سیٹنگ
سیٹنگ*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شادی کے دو سال بعد ہی زویا کے شوہر کا سانحہ بلدیہ ٹاٶن میں انتقال کیا ہو گیا۔۔۔ آفس میں کام کرنے والے بڑے افسران سے لے کر چپراسیوں تک کے منہ سے بھی رال ٹپکنے لگی۔
زویا کا حسن تھا ہی ایسا کہ ہوش و خرد سے بیگانہ کردے۔
وہ حسن و جمال کا ایک باکمال شاہکار تھی ، خمار آلود آنکھیں ، گھنیرے خوشبو بھرے گیسٶ اور مدہوش کن سراپا سب کے دلوں میں ہر وقت ہلچل مچاۓ رکھتا تھا۔
سانحے کے ابتداٸی دنوں میں سبھی اس کا غم بانٹتے اور صبر کی تلقین سے ڈھارس بندھاتے رہے ، تاہم تھوڑے ہی عرصے بعد زویا کو محسوس ہونے لگا کہ سبھی ہمدردی کی آڑ میں اسے اپنا ہمسفر بنانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔ ساتھ ہی اسے یہ احساس بھی شدت سے ہونے لگا کہ لوگ کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن کسی سبب ابھی تک خاموش ہیں۔
ان سب احساسات کو وہ بھی جان بوجھ کر در گزر کرتی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیڑھ دو ماہ کے قلیل عرصے بعد ہی دفتر میں کام کرنے والا پینتالیس سالہ کلرک ظہیر احمد اظہار ِ ہمدردی کی آڑ میں کہنے لگا۔
”زویا بی بی ! سب کچھ قسمت کا لکھا ہوتا ہے ، آپ کسی قسم کی فکر نہ کریں ، کوٸی بھی کام ہو ، آپ بلاجھجھک مجھے کہہ دیا کریں۔ “
” بس۔۔ یہی کہنا تھا ۔۔۔ یا ابھی کچھ مزید کہنا ہے۔؟“ زویا نے اس کے چہرے پر نظریں ٹکا دیں۔
” نہیں زویا بی بی۔۔۔ میں اسے اپنی خوش نصیبی ہی سمجھوں گا اگر آپ کے کسی کام آیا۔“ وہ کسی حد تک مطمٸن نظر آ رہا تھا۔
” ٹھیک ہے ۔۔ “ زویا کے کہنے کی دیر تھی کہ وہ یہ کہہ کر فوراً اٹھ کھڑا ہوا ۔۔” میں آپ کے لیۓ اچھی سی کافی لے آتا ہوں۔ “
زویا اسے خشمگیں آنکھوں سے جاتے ہوۓ دیکھنے لگی۔
تھوڑی ہی دیر میں اس نے کافی کا مگ ٹیبل پر رکھتے ہوۓ کہا ۔ ” لیں زویا بی بی۔۔ اور کوٸی کام ؟“
” میں نے تو یہ کام بھی نہیں کہا تھا تمہیں ۔ “ زویا دھیمے انداز میں گویا ہوٸی۔
” زویا بی بی ۔۔ میں نے کہا ناں مجھے آپ کے کام آ کے خوشی ہوگی۔ “ اس کے لہجے سے اطمینان جھلک رہا تھا۔
”اچھا۔۔ “ زویا اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی۔
” دیکھیں ناں زویا بی بی ۔۔۔۔ یہ قسمت کی ستمگری نہیں تو اور کیا ہے کہ ۔۔۔ آپ کا جیون ساتھی ، ساتھ ہی چھوڑ گیا۔۔ “ وہ قدرے نظریں جھکاتے ہوۓ کہتا رہا ۔۔۔۔
اور۔۔۔۔ زویا۔۔۔
اپنی ٹھوڑی پہ ہاتھ رکھے اسے بغور دیکھتی رہی۔
” انسان کو ایک سہارے ، ایک ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔جس کے ساتھ مل کر ہی وہ زندگی کے نشیب و فراز کا مقابلہ کر سکے۔۔“ وہ کہتا رہا۔
زویا تو پہلے ہی اس کی باتوں کی تہہ تک پہنچ چکی تھی ۔۔
پھر بھی خود پر ضبط کرتے ہوۓ نرم لہجے میں پوچھا۔
” آخر تم کہنا کیا چاہتے ہو۔۔ کم ٹو د پواٸنٹ۔ “
” زویا بی بی۔۔ “ وہ گلا کھنکارتے ہوۓ کہنے لگا۔ ” آپ یقین مانیں مجھے آپ کے دکھ کا بخوبی احساس ہے اور یہ زندگی ایسے پر پیچ راستوں سے بھری پڑی ہے ، جس پر اکیلے چلنے کا صرف تصور ہی تھکا دینے کو کافی ہے۔۔۔ اور میں نہیں چاہتا کہ آپ زندگی کے کسی دوراہے پر تھک جاٸیں۔“
” تو پھر کیا کرنا چاہیۓ ؟“ وہ بمشکل اپنے غصے پر قابو کیۓ ہوٸی تھی۔
” تو پھر اگر آپ۔۔۔۔۔۔۔۔“ وہ اس کے مدھ بھرے نینوں کو دیکھتے ہوۓ چپ ہو گیا۔
” ہاں ہاں ۔۔۔کہتے رہو۔۔ میں سن رہی ہوں ۔“ وہ جان بوجھ کر اسے موقع دے رہی تھی۔
” اگر آپ چاہیں تو۔۔ اس تنہاٸی اور اکیلے پن کے احساس کو ختم کر سکتی ہیں۔“ اسنے پتا پھینک دیا۔
” وہ کیسے۔۔۔؟؟؟“ زویا کا یہ تجسس بھرا سوال اس کے جذبات بڑھانے اور بھڑکانے کو کافی تھا۔
” مجھ سے سیٹنگ کرکے۔۔۔۔ “ وہ اپنے دل کی بات زباں پر لے ہی آیا۔
” ہممم ۔“ وہ ہممم کہتے ہوۓ چند لمحوں کے لیۓ سوچ میں پڑ گٸی ۔۔۔۔ تو۔۔۔
ظہیر کو لگا کہ اس کی کشتی پار لگ چکی۔۔۔ حسین خواب پلکوں کی زینت بننے لگے۔
” تو سیٹنگ کرنے سے احساس ِ تنہاٸی ختم ہو سکتا ہے۔۔؟“ زویا کی بات سن کر اس کے دل میں عید کا سا سماں چھانے لگا اور وہ بے اختیار کہنے لگا۔
” ہاں جی بالکل۔۔۔ کیوں نہیں۔۔۔ “
”ہممم۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں تمہارے مشورے پر عمل کروں۔۔۔ کچھ پوچھ سکتی ہوں ۔۔۔؟“ زویا نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوۓ سوال پوچھا۔
” جی ہاں۔۔ بالکل پوچھیں ، آپ کو پورا پورا حق ہے۔“
وہ اپنے تٸیں مطمٸن ہو چکا تھا۔
” میں نے سنا تھا کہ تمہاری بیٹی نے لو میریج کی ہے۔؟“
” جی ہاں ۔۔ آپ نے ٹھیک سنا ہے۔ “ زویا کا سوال گوکہ موضوع سے ہٹ کے تھا تاہم وہ پراعتماد لہجے میں کہنے لگا۔ ” اور میں نے کبھی اس کے اس قدم سے اختلاف نہیں کیا۔ “
” لیکن تمہارے داماد کے والدین کو تو اختلاف تھا ، وہ بھی شدید۔۔۔ ہے ناں ۔؟ “ زویا نے ایک اور سوال داغا۔
” جی ہاں ، انہوں نے کبھی اس رشتے کو دل سے قبول نہیں کیا۔ “ اس نے قدرے اداس ہوتے ہوۓ جواب دیا۔
” تمہارا داماد اب کہاں ہے۔۔۔ ؟“ زویا کا یہ سوال بھی موضوع سے ہٹ کے تھا اس لیۓ اب وہ حیران ہونے لگا کہ آخر زویا یہ سب کیوں پوچھ رہی ہے۔؟
” اسے چار برس قبل دبٸی میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے پر موقع پر ہی پولیس مقابلے میں جان گنوانی پڑی۔۔“ کہتے کہتے وہ افسردہ ہوگیا۔
” اب تمہاری بیٹی کہاں ہے۔؟“
” میرے گھر میں ہے۔ “ زویا کے سوال پر اس نے بے ساختہ جواب دیا۔
” اس کی سیٹنگ کرواٸی ہے۔۔۔؟؟“
زویا کا یہ سوال ، سوال نہيں بلکہ ایک بم تھا ۔۔۔
جس میں صرف اس کے جسم کے ہی نہيں ، ارمانوں کے بھی چیتھڑے اڑ گٸے ۔۔
فلو کرے ۔۔۔۔۔۔
💔💔💔
Renu
06-May-2023 08:48 PM
👍👍
Reply