Orhan

Add To collaction

گرفتم

گرفتم از قلم فضہ بتول قسط نمبر5

"اے زندگی!" اسکرین پر چمکتے لفظ اسے سرشار کر گئے تھے۔ "جی۔" اسنے ٹائپ کیا۔ "کیسی ہو؟" "ٹھیک ہوں۔ تم کیسے ہو؟" "ویسا ہی ہوں ہینڈسم ۔۔" اسکا میسیج پڑھ کر وہ مسکرا دی۔ "اسمیں تو کوئی شک نہیں۔" "تم اتنا لیٹ ریپلائے کیوں کرتی ہو یار۔۔۔" "مجھے موبائل استعمال کرنا آتا ہی نہیں اتنی مشکل سے تو لکھ رہی ہوں میسیج۔" اس نے جوابی میسیج ٹائپ کرنے میں بھی کافی ٹائم لگایا تھا۔ جواباً اسد نے اسے کال کرلی۔ اس نے ڈرتے ڈرتے فون کان سے لگایا۔ "ہے۔۔ ہیلو۔۔" اسکی آواز نہایت مدھم تھی۔ "نکمی لڑکی دو جملے ٹائپ کرنے میں مہینہ لگا دیتی ہو۔" وہ فریش لہجے میں بولا۔ "مجھے نہیں عادت۔" اس نے جواب دیا۔ آواز ہنوز بہت مدھم تھی۔ "پگلی۔۔ اچھا یہ بتاؤ آج تم نے کیا پکایا تھا؟" "بریانی اور کوفتے۔" "میرے منہ میں پانی آرہا ہے، قسم سے بہت بھوک لگی ہوئی ہے۔" "تم نے کھانا نہیں کھایا؟" "نہیں یار ٹائم ہی نہیں ملا یونی میں بہت دیر ہوگئی تھی پھر وہاں سے سیدھا جم چلا گیا ادھر سے کچھ دوستوں نے گھیر لیا ابھی گھر پہنچا ہوں۔" "تو اب کچھ کھا لو۔" "ہاں آرڈر بک کروا دیا ہے کچھ دیر تک مل جائے گا کھانا۔" "پھر باہر سے گندی چیزیں منگوا کر کھاؤ گے۔" زینب کے لہجے میں ناگواری تھی۔ "تو اور کیا کروں خود مجھے کوکنگ آتی نہیں، کک اپنے کوارٹر میں سورہا ہوگا اور میرے گھر میں کوئی زینب تو ہے نہیں جو جھٹ پٹ کھانا تیار کرکے میز بھر دے۔" وہ ہولے سے ہنسا تھا۔ "تو ادھر آجاتے ڈنر کیلیے۔" "کل آؤں گا۔ دو دن سے تمہیں دیکھا نہیں سچ میں دل بہت اداس ہے۔" "ٹھیک ہے میں انتظار کروں گی۔" وہ خوش ہوگئی۔ "انتظار جان لیوا بننے سے پہلے آجاؤں گا۔" اسکی آواز مدھم ہوئی تھی۔ زینب کی پلکیں نجانے کیوں بھیگنے لگیں۔ "اے زینب آنسو نہیں۔" اسکے لہجے میں تنبیہہ تھی۔ اسنے میکانکی انداز میں اپنی پلکوں کو ہتھیلی کی پشت سے رگڑا۔ "ممی ایک کانفرنس اٹینڈ کرنے چلی گئی ہیں کچھ دنوں تک واپس آئیں گی پھر میں ان سے بات کروں گا۔ پتہ ہے زینب میں نے تو ہماری شادی کی سب تیاریوں کے متعلق سوچ لیا ہے، تمہارے لیے ویڈنگ ڈریس بھی پسند کرلیا ہے۔" وہ پرجوش انداز میں اسے بتا رہا تھا۔ "اچھا کیسا ہے ڈریس؟" اس نے پر اشتیاق لہجے میں پوچھا۔ "ڈیپ ریڈ۔۔ جسے پہن کر تم سچ مچ کی پری لگو گی۔۔" "اور تم کیا پہنوگے؟" "یہ تو تم ڈیسائیڈ کرو گی۔ تمہارا ڈریس میری پسند کا اور میرا ڈریس تمہاری پسند کا۔" "مگر مجھے کیا پتہ کہ تمہیں کیا پسند ہے۔" "مجھے تو تم پسند ہو زینب۔۔" "اور مجھے تم۔" وہ سرشاری سے بولی۔ "میرا آرڈر آگیا ہے رکنا میں ریسیو کرکے آتا ہوں۔" وہ اسے ہولڈ کروا کے چلا گیا۔ زینب فون کان سے لگائے بیٹھی رہی۔ چند منٹ بعد وہ لوٹ آیا تھا۔ "واؤ کیا زبردست خوشبو ہے۔" چٹخارے لیتے ہوئے وہ مسلسل منہ چلا رہا تھا۔ "کیا کھا رہے ہو؟" "لزانیہ۔" "مجھے بنانا آتا ہے۔ اور سب ریسٹورنٹس سے زیادہ اچھا بناتی ہوں۔" وہ منہ بنا کر بولی۔ "تم باورچن ہو منحوس کہیں کی۔" "تم خود ہو منحوس۔" "تم جیسا ہوں ناں۔" "جی نہیں۔" "جی ہاں۔" "میں فون بند کرنے لگی ہوں میں نے فجر کے وقت جاگنا بھی ہوتا ہے۔" "اوکے سوجاؤ۔ کل ملیں گے۔" "ٹھیک ہے۔ تم بھی سوجاؤ۔" "ہاں بہت تھکا ہوا ہوں یار بس یہ کھا کر سوؤں گا۔ تم اپنا خیال رکھنا۔ کل ملاقات ہوگی۔" "اللہ حافظ۔" "اللہ حافظ۔" سلسلہ منقطع کرکے وہ بستر پر لیٹ گئی اور اسد کے متعلق سوچتے ہوئے گہری نیند سوگئی۔


"زینب او زینب کدھر مر گئی ہے۔" سجیلہ کی تیز آواز پر اس نے چونک کر جلدی سے برنر بند کیا اور پتیلی کو ڈھک کر تیزی سے کچن سے نکل کر لاونج میں آئی جہاں وہ اپنی مخصوص کرسی پر براجمان تھیں۔ "جی چچی؟" "عنیزہ کا دوست اسد ڈنر پر آرہا ہے، لہذا کھانا جلدی تیار کرو۔" انہوں نے گردن اکڑائے حکم صادر کیا۔ زینب کا دل مسرتوں کی زد میں تھا اسد کے لیے تو وہ بہت دل لگا کر کھانا تیار کر رہی تھی۔ "جی کھانا تقریباً تیار ہے۔" اس نے سر جھکائے جواب دیا۔ "جاؤ۔" انہوں نے ہاتھ ہلایا۔ وہ لاونج سے نکل کر جلدی سے گھر کے پچھلے حصے پر آئی اور اپنے کمرے میں آکر اچھے دروازہ بند کرکے بستر کے گدے کے نیچے سے موبائل نکالا۔ کچھ سوچ کر اس نے اسد کے نمبر پر کال ملا دی۔


"تم نے مجھے مس تو کیا ہوگا اسد۔" عنیزہ اسکے سر پر سوار تھی۔ وہ دونوں یونی کے ایک لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آج کل وہ سب کلاسز کے بعد یونیورسٹی میں ہی رک کر گروپ اسٹڈی کرتے تھے اسلیے اکثر شام یونیورسٹی میں ہی ہوجاتی تھی۔ "بالکل بھی نہیں۔ میں نے یہ دس دن بہت اچھے گزارے۔" اس نے صاف گوئی سے کہا۔ "میں نے تو تمہیں بہت مس کیا۔" وہ لگاوٹ سے بولی۔ تبھی اسد کا فون بجنے لگا اسنے جیب سے موبائل نکالا اور اسکرین پر "لائف لائن" کالنگ دیکھ کر وہ عنیزہ سے معذرت کرتا اٹھ کر قدرے فاصلے پر جا کھڑا ہوا۔ کال ریسیو کرکے اس نے فون کان سے لگایا۔ "جی جناب؟" "کدھر ہو؟" "یونی میں ہوں اور تمہاری کزن مجھ سے فلرٹ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔" وہ ہنستے ہوئے بولا۔ "اسد۔۔" زینب کی آواز میں خدشے جاگے۔ "ارے پگلی وہ صرف میری دوست ہے۔ مجھ پر یقین کرنا چاہیے تمہیں۔" وہ اسکی کیفیت بھانپ کر جلدی سے بولا۔ "تم آؤگے؟" "ہاں جان آؤں گا۔" "کب؟" "بس دس منٹ تک نکلوں گا یونی سے۔" "عنیزہ تمہارے ساتھ آئے گی؟" "نہیں وہ اپنی گاڑی میں ،میں اپنی گاڑی میں۔ ویسے اگر ساتھ بھی آئے تو کیا فرق پڑتا ہے زینب؟" وہ سنجیدہ ہوا۔ "جلدی آجانا۔۔" "زینب میری بات سنو۔۔ تم خدشے جھٹک کر یقین کرلو کہ میں تمہارے ساتھ پر خلوص ہوں۔" اسکے لہجے میں اصرار تھا۔ "یقین ہے۔ بس ڈر لگتا ہے۔" "میں تمہارا منہ توڑ دوں گا۔۔ ڈر کی رشتے دار۔" "اچھا بس میں فون بند کررہی ہوں اب۔ چچی کو اگر پتہ چل گیا ناں کہ میں یہاں ہوں تو وہ میرا گلا دبا دیں گی۔" "مجال ہے کسی کی کہ تمہارا گلا دبائے۔ اور تمہاری چچی تو ویسے ہی پوری جادوگرنی لگتی ہیں ، ہر وقت اتنا میک اپ کرتی ہیں۔" "اچھا ناں اللہ حافظ۔" وہ جلدی سے کہتی کال بند کرگئی۔ اسد نے موبائل کان سے ہٹایا اور گنگناتا ہوا عنیزہ کی طرف چلا آیا جو مشکوک سی نظروں سے اسکی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔ "ہوگئی باتیں تو گھر چلیں۔" اس کا لہجہ اچھا نہیں تھا۔ "یس چلو۔" اس نے اپنا بیگ اٹھا کر شانے سے لٹکایا اور گنگناتے ہوئے روش پر مڑ گیا۔ عنیزہ مشکوک نظروں سے اسکی پشت کو گھورتے ہوئے اپنی کتابیں اٹھا کر بیگ میں ڈالنے لگی۔

   0
0 Comments