Orhan

Add To collaction

گرفتم

گرفتم از قلم فضہ بتول قسط نمبر3

زینب کی نظریں اپنے ہاتھوں پر تھیں۔ اسے سمجھ نہ آرہا تھا کہ وہ اسد سے کیا باتیں کرے۔ "تمہاری کیا ہابیز ہیں؟" اسد نے کچھ ثانیے بعد پوچھا۔ "کچھ بھی نہیں۔" اسنے سادگی سے جواب دیا۔ "کتابیں پڑھتی ہو؟" "نہیں۔" "ٹی وی دیکھتی ہو؟" "کبھی کبھی جب چچی گھر پر نہیں ہوتیں۔" "ڈرامے دیکھتی ہو؟" "جو بھی لگا ہو دیکھ لیتی ہوں۔ ویسے مجھے ڈرامے اچھے لگتے ہیں۔ ہمیشہ ہر کہانی کا انجام اچھا ہوتا ہے ان میں۔" وہ مدھم سا مسکرائی۔ "رئیل لائف میں بھی انجام کار اچھا ہی ہوتا ہے۔" "رئیل لائف میں کچھ بھی اچھا نہیں ہوتا۔" اسکے لہجے میں مایوسی در آئی۔ "ایسا نہیں ہے زینب! زندگی ویسی ہی ہوتی ہے جیسا ہم اسے بناتے ہیں۔" "میں نے تو اپنی زندگی کو ایسا نہیں بنایا ، خودبخود ہی میری زندگی ایسی بن گئی۔" اس نے سادگی سے جواب دیا۔ "تمہاری زندگی ایسی اسلیے بنی کیونکہ تم نے اسے سدھارنے کیلیے کوئی ایفرٹ کرنے کی بجائے خود کو حالات اور اپنے اردگرد رہنے والے لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ہم جب تک اپنی ذات اور زندگی کی ڈور اپنے ہاتھ میں نہیں رکھتے تب تک حالات کا رخ پازیٹو نہیں ہوتا۔" اسنے سمجھانے والے انداز میں کہا۔ زینب کچھ دیر چپ چاپ اسے دیکھے گئی پھر سر کو قائل ہو جانے والے انداز میں جنبش دی۔ "اچھا یہ بتاؤ تمہیں کھانے میں کیا پسند ہے؟" اسد نے موضوع تبدیل کیا۔ "آلو مٹر۔۔" اس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ اسد ہنسنے لگا۔ "ہنسنے کی کیا بات ہے؟" اسنے کچھ برا مانتے ہوئے پوچھا۔ "بس یونہی۔۔ فاسٹ فوڈ نہیں پسند تمہیں؟" "نہیں ۔ " اس نے برا سا منہ بنایا۔ "کیوں بھئی؟" "پتہ نہیں یہ ریسٹورنٹس والے کیسے گندے طریقے سے پکاتے ہیں اس سے اچھا ہے گھر کی بنی سادہ دال روٹی کھا لی جائے۔ اور میں تو خود ہی سب کچھ بنا لیتی ہوں بہت اچھا۔" اسکے لہجے میں ہلکا سا تفاخر تھا۔ "ہممم کوکنگ تو تم واقعی اچھی کرتی ہو مگر کبھی کبھی ریسٹورنٹس کا گندا کھانا ، کھانے کا بھی اپنا مزہ ہے۔" اسنے چٹخارے لیتے ہوئے کہا۔ زینب نے کچھ کہنے کی بجائے بہت ہی برا سا منہ بنایا۔ "عنیزہ سے تمہاری بلکل دوستی نہیں ہے کیا؟" اسد نے پوچھا۔ زینب نے نفی میں سرہلادیا۔ "کیوں؟ تم دونوں تو ہم عمر بھی ہو پھر کیوں دوستی نہیں ہے؟" "اس نے کبھی میرے ساتھ دوستی نہیں کی۔" زینب نے شانے اچکائے۔ "تو تم خود اس سے دوستی کرلیتی۔" "میں کیسے کرلیتی؟ "جیسے مجھ سے کرلی۔" "آپ سے تو میں نے دوستی نہیں کی ، آپ نے خود مجھ سے دوستی کی ہے۔" "یعنی تم مجھے دوست نہیں مانتی؟" "مانتی ہوں مگر دوستی کا ہاتھ تو آپ نے بڑھایا تھا ناں۔" "ہمم یہ تو ہے۔" اسد نے سر ہلایا۔ "اچھا یہ بتاؤ تمہاری ہابیز کیا ہیں؟" "مجھے فارغ وقت بہت کم ملتا ہے اور جب بھی میں فارغ ہوتی ہوں تو بس فوراً سے سو جاتی ہوں۔" "یار کیسی بور بندی ہو تم۔ فارغ وقت میں انسان کوئی موویز دیکھتا ہے ، کتابیں پڑھتا ہے ، انٹر نیٹ سرفنگ کرتا ہے ، سوشل میڈیا یوز کرتا ہے یا پھر فرینڈز کے ساتھ ہینگ آؤٹ کرتا ہے۔" "میرے پاس ٹی وی اور موبائل نہیں ہے ، اور کتابیں بھی نہیں ہیں ،دوستیں بھی نہیں ہیں۔" اس نے ترنت جواب دیا۔ "تمہاری لائف کی بینڈ بجی ہوئی ہے لڑکی۔ چلو خیر ان دس دنوں میں، میں تمہیں بتاؤں گا کہ زندگی کو انجوائے کیسے کرتے ہیں۔" وہ مزے سے بولا۔ "چلو واک کرتے ہیں۔" اسد نے چند ثانیے بعد اٹھتے ہوئے کہا۔ زینب چپ چاپ اٹھ کھڑی ہوئی وہ دونوں روش پر ٹہلنے لگے۔ اس روز اسد نے اس سے بہت سی باتیں کی تھیں۔ اپنے متعلق اپنے دوست احباب اور روٹین کے بارے میں بہت کچھ بتایا اور پھر ایک بجے کے قریب وہ اس سے کل دوبارہ ملنے کا وعدہ لیکر اپنے گھر ہو لیا۔ زینب اپنے گھر چلی آئی۔ اس خوشگوار سی ملاقات کے بعد زینب کا موڈ سارا دن بہت اچھا رہا تھا۔

"تم خواب دیکھتی ہو؟" "دیکھتی ہوں ناں۔" "اچھا کس قسم کے خواب دیکھتی ہو تم؟" اسد نے گردن موڑ کر اسکی طرف دیکھا جو سیاہ چادر میں لپٹی برف جیسے سفید چہرے اور سبز آنکھوں میں بے تحاشا چمک لیے اسکی طرف دیکھ رہی تھی۔ اسکی آنکھوں کی چمک نے ایک لمحے کو اسد کو مبہوت کردیا تھا۔ "میں بہت اچھے اچھے خواب دیکھتی ہوں۔ بڑے بڑے پہاڑ پر سکون سی وادی جس کے دامن میں جھرنا بہتا ہو اور میرا ایک لکڑی کا چھوٹا سا ہٹ ہو۔ میں کسی شہزادی کی طرح سفید گھوڑے کی سواری کروں میرے اردگرد پیارے پیارے نظارے ہوں ، طوطے چڑیاں کبوتر ہوں مور ہوں۔۔" وہ پرجوش انداز میں آنکھیں سکیڑے بتائے گئی۔ یوں جیسے جاگتی آنکھوں سے بھی خواب کا عکس تلاش رہی ہو۔ "اور انسان کوئی نہ ہو؟" اسد نے پوچھا۔ "نہیں بس میں اکیلی۔"اس نے شدت سے نفی میں سر ہلایا۔ "انسانوں کے بغیر کیا مزہ؟" "انسانوں کیساتھ کیا مزہ؟" وہ دو بدو بولی۔ "رفاقت کی خواہش انسان کی سرشت میں ہے۔" "رفاقت کسی کی بھی ہوسکتی ہے، جانوروں کی نیچر کی۔۔ خود اپنے آپ کی۔" زینب نے شانے اچکائے۔ "بڑی فلسفی ٹائپ بندی ہو بھئی۔" اسد ہنسا۔ وہ بھی ہولے سے مسکرائی۔ "زندگی بنادیتی ہے۔" "اچھا جی۔ ویسے یہ تو بتاؤ تم ناشتہ کرکے آئی ہو یا نہیں؟" "نہیں۔" "میں بھی یار۔ اور اب تو سخت بھوک لگ رہی ہے۔ چلو ایسا کرتے ہیں ادھر روڈ کی اختتام پر ایک ڈھابہ ہے وہاں سے گرما گرم نان چنے کا ناشتہ کرتے ہیں۔" اسنے از خود پلان ترتیب دے دیا۔ "مگر میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔" زینب جلدی سے بول اٹھی۔ جواباً اسد نے اپنی جیب سے اپنا والٹ نکال کر اسکے ہاتھ میں تھمایا اور خود بینچ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ زینب کو بغیر کھولے بھی اندازہ ہو رہا تھا کہ والٹ میں کافی بڑھ رقم موجود ہے۔ وہ کچھ حیرت زدہ سی تھی۔ "چل بھی پڑو اب۔" وہ جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر اسے گھوری ڈالتا ہوا روش کی جانب مڑ گیا۔ وہ کچھ دیر ساکت بیٹھی رہی پھر والٹ اپنی مضبوط گرفت میں تھامے اٹھ کر اسکے پیچھے چل دی۔ وہ عجیب سے احساسات کا شکار تھی۔ اسد ناشتے کے دوران باتیں کرتا رہا مگر وہ بس ہوں ہاں کرتی رہی۔ ناشتے کے بعد وہ اپنے گھر چلا گیا اور وہ اپنے گھر کی جانب چل پڑی۔ اسکے ہاتھ میں اب تک اسد کا والٹ تھا جس کی واپسی کا تقاضا اسنے نہ کیا تھا ، گھر آکر اسنے اس والٹ کو اپنے کمرے میں سنبھال کر رکھ دیا۔ اس نے تہیہ کرلیا تھا کہ وہ اگلے روز اسد کو اس کا والٹ واپس کردے گی۔ کیسا دیالو تھا وہ کہ پیسوں سے بھرا والٹ اسے تھما گیا ،کیسی لاپرواہی تھی اسکے انداز میں۔۔۔ جیسے یہ پیسے نہیں ردی کاغذ کا ڈھیر ہو۔۔ اس نے چچی اور عنیزہ کو ہمیشہ ایک ایک روپے پر مرتے دیکھا تھا ، چچی تو اسے آتے دیکھ کر فوراً اپنا پرس یوں چھپا لیتی تھیں جیسے وہ کوئی چور ڈاکو ہو۔۔اسد کا یہ انداز اسکے لیے حیران کن تھا۔


"تمہارا والٹ۔۔" زینب نے والٹ اسد کی جانب بڑھایا۔ "مگر یہ تو اب تمہارا ہے۔" اس نے نرم سی مسکراہٹ اس کی جانب اچھالی۔ زینب نے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ نمکین سے نقوش کا حامل ایک الٹرا ماڈرن نوجوان تھا۔ سیاہ لیدر جیکٹ میں خاصا جچ رہا تھا۔ سیاہ ہلکے خمدار بال کچھ بے مرمت سے تھے اور وہ باتیں کرتے ہوئے بار بار انہیں انگلیوں سے سنوارنے کی کوشش میں مزید بگاڑ دیتا تھا۔ "مگر یہ آپ کا۔۔۔" "پھر آپ۔۔" اس نے تندی سے اس کی بات کاٹی۔ زینب نے اپنی زبان دانتوں تلے دبائی "سوری تم۔۔ یہ والٹ تمہارا ہے۔" "جی نہیں یہ تمہارا ہے میں کسی کو بھی کوئی چیز دے کر واپس نہیں لیتا۔" اسنے منہ بنایا۔ "عجیب ہو تم۔۔ میں اسکا کیا کروں گی بھلا۔" وہ کچھ جھنجھلائی۔ "اچار ڈالنا۔" اسکے منہ کے زاویے مزید بگڑے۔ زینب مسکرائی۔ "ناشتہ نہیں کرواؤ گے آج؟" اس نے شرارتی انداز میں پوچھا۔ اسد نے گردن موڑ کر اسکی طرف دیکھا، اسکی آنکھوں میں خفگی تھی۔ "چلو مرو۔۔" بینچ سے اٹھتے ہوئے بھی اسکا منہ بنا ہوا تھا۔ وہ محظوظ ہوئی۔ روش پر اس سے ایک قدم پیچھے چلتے ہوئے وہ مسلسل مسکرا رہی تھی۔ اسی وقت پیچھے سے کوئی تیزی سے دوڑتے ہوئے اس سے ٹکرایا اور وہ جو اپنے دھیان میں گم چل رہی تھی منہ کے بل زمین بوس ہوگئی۔ اسکے منہ سے بے اختیار چیخ نکلی تھی اور اسد رک کر مڑا۔ "اوہ زینب ۔۔۔" اسنے جھپٹ کر اسے زمین سے اٹھایا اور پھر بھاگ کر اس بندے کو پکڑ لیا جو جاگنگ کے دوران اپنی اس حرکت سے بہت محظوظ ہوا تھا۔ اسد نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اس پر مکے برسانے شروع کر دیئے۔ سامنے والا پہلے تو بوکھلایا پھر وہ بھی مکمل فارم میں آگیا۔ اب صورتحال کچھ یوں تھی کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو جی بھر کر رگید رہے تھے اور پارک میں موجود اکا دکا لوگ اس سین سے محظوظ ہورہے تھے۔ زینب اپنی چوٹوں پر دھیان دینے کی بجائے ان دونوں کو ہونقوں کی طرح دیکھ رہی تھی، وہ فطرتا لڑائی جھگڑوں سے بہت گھبرانے والی دبو سی لڑکی تھی۔ اس قدر بے ہنگم لڑائی کو دیکھنے کا اتفاق بھی اسے پہلی بار ہوا تھا اور اس پر ستم یہ کہ اس لڑائی کی وجہ وہ خود تھی۔ اسکے پاؤں کانپنے لگے، دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔۔ کچھ دیر بعد مجمعے میں سے ایک قوی ہیکل آدمی آگے بڑھا اور اسنے بیچ بچاؤ کروایا۔ زینب کو دھکا دینے والا گالیاں بکتا چلا گیا ، اسد بھی بکتا جھکتا زینب کے پاس آیا۔ "تم پاگل ہو۔۔ ایسے کوئی لڑتا ہے کیا۔" وہ ڈرے ہوئے انداز میں بولی۔ اسد نے بغور اسکے چہرے کی طرف دیکھا۔ اسکی ٹھوڑی پر خون کے چند قطرات نظر آرہے تھے اور آنکھوں میں آنسو تھے۔ "اس نے تمہیں جان بوجھ کر دھکا دیا تھا۔ بلڈی ایڈیٹ۔" اسد نے دانت پیسے۔ زینب کی پہلے ہی گھبراہٹ کے مارے بری حالت تھی وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر رونے لگی۔

   0
0 Comments