Orhan

Add To collaction

گرفتم

گرفتم از قلم فضہ بتول قسط نمبر6

کھانے کی میز پر عنیزہ اور سجیلہ اسکا دماغ کھا رہی تھیں اور وہ بظاہر مسکراتے ہوئے بہت غور سے ان کی باتیں سن رہا تھا مگر اسکی نظریں زینب کو ڈھونڈ رہی تھیں جو ایک بار بھی اسکے سامنے نہ آئی تھی۔ وہ بہت بے چین ہو رہا تھا۔ قریب تھا کہ وہ کوئی بہانہ کرکے زینب کے متعلق دریافت کرتا وہ خود ہی چلی آئی۔ سبز رنگ کے کاٹن کے پرانے سے سوٹ پر سیاہ چادر اوڑھے ہاتھوں میں کوئی ڈونگا پکڑے۔ اسد نے اسکی طرف دیکھا اور اسکے دل میں جیسے پھول کھلنے لگے۔ زینب نے ڈونگا لاکر میز پر رکھا اور ایک نظر اسد کی طرف دیکھ کر واپس کیلیے پلٹی۔ اسد نے سجیلہ کی طرف دیکھا جو اسے نیو ائیر پارٹی کے قصے سنارہی تھیں اور عنیزہ جو انہماک سے کھانا کھانے میں مشغول تھی، اس نے سالن کا ڈونگا اٹھایا اور دیدہ و دانستہ خود پر گرا لیا۔ "اوہ! دھیان سے بیٹا۔۔"سجیلہ مصنوعی پریشانی سے بولی۔ زینب رک کر پلٹی۔ عنیزہ بھی کھانا روک کر اسد کی طرف دیکھنے لگی تھی جس کے بے داغ سفید سویٹر پر سالن کا بڑا سا دھبہ بڑا واضح اور بدنما لگ رہا تھا۔ "یہ لو اسد۔۔" عنیزہ نے ٹشو کا ڈبہ اس کی طرف بڑھایا۔ "اس سے کیا ہوگا یار میں دھو لیتا ہوں اسے واش روم کدھر ہیں؟" وہ اپنی نشست سے اٹھ کر بولا۔ "ارے تم کیوں دھوؤگے، زینب کو دو یہ دھو دے گی۔ زینب " سجیلہ نے نرم لہجے میں کہتے ہوئے کڑی نظروں سے زینب کو گھورا وہ جلدی سے آگے بڑھی۔ "نہیں نہیں آنٹی اٹس اوکے۔ میں ۔۔۔ میں بس گھر چلتا ہوں۔" وہ ہچکچایا۔ "نہیں بیٹا کھانا کھائے بغیر تو آپ نہیں جاسکتے۔ آپ سویٹر زینب کو دے دو یہ ابھی دھو کر سکھا کر لے آئے گی۔" سجیلہ کے لہجے میں اس وقت شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں۔ "ہاں اسد ممی ٹھیک کہہ رہی ہیں۔" عنیزہ بولی۔ "اچھا وہ میں نے ہاتھ بھی دھونے ہیں۔" اس نے رک رک کر کہا۔ دائیں ہاتھ پر بھی سالن گرا تھا۔ "ہاں ہاں زینب جاؤ اسد کو باتھ روم دکھا دو اور اسکا سویٹر اچھی طرح دھو کر سکھا کے اسے واپس دینا۔" سجیلہ نے اسے پھر گھورا وہ کچھ نہ بولی بس اسد کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور وہ فوراً اسکی طرف متوجہ ہوگیا۔ وہ دونوں آگے پیچھے چلتے ڈائننگ روم سے باہر آئے ، وہ اسے گیسٹ روم سے ملحق باتھ روم میں لے آئی۔ اسد نے سویٹر اتار کر اسکے حوالے کیا اور خود ہاتھ دھونے چلا گیا۔ وہ ہاتھ دھو کر آیا تو بھی اسے اسی پوزیشن میں کھڑے دیکھا۔ "اے کیا ہوا؟" اس نے اپنے ٹھنڈے ہاتھ اسکے گالوں سے لگائے تھے زینب نے جھرجھری سی لی۔ "تم نے جان بوجھ کر سالن گرایا ہے ناں اپنے کپڑوں پر؟" "ہاں ناں۔" "بری بات ہے اسد۔" "محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔" "یہ صرف بکواس ہے ورنہ جنگ اور محبت کے بھی اصول ہوتے ہیں۔" زینب نے ناک چڑھائی۔ اسد نے اسے شانوں سے تھام کر جھنجھوڑا۔ "اسد کیا تکلیف ہے تمہیں جاؤ اب۔" وہ بدمزہ ہوئی۔ اسد کا موڈ بہت خوشگوار تھا۔ "کہاں جاؤں؟" "ڈائننگ روم میں ورنہ دو منٹ بعد عنیزہ آ جائے گی تمہیں ڈھونڈتے ہوئے۔" اس نے خدشات سے پر آواز میں کہا۔ "تو آنے دو۔" وہ مزے سے بولا۔ "اسد پلیز جاؤ۔" وہ روہانسی ہوگئی۔ "نہیں جاتا۔" وہ سینے پر دونوں بازو لپیٹ کر قطیعت سے بولا۔ "ٹھیک ہے تو پھر میں چلی جاتی ہوں۔" وہ پلٹی۔ "زینب۔۔ سنو تو۔" وہ جھپٹ کر اس کی راہ میں حائل ہوگیا۔ "اسد پلیز اگر کسی نے دیکھ لیا تو تمہیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن چچی مجھے گھر سے نکال دیں گی۔" "تو نکال دیں، میں تمہیں اپنے گھر لے جاؤں گا اپنے ساتھ۔" وہ مزے سے بولا۔ "دفع ہو جاؤ۔" وہ شدید جھنجھلاہٹ سے بولتی ہوئی تیز قدموں سے چلتی کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔ وہ مسکراتا ہوا ڈائننگ روم میں واپس آیا اور پھر کھانا کھا کر وہ فورا ہی واپسی کیلیے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اپنے سویٹر کی واپسی کا انتظار بھی نہ کیا تھا کہ وہ اگلے دن پھر آنے کا کوئی جواز رکھنا چاہتا تھا۔ اسی روز اس نے رات کے وقت زینب کو کال کی تھی۔ "تم اپنا سویٹر بھی نہیں لیکر گئے۔" "کل لے جاؤں گا۔" "کب آؤگے ؟" "صبح یا پھر شام میں۔" "ٹھیک ہے، میں تمہارے لیے لزانیہ بنا کر رکھوں گی۔" "کیوں اتنی محنت کرو گی یار۔ میں تو تمہیں دیکھ کر ہی خوش اور پرسکون ہوجاتا ہوں۔" "مگر تمہیں لزانیہ پسند ہے ناں۔" "سب سے زیادہ تو مجھے تم پسند ہو۔" "اسد میں کھانے کی چیزوں کی بات کررہی ہوں۔" "ہاں تو میرا دل چاہتا ہے تمہیں بھون کر کھاؤں ویسے میں نے سنا ہے انسانی گوشت بڑا لذیذ ہوتا ہے۔" "میں فون بند کرنے لگی ہوں۔" وہ کچھ برا مان گئی۔ جواباً اس نے اسد کا قہقہہ سنا تھا۔ "مذاق کررہا ہوں۔ اچھا سنو ممی کی کال آرہی ہے اسکائپ پہ میں پھر تم سے کل بات کرتا ہوں۔ اوکے؟" "ٹھیک ہے اللہ حافظ۔" "اللہ حافظ۔"اس نے سلسلہ منقطع کرکے لیپ ٹاپ کی اسکرین سیدھی کی اور ممی کی کال ریسیو کرکے ان سے بات کرنے لگا۔ اگلے روز وہ یونی جانے کی بجائے بارہ بجے زینب کی طرف چلا آیا تھا۔ وہ جانتا تھا اس وقت گھر پر صرف زینب ہی ہوتی ہے اور وہ اسے لان میں ہی نظر آگئی تھی۔ وہ اسکے پاس چلا آیا۔ "زینب۔۔" وہ خوشگواریت سے بولا وہ چونک کر پلٹی اور پھر اسکے چہرے پر مسرتیں لہریں لینے لگیں۔ "تم اس وقت۔" "واپس چلا جاؤں؟" "نہیں۔ بیٹھو۔ چائے پیو گے؟" زینب نے لان چیئرز کی جانب اشارہ کیا۔ "نہیں چائے تو نہیں پیوں گا، تم میرا سویٹر لا دو مجھے پھر میں واپس جاؤں گا۔" "اچھا میں لاتی ہوں۔" وہ سر ہلا کر رہائشی عمارت کی جانب بڑھ گئی۔، وہ وہیں کھڑا لان میں لگے رنگ برنگ پھولوں کا جائزہ لینے لگا۔ چند منٹ بعد ہی زینب کی واپسی ہوئی تھی۔ اس نے ایک ہاتھ میں اسد کا سویٹر پکڑا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ میں ایک باکس۔ "یہ لو تمہارا سویٹر اور یہ تمہارا لزانیہ۔" خوشگواریت سے کہتے ہوئے اسنے دونوں چیزیں اسکی طرف بڑھائیں۔ "تھینک یو مائے لو۔ کاش میں تمہیں ہگ کرسکتا۔" اسکے ہاتھ سے چیزیں تھامتے ہوئے وہ شرارت سے بولا۔ "تمہیں دیر ہورہی ہے۔" اس نے منہ بنایا۔ "جارہا ہوں۔ ارے سنو آج ممی واپس آرہی ہیں۔" "اچھا یہ تو بہت اچھی بات ہے۔" "اور اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ میں نے انہیں بتایا میں شادی کیلیے ایک لڑکی پسند کرچکا ہوں تو وہ بہت خوش ہوئیں اور انہوں نے کہا ہے کہ وہ واپس آتے ہی اس لڑکی سے ملنا چاہیں گی۔" وہ اسے خوشخبری سنا رہا تھا۔ "واقعی اسد؟" "جی میری جان۔ بس اب جلد ہی ممی اور ڈیڈی یہاں آئیں گے تمہارا ہاتھ مانگنے۔" وہ مسکرایا زینب بھی مسکرائی تھی۔ "اچھا یار میں چلتا ہوں۔" وہ رسٹ واچ پر نظر ڈال کر عجلت آمیز لہجے میں بولا اور پھر جانے کیلیے پلٹ گیا۔ وہ اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی تھی۔


"اسد تم کل سے کہاں گم ہو؟" "یار ممی آئی تھیں تو بس ٹائم نہیں ملا گھر میں کچھ گیسٹ بھی تھے۔ تھک گیا ہوں۔" اسکی آواز میں تھکن نمایاں تھی۔ "ہمم۔۔" "تم ٹھیک ہو ناں؟" "تمہیں کیا۔۔" وہ یکدم اکھڑے ہوئے انداز میں بولی۔ "زینب۔۔۔ کیا ہوا تمہیں؟ تم ٹھیک ہو ناں؟ کسی نے کچھ کہا ہے کیا تمہیں؟" "مجھے تم سے بات نہیں کرنی تم جاؤ گیسٹس کو دیکھو، میں جہنم میں جاؤں تمہیں کیا۔" بولتے بولتے اسکی آواز بھرا گئی تھی۔ "آئم سوری زینب! میری غلطی ہے مجھے تمہیں بتا دینا چاہیے تھا کہ میں بزی ہوں۔" اسکا لہجہ بہت نرم تھا۔ "مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تمہاری زندگی میں میری کیا اہمیت ہے۔ تم اپنی فیملی کی موجودگی میں مجھ سے بات بھی نہیں کرسکتے۔ اور کہتے ہو کہ شادی کرو گے مجھ سے۔" وہ رو رہی تھی۔ اسد نے گہری سانس لی۔ "آئم سوری اگین۔" "نہیں چاہیے مجھے تمہاری سوری۔ کیوں آئے تم میری زندگی میں؟ میں ویسے ہی ٹھیک تھی اب تو میں تمہارے بغیر رہ ہی نہیں سکتی۔ کل سے میں نے جیسے وقت گزارا ہے صرف میں جانتی ہوں مگر تمہیں کیا پرواہ تم تو فیملی میں مگن تھے۔" اسکے لہجے میں بڑی اذیت تھی۔ "زینب! ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ رونا بند کرو شاباش۔" اسنے نرم لہجے میں کہا جواباً زینب نے کال بند کردی۔ اسد اسے بہت دیر کالز اور میسیجز کرتا رہا اور وہ سر نیہواڑے روتی رہی۔ اگلے دن وہ بارہ بجے کے قریب چلا آیا تھا وہ لان کے پچھلے حصے میں الگ تھلگ بیٹھی تھی وہ اسے تلاش کرتا وہیں چلا آیا۔ سیاہ پرانے سے شلوار قمیض میں سیاہ چادر میں لپٹی وہ بہت اداس نظر آرہی تھی۔ "تم بہت ظالم ہو زینب۔" وہ مدھم آواز میں بولتے ہوئے اس سے قدرے فاصلے پر بیٹھ گیا۔ زینب نے اپنی اداس آنکھوں سے اسکی طرف دیکھتا وہ سرمئی ٹراؤزر پہ سیاہ سویٹر پہنے الجھے بالوں اور بڑھی ہوئی شیو کیساتھ پریشان نظر آرہا تھا زینب نے دیکھا اسکے پیروں میں گھر کی عام چپلیں تھیں شاید وہ گھر کے حلیے میں ہی اٹھ کر چلا آیا تھا۔ "میں نے کیا ظلم کیا تم پر؟" "بے اعتباری سے بڑا ظلم تو کوئی نہیں ہوتا زینب۔" "تو اور کیا کروں؟" "اعتبار کرو زینب۔ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔" "مگر میں تمہاری پہلی ترجیح تو نہیں ہوں ناں۔" "یہ پہلی اور آخری ترجیح کیا ہوتا ہے زینب ، تم میری واحد ترجیح ہو۔" "میں بہت ڈرتی ہوں اسد۔" وہ اسکی طرف دیکھنے لگی۔ "ڈر اور محبت ایک ساتھ نہیں رہ سکتے زینب۔ یا ڈر کو چھوڑ دو یا محبت کو۔" وہ سنجیدگی سے بولا۔ زینب نے تڑپ کر اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔ "اسد۔۔" "زینب۔۔ اعتبار بہت ضروری شے ہے۔" "کرتی ہوں اعتبار اسد۔" وہ اسکا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر بولی۔ "مگر تمہارا یقین بار بار متزلزل ہوجاتا ہے زینب۔" "آئم سوری اسد۔" وہ اسکے ہاتھ کو اپنی آنکھوں سے لگا کر روپڑی تھی۔ اسد کے ہاتھ کی پشت پر اسکی آنسو شبنم کی مانند گررہے تھے۔ اس نے اسے رونے دیا۔ عشق کا آنسوؤں سے اٹوٹ بندھن ہے۔ وہ یہ اسی لمحے سمجھا تھا۔ اس روز وہ مل کر روئے تھے ، عشق کچھ اور گہرا ہوا تھا۔۔


"ممی مجھے ایک لڑکی پسند ہے اور میں اس سے فوراً شادی کرنا چاہتا ہوں۔" اس نے ممی کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔ اتوار کا دن تھا اور ممی لان میں بیٹھی اخبار دیکھ رہی تھیں۔ "اتنی جلدی کیا ہے؟" انہوں نے اخبار نظروں کے سامنے سے ہٹائے بغیر پوچھا۔ "جلدی ہے ممی بس۔ پلیز آپ اسکے گھر جائیں رشتہ مانگنے۔" "ایسے کیسے اسد۔ پہلے مجھے بتاؤ تو سہی کہ وہ کون ہے کس فیملی سے ہے؟" "بہت اچھی لڑکی ہے ممی اور بہت اچھی فیملی سے ہے۔ آپ کو بہت پسند آئے گی۔" وہ جلدی سے بولا۔ "کون ہے بھئی آخر؟" "زینب نام ہے اسکا ممی، عنیزہ کی فرسٹ کزن ہے۔" "اچھا گڈ عنیزہ کی فیملی بہت اچھی ہے۔" "زینب بھی بہت اچھی ہے ممی بالکل پریوں جیسی۔" "ہاہاہا ہمارا بیٹا تو شاعری کرنے لگا ہے۔"ممی محظوظ ہوئیں۔ "ممی تو پھر آپ کب جائیں گی زینب کا ہاتھ مانگنے؟" "تمہارے ڈیڈی سے تو بات کرلوں پہلے اور یہ بھی بتادو کہ زینب رہتی کہاں ہے؟" "عنیزہ کے گھر ہی رہتی ہے ممی اسکے فادر مدر کی ڈیتھ ہوچکی ہے عنیزہ کی ممی پاپا نے ہی پالا ہے اسے۔" "اچھا۔۔"ممی کے چہرے پر سنجیدگی کے تاثرات ابھرے۔ "ٹھیک ہے میں تمہارے ڈیڈی سے بات کروں گی۔" وہ مسکرائیں۔ اسد کے اعصاب پرسکون ہوگئے۔


"عنیزہ کے یتیم لا وارث کزن کیوں عنیزہ کیوں نہیں؟" شعیب(اسد کے ڈیڈی) نے ناگواری سے پوچھا۔ "اسے وہی پسند ہے۔" سمیرہ(اسد کی ممی) نے کہا۔ "ربش۔۔ وہ تو احمق ہے مگر تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ " "کم آن شعیب دیکھ لینے میں کیا حرج ہے اور وہ لڑکی عنیزہ کے تایا کی بیٹی ہے کیا ہوا جو اسکے ماں باپ مر گئے ہیں مگر وہ اسی فیملی سے تعلق رکھتی ہے۔" سمیرا نے چڑ کر کہا۔ "ہممم۔۔ چلو ٹھیک ہے دیکھ لیتے ہیں۔ نیکسٹ منڈے کو میں فری ہوں تو چلتے ہیں۔" شعیب نے کہہ کر اپنا لیپ ٹاپ کھول لیا سمیرا نے اسد کو واٹس ایپ پر میسیج کرکے یہ خوشخبری دے دی۔ اور اسد نے اسی لمحے زینب کو فون ملایا۔ "نیکسٹ منڈے کو ممی پاپا تمہارا ہاتھ مانگنے آرہے ہیں۔" اسنے سرخوشی کے عالم میں بتایا۔ "سچ؟" "بالکل سچ میری جان۔۔" "مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا اسد۔" "آ جائے گا یقین بھی جب تم دلہن بن کر میرے گھر آؤگی۔" وہ بے حد خوش تھا۔ "انشاء اللہ۔" "انشاء اللہ! زینب میں اسائنمنٹ پہ کام کررہا ہوں۔ کل بات ہوگی ٹھیک ہے؟" "ٹھیک ہے۔" "اللہ حافظ۔" "اللہ حافظ۔" سلسلہ منقطع کرکے زینب نے فون تکیے کے نیچے رکھا اور گہری سانس بھر کر مسکرانے لگی۔


"زینب۔۔" سجیلہ نے سوالیہ نظروں سے شعیب اور سمیرا کی طرف دیکھا۔ "جی۔۔" سمیرا مسکرائیں۔ "مگر زینب تو ہماری گھریلو ملازمہ کا نام ہے۔" سجیلہ نے جواب دیا۔ سمیرا اور شعیب کے چہروں پر عجیب سے تاثرات ابھرے۔ "گھریلو ملازمہ مگر اسد تو کہہ رہا تھا کہ وہ آپکے جیٹھ کی بیٹی ہے۔" سمیرا بولیں۔ "اسد کو بہت بڑی غلط فہمی ہوگئی ہے، زینب ہماری گھریلو ملازمہ ہے اور اسکی منگنی بچپن سے اسکے خاندان میں طے ہے۔" سجیلہ نے سفید جھوٹ بولا۔ "اوہ معاف کیجیے گا مگر مجھے شرمندگی ہے۔" سمیرا نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔ "کوئی بات نہیں۔"سجیلہ مسکرائیں، تبھی عنیزہ کمرے میں داخل ہوئی۔ "السلام علیکم!" وہ اسد کے ممی ڈیڈی سے پہلے بھی مل چکی تھی سو جلدی سے آگے بڑھی۔ وہ دونوں اس سے خوش دلی سے ملے تھے اور پھر سمیرا عنیزہ کو اپنے پاس ہی بٹھا کر باتیں کرنے لگیں۔ واپسی پر شعیب نے سمیرا کو مخاطب کیا، "میں نے اسد اور عنیزہ کی شادی کا فیصلہ کرلیا ہے۔" "ہممم لڑکی تو بہت اچھی ہے۔" "اسد نے تو آج شرمندہ ہی کروا دیا ہے میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میرا بیٹا ایک گھریلو ملازمہ کے چکر میں پھنس جائے گا۔" شعیب ناگواری سے بولے "اس عمر کے لڑکے ہوتے ہی احمق ہیں۔" سمیرا بڑبڑائیں۔ "مگر میں احمق نہیں ہوں۔ اسد کی شادی عنیزہ سے ہی ہوگی اسے بتا دینا۔" شعیب نے قطیعت کہا تھا۔ سمیرا نے سر ہلا دیا۔


"بے غیرت کمینی۔" سجیلہ نے زناٹے دار تھپڑ زینب کے چہرے پر رسید کیا۔ وہ کئی قدم پیچھے ہٹ گئی۔ "میری بچی کے حق پر ڈاکہ ڈالے گی اسد سے شادی کرے گی۔ تیری اوقات ہے اتنی۔" وہ کسی خونخوار شیرنی کی طرح اس پر پل پڑی تھیں۔ عنیزہ ایک جانب پرسکون انداز میں کھڑی تھی۔ "میں نے تجھے پالا ، تجھے چھت دی ، تحفظ دیا اور تو نے میرے ہی گھر میں نقب لگائی۔ میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گی۔" وہ اسے زمین پر گرائے لاتوں گھونسوں سے مار رہی تھیں۔ اسکی سسکیاں اور کراہیں اسکے درد کا پتہ دے رہی تھیں۔ سجیلہ جب اسے اچھی طرح پیٹ چکیں تو بکتی جھکتی صوفے پر جا بیٹھیں۔ "کرتی ہوں تیری خالہ کو فون کہتی ہوں اسے کہ آکر تجھے لے جائے۔ اب میں تجھ جیسی بدکردار بے حیا کو ادھر نہیں رکھ سکتی۔" انہوں نے اپنا فون اٹھاتے ہوئے کہا۔ زینب اپنے وجود کو گھسیٹتے ہوئے اپنے کمرے میں آگئی اور کمرہ اچھی طرح بند کرکے اسد کو کال ملائی۔ مگر اسکا نمبر بند تھا۔ زینب کا دل ڈوبنے لگا۔ وہ ساری رات اسد کا نمبر ٹرائی کرتی رہی مگر اسکا نمبر مسلسل بند تھا۔ صبح ہونے تک وہ رو رو کر ہلکان ہو چکی تھی انتظار جان لیوا ہورہا تھا مگر اسد کا کچھ اتہ پتہ نہ تھا۔ صبح ہوئی اسے کسی نے ناشتہ بنانے کیلئے نہ بلایا تھا۔۔ وہ ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی رہی۔ نجانے کتنی دیر گزر گئی۔ اسکے ہاتھ میں پکڑے فون کی بیٹری دم توڑ چکی تھی۔ آس ٹوٹ گئی تھی، وہ محبت کے نام پر استعمال کی جا چکی تھی ۔۔ اسکی رگوں میں زہر اتارا جا چکا تھا،، قریب تھا کہ وہ بے حسی کی دہلیز پر پہنچ جاتی دروازے پر دستک ہوئی تھی۔۔ زینب کے بے جان وجود میں تحریک ہوئی۔۔امید کا دیا پھر سے جگمگایا۔۔ "اسد" اسکے لب سرسرائے اور وہ اپنی دکھتی ہوئی چوٹوں سے بے نیاز ہوکر اٹھی اور جھپٹ کر دروازہ کھولا۔ "اتنی دیر۔۔" الفاظ اسکے لبوں میں ہی رک گئے تھے۔۔ دروازے پر اسد نہ تھا۔۔ زینب نے اپنے خشک حلق کو تر کرنے کی ناکام کوشش کی۔ "میری بچی میں آگئی ہوں تجھے لینے۔"خالہ نے آگے بڑھ کر اسے بانہوں نے سمیٹ لیا تھا۔ زینب نے گہری سانس لی۔۔ انتظار ختم ہوگیا تھا۔۔

   0
0 Comments