرحمان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا ۔۔۔۔۔
" کیا بکواس کر رہی ہو تم " وہ اتنا زور سے چلایا کہ اس کا گلہ بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔
" ہم نے ابھی تھوڑی دیر پہلے کورٹ میں نکاح کر لیا ہے ۔۔۔ یہ رہے پیپرز ۔۔۔۔ "  اس نے کچھ کاغذات  سکندر کی طرف پھینکے تھے بالکل اسی انداز میں جیسے اس نے کل نوٹس پھینکے تھے ۔۔۔۔ کچھ کاغظ گر گئے ایک کاغذ اس کے ہاتھ آیا اور وہ اسے غور سے پڑھنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔
پھر وہ کاغظ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا ۔۔۔۔ اس نے صدمے سے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا ۔۔۔ اس کی آنکھوں میں ایک طوفان تھا ۔۔۔۔۔ وہ زندگی میں اس قدر بے یقین کبھی نہیں ہوا تھا جتنا اس وقت ہو رہا تھا شاید یہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا شاک تھا ۔۔۔۔۔۔ 
" کیوں ۔۔۔ کیا تم نے ایسا  ۔۔۔۔۔۔۔ " 
بڑی دیر بعد وہ بھرائی ہوئی آواز میں چلایا ۔۔۔۔
" کیونکہ میں تمہاری غلام نہیں تھی ۔۔۔ یہ میری زندگی تھی ۔۔۔۔ آج میں جا رہی ہوں اس سونے کے پنجرے سے آزاد ہو کر ۔ ۔۔۔۔۔ " 
وہ دانت پیس کر چلائی ۔۔۔ وہ صدمے سے اسے دیکھتا رہا اس کی آنکھیں سرخ ہوتی جا رہی تھیں ۔۔۔۔۔
" دیکھو آج تم ہار گئے سکندر فیروز ۔۔۔۔ " 
وہ حقارت سے اسے دیکھتے ہوئے آگے بڑھی شکیل الرحمان بھی گھر میں داخل ہوئے ۔۔۔۔۔
اس نے شکیل الرحمان کو امی اور نرمین سے ملوایا ۔۔۔ امی اسے دیکھ کر کچھ زیادہ ہی خفا تھیں لیکن شکیل الرحمان کے نرم اور محبت بھرے انداز نے چند لمحوں میں ہی ان کا دل جیت لیا ۔۔۔۔۔  آغا جان اور باقی مرد  اس وقت گھر میں نہیں تھے۔۔۔  نہیں تو سب سے بڑا تماشا ہونا  تھا ۔۔۔ تائی البتہ گاہے بہ گاہے ان کو دیکھتی رہی ۔۔۔۔ وہ اپنا سامان اٹھا کر باہر آئی اور نرمین کو اس نے چھپا کر موبائل بھی دیا تھا تا کہ ان سے ہر وقت رابطے میں رہ سکے ۔۔۔۔۔۔
_______________________________________
میرا دل میرا نہیں  
Coming soon , 
__________________________________________
" یہ ہے آپ کا گھر میری نئی نویلی زوجہ محترمہ ۔۔۔۔ " 
شکیل الرحمان اسے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں لے آیا تھا جہاں ضرورت زندگی کی ہر چیز تھی ۔۔۔۔۔
" ہم آپ کے گھر کیوں نہیں جا سکتے " 
" وہاں میری بیوی ہے ۔۔۔۔ " 
وہ مسکرائے 
" بیوی سے ڈرتے ہیں آپ ۔۔۔۔ " 
" کسی مرد سے یہ نہیں پوچھنا چاہیے ویسے اس کا جواب ہوتا تو ہاں ہی ہے لیکن دیتا کوئی نہیں " 
" میں یہاں اکیلی کیسے رہوں گی " 
وہ اپنا بیگ وہیں رکھ کر صوفے پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔
" کیا آپ کو لگتا ہے میں اتنی حسین اور جوان بیوی کو اکیلا چھوڑ کر جاوں گا ۔۔۔۔ " 
اس نے دوپٹہ سر سے اتار کر دور پھینک دیا ۔۔۔۔۔
" پانی پیئیں گی آپ ۔۔۔۔ " 
" نئی نویلی دلہن کو آپ صرف پانی پلائیں گے ۔۔۔۔   " 
وہ انہی کے انداز میں بولی ۔۔۔ وہ مسکرائے تھے ۔۔۔۔
" میں تو خون کا قطرہ قطرہ آپ کو پلا دوں ۔۔۔۔ " 
وہ کسی نوجوان رومانٹک ہیرو کے انداز میں بولے ۔۔۔۔
" جوس ہی پلا دوں کوئی چڑیل تھوڑی ہوں ۔۔۔ " 
وہ کچھ برہمی سے بولی  ۔۔۔۔۔ وہ جوس بنانے کچن میں گئے اور وہ صوفے کی پشت پر ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر کے لیٹ گئی ۔۔۔۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار سکندر کا چہرہ آ رہا تھا ۔۔۔ کیسی شکل ہو گئی تھی اس کی جب اس نے پیپرز دیکھے تھے ۔۔۔۔ بہت غرور تھا اسے اپنی مردانگی اور طاقت پر ، وہ سمجھتا کہ وہ آغا جان کی طرح حکم چلا کر سب کچھ اپنے پیروں تلے کچل دے گا لیکن آج اس کی زندگی کی سب سے بڑی ہار تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو بارہ بجے  اس نے نرمین کو کال کی تھی ۔۔۔۔
" آغا جان اور تایا جان تو غصے سے پاگل ہو رہے تھے سکندر کا کچھ پتا نہیں شام سے غائب ہے ۔۔۔۔۔ " 
نرمین نے ڈرتے ہوئے بتایا ۔۔۔۔
" آغا جان نے تمہیں یا امی کو تو کچھ نہیں کہا ۔۔۔۔۔
" امی کو تھپڑ مارا تھا آغا جان نے ، اور اسے گالیاں دیتے رہے ۔۔۔۔ پھر انہوں نے کہا اب وہ تمہارا خود ہی انتظام کریں گے ۔۔۔۔ " 
شکیل الرحمان اس وقت کچن میں اس کے لئے کھانا بنا رہے تھے کھانا وہ پہلے بھی اکثر خود ہی بناتے تھے ۔۔۔۔۔
" امی اب کہاں ہیں ۔۔۔۔ سو گئیں کیا ۔۔۔۔ " 
" تمہیں کیا لگتا ہے اتنا سب ہونے کے بعد وہ سو سکتی ہیں ۔۔۔ رو رہی ہیں اور تمہیں بد دعائیں بھی دے رہی ہیں ۔۔۔ " 
" کیوں آپی میں نے کیا کیا ۔۔۔ " 
" زیادہ بنو مت عشرت ۔۔۔۔۔ کیا تم نہیں جانتیں یہ سب تمہاری وجہ سے ہو رہا ہے ۔۔۔۔" 
" سب ٹھیک ہو جائے گا کچھ دن انتظار کریں ۔۔۔۔ اور امی سے بات کرائیں میری ۔۔۔۔ " 
" وہ بات نہیں کرنا چاہتیں آپ سے ۔۔۔۔ " 
" اچھا سنو ۔۔۔ سکندر کا کچھ پتا چلا وہ کہاں گیا ہے ۔۔۔ " 
" کوئی پتا نہیں ہے ۔۔۔ اسی وقت سے غائب ہے ۔۔۔ تائی تمہیں ملامت کر رہی ہیں اور اب تو سب کو اس بات کا بھی یقین آ گیا کہ انم کو بھی تم نے بھگایا تھا ۔۔۔۔۔  " 
وہ کسی سوچ میں پڑ گئی ۔۔۔۔۔
" اچھا میں بعد میں بات کرتی ہوں ۔۔۔۔"
اس نے کال کٹ کر دی ۔۔۔
شکیل الرحمان کھانا بنا کر خوشی خوشی سے  ٹیبل پر سجا رہے تھے ۔۔۔ اس کا کھانے کو بالکل موڈ نہیں تھا ۔۔۔۔لیکن ان کا دل رکھنے کے لئے وہ کھانا کھانے لگی ۔۔۔۔
" آپ گھر میں بھی کھانا خود ہی بناتے تھے  " 
" نہیں کبھی کبھی نائلہ بناتی تھیں ۔۔۔۔ " 
انہوں نے اپنی بیوی کا نام لیا ۔۔۔۔
" جب ہمارا جھگڑا نہیں ہوتا تھا ۔۔۔ " 
" اور آپ کا جھگڑا کب کب نہیں ہوتا تھا ۔۔۔ " 
" میں جب جب گھر نہیں ہوتا تھا ۔۔۔ " 
انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا تھا ۔۔۔ اسے کافی عجیب لگا تھا لیکن اس نے اپنا ہاتھ نہیں ہٹایا ۔۔۔
______________________________________
written by Nasir Hussain 
__________________________________________
تین دن تک وہ اس فلیٹ میں رہی ۔۔۔ شکیل الرحمان کا رویہ بے حد رومانٹک اور عاشقانہ ہوتا تھا ، وہ ان کے سامنے کافی نروس ہو جاتی تھی ۔۔۔ وہ دل ہی دل میں ان کے سامنے کافی شرمندہ تھی کہ صرف سکندر سے اپنی نفرت کا احساس دلانے کے لئے اس نے ان کو استعمال کیا تھا ۔۔۔۔ اس کی شادی شدہ زندگی ایسی ہوگی وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کبھی ۔۔۔۔۔
شکیل الرحمان اس کا دل بہلانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتے تھے ، کبھی گھر کبھی پارٹیز کبھی ریسٹورینٹ ۔۔۔۔۔ وہ اس پہ جان نچھاور کرتے تھے ۔۔۔۔ آفس جا کر بھی دن  میں دس ، پندرہ بار کالز کرتے تھے ۔۔۔۔ وہ فلیٹ میں ٹی وی دیکھتی یا سوئی رہتی ۔۔۔۔
نرمین سے اس کی مسلسل بات ہو رہی تھی ۔۔۔ امی نے بھی ناراضگی ختم کر کے اس سے روکھے انداز میں ہی سہی لیکن بات کرنا شروع کیا تھا ۔۔۔۔۔
" ابھی ہمیں کچھ نہیں معلوم کیا ہوگا ۔۔۔ آغا جان الیکشنز کی وجہ سے ساری آگ اپنے دل میں دبائے بیٹھے ہیں ۔۔۔۔ ان سے ہار برداشت نہیں ہوتی   " 
امی نے سنجیدگی سے اسے بتایا ۔۔۔
" کچھ نہیں ہوگا امی ۔۔۔ اب ان کی طاقت ختم ہو چکی ہے ۔۔۔ ان کے سارے اصول ٹوٹ چکے ہیں " 
اس نے ان کو دلاسہ دیا تھا ۔۔۔۔۔
انہی دنوں اس کی انم سے بات ہوئی تھی ، وہ ہمیشہ کی طرح خوش تھی اور اس سے گھر والوں کے بارے میں پوچھ رہی تھی اس نے جوابا ساری رواد چند سطروں میں سنا ڈالی جسے سن کر انم تو جیسے مراقبے میں چلی گئی ۔۔۔۔۔ 
" مجھے یقین تھا تم کبھی نہ کبھی وہ گھر چھوڑ دو گی لیکن اتنا بڑا طوفان کھڑا کرو گی یہ میں نے نہیں سوچا تھا ۔۔۔ " 
" مجھے یہی سب کرنا تھا میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا انم ۔۔۔۔۔ " 
" سکندر بھائی کیسے  برداشت کر گئے ۔۔۔ " 
" مجھے نہیں معلوم  ۔۔۔۔ " 
اس نے کچھ روکھے انداز میں جواب دیا ۔۔۔۔۔
نرمین سے اس نے کچھ دن پہلے سکندر کے بارے میں پوچھا تھا اس نے بس یہی بتایا کہ وہ آج کل کافی سنجیدہ ہو گیا ہے ،  کسی سے بات نہیں کرتا ۔۔۔۔ 
کال کے بعد وہ مختلف سوچوں میں پڑی رہی ۔۔۔ منہ ہاتھ دھو کر فریش ہوئی  ۔۔۔ ٹی وی آن کیا ۔۔۔ جہاں نیوز چینلز میں آغا جان اور سکندر کا جلسہ تھا  ۔۔۔ اس نے غصے سے چینل تبدیل کر دیا ۔۔۔۔ شام کا وقت ہو رہا تھا شکیل الرحمان کے آنے کا وقت تھا ۔۔۔۔۔ کھانا آج کل وہ خود بنا رہی تھی شکیل الرحمان نے سارا سامان مہیا کر دیا تھا ۔۔۔۔۔ اس کے پاس آنے سے پہلے عموما وہ دوپہر کو اپنی پہلی بیوی بچوں کے پاس جاتے تھے ، اور پھر رات کو اس کے پاس ہی ہوتے تھے ۔۔۔۔ رات اس کے پاس رکنے کا انہوں نے بیوی کے سامنے کون سا جواز پیش کیا ہوگا یہ وہ نہیں جانتی تھی البتہ یہ وہ جانتی تھی انہوں نے ابھی تک النی بیوی کو شادی کے بارے میں نہیں بتایا تھا ۔۔۔۔۔۔
اس نے کھانا بنایا لیکن شکیل الرحمان نے بہت سارا کھانا باہر سے لے کر آئے تھے ، جن میں کیک ، آئس کریم ، اور کچھ برگرز وغیرہ بھی شامل تھے  ۔۔۔۔۔ 
" آپ بیٹھ جائیے ہم کھانا لگاتے ہیں  " 
وہ اس کی کمر کے پیچھے آ کر کھڑا ہو گیا اور بڑے رومانٹک انداز میں اس کے دونوں بازووں کے گرد اپنے بازو ڈال کر اسے کرسی پر بٹھایا تھا ۔۔۔۔ اسے بالکل اچھا نہیں لگتا تھا وہ تھکے ہارے آ کر اس کے لئے کھانا لگائیں لیکن یہ ان کی محبت تھی اور وہ ان کی محبت کے سامنے کچھ نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔۔۔
" آپ تھک نہیں جاتے "کھانے کے دوران اس نے پوچھا ۔۔۔۔
" جب آپ کا دیدار کر لیتا ہوں تو ساری تھکن اتر جاتی ہے " 
وہ مسکرائے ۔۔۔۔۔
" اور یہی جملہ آفس میں اور کتنی لڑکیوں کو بول کر آئے ہو ۔۔۔۔ " 
" پانی پینے کے بعد پیاس نہیں رہتی ۔۔۔ قسم لے لو جو آپ کے علاوہ اب کسی کو دیکھتا ہوں ۔۔۔  " 
" لگتا تو نہیں آپ اتنی جلدی سدھر جائیں گے ۔۔۔۔ " 
" اب سچ میں سدھر گیا ہوں چوکا پورا کر لیا میں نے " 
وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہے تھے ۔۔۔۔ اکثر باہر ہوٹلوں اور پارٹیز میں جانے کی وجہ سے ان کی شادی کی خبر آوٹ ہو گئی ۔۔۔۔ اور یہ خبر نائلہ تک بھی جا پہنچی اور رات کو وہ جنگ کی پوری تیار کر کے ان کے پاس آئی تھی ۔۔۔۔۔
" بد بخت ، بے شرم تم نے پھر سے شادی کر لی " 
وہ شکیل الرحمان کے سامنے چلائیں ۔۔۔ اور وہ صوفے پہ بیٹھی تھی جیسے یہ ان دونوں کے آپس کا معاملہ ہو ۔۔۔۔ 
" بیگم میری بات سنیں ، " 
" بے غیرت انسان میں کچھ سننا نہیں چاہتی ابھی کہ ابھی مجھے طلاق دو ۔۔۔۔ " 
وہ بہت غصے میں تھیں ۔۔۔۔ اور ان کی آواز اتنی بلند تھی کہ آس پاس کے فلیٹ والے یقینا سن رہے تھے ۔۔۔۔۔
" بیگم آپ ناراض نہ ہوں ، آپ کو سمجھاتا ہوں ۔۔۔۔ " 
" مجھے کچھ نہیں سمجھنا ۔۔۔۔ اور کمینی تم ۔۔۔۔۔  " 
وہ غصے سے اس کی طرف بڑھیں ۔۔۔۔
" تمہیں کیا پوری دنیا میں صرف میرا شوہر ملا تھا شادی کے لئے ۔۔۔۔ " 
وہ اس پر برس پڑیں ۔۔۔۔۔
" بیگم اسے کچھ نہ کہیں " 
شکیل الرحمان آگے بڑھے ۔۔۔۔
" کیوں دکھ ہو رہا ہے بے غیرت انسان ۔۔۔۔ " 
" دیکھئے آپ کو جو سوال کرنے ہیں اپنے شوہر سے کریں مجھے نہ گھسیٹیں بیچ میں ۔۔۔۔ " 
اس نے ناگواری سے کہا ۔۔۔۔ شکیل الرحمان کافی دیر تک اسے کمرے میں لے جا کر سمجھاتے رہے ۔۔۔ جانے کیا سچ جھوٹ مکس کر کے بہرحال انہوں نے اسے مطمئن کر لیا اور وہ دو گھنٹے بعد وہاں سے جانے کے لئے راضی ہوئی تھیں ۔۔۔۔ شکیل الرحمان نے بعد میں آ کر اس سے معافی بھی مانگی تھی نائلہ کے رویے کے لئے ۔۔۔ اور وہ شکیل الرحمان کے تحمل اور مچیورٹی سے کافی متاثر ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔
______________________________________
میرا دل میرا نہیں  
Coming soon , 
____________________________________________
یہ صبح کا وقت تھا وہ ناشتہ بنا رہی تھی شکیل الرحمان باہر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے اور وقفے وقفے سے اس پہ کچھ رومانٹک جملے کس رہے تھے ۔۔۔۔۔۔
ناشتہ بنانے کے بعد وہ باہر ٹیبل پر لے آئی شکیل الرحمان اخبار چھوڑ کر اس کے پاس آ کر بیٹھ گئے ۔۔۔ انہیں بیٹھے ہوئے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا جب ایک بہت بڑا پتھر فلیٹ کی کھڑکی کا شیشہ توڑ کر اندر آ گرا ۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں بری چونک گئے شکیل الرحمان فورا اٹھ کر کھڑکی کے پاس گئے لیکن باہر کوئی نہیں تھا  ۔۔۔۔۔ وہ کافی ڈر چکی تھی ۔۔۔ یہ حرکت یقینا سکندر کی ہو سکتی تھی وہ اس سے بدلہ لینے کے لئے یہ سب کر رہا تھا ۔۔۔۔۔ 
شکیل الرحمان کافی دیر تک کھڑکی کے پاس کھڑے رہے لیکن وہاں کوئی نہیں نظر آیا پھر وہ  اس کے ڈرے ہوئے چہرہ دیکھ کر اسے حوصلہ دیتے رہے اور کہا کہ وہ ایسی حرکتوں سے نہیں ڈرتے ۔۔۔۔ 
اگلے دن وہ شکیل الرحمان کے ساتھ شاپنگ پہ گئی اسے وہیں سکندر نظر آیا جو گیٹ پر کھڑا کسی سے کال پہ بات کر  رہا تھا وہ شکیل الرحمان کو وہیں چھوڑ کر اس کے پاس آئی ۔۔۔۔۔
" تم یہ جو حرکتیں کر رہے ہو ان سے باز آ جاو سکندر فیروز " 
اس نے پلٹ کر اسے دیکھا اور پتھر ہو گیا ۔۔۔۔۔
" اپنی ہار کا بدلہ لینے کے لئے تم ایسی واحیات حرکتیں کرو گے اب ۔۔۔۔۔" 
وہ اس کے پاس کھڑی چلا رہی تھی وہ اسے سپاٹ چہرے کے ساتھ دیکھتا رہا وہ واقعی کافی خاموش اور سنجیدہ ہو چکا تھا اس کی آنکھیں بھی لال تھیں ۔۔۔۔
" میں تم سے نفرت کرتی ہوں اور ساری زندگی نفرت کرتی رہوں گی  " 
وہ اسے انگلی سے وارن کرتی اندر چلی آئی وہ وہیں کھڑا رہا ۔۔۔ یہاں تک وہ شکیل الرحمان کا ہاتھ پکڑ کر اس کے سامنے سے گزری وہ تب بھی وہیں کھڑا رہا ۔۔۔۔۔  وہ جانتی تھی اس سے برداشت نہیں ہو رہا اپنی ہار ۔۔۔۔ لیکن وہ اس بے عزتی کا بدلہ لینے کے لئے اتنا بڑا قدم اٹھائے گا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔۔۔۔۔
اگلی صبح اس کی زندگی کی سب سے اداس صبح تھی جب اسے شکیل الرحمان کی موت کی خبر ملی وہ روڈ ایکسیڈنٹ میں جان کی بازی ہار گئے ۔۔۔۔ یہ صدمہ اس کے لئے واقعی بہت بڑا تھا ۔۔۔ اسے شکیل الرحمان کی موت کا دلی افسوس تھا ، ان کے ساتھ اس کے زیادہ دن نہیں گزرے لیکن جتنے گزر حسین گزرے ، وہ ان لمحوں کو کبھی بھول نہیں سکتی تھی ۔۔۔۔  وہ ان کی موت پر بہت روئی ۔۔۔  اسے افسوس ہوا سکندر نے اس سے بدلہ لینے کے لئے ان کی جان لے لی ۔۔۔ وہ خواہ مخواہ ان دونوں کی نفرت کا شکار ہو کر زندگی ہار گئے ۔۔۔۔  شکیل الرحمان کے ساتھ وہ اس فلیٹ میں آئی تھی اور ان کے بغیر اسے فلیٹ اداس لگ رہا تھا  ۔۔۔۔ جیسے دنیا کی ہر چیز رو رہی ہو ۔۔۔۔ دو دن اس نے وہیں اکیلے فلیٹ کی کھڑکی کے پاس جاگ کر گزارے ۔۔۔۔ اسے سکندر پر حد سے زیادہ غصہ تھا ۔۔۔۔ اور اسی غصے میں اس نے الیکشن سے صرف دو قبل سکندر اور آغا جان کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کر دی جس میں وہ عوام کو بے وقوف بنانے کی بات کر رہے تھے ۔۔۔۔ ساتھ اس نے کیپشن میں لکھا تھا ۔۔۔۔
" عوام جن کو ووٹ دینے جا رہی ہے زرا ان کے بھی خیالات جان لیں وہ عوام کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں  " 
وڈیو نے ایک گھنٹے میں 2 لاکھ ویورز حاصل کئے اور بیس ہزار لوگوں نے شئر کیا ۔۔۔۔ سوشل میڈیا پر ہر طرف دھماکہ ہو گیا ۔۔۔۔ ہر کوئی وڈیو شئر کر کے آغا جان کو برا بھلا  کہہ رہا تھا ۔۔۔۔ اس نے شکیل الرحمان کا دیا ہوا فلیٹ چھوڑ دیا اور ایک ہوٹل میں جا کر رہنے لگی کیونکہ اس کی جان کو خطرہ تھا وہ آغا جان اور سکندر کو اچھے سے جانتی تھی ۔۔۔۔۔
اس وڈیو نے کمال کر دیا لمحوں میں سکندر اور آغا جان کی محبت لوگوں کے دلوں سے نکال کر پھینک دی ۔۔۔ وہ اندازہ کر سکتی تھی اس الیکشن میں سکندر کے لئے جیتنا اب ناممکن تھا ۔۔۔۔۔  ہر طرف سے ان کو گالیاں مل رہی تھیں ، ان کے اپنے ووٹرز ساتھ چھوڑنے کے سٹیٹس اپلوڈ کر رہے تھے ، ہر کوئی اپنا وال پر سکندر اور آغا جان کی تصویر لگا کر شیم شیم لکھ رہے تھے ، مخالف گروپ کے ایم این اے نے اسے تھینک کا میسج بھی کیا تھا کیونکہ اب ان کے لئے میدان خالی ہو چکی تھی  ۔۔۔۔۔۔ یہ وڈیو الیکشن کے دن تک چلتی رہی اور لوگوں نے ووٹ ڈالتے ہوئے بھی وڈیو کو یاد رکھا ۔۔۔۔۔ الیکشن سے دو دن قبل وڈیو وائرل کرنے کا یہ فائدہ ہوا سکندر بھاری اقلیت سے ہار گیا تھا ۔۔۔۔۔ وہ جو جیت کے اتنے قریب کھڑا تھا پورے ستر ہزار ووٹوں سے بری طرح سے شکست کھا چکا تھا ۔۔۔ یہ سکندر اور آغا جان کے لئے بہت بڑی ہار تھی ۔۔۔۔ آغا جان کی حکومت کا آخری مینار بھی گر چکا تھا ۔۔۔۔ لیکن اسے ہمیشہ کی طرح انہیں ہرا کر خوشی محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔ دو دن تک الیکشن کا زور کچھ کم ہوا تو اس نے پولیس سے رابطہ کیا وہی انسپیکٹر جو اس دن گھر آیا تھا اس کے سامنے اس نے اپنا مسئلہ بتایا ۔۔۔ وہ ہمیشہ کے لئے ہوٹل میں نہیں رہ سکتی تھی اور اسے گھر جانے کے لئے پولیس کی مدد کی ضرورت تھی ۔۔۔۔۔ وہ انسپیکٹر کی مدد سے گھر واپس آئی انسپیکٹر گھر کے اندر تک اس کے ساتھ آیا ۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ کیا ؟ گھر میں اتنا رش کیوں تھا ، کوئی آ رہا تھا کوئی جا رہا تھا ۔۔۔۔ وہ انسپیکٹر کے ساتھ چلتی ہوئی آگے بڑھی اور آتے جاتے لوگوں کو بھی دیکھ رہی تھی اس نے سفید دوپٹے کے کنارے سے منہ کو تھوڑا چھپایا ہوا تھا ۔۔۔۔ کچھ اور آگے بڑھی تو اسے اندر سے رونے کی آوازیں آنے لگیں ۔۔۔ اس کا دل دھک دھک کرنے لگا ۔۔۔۔
کسی کی فوتگی ہوئی تھی  ۔۔۔۔ مگر کون ۔۔۔۔ اس کے قدموں میں جیسے جان ہی نہ ہو ۔۔۔ وہ تھوک نگل کر گھبرائی ہوئی آگے جا رہی تھی  ۔۔۔۔ امی نرمین کو تو کچھ نہیں ہوا ۔۔۔۔ کہیں آغا جان انہیں ۔۔۔۔ اس کے ذہن میں کئی خیالات آ رہے تھے یا تائی جان کو کچھ ہو گیا وہ بلڈ پریشر کی مریضہ تھیں ۔۔۔۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔۔۔۔ اپنے بے جان قدموں کو گھسیٹتی وہ گھر کی طرف جا رہی تھی ۔۔۔۔  پاس سے چند عورتیں افسوس کرتی ہوئی گزریں ۔۔۔۔۔
" بیچارہ الیکشن میں ہارنے کا صدمہ ہی نہیں برداشت کر پایا ۔۔۔۔ " اس کے چلتے قدم رک گئے ۔۔۔ 
" سکندر ۔۔۔۔ " اس کے ذہن میں یہ نام بازگشت کی طرح گونجنے لگا ۔۔۔۔ سکندر نے خودکشی کر لی ۔۔۔۔
اس کے چاروں طرف دھماکے ہو رہے تھے ۔۔۔۔۔ 
 مگر اس نے ایسا کیوں کیا ۔۔۔۔ ، کیا اس سے ہار برداشت نہ ہوئی ۔۔۔۔ اس کی وحشت اور گھبراہٹ میں مزید اضافہ ہوا۔۔۔۔ وہ جس کسی کی بھی موت کا سوچ رہی تھی لیکن اس نے سکندر کا نہیں سوچا تھا وہ اس قدر بزل انسان تھا کہ ہار بھی برداشت نہیں کر سکا ۔۔۔۔۔۔ اس نے آتے جاتے لوگوں کی بھیڑ میں بھاگتے ہوئے راستہ بنایا ۔۔۔۔
 تیز تیز قدم اٹھاتی آگے جا رہی تھی  ۔۔۔۔ اس نے سوچا نہیں تھا سکندر اتنا بڑا صدمہ برداشت نہیں کر پائے گا ۔۔۔۔ حیرت اور صدمے کی ملی جلی کیفیت  میں وہ گھر کے اندر پہنچی ۔۔۔ جہاں عورتوں کا رش تھا ۔۔۔ تائی جان بیٹھی آنسو بہا رہی تھیں  ۔۔۔ تایا جان بھی رو رہے تھے ۔۔۔۔
وہ سکندر کے والدین تھے اکلوتے بیٹے کی موت کا صدمہ ہی کچھ ایسا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔  دوسری طرف امی اور نرمین اداس سی شکل بنائے بیٹھی تھیں ۔۔۔۔ اس کا دل اتنی زور زور سے دھڑک رہا تھا اسے ڈر تھا کہیں اس کی دھڑکن رک نہ جائے ۔۔۔۔۔ 
" سکندر مر گیا ۔۔۔۔ " 
صدمے سے اس نے آنکھیں میچ لیں ۔۔۔ یہ کیا ہو گیا ۔۔۔۔ کہانی کا وہ اختتام جو اس نے سوچا بھی نہ تھا ۔۔۔۔۔ 
" یہ کیسے ہو سکتا ہے اتنی جلدی وہ کیسے مر سکتا ہے ابھی تو بہت حساب باقی تھا ۔۔۔۔ "
 اس میں آگے جانے کی ہمت نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔ سارے گھر والے اسے دیکھ چکے تھے ۔۔۔۔  سامنے جنازہ رکھا ہوا تھا اور جنازے کے پاس عورتیں ڈیرہ ڈالے رو رہی تھیں ۔۔۔۔۔ وہ اپنی بے جان قدموں کو گھسیٹ کر آگے بڑھی۔۔۔  لاش پر کفن تھا ۔۔  وہ کچھ پل کھڑی اس کی لاش کو دیکھتی رہی ۔۔۔۔  کیا اسے اس شخص کی موت پر رونا چاہیے تھا افسوس کرنا چاہئے تھا یا اپنے برسوں پرانے دشمن کی موت پر ہنسنا چاہئے تھا ۔۔۔۔۔۔  لیکن وہ تو کچھ بھی محسوس نہیں کر پا رہی تھی ۔۔۔۔۔
کسی نے لاش پر سے کفن ہٹایا ۔۔ اسے لگا وہ نہیں دیکھ پائے گی ۔۔۔۔ اس نے چہرہ دوسری طرف کر لیا ۔۔۔۔ اسی پل وہ خود سے انکشاف کر رہی تھی کہ سکندر سے اسے جتنی ہی نفرت سہی لیکن وہ اس کا آخری دیدار نہیں کر سکتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   1
0 Comments