Orhan

Add To collaction

گرفتم

گرفتم از قلم فضہ بتول قسط نمبر1

"زینب زینب کدھر مر گئی؟" سجیلہ کی گرجدار آواز پر چھوٹے سے سٹور روم نما کمرے میں بیٹھی زینب جی جان سے دہل گئی۔ سجیلہ کی آواز تو اسے خوابوں میں بھی ڈرا دیا کرتی تھی۔ وہ ایک جست لگا کر کمرے سے باہر نکلی۔ سجیلہ گیلری پار کرکے اسی کے کمرے کی طرف آرہی تھیں۔ سیاہ شیفون کی ساڑھی میں ملبوس ہمیشہ کی طرح نک سک سے درست وہ ایک خوش شکل ادھیڑ عمر خاتون تھیں۔ زینب نے انہیں کبھی اول جلول حلیے میں نہ دیکھا تھا۔ "اوہ! تم یہاں گھسی بیٹھی ہو۔ کچھ ہوش ہے تمہیں کہ شام کی چائے پر عنیزے کے کلاس فیلوز آرہے ہیں۔" وہ اس پر نظر پڑتے ہی زہر خند لہجے میں شروع ہو گئیں۔ "جی۔۔۔" وہ بمشکل اتنا ہی کہہ سکی۔ "چائے کے ساتھ ساتھ پر تکلف سا ڈنر بھی تیار رکھنا کیا خبر وہ لوگ ڈنر تک رک جائیں۔ انتظامات میں کسی قسم کی کوتاہی میں برداشت نہیں کرونگی سمجھی تم۔" انہوں نے ہاتھ اٹھا کر اسے وارننگ دینے والے انداز میں کہا۔ "جی آنٹی۔" وہ منمنائی۔ "جاؤ اب کچن میں یہاں کھڑی میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو؟" وہ پھر غرائیں۔ زینب کچھ کہے بناء تیز تیز قدموں سے چلتی کچن میں چلی آئی۔ اس بڑے سے عالیشان گھر میں نوکروں کی ایک فوج موجود تھی مگر سجیلہ کو اسے بھی نوکرانی بنائے رکھنے کا کچھ خاص شوق تھا۔ سجیلہ اسکی سگی چچی تھیں اور نہایت سخت دل کی مالک تھیں۔ وہ تین سال کی تھی جب اسکے امی ابو کا ایک ٹریفک حادثے میں انتقال ہوگیا۔ کوئی اور قریبی عزیز تو نہ تھا لہذا سگے چچا نے اسے اپنے زیر کفالت لے لیا۔ جب تک وہ حیات رہے سجیلہ طوعا و کرھا اسے برداشت کرتی رہیں کیونکہ وہ اپنی بھتیجی پر جان دیتے تھے۔ مگر یہ زینب کی بد قسمتی تھی کہ جب وہ ایف اے پاس کرکے بی اے میں داخلہ لینے کے متعلق سوچ رہی تھی تو چچا دل کے دورے کے باعث چل بسے۔ انکی وفات کے بعد سجیلہ کو پورے گھر اور کاروبار کی مکمل حکمرانی مل گئی۔ انکے دو ہی بچے تھے بڑی عنیزہ جو کہ یونیورسٹی میں بی ایس کی طالبہ تھی اور عدیل جو کہ ابھی میٹرک میں تھا۔ زینب عنیزہ کی ہم عمر تھی۔ سجیلہ نے زینب کو مزید تعلیم دلوانے کی بجائے روایتی رویہ اپناتے ہوئے اسے گھر کے ملازموں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ عنیزہ کو انہوں نے بے حد لاڈ پیار سے پالا تھا اور وہ بہت حد تک بگڑ چکی تھی۔ عنیزہ کا حلقہء احباب بھی سجیلہ کی طرح بہت وسیع تھا۔ آج اسکے کچھ یونیورسٹی فیلوز شام کی چائے پر مدعو تھے اور عین ممکن تھا کہ وہ رات کے کھانے تک رکتے۔ سو سجیلہ نے زینب اور خانساماں کو صبح سے نچا کر رکھا ہوا تھا۔ وہ چپ چاپ خانساماں کیساتھ کام میں لگ گئی۔ شام ہوتے ہی عنیزہ اپنے دوستوں کیساتھ آوارد ہوئی۔زینب باورچی خانے میں کام کرنے کیساتھ ساتھ ڈرائنگ روم سے آنے والی خوش گپیوں کی آوازوں اور قہقہوں کو بخوبی سن رہی تھی۔ سجیلہ کی ھدایت کے مطابق اسنے مہمانوں کی آمد کے ٹھیک پندرہ منٹ بعد ملازمہ کے ہاتھ چائے کی ٹرالی بھجوادی اور باورچی خانے میں رکھی کرسیوں میں سے ایک پر ہی ٹک گئی۔ وہ اکثر خالی الذہنی کے عالم میں رہتی تھی اگر سوچوں کو ذہن میں پنپنے کی راہ دیتی تو یوں سارا دن سجیلہ اور اسکے بچوں کی بے دام کی غلام بن کر نہ گزارتی۔ سوچ ہی وہ واحد شے جو انسان کی شخصیت کےزاویوں کو استوار کرکے اسے اقدام پر اکساتی ہے، سوچ کی سمت درست ہوگی تو انسان درست اقدام کرے گا اور اگر سوچ کی سمت غلط ہوگی تو اقدام بھی منفی ہی ہوگا۔ در حقیقت انسان کی شخصیت اسکی سوچ میں ہی پوشیدہ ہے۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی سوچوں کا گلا گھونٹ کر اپنی شخصیت کی نفی کرنے لگ جاتے ہیں، وہ اپنے ماحول اور گردونواح کے لوگوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر رہ جاتے ہیں۔۔ زینب بھی ایسے لوگوں میں سے ایک تھی۔ وہ اپنے ماحول اور گردونواح کے لوگوں کے سامنے پسپائی اختیار چکی تھی۔ اسنے اپنے اندر کی سوچ کو مار ڈالا تھا۔ "زینب!" عنیزہ کی تیز پکار پر وہ بے طرح چونکی۔ "جی۔۔" اسکی آواز بہت دھیمی تھی اور عنیزہ اکثر تیز تیز بولتے ہوئے اسکی آواز نہ سن پاتی اور بعد میں اس پر چلاتی اور کبھی کبھی تو ہاتھ بھی اٹھا لیتی۔ "ڈنر ریڈی ہے؟" اسنے باورچی خانے میں داخل ہوتے ہی کڑے لہجے میں دریافت کیا۔ "جی۔" وہ کرسی سے اٹھ کر مؤدبانہ انداز میں کھڑی ہوگئی۔ "اوکے پھر ٹیبل ریڈی کرو میرے دوستوں کو بھوک لگ رہی ہے۔" وہ نخوت سے حکم دے کر باورچی خانے سے چلی گئی۔ زینب نے گہری سانس بھری اور ملازمہ کیساتھ مل کر ڈائننگ ٹیبل پر کھانے کے لوازمات سجانے لگی۔ اس سے فارغ ہوکر وہ پھر سے باورچی خانے میں اپنی مخصوص کرسی پر آبیٹھی۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ عنیزہ نے سویٹ ڈش لانے کا حکم دیا۔ ملازمہ کسی کام سے اپنے کوارٹر میں گئی تھی اور خانساماں کھانے کے بعد پیش کی جانے والی سبز چائے تیار کرنے میں مشغول تھا سو وہ سویٹ ڈش کا ڈونگا اٹھائے خود ہی ڈائننگ روم میں چلی آئی۔ بڑی سی عالیشان ڈائننگ ٹیبل کر گرد رکھی کرسیوں پر کل سات افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ جن میں سے دو تو سجیلہ اور عنیزہ تھیں اور باقی پانچ میں سے تین لڑکے اور دو لڑکیاں عنیزہ کے ہم جماعت تھے۔ وہ سب امیر گھرانوں کے پروردہ بے فکرے نوجوان تھے۔ کھانا کھانے کیساتھ ساتھ خوش گپیوں کا دور بھی عروج پر تھا۔ زینب نے کسی مشین کی طرح سویٹ ڈش کا ڈونگا میز کے بیچوں بیچ لا رکھا۔ بے فکروں کے ٹولے نے ایک نظر اسکی طرف دیکھا اور ملازمہ سمجھ کر نظر انداز کرگئے۔ مگر ان میں ایک ایسا انسان تھا جو کچھ دیر بہت غور سے اسے دیکھے گیا۔ وہ ڈونگا رکھ کر اسی مشینی انداز انداز میں جانے کو پلٹ گئی مگر اس انسان کی نگاہوں نے اسکے پردے کے پیچھے اوجھل ہوجانے تک اسکا تعاقب کیا تھا۔ مگر زینب ۔۔۔ روبوٹ جیسی زینب سعید اس بات سے لاپرواہ پھر سے باورچی خانے میں آکر اپنی مخصوص کرسی پر ٹک گئی۔


"عنیزہ وہ لڑکی کون تھی؟" اسد نے بلآخر اس سے پوچھ ہی لیا۔ وہ لڑکی اسکے ذہن پر ایک خوابناک سا تاثر چھوڑ گئی تھی۔ پرانے سے لباس میں خستہ حال سی وہ اسے جانے کیوں اپنی جانب اتنی شدت سے متوجہ کرگئی تھی۔ "کون لڑکی؟" عنیزہ نے لاپروائی سے پوچھا۔ "وہی جو سویٹ ڈش لیکر آئی تھی۔" "کزن ہے میری، زینب۔" عنیزہ کا لہجہ اب بھی لاپرواہ سا تھا۔ "سچ بتاؤ وہ تمہاری کزن ہے لگ تو بالکل نوکرانی رہی تھی۔" فراز حیرت سے بول اٹھا۔ "تو اب اسے کیا ملکہ بناکر رکھیں۔ اسے اپنے گھر میں رکھا ہے یہی بڑی بات ہے۔" وہ یکدم ناگواری سے بولی۔ اور پھر موضوع تبدیل کردیا گیا. مگر اسد کا ذہن اسی لڑکی میں الجھا رہا تھا۔ وہ منتظر رہا کہ وہ پھر نظر آجائے مگر وہ تو جانے کہاں جا بیٹھی تھی۔ اس رات گھر واپس آکر بھی وہ اسے ہی سوچتا رہا۔ لیکن اگلے روز تک وہ اس لڑکی کو فراموش کر گیا تھا۔ اگلے دن سے اسکے وہی شب و روز تھے صبح یونیورسٹی شام کو جم اور دوستوں کیساتھ گھومنا پھرنا، رات کو تھوڑا بہت پڑھنا اور سو جانا۔ وہ ایک امیر باپ کے چار بچوں میں تیسرا تھا اسکی ممی بھی ایک مصروف سماجی کارکن تھیں اور اسکے بہن بھائی اپنی اپنی زندگیوں میں مگن۔ وہ سب کبھی کبھی کسی خاص موقع پر ہی گھر پر اکٹھے ہوتے تھے۔ کچھ دن بعد اک روز اسے عنیزہ سے کچھ نوٹس لینے کی خاطر اسکے گھر جانا پڑا۔ دوپہر کا وقت تھا وہ گھر اپنی گاڑی پورچ میں کھڑی کرکے برآمدے کی جانب بڑھا اور برآمدے میں آکر اطلاعی گھنٹی پر انگلی رکھی۔ چند ہی ثانیے بعد دروازہ کھل گیا۔ سامنے وہی لڑکی کھڑی تھی۔ سبز رنگ کے کاٹن کے پرانے سے لباس میں سنگلاخ آنکھوں اور بے تاثر چہرے کیساتھ۔ "عنیزہ ہیں؟" وہ جلدی سے بولا۔ "شاپنگ پر گئی ہے۔" اسنے مدھم آواز میں جواب دیا۔ اسکی آواز باریک اور مدھر مگر ہر طرح کے جذبات سے عاری تھی۔۔ "کب تک آئے گی؟" "پتہ نہیں۔" "میں ویٹ کرلوں؟" "آپکی مرضی۔" وہ کہہ کر پلٹ گئی۔ دروازہ کھلا چھوڑ گئی تھی سو وہ اندر چلا آیا۔ "سنیں۔" "جی۔" وہ پلٹی "آپ عنیزہ کی کزن ہیں؟" "جی۔" "تو آپ یوں ملازموں کی طرح۔۔۔" وہ بولتے بولتے جھجھک گیا۔ "میری قسمت۔" وہ کہہ کر مڑی اور تیز تیز قدموں سے چلتی اسکی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ وہ گہری سانس بھر کر ڈرائنگ روم میں آبیٹھا اور عنیزہ کو کال ملائی۔ اسنے تیسری بیل پر کال ریسیو کرلی تھی۔ "ہاں اسد بولو؟" "یار تمہارے گھر بیٹھا ہوں کب آؤگی؟" "اوہ یار بتا تو دیتے میں تو شاپنگ کیلیے نکلی ہوں۔" "مجھے نوٹس چاہیئیں یار۔" "تم ایسا کرو زینب سے کہو وہ دے دے گی تمہیں نوٹس، بلکہ ٹھہرو میں اسے کہتی ہوں۔" اسنے عجلت میں کہہ کر سلسلہ منقطع کردیا۔ ٹھیک پانچ منٹ بعد زینب اندر داخل ہوئی اسکے ہاتھ میں نوٹس تھے جو اسنے اسکی طرف بڑھائے۔ وہ اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا۔ "شکریہ۔" اسنے مسکرا کر کہا۔ وہ کچھ نہ بولی۔ "آپ پڑھتی ہیں؟" "جی۔" "کیا؟" "زندگی کو۔" اسکا جواب سیدھا سادا تھا۔ "میرا مطلب تھا کس کالج میں، کس ائیر میں؟" اسنے اپنے سوال کی وضاحت کی۔ "زندگی کو پڑھنے کیلیے کسی تعلیمی ادارے کی ضرورت ہوتی ہے کیا؟ "اس نے اسکی طرف دیکھ کر پوچھا تھا۔ اسد کو یکدم احساس ہوا کہ اسکی آنکھوں کا رنگ گہرا سبز تھا۔۔ وہ نروس ہونے لگا۔ "پتہ نہیں میڈم۔" "ہمم۔" وہ ہنکارا بھر کر پلٹی۔ "کہاں جارہی ہیں." وہ بے ارادہ ہی پوچھ بیٹھا۔ "کچن میں۔" وہ جواب دے کر رکی نہیں تھی. اسد کو وہ بہت عجیب سی لگی تھی۔ وہ وہاں سے واپسی پر اسی کے متعلق سوچ رہا رہا تھا۔


کچھ دن بعد عنیزہ کی سالگرہ کے فنکشن پر وہ سب مدعو تھے۔ بڑے سے لان میں بہترین دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ سجیلہ کے حلقہء احباب کے بھی بہت لوگ مدعو تھے۔ خاندان بھر بھی اکٹھا تھا۔ عنیزہ کی سالگرہ کسی شہزادی کی طرح منائی جارہی تھی۔ آتشی زرد رنگ کی میکسی زیب تن کیے میک اپ سے لیس چہرہ لیے عنیزہ کسی ماڈل سے کم نہ تھی اور آج تو سبھی کی توجہ کا مرکز بنی وہ جیسے ہواؤں میں رقصاں تھی۔ کیک کٹنے کے بعد پر تکلف ڈنر کا دور چلا اور اس دوران اسد کو وہ پھر دکھائی دی۔ سیاہ لباس میں آج قدرے بہتر حلیے میں بالکل الگ تھلگ چپ چاپ ایک پلر کے پاس کھڑی تھی، اسنے اپنے اردگرد دیکھا۔ اسکے سب دوست الگ الگ ٹولیوں کی صورت میں بیٹھے کھانے کیساتھ انصاف کر رہے تھے جبکہ عنیزہ دور اپنے کچھ رشتے داروں کیساتھ مصروف تھی۔ وہ اپنی پلیٹ ہاتھ میں تھامے چپکے سے اس گوشے میں چلا آیا جہاں وہ کھڑی تھی۔ "کیسی ہیں آپ؟" اسنے چھوٹتے ہی پوچھا تو وہ گردن گھما کر اسے دیکھنے لگی۔ "ٹھیک۔" "یہاں اکیلی کیوں کھڑی ہیں؟" "یونہی۔" "آپ ہمیشہ اداس ہی رہتی ہیں؟" "پتہ نہیں۔" "آپ نے کھانا نہیں کھایا؟' اسنے چند لمحوں بعد یونہی بات کو طول دینے کی خاطر پوچھا مگر وہ یکدم رخ موڑ کر اسے تکنے لگی۔آنکھوں میں پہلی بار جیسے تلاطم ابھرا تھا۔ "کیا ہوا؟" "نہیں۔۔ میں نے کھانا نہیں کھایا۔" وہ یکدم پلکیں چھپکتے ہوئے بولی۔ "کیوں؟" "کیونکہ کسی نے کہا ہی نہیں۔" وہ عجیب سے لہجے میں بولی اور پھر چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر بھاگتی ہوئی اندھیرے میں گم ہو گئی۔ وہ بے ارادہ ہی اس کے پیچھے چلا آیا۔ یہ گوشہ بلکل تاریک تھا۔ وہ موبائل کی ٹارچ جلا کر آگے بڑھا۔ یہ اک طویل راہداری تھے جس کے اختتام پر ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس کا لکڑی کا بوسیدہ سا دروازہ بند تھا۔ اسنے اس دروازے پر ہاتھ رکھ اور وہ کھلتا چلا گیا۔ یہ ایک اسٹور تھا جس میں ایک جانب ایک چارپائی بچھائی گئی تھی، کمرے میں زرد رنگ کا بلب روشن تھا۔ زینب چارپائی کے کونے پر ٹکی ہوئی تھی آہٹ پر چونکی پھر اسے دیکھ کر بے تحاشا اٹھ کھڑی ہوئی۔ "آپ۔۔۔۔" اسکا لہجہ خوفزدہ سا تھا۔ "آپ رو رہی ہیں؟" اسنے نرم لہجے میں پوچھا۔ "نہیں۔ جائیں یہاں سے۔" "آپ باہر نہیں آئینگی؟" "نہیں۔" "اچھا پھر کھانا تو کھالیجیے۔" اسنے بے اختیار ہی اپنے ہاتھ میں پکڑی پلیٹ چارپائی پر رکھ دی اور پلٹ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے چلا گیا۔ زینب نے چھپٹ کر دروازہ مقفل کیا اور مڑ کر چارپائی پر آبیٹھی۔ اسکی نظروں کے عین سامنے پڑی پلیٹ میں بریانی تھی جس میں سے آدھی اسد کھا چکا تھا۔ اسنے لرزتے ہاتھوں سے چمچ کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اسے چاولوں سے لبریز کرکے منہ میں ڈالا۔ اسکی آنکھیں پانیوں سے بھر رہی تھیں۔ اور باہر لان میں بکھری رنگینوں کے بیچ گھرا اسد خان اپنے دوستوں کیساتھ انجوائے تو کر رہا تھا مگر اسکا ذہن اس لڑکی میں الجھا ہوا تھا جسے وہ اپنے حصے کا کھانا دے آیا تھا، وہ جسے شئیرنگ کی عادت ہی نہ تھی۔ وہ تو اپنے خیالات کسی سے شئیر نہ کرتا تھا کجا کہ کھانا۔۔۔ وہ لڑکی اسے اس روز پھر دکھائی نہ دی تھی اور اگلے روز وہ پھر سے آدھمکا تھا محض اسے دیکھنے کی خاطر اور وہ اسے برآمدے میں ہی نظر آگئی تھی۔ پلر کے پاس رکھے بڑے سے گملے میں لگے پودے کی نگہداشت کرتی ہوئی وہ مگن سی تھی۔ "ہیلو!" وہ اسے دیکھتے ہی بول اٹھا۔ زینب نے گردن گھما کر اسکی طرف دیکھا پھر اسکی آنکھوں میں شناسائی جھلکیاں مارنے لگی۔ "ہیلو!" وہ بھی ہولے سے مسکرائی تھی۔اسد کو اسکی مسکراہٹ بھلی لگی۔ وہ برآمدے کے زینے طے کرکے اس سے چند قدم کے فاصلے پر آن رکا۔ "کیا حال ہے؟" "ٹھیک ہوں؟" "گڈ۔ عنیزہ گھر پہ ہے؟" "جی اپنے کمرے میں ہیں۔" وہ آج پورے پورے جملے بول رہی تھی اور اسکی جانب متوجہ بھی تھی۔ اسد کو جانے کیوں اسکی یہ تبدیلی اچھی لگی۔ "اوکے بلادو اسے پلیز۔" وہ اپنے ازلی بے تکلف انداز میں بولا تو وہ سر ہلا کر مؤدبانہ انداز میں پلٹ کر گھر کے اندر چلی گئی. چند ہی منٹ بعد عنیزہ باہر نکلی۔ "اوہ ہائے! اسد تم یہاں باہر کیوں کھڑے ہو؟" "وہ تمہاری کزن ملی تھی باہر اسے کہا تمہیں بلانے کیلیے۔" اسنے مسکرا کر جواب دیا مگر عنیزہ کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ "اس ایڈیٹ نے تمہیں اندر آنے کیلیے نہیں کہا۔۔تم چلو ذرا میں اسکی خبر لیتی ہوں۔" وہ کچھ غضبناک سی ہوتی اسکا ہاتھ چھپٹ کر اسکے نہ نہ کرنے کے باوجود اندر لائی اور زینب کو پکارنے لگی وہ دوسری ہی پکار پر دوڑی چلی آئی۔ 'تم نے اسد کو باہر دھوپ میں کھڑا کیا ہوا تھا؟" عنیزہ گرج کر بولی۔ "یار عنیزہ۔" اسد نے کچھ کہنا چاہا مگر عنیزہ سن کہاں رہی تھی اسنے چھپٹ کر زینب کو دو تھپڑ رسید کیے۔ "گھٹیا لڑکی یہ میرا دوست ہے ، میرا دوست جانتی ہو تم نے اسکی نہیں میری انسلٹ کی ہے۔ جاہل کہیں کی۔" وہ چلا چلا کر بولنے لگی۔ شور کی آواز سن کر سجیلہ بھی وہیں چلی آئی۔ اسنے عنیزہ سے چلانے کی وجہ پوچھی تو اسنے چیخ چیخ کر اسے بھی سب بتا دیا۔ جس پر سجیلہ بھی آگ بگولا ہوگئیں۔ "کمینی تو نے ہمیں ذلیل کروانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے کیا۔" سجیلہ نے اسے ایک تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا اور پھر اسکی طرف مڑ کر لجاجت آمیز لہجے میں بولی۔ "برا مت ماننا بیٹا یہ پاگل ہے۔" "پاگل تو آپ لوگ لگ رہے ہیں مجھے۔ میری پوری بات سنے بغیر اس پر برس پڑے حالانکہ اس بیچاری کا تو کوئی قصور ہی نہیں ہے۔ بلاوجہ اتنا مارا بیچاری کو۔ انتہا ہے جہالت کی۔" وہ یکدم غصے کے عالم کے بول پڑا تو بت بنی کھڑی زینب یکدم اسکی طرف حیرت سے دیکھنے لگی۔ "میں اپنی مرضی سے باہر کھڑا تھا اسنے نہیں کہا تھا مجھے باہر کھڑے رہنے کا۔" وہ بات مکمل کرکے پلٹا اور عنیزہ کے بہت بار بلانے ہے باوجود بھی وہاں سے چلا گیا تھا۔ اسکے جانے کے بعد بھی عنیزہ کا سارا غصہ زینب پر ہی نکلا مگر وہ ہمیشہ کی طرح کچھ بھی نہ بولی تھی۔


"یار تم خفا کیوں ہوگئے ہو؟" اگلے روز یونیورسٹی میں عنیزہ نے اسکی خفگی کو بھانپ لیا۔ "خفگی کی بات بھی ہے۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم اتنی جاہل ہو." منہ پھٹ تو وہ ہمیشہ سے تھا سو تڑ سے بول اٹھا۔عنیزہ کے چہرے پر ہتک کے آثار ابھرے مگر وہ اپنی ناگواری دبا گئی۔ "یار غصہ ہی تو تھا بس آگیا۔" اس زینب کی من من مجھے سخت ناپسند ہے۔ اسد کیلیے اسکے دل میں کچھ خاص جذبے تھے سو وہ اسکی ناراضی گوارا نہیں کرسکتی تھی۔ "اور تمہاری بدتمیزی اسے جیسے بہت پسند ہوگی ناں کبھی اس سے پوچھنا اسکے خیالات بھی بہت محبت بھرے نہیں ہونگے تمہارے لیے۔" وہ برا سا منہ بنا کر بولا۔ "وہ پاگل ہے۔ کچھ نہیں سوچتی۔" وہ اپنے ہاتھ میں پکڑا چپس کا بڑا سا پیکٹ کھولتے ہوئے مزے سے بولی۔ "کیا مطلب؟ پاگل لگتی تو نہیں ہے وہ۔" "تو اور کیا لگتی ہے؟ بالکل پاگل ہے۔ دس جوتے مار دو آگے سے کوئی ریسپانس نہیں دے گی۔ لطیفے سنا دو ہنسے گی نہیں۔ مجھے تو سخت ہی چڑ ہے اس سے۔" اس نے چپس کھاتے ہوئے نخوت بھرے لہجے میں بتایا۔ "تعجب ہے۔ "اسد نے سر ہلایا۔ "ویسے وہ تمہاری فرسٹ کزن ہے کیا؟" وہ بھی اب اسکے ہاتھ سے چپس کا پیکٹ لیکر چپس کھانے لگا۔ "ہاں یار تایا کی بیٹی ہے۔" عنیزہ کے لہجے میں لا پرواہی تھی۔ "تو تایا کدھر ہیں تمہارے؟" "اللہ کے پاس ۔ تایا اور تائی دونوں فوت ہوچکے ہیں اسی لیے تو یہ زینب ہمارے پاس رہتی ہے۔" "اور تم لوگوں نے اسے ملازمہ بنالیا۔" اسد نے ملامتی لہجہ اختیار کیا۔ یہ ممی کا مسئلہ ہے میرا نہیں۔ میں تو خود بہت چھوٹی تھی جب زینب ہمارے گھر میں آئی۔" "تمہاری ہم عمر ہی ہے ناں وہ؟" "ہاں۔ مجھ سے پانچ دن بڑی ہے۔" "اچھا۔ تو وہ پڑھتی نہیں ہے؟" "ایف اے کیا ہے اسنے۔" "تو آگے کیوں نہیں پڑھ رہی؟" "اسکا انٹرسٹ نہیں ہے پڑھائی میں۔' "ہمم۔۔" اسد نے ہنکارا بھرا۔ "اب اگر زینب نامہ ختم ہوگیا ہو تو ہم پریزنٹیشن کے متعلق ڈسکس کرلیں؟" عنیزہ نے ماتھے پر بل ڈال کے پوچھا۔ "اوکے۔ میں اپنا لیپ ٹاپ لیکر آتا ہوں"۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ "کہاں ہے؟" "گاڑی میں پڑا ہے۔ یہیں رکنا پانچ منٹ میں آیا میں۔" وہ کہہ کر عجلت آمیز انداز میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا اسکی نظروں سے دور ہوتا گیا۔ عنیزہ نے بیگ سے موبائل نکال کر اس پہ نظریں جمادیں۔

"ہیلو!" وہ گلاب کی کیاری کے قریب کھڑی تھی جب کوئی اسکے بالکل قریب آکر بولا۔ وہ بے تحاشا ڈر کر اچھلی اور پھر سامنے کھڑے اسد کو دیکھ کر اسکی آنکھوں میں شناسائی کی جھلک لہرائی۔ "کیسی ہو؟" وہ مسکرا رہا تھا۔ "ٹھیک ہوں۔" اسکی آواز بلکل ہموار تھی۔ ہر طرح کے جذبے سے پاک۔ "کیا کر رہی تھی؟" "پھولوں کو دیکھ رہی تھی۔" "تمہیں پھول پسند ہیں؟" "جی۔" "ہممم مجھے بھی بہت پسند ہیں۔" "اچھا۔" "تمہیں پڑھنے کا شوق نہیں ہے؟" اس نے اپنے ذہن میں امڈتا سوال پوچھا۔ "ہے۔" "پھر ایف اے کے بعد آگے کیوں نہیں پڑھا؟" "آنٹی نے منع کردیا تھا۔" "لیکن کیوں؟" "پیسے نہیں تھے انکے پاس۔" وہ سر جھکائے کھڑی تھی۔ "کمال ہے انکے اپنے بچے تو اتنے مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں اور تمہارے لیے انکے پاس پیسے نہیں۔" اسنے سر ہلا کر متعجب لہجے میں کہا۔ "میرے ابو زندہ نہیں ناں اگر وہ ہوتے تو میں بھی مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھتی۔" وہ مدھم آواز میں بولتی تھی۔ اسد نے بغور اسکی طرف دیکھا۔ وہ خاصی خوبصورت لڑکی تھی۔ لیکن ہر وقت ملگجے سے حلیے میں رہتی تھی۔ "ہممم۔" اس نے طویل ہنکارا بھرا۔ "عنیزہ گھر پر نہیں ہے۔" زینب نے اطلاع دی۔ "میں عنیزہ سے ملنے تو نہیں آیا۔" اسد نے شانے اچکائے۔ "چچی بھی گھر پر نہیں ہیں۔" وہ جلدی سے بولی۔ "تو تمہیں لگتا ہے میرا دماغ اتنا خراب ہے کہ تمہاری چچی سے ملنے کیلیے آؤں گا۔" اسنے ماتھے پر بل ڈالے۔ "تو پھر کس سے ملنے آئے ہیں آپ؟" اسنے نظریں اٹھا کر اسکی طرف دیکھا۔ سبز آنکھیں دھوپ میں بمشکل ہی کھل پارہی تھیں۔ "تم سے۔" اسنے برجستگی سے جواب دیا اور پھر اپنے جواب پر خود بھی حیران رہ گیا۔ "مجھ سے؟" وہ اس حد متعجب نظر آنے لگی۔ "ہاں۔.. تم سے۔" اس نے جیسے خود کو بھی یقین دلایا تھا۔ زینب نے اسکی طرف دیکھا پھر کچھ سٹپٹا سی گئی۔ "زینب۔۔" اسد نے قدرے تاخیر سے اسے پکارا تو وہ بے تحاشہ پلٹ کر بھاگتی ہوئی رہائشی عمارت میں گم ہوگئی۔ وہ کتنی ہی دیر اسی جگہ کھڑا اس ایک لمحے کو محسوس کرتا رہا تھا۔


زینب نے آخری برتن دھو کر سٹینڈ میں لگایا اور ہاتھ دھونے لگی۔ آج گھر میں چچی کے کچھ دوستوں کی دعوت کا اہتمام تھا ، اور زینب صبح سے باورچی خانے میں مصروف تھی۔ رات کے دو بجنے کو آئے تھے اور اب اسکی کمر اکڑ چکی تھی۔ کک اور ملازمہ تو ڈنر اختتام پذیر ہوتے ہی اپنے اپنے کوارٹرز میں چلے گئے تھے۔ جبکہ وہ چچی کے حکم کے مطابق باورچی خانے کی صفائی میں جت گئی تھی۔ اب اس وقت اسکا پورا وجود آرام کا طالب تھا۔ اسنے ہاتھ دھونے کے بعد نل بند کیا اور اپنے تھکن سے چور وجود کو گھسیٹتی ہوئی اپنے چھوٹے سے کمرے میں چلی آئی۔ یہ دراصل اسٹور روم تھا جہاں کچھ پرانا سامان رکھا ہوا تھا اور یہیں تھوڑی سی جگہ بنا کر چچی نے اسکا بستر بھی ڈلوا دیا تھا۔ زینب اپنے کمرے میں آکر دروازہ اندر سے مقفل کرکے اپنے بستر پر گر گئی اور کمبل اوڑھ لیا۔ اسکے پاؤں شدت سے دکھ رہے تھے، شانوں پر بھی بھاری بوجھ محسوس ہورہا تھا۔ اسنے آنکھیں بند کرلیں اور سونے کی کوشش کر نے لگی مگر جانے کیوں نیند کی بجائے گرم گرم آنسو آنکھوں کے دریچوں پہ اترنے لگے۔ اور وہ تکیے میں منہ دے کر رونے لگی۔ اسکا دل شدت سے گداز ہورہا تھا۔ خود ترسی کی سی کیفیت تھی۔ وہ دیر تک روئے گئی اور جب مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے اذان فجر کی آوازیں بلند ہونے لگیں تو اپنی بھیگی پلکوں کو مسلتی ہوئی اٹھی اور وضو کرکے نماز کیلیے کھڑی ہوگئی۔ نماز کے دوران بھی آنسو ایک تواتر سے اسکے گالوں پر رستہ بناتے رہے۔نماز کے بعد وہ حسب عادت دعا مانگے بغیر ہی جاء نماز سے اٹھ گئی اور بستر پر جا لیٹی۔ نیند کے مارے ذہن میں جھائیں جھائیں ہورہی تھی سو وہ جلد ہی گہری نیند سوگئی۔ ابھی اسے سوئے ہوئے ایک گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ چچی نے گھنٹی بجا بجا کے اسے جگا ڈالا۔ وہ بمشکل اٹھی اور گھر میں آئی۔ تو چچی غیض و غضب کے عالم میں ٹہلتی نظر آئیں۔ "کہاں تھی تم کب سے بلا رہی ہوں۔" اس پر نظر پڑتے ہی انہوں نے سخت غصے سے پوچھا۔ "میں سورہی تھی چچی جان۔" اسنے سر جھکا کر مدھم لہجے میں جواب دیا۔ "نشہ کرکے سوئی تھی جو گھنٹی کی آواز نہ سنائی دی کمینی۔" انکا لہجہ اہانت آمیز تھا۔ وہ کچھ نہ بولی۔ "چائے بنا میرے لیے۔ اور ناشتے میں نہاری ہونی چاہیے آج۔ عنیزے رات کو کہہ کر سوئی تھی۔" آرام کرسی پہ دراز ہوتے ہوئے اک شان بے نیازی سے حکم دے کر انہوں نے اپنا موبائل اٹھا لیا اور زینب کے پیروں نے اسکے جسم کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیا۔ وہ بے ہوش ہوجانے کی حد تک تھکاوٹ محسوس کر رہی تھی اور یہ حکم۔۔۔ وہ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق باورچی خانے میں آئی۔ ملازمین آٹھ بجے آتے تھے سو ناشتے کی سب تیاری اسے ہی کرنا تھی۔ اسنے ایک گہری سانس لی اور اپنے اندر کی حساس زینب کو تھپک تھپک کر سلانے کے بعد سب سے پہلے چچی کے لیے چاہے بنا کر انہیں پہنچائی اسکے بعد وہ کسی روبوٹ کی طرح کام میں جت گئی۔ دس بجے عنیزہ نے ناشتہ کیا اور یونیورسٹی سدھاری تو زینب کو لگا اسکے شانوں سے بھاری بوجھ سرک گیا ہے۔ چچی اور عدیل بھی دفتر اور کالج جاچکے تھے۔ وہ ملازمہ کو برتن دھونے کا کہہ کر رہائشی عمارت سے نکل کر اپنے کمرے کی طرف بڑھی اور پھر لان پر بکھری دھوپ نے بے اختیار ہی اسے اپنی جانب کھینچ لیا۔ وہ ایک لان چئیر پر بیٹھ گئی اور کمر کرسی کی پشت سے ٹیک کر آنکھیں موند لیں۔ دھوپ کی حدت اسکے تھکن سے چور چور جسم کو بڑا سکون بخش رہی تھی۔ وہ جلد ہی نیند کی وادی میں اتر گئی۔


"اسد کدھر جارہے ہو بیٹا؟" آج خلاف معمول ممی ناشتے کی میز پر موجود تھیں۔ اسے جلدی جلدی چائے حلق میں انڈیلتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے پوچھا۔ "ممی مجھے عنیزے کے گھر جانا ہے میرا لیپ ٹاپ اسکے پاس ہے اور میری پریزنٹیشن اس میں ہے۔" اسنے چائے کا آخری گھونٹ بھی حلق میں اتارا۔ "تو اسے کہو کہ یونیورسٹی لے آئے تمہارا لیپ ٹاپ۔" ممی نے اطمینان سے مشورہ دیا۔ "کہا تھا ممی مگر میڈم یونی پہنچ گئی ہیں اور میرا لیپ ٹاپ گھر بھول آئی ہیں۔" اسنے اپنا موبائل جینز کی جیب میں ٹھوںستے ہوئے جھنجھلاہٹ سے پر لہجے میں جواب دیا اور پھر انہیں خدا حافظ کہہ کر قریب قریب بھاگتا ہوا پورچ میں آیا۔ گاڑی نکالی اور عنیزہ کے گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔ آج کی پریزنٹیشن اسنے بہت محنت سے تیار کی تھی اور برا ہو اس وقت کا جب عنیزہ کا لیپ ٹاپ خراب ہوا اور وہ اس سے دو دن کیلیے لیپ ٹاپ لے گئی۔ گاڑی اشارے پر روک کر اسنے اضطراب کے عالم میں کلائی گھڑی کے ڈائل پر نظر ڈالی۔ ساڑھے دس ہوچکے تھے اور اسکے اندازے کے مطابق پریزنٹیشن شروع ہوچکی تھی۔ سر رولنمبر وائز پریزنٹیشن لیتے تھے سو اس حساب سے اسکا دسواں نمبر تھا اور اسکی پریشانی کو یہ خیال ہی کافی تھا کیونکہ سر بہت وقت کے پابند واقعہ ہوئے تھے، تاخیر سے آنے والا طالبعلم چاہے نہایت لائق فائق ہی کیوں نہ ہو وہ اسے کوئی رعایت نہیں دیتے تھے۔ انہی سوچوں میں الجھا وہ دس منٹ میں عنیزہ کے گھر پہنچا۔ چوکیدار نے لہک کر اسکے لیے گیٹ کھولا اور ساتھ ہی آگاہ بھی کردیا کہ گھر پر کوئی بھی نہیں ہے۔ اسنے گاڑی پورچ میں روکی اور اتر کر تقریبا بھاگتے ہوئے برآمدے میں آیا داخلی دروازہ کھلا ہوا تھا وہ اندر گیا اور ملازمہ کے ہمراہ عنیزہ کے کمرے میں آیا۔ سرعت سے اپنا لیپ ٹاپ لیا اور الٹے قدموں بھاگتے ہوئے گھر سے باہر نکلا۔ برآمدے میں پہنچتے ہی وہ بے ارادہ ہی ٹھٹھک کر رک گیا۔ لان کے بیچوں بیچ ایک کرسی پر وہ زینب ہی تھی جسے پہلے پہل وہ اپنی عجلت میں دیکھ نہ پایا تھا۔ وہ بے اختیار ہی اسکے پاس چلا آیا۔ وہ کرسی کی پشت سے ٹکی گہری نیند سورہی تھی۔ سپید رنگت میں گلابی رنگ جھلک رہا تھا، سیاہ پلکیں گالوں پر سایہ کیے ہوئے تھیں اور باریک تراشیدہ لب اک دوجے میں باہم پیوست تھے یوں جیسے وہ سوتے میں بھی سہمی ہوئی تھی۔ اسکی ستواں ناک جیسے موم کی بنی ہوئی تھی اور اس پر چمکتے پسینے کے چند قطرات۔۔۔ اسد کا بے اختیار دل چاہا کہ وہ ہاتھ بڑھا کر اس مبہوت کر دینے والے حسن کو چھو لے۔ مگر اسکی نیند میں خلل پڑنے کے خیال نے اسے روک دیا۔ وہ ملگجے سے حلیے میں بکھرے بالوں کیساتھ بار بار اسکے قدموں کو روک لیا کرتی تھی۔۔ اور وہ ہمیشہ ہی ٹھہر جاتا تھا۔۔

   0
0 Comments