Orhan

Add To collaction

گرفتم

گرفتم از قلم فضہ بتول قسط نمبر4

"زینب ۔۔۔" وہ پریشان ہوگیا۔ "یار پلیز مت روؤ۔ اچھا آئم سوری۔ پلیز یار پلیز۔۔" وہ جیسے منتوں پر اتر آیا تھا۔ زینب گرد و پیش سے بے خبر گریہ و زاری میں مشغول تھی۔ اسد کو اور کچھ نہ سوجھا تو اسے بازو سے تھامے پارک سے باہر لے آیا وہ مسلسل روئے چلے جارہی تھی۔ اسد نے اپنی گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولا وہ سوں سوں کرتے ہوئے اندر بیٹھ گئی۔ وہ خود ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ کرکے آگے بڑھا دی۔ جب زینب اچھی طرح رو چکی تو اس نے ایک قدرے سنسان سڑک کے کنارے گاڑی روک دی۔ "ہوگیا تمہارا رونے کا شغل پورا؟" اس نے اوپری ہونٹ بھینچ کر نہایت خشک لہجے میں پوچھا۔ وہ کچھ نہ بولی۔ "قیامت آگئی تھی کیا جو یوں چھم چھم آنسو برسنے لگے گئے تھے تمہارے سٹوپڈ۔ پبلک مقامات پر اس قسم کی اوور جذباتیت کا مظاہرہ کتنا آکورڈ لگتا ہے۔" وہ اسے لیکچر پلا رہا تھا اور وہ مسلسل سوں سوں کر رہی تھی۔ اسد نے اسکی طرف دیکھا۔ اسکے چہرے کی رنگت میں گلابی پن دوڑ گیا تھا اور سبز آنکھیں نہایت حسین نظر آرہی تھیں۔ ٹھوڑی پر جما خون اسکے چہرے کو مزید حسین بنارہا تھا۔ "اچھا سنو! یہ لو، تمہاری ٹھوڑی پر چوٹ لگی ہے خوں نکل رہا ہے۔" اس نے کچھ نرم لہجہ اختیار کرتے ہوئے ٹشو اسکی طرف بڑھایا، زینب نے کچھ کہے بغیر ٹشو تھام کر ٹھوڑی پر رکھ لیا۔ اسد نے گاڑی پھر سے سٹارٹ کی اور اسے گھر ڈراپ کرکے خود یونہی سڑکیں ناپنے لگا۔ گاڑی میں جیسے اب تک زینب کی موجودگی کا احساس زندہ تھا۔ اسے بار بار یوں لگتا جیسے وہ اسکے برابر والی سیٹ پر بیٹھی بچوں کی طرح روتے ہوئے ہتھیلیوں کی پشت سے گال رگڑ رہی ہے۔۔ اسکی سبز آنکھوں میں تیرتی نمی، سفید گالوں پر رستہ بناتے آنسو، ناک کی گلابی ہوتی نوک، اور ٹھوڑی کا زخم۔۔۔ سحر تھا کشش تھی فسوں تھا اچھوتے جذبات اور انوکھے سے احساسات کی یلغار تھی۔۔۔ کیسی نغمگی تھی ان جذبات میں، شوریدہ سری تھی، سکون تھا، بے سکونی تھی، چبھن تھی، گداز تھا۔۔۔ مگر جو بھی تھا۔۔ اب تو بس ۔۔۔۔۔ یہی تھا۔


وہ دونوں ایک بڑے سے درخت کے تنے سے ٹیک لگائے گھاس پر بیٹھے ہوئے تھے ، گزشتہ روز اسد نے اسے بتایا تھا کہ اب سے وہ دونوں دوپہر میں ملا کریں گے کیونکہ صبح میں بہت سردی ہوتی ہے۔ سو اب وہ دوپہر کے وقت پارک میں بیٹھے نرم سی دھوپ سے لطف اندوز ہورہے تھے ، انکے سامنے ایک شاپنگ بیگ رکھا ہوا تھا جس پر کسی مشہور شاپنگ مال کا نام جلی حروف میں درج تھا اور زینب اس میں سے چیزیں نکال نکال کر گھاس پر ڈھیر کرتی جارہی تھی۔ اسد یہ سب چیزیں اسکے لیے لایا تھا۔ ایک نازک سی کلائی گھڑی، ایک بریسلٹ، ائیر رنگز اور دو چھوٹے چھوٹے سے سرخ رنگ کے بھالو جن کے ہاتھوں میں پکڑے ننھے سے دل پر best friend لکھا ہوا تھا۔ زینب دلچسپی سے ایک ایک چیز دیکھ رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ کمنٹ بھی کررہی تھی جبکہ اسد دور کسی غیر مرئی نقطے پر نظر جمائے بالکل خاموش تھا۔ رسٹ واچ الٹنے پلٹنے کے بعد اس نے وفور شوق سے بیگ سے اگلی چیز نکالی۔ وہ ایک چھوٹا سا دھاگوں کی مدد سے بنایا گیا دل تھا۔ زینب نے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا۔ "یہ کیا ہے؟" اس نے اسد سے پوچھا۔ "یہ۔۔" اسد نے اسکے چہرے پر نظریں جمائیں۔ "یہ میرا دل ہے۔۔۔ گرفتم عشق۔۔۔ " "گرفتم عشق۔۔" زینب نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں اسکے چہرے پر گاڑیں۔۔ "ہاں گرفتم عشق۔۔۔" اسد کی غیر متحرک آنکھیں زینب کی حیران آنکھوں کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھیں۔ "کیا مطلب؟" اسنے پلکیں جھپکیں۔۔ فسوں ٹوٹا تھا۔ "مطلب عشق میں گرفتار۔۔" اسنے جلدی سے بتایا۔ وہ بے اختیار منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگی۔ "تو تم عشق میں گرفتار ہو؟" "ہاں ناں!" اسنے سنجیدگی سے گردن ہلائی۔ "کون ہے وہ؟" زینب نے آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔ "ہے ایک پری۔۔۔" وہ اب دیوار سے ٹیک لگائے سامنے دیکھنے لگ گیا تھا۔ "پری۔۔ وہ جو پرستان سے آتی ہے؟" "ہاں وہی پرستان والی پری۔۔" "ہائے سچی مجھے بھی بڑا شوق ہے پری دیکھنے کا۔ تم ملے ہو پری سے؟" وہ پرجوش ہوگئی۔ "ہاں روز ملتا ہوں۔" وہ اسکی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ "روز۔۔ وہ تم سے خود ملنے آتی ہے؟" "نہیں میں جاتا ہوں روز اس سے ملنے۔۔۔" وہ دھیما سا تبسم ہونٹوں میں دبائے ہوئے تھا۔ "بہت خوبصورت ہوگی ناں وہ تو؟" "بے حد۔۔۔" "اچھا اور بتاؤ ناں اسکے بارے میں کیسی ہے وہ؟" وہ ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ جما کر دلچسپی سے پوچھنے لگی۔ "ہاہ۔۔۔ دودھیا رنگت۔۔ لمبے ریشمی بال۔۔ مخروطی ہاتھ۔۔۔ سنڈریلا جیسے پاؤں۔۔۔" اس نے خواب آگیں لہجے میں کہتے کہتے رخ اسکی طرف موڑا۔ وہ نہایت دلچسپی سے سن رہی تھی۔ ہونٹ بھنچے ہوئے تھے اور سبز آنکھوں میں چمک تھی۔ "بھرے بھرے گلابی ہونٹ اور سبز آنکھیں۔" اسنے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بات مکمل کی۔ "سبز آنکھیں کتنی پیاری ہوتی ہے ناں۔" وہ مسکرائی۔ "بہت۔۔" "لیکن تم پری سے شادی کیسے کروگے۔" اسے نئی فکر لاحق ہوگئی۔ "ایسا کرو اسے کہو تم کو اپنے ساتھ پرستان لیجائے اور تمہیں اپنا 'پرا' بنالے۔" اسنے عقلمندانہ انداز میں کہتے ہوئے حل پیش کیا۔ "پرا کیا؟" اسنے حیرت سے شانے اچکائے۔ "پری کا مذکر پرا ہی ہوگا ناں۔" اسنے مدھم آواز میں جواب دیا۔ اسد بے اختیار ہنسنے لگا۔ "ارے تم ہنس کیوں رہے ہو۔ اچھا بتاؤ پری کا کوئی نام بھی ہے؟" اسکو بے حد دلچسپی ہو چلی تھی پری کے تذکرے سے۔ "ہاں ہے ناں۔" اسد نے گردن ہلائی۔ "کیا نام ہے اسکا؟" "اسکا نام۔۔۔" اسد نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے اسکی آنکھوں میں جھانکا۔ "زینب۔۔۔" مدھم سی آواز میں اپنی بات مکمل کرکے وہ سرعت سے اٹھا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا روش پر چلتا ہوا دم بہ دم اسکی نظروں سے دور ہوگیا تھا۔ زینب نجانے کتنی ہی دیر اسکے کہے لفظوں کے فسوں میں گھری رہی تھی۔ گھر آکر وہ بے اختیار ہی آئینے کے سامنے جارکی۔ "دودھیا رنگت۔۔ لمبے ریشمی بال۔۔ مخروطی ہاتھ۔۔۔ سنڈریلا جیسے پاؤں۔۔۔ بھرے بھرے گلابی ہونٹ اور سبز آنکھیں۔" اسد کی آواز اسکے تعاقب میں تھی اور وہ خواب کے عالم میں اپنے چہرے کے ایک ایک نقش کو چھو رہی تھی۔۔ اس کا دل بے اختیار جھوم اٹھا تھا۔۔ گرفتم۔۔ عشق۔۔ وہ بڑبڑائی۔۔ عشق۔۔۔ اس نے سرشاری سے پلکیں موندیں۔۔ پھر دونوں بازو دائیں بائیں پھیلا کر گھوم سی گئی۔


"میرا دل چاہتا ہے کہ کسی دور دراز علاقے میں پہاڑوں کے دامن میں جھرنے کے کنارے میرا ایک لکڑی کا ہٹ ہو، اس ہٹ کے اس پاس قدرت کے حسین مناظر بکھرے ہوں، وہاں طوطے ہوں، مور ہوں چڑیاں ہوں۔۔ ایک سفید گھوڑا ہو جس پر تم کسی ملکہ کی طرح سواری کرو اور میں باگ تھامے پیدل چلوں۔۔" وہ درخت کے تنے سے ٹیک لگائے مدھم لہجے میں بول رہا تھا۔ "میں ملکہ کب سے ہوگئی۔۔ ایسی کنگلی نہیں ہوتی ملکہ۔" "اوں ہوں۔۔ میں کہہ رہا ہوں ناں ، مان لو بس ۔۔" "کیسے مان لوں بھلا اور تم باگ تھام کر پیدل کیوں چلو گے تم کوئی غلام ہو کیا۔" "ہاں ہر انسان اس شخص کا غلام ہوتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ اور بکواس بند کردو میرا رومان کرکرا مت کرو۔" وہ رو میں بولتا چلا گیا۔ زینب نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔ "جھرنے کے کنارے بیٹھ کر تم اپنے پاؤں پانی میں اتارو تو پانی میں سنہرا سا غرور اتر آئے اور میں۔۔ گلاب کا سرخ مہکتا پھول تمہارے کھلے بالوں میں سجا دوں۔۔" وہ اسکی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔۔ وہ اسکی طرف بہت کم دیکھتا تھا۔ "پانی میں سنہرا غرور کیسے آتا ہے؟" زینب کی زبان میں کھجلی ہوئی۔ "تم نے کبھی بہتے پانی میں اپنے پاؤں اتارے ہیں؟" اسنے اسکی طرف دیکھ کر پوچھا زینب نے نفی میں سر ہلایا۔۔ "کبھی اتارنا۔۔ خود ہی جان جاؤ گی۔" بہت سنجیدہ لہجے میں کہہ کر اس نے اپنا فون اٹھا کر اسکی اسکرین پر نظریں جما دیں۔ زینب نے کندھے اچکائے اور ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ "زینب۔۔ میں تمہاری ایک تصویر لے لوں؟" اسد نے اسے مخاطب کیا۔ زینب نے اسکی طرف دیکھا وہ ابھی بھی بے حد سنجیدہ نظر آرہا تھا۔ "صرف ایک۔ ۔ ۔ گھر جاکر جب تمہاری یاد آئے گی تو دیکھ لیا کروں گا۔" "تمہیں مجھ سے محبت ہے ناں؟" زینب نے پوچھا۔ "عشق ہے۔۔۔" "اور جس سے عشق ہوتا ہے اسکا چہرہ دل پر بنا ہوتا ہے ناں؟" "ہاں۔۔ بند پلکوں سے نظر آنے والا چہرہ عشق کا ہی تو ہوتا ہے۔" "تو جب جب میری یاد آئے آنکھیں بند کرکے دیکھ لینا۔" نرم لہجے میں کہہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسد ہولے سے مسکرایا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ "آئی لو یو یار ۔۔۔" وہ بے اختیار بولا تھا۔۔ "مجھے پتہ ہے۔" وہ شانے اچکا کر تفاخر سے بولی اور مڑ کر روش پر چلنے لگی۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا تھا۔


"کل چچی لوگ واپس آرہے ہیں۔" زینب نے اسے بتایا۔ "جانتا ہوں۔" وہ سر جھکائے گھاس نوچ رہا تھا۔ "اسد۔۔۔" "ہممم۔۔" "بس یہی کہنا ہے تمہیں؟" "ہممم۔۔" "کیا ہمم۔۔" وہ جھنجھلائی۔ "انہیں واپس تو آنا ہی تھا یار یہ کوئی انہونی تو نہیں ہے۔" اس نے اکھڑے سے لہجے میں کہا۔ وہ بجھ سی گئی۔ "اے۔۔ زینب۔۔ اداس مت ہو۔۔ میں روز تم سے ملنے آؤں گا۔ فون بھی کروں گا۔" اسنے اسکی جانب رخ پھیرا۔ زینب کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی۔ "فون کیسے؟" "یہ لو یہ موبائل سنبھال کر رکھنا چھپا کر بالکل رات میں بات کیا کریں گے۔ اسمیں جو سم میرے نام پر ہے اور پوسٹ پیڈ ہے بل میں جمع کروایا کروں گا ہر منتھ۔" اس نے ایک نیا نکور لش لش کرتا موبائل جیکٹ کی جیب سے نکال کر اسکی جانب بڑھایا تھا۔ زینب نے ہچکچاتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔ "یار پلیز پکڑو اسے۔ اتنا مت ڈرا کرو لوگوں سے۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ممی آجائیں تو میں انہیں تمہارا ہاتھ مانگنے بھیجوں گا۔ ویسے تو میرا پڑھائی مکمل کرنے کے بعد سیٹل ہوکر شادی کا ارادہ تھا مگر اب میری پہلی ترجیح تمہیں ایک اچھی اور پرسکون زندگی مہیا کرنا ہے سو ہم انشاء اللہ جلد شادی کرلیں گے۔ بس ممی کے آنے کا انتظار ہے مجھے۔" اسنے فون اسکے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔ "اسد تم نہ ہوتے میں زندہ کیسے رہتی۔" اسکا لہجہ بھرا گیا۔ "میں کیوں نہ ہوتا۔۔ جہاں تم ہو وہاں میں نہ ہوں یہ کیسے ممکن ہے میری جان۔" اس نے نرمی سے اسکا سر تھپتھپایا تھا۔ "اسد ۔۔" وہ رو پڑی تھی۔۔ "پتہ نہیں تمہارا ان آنسوؤں سے رشتہ زیادہ گہرا ہے یا مجھ سے ۔۔۔" وہ گہری سانس بھر کر بولا۔ "میں جان بوجھ کر نہیں روتی اسد ، آنسو خودبخود آتے ہیں۔" "ایک بار ہماری شادی ہوجائے، میں تمہاری آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں آنے دوں گا۔" "مجھے تمہاری ہر بات پر یقین ہے اسد۔" وہ روتے روتے مسکرائی۔ "اس یقین کو ہمیشہ قائم رکھنا۔" اس کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر اسنے اسے اپنی رفاقت کا احساس دلایا تھا۔ زینب کا دل پرسکون ہونے لگا۔ "چلو اب گھر چلیں۔ کافی دیر ہوگئی ہے۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ بھی آنسو صاف کرتی اٹھی۔ دس دن پہلے وہ دوست بنے تھے اور دس دن بعد وہ گرفتم عشق ہو کر واپس جارہے تھے۔۔ روش پر ساتھ ساتھ چلتے ہوئے وہ دونوں ایک ہی بات سوچے جارہے تھے اور مسکراہٹ انکے ہونٹوں کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔

   0
0 Comments