Orhan

Add To collaction

گرفتم

گرفتم از قلم فضہ بتول قسط نمبر7

"واٹ؟؟؟" اسد نے آنکھیں پھاڑیں۔ "جی۔۔" سمیرا نے منہ بنایا۔ "ممی وہ جھوٹ بولتی ہیں زینب عنیزہ کے چچا کی بیٹی ہے۔ وہ لوگ بہت ہی کمینے ہیں اس کو ہمیشہ ڈی گریڈ کرتے ہیں۔" وہ اضطراری انداز میں ٹہلتے ہوئے بول رہا تھا۔ "شٹ اپ اسد۔ بہت ہوگیا تمہارے ڈیڈی نے فیصلہ کرلیا ہے کہ تمہاری شادی عنیزہ سے ہوگی۔" "کیا۔۔۔ عنیزہ سے شادی؟؟؟" وہ چلا اٹھا۔ آنکھیں اپنے حلقوں سے ابل پڑی تھیں۔ "میں عنیزہ سے کبھی بھی شادی نہیں کروں گا سن لیں آپ۔ شی از آ وچ۔ میں نے زینب سے کمٹ منٹ کی ہے اور میں مر کر بھی کمٹ منٹ پوری کروں گا۔" وہ جذباتی انداز میں بول رہا تھا۔ "تمہارے ڈیڈی فیصلہ کر چکے ہیں اور تم نے کمٹ منٹ ہم سے پوچھ کر نہیں کی تھی۔" سمیرا ناگواری سے بولیں۔ "میری شادی کا فیصلہ ڈیڈی کیسے کرسکتے ہیں اور کیا عادل بھائی نے آپ سے پوچھ کر صبغہ بھابھی سے کمٹ منٹ کی تھی؟ ان پر تو کوئی اعتراض نہیں کیا کسی نے زینب پر اسلیے اعتراض ہے کہ وہ یتیم ہے لاوارث ہے۔" اسکا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔ "بیٹا شادی ہمیشہ اپنے اسٹینڈرڈ کے لوگوں میں کرنی چاہیے۔" "اسٹینڈرڈ مائے فٹ۔ میرے لیے سب سے امپورٹنٹ چیز میری زبان ہے ، میں اپنے وعدے سے کبھی نہیں پھروں گا۔ مجھے ہر قیمت پر زینب سے ہی شادی کرنی ہے۔ بتادیجیے گا آپ ڈیڈی کو۔" وہ پاؤں پٹختا کمرے سے باہر نکلا اور اپنے کمرے میں آکر فون تلاش کرنے لگا۔ رات وہ فون چارج کرنا بھول گیا تھا اور صبح دیر سے جاگنے کے باعث بغیر فون کے ہی یونیورسٹی چلا گیا تھا۔ اسکا خیال تھا کہ ممی ڈیڈی رات کو زینب کے گھر جائیں گے مگر وہ لوگ اسکی غیر موجودگی میں ہی وہاں سے ہو آئے تھے۔ وہ دراز کھنگالتے ہوئے جھنجھلا رہا تھا۔ نجانے ملازمہ نے اس کا فون کہاں رکھ دیا تھا۔ تھک ہار کر اس نے لینڈ لائن سے زینب کا نمبر ڈائل کیا۔ "آپکا مطلوبہ نمبر اس وقت بند ہے براہ مہربانی تھوڑی دیر بعد کوشش کیجیے۔" دوسری جانب سے مشینی آواز کا پیغام چلنے لگا۔ اسنے جھنجھلا کر ریسیور پٹخا اور گاڑی کی چابیاں اٹھا کر گھر سے نکل آیا۔ اسے خدشہ تھا کہ سجیلہ اور عنیزہ نے زینب کی خاصی خبر لی ہوگی۔ سارے رستے وہ ذہنی انتشار کا شکار رہا تھا۔ عنیزہ کے گھر پہنچ کر وہ سیدھا اندر چلا آیا۔ لاؤنج میں سجیلہ اور عنیزہ بیٹھی چائے پی رہی تھیں۔ "زینب کہاں ہے؟" اسنے چھوٹتے ہی پوچھا، وہ دونوں اس کی طرف متوجہ ہوئیں۔ اور پھر اسد نے عنیزہ کے چہرے پر نفرت کی چنگاریاں پھوٹتے دیکھیں۔ "اس گھٹیا لڑکی کا نام مت لو۔" اسنے اپنی نشست سے کھڑے ہوتے ہوئے اسے تنبیہہ کی۔ "شٹ اپ جو میں پوچھ رہا ہوں اسکا جواب دو۔ زینب کہاں ہے؟" وہ اس وقت کسی کی بھی بکواس سننے کے موڈ میں نہیں تھا۔ "دفع ہوگئی ہے وہ اب تم بھی دفع ہو جاؤ۔" عنیزہ چلائی۔ "زینب۔۔ زینب " وہ پاگلوں کی طرح چلانے لگا۔ "ہمارا تماشا مت بناؤ۔" سجیلہ ناگواری سے بولیں۔ "زینب کہاں ہے؟ مجھے اس سے ملنا ہے؟ کہاں ہے وہ؟" اسکا بس نہ چل رہا تھا وہ سجیلہ اور عنیزہ کو شوٹ کردے۔ "وہ یہاں نہیں ہے اپنی خالہ کے ساتھ چلی گئی ہے۔" جواب سجیلہ نے دیا تھا۔ "کہاں گئی ہے؟" "مجھے نہیں پتہ۔" "آپ نے ممی ڈیڈی سے کہا ہے کہ زینب آپکی گھریلو ملازمہ ہے ؟" "ہاں کہا ہے کیونکہ اسکی یہی حیثیت اور اوقات ہے۔" عنیزہ بولی۔ "جسٹ شٹ اپ۔" وہ چلایا۔ "تم اس دو پیسے کی لڑکی کی خاطر مجھ پر چلا رہے ہو؟" "وہ دو پیسے کی نہیں ہے ۔۔۔ میری زندگی ہے وہ، زندگی ہے وہ میری۔" وہ پاگلوں کی طرح چیخا۔ "تم نے اس کو مجھ پر ترجیح دینے کا سوچا بھی کیسے؟ وہ تمہارے قابل نہیں ہے اسد۔" "تم کون ہوتی ہو یہ طے کرنے والی کہ کون کس کے قابل ہے اور کون نہیں۔" اس نے نفرت آمیز نظر اس پر ڈالی۔ "میں عنیزہ ہوں اسد تمہاری بیسٹ فرینڈ۔" "بھاڑ میں جاؤ تم۔۔ نفرت ہے مجھے تم سے۔۔ زینب ۔۔۔ زینب۔۔" وہ بھاگتا ہوا رہائشی عمارت سے نکل کر زینب کے چھوٹے سے اسٹور روم ٹائپ کمرے میں آیا جہاں پر لگے زرد بلب کی روشنی میں وہاں پھیلی اداسی میں اضافہ ہوگیا تھا۔ وہ بے قراری سے ادھر ادھر نظریں دوڑانے لگا۔ بستر پر ایک بیگ رکھا تھا، وہی بیگ جس میں کبھی وہ اسکے لیے تحفے لایا تھا اسد نے جھپٹ کر اسے اٹھایا، اس میں اسد کے دیئے سب تحفے بمعہ موبائل اور والٹ کے رکھے تھے۔ وہ اسکی دی سب چیزیں چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ "وہ جاچکی ہے۔ بہتر ہوگا کہ تم بھی اسے بھول جاؤ۔" عنیزہ کی پرسکون آواز پر وہ مڑا۔ وہ دروازے کے پاس سینے پر بازو لپیٹے پرسکون سی کھڑی تھی۔ "پلیز مجھے بتادو وہ کہاں گئی ہے پلیز عنیزہ؟" وہ منتوں پر اتر آیا۔ "بہت محبت کرتے ہو اس سے؟" وہ محظوظ ہوئی۔ "بہت زیادہ۔۔" اسکی آنکھوں سے دو آنسو ٹوٹ کر گرے تھے۔ "پھر تو بالکل بھی نہیں بتاؤں گی۔" وہ مسکرائی۔۔ اسد نے وہ بیگ اٹھایا اور اسے سائیڈ پر ہٹا کر باہر نکل آیا۔ "تمہارا معیار کتنا گرا ہوا ہے اسد۔۔ شیم آن یو۔۔" وہ عقب سے بول رہی تھی وہ ان سنی کر گیا۔ تیز قدموں سے چلتا ہوا وہ پورچ میں پہنچا۔ "زینب بی بی کہاں ہیں؟" اسنے چوکیدار سے پوچھا۔ "وہ تو شام کو اپنی خالہ کیساتھ چلی گئی تھیں۔" چوکیدار نے جواب دیا۔ "کہاں گئی ہے؟" "پتہ نہیں صاحب۔ زینب بی بی اپنا سارا سامان بھی لے گئی ہیں شاید اب واپس نہیں آئیں گی۔ انکو بیگم صاحبہ نے بہت مارا بھی تھا۔" چوکیدار شاید اسد اور زینب کی محبت سے واقف تھا تبھی اسے تفصیل بتا گیا۔ اسد کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لیکر مسل ڈالا۔ بیگ گاڑی میں رکھ کر اسنے گاڑی اسٹارٹ کرکے سڑک پر ڈال دی۔ "انتظار جان لیوا ہونے سے پہلے آجاؤں گا۔۔" اسکے اردگرد اپنی ہی آواز گونجی تھی۔ "یقین ہے اسد مگر مجھے ڈر لگتا ہے۔" اسد نے سیٹ پر پہلو بدلا۔ "کہاں ڈھونڈو تمہیں زینب۔۔" اس نے اذیت سے سوچا تھا۔


برف سے ڈھکے فلک بوس پہاڑوں کے دامن میں قدرے الگ تھلگ کرکے ایک چھوٹا سا گھر تھا جس کی خستہ حالی اسکے داخلہ دروازے کے اڑے ہوئے رنگ و روغن سے ہی ظاہر تھی۔ زینب کی خالہ بیوہ تھیں اور لڑکیوں کے سکول میں آیا گیری کے فرائض انجام دیتی تھیں۔ زینب یہاں بہت سالوں بعد آئی تھی جبکہ خالہ تو ابو کی وفات کے بعد سے اسے اپنے ہی پاس رکھنا چاہتی تھی مگر چاچو نے اسے روک لیا تھا۔ مگر اب کی بار وہ ہمیشہ کیلیے آگئی تھی۔ چند دن تو وہ بستر پر پڑی بخار میں پھنکتی رہی تھی۔ اسد کی چند دن کی رفاقت اسکی باتیں اسکی یادیں اسکے لیے چیزیں عذاب بن گئی تھیں۔ وہ یاد کا ایک در بند کرتی تو دوسرا وا ہوجاتا، چند دن کی رفاقت اور نہ ختم ہونے والی یادوں کا سلسلہ۔۔۔ دن میں کئی بار اسکا جی چاہتا کہ وہ مر جائے۔ مگر جینا تو تھا ہی۔۔ سو ایک ہفتے بعد وہ بستر سے اٹھ ہی گئی تھی۔۔ خالہ صبح سکول چلی جاتیں اور وہ گھر کے کام کرتی رہتی۔ وہ پھر سے وہی بے حسی زینب بن جاتا چاہتی تھی مگر بے حسی اوڑھتے اوڑھتے اچانک کہیں سے ایک مدھم سی آواز اسکے گرد گونجتی، "انتظار جان لیوا ہونے سے پہلے آجاؤں گا۔" اور اسکے سینے میں اٹھنے والی اک ٹیس اس بے حسی کے خول کو چٹخ دیتی، وہ نڈھال ہوجاتی۔ عشق میں جدائی نڈھال نہیں کرتی ، بے وفائی کا احساس نڈھال کرتا ہے۔ اگر فریقین وفا نبھانے کی حد کردیں تو جدائی ہو یا ملن عشق سراپا سرور و سرخوشی ہی رہتا ہے۔۔ زینب کو بھی بے وفائی و بے اعتنائی ہے احساس نے نڈھال کردیا تھا۔


"اسد میری جان کیا ہوگیا ہے تمہیں ، کیا حال بنایا ہوا ہے تم نے۔" سمیرا نے اسکے بال سہلائے۔ وہ ایک ہفتے سے بخار میں مبتلا تھا اور اب تو سمیرا اور شعیب دونوں کو ہی اسکی شدید فکر ہوچلی تھی۔ "ممی عنیزہ سے کہیں ناں وہ بتا دے زینب کدھر ہے۔ اسکو پتہ ہے ممی۔۔ " وہ روہانسا ہوکر بولا۔ پچھلے ایک ہفتے سے اسکی یہی رٹ تھی۔ "بیٹا پلیز بھول جاؤ اسے۔ خود کو نارمل کرلو۔ ایسے زندگی نہیں گزرتی بیٹا۔" انہوں نے پھر اسکے بال سہلائے۔ "ممی انہوں نے اسے مارا تھا مار کر گھر سے نکال دیا تھا ممی میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ کبھی اس کے انتظار کو جان لیوا نہیں ہونے دوں گا۔۔ ممی وہ ساری زندگی میرا انتظار کرتی رہے گی ۔۔ پلیز سجیلہ آنٹی اور عنیزہ سے کہیں کہ وہ بتادیں زینب کدھر ہے۔" وہ بچوں کی طرح رونے لگا تھا۔ سمیرا بے بسی کی تصویر بنی اپنے اونچے پورے بیٹے کو پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھتی رہیں پھر اٹھ کر کمرے سے باہر نکل ائیں۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ گاڑی نکال کر عنیزہ کے گھر چلی آئیں۔ سجیلہ اور عنیزہ گھر پر تھیں انہیں دیکھ کر خوشدلی سے استقبال کیلئے کھڑی ہوگئیں۔ وہ بیٹھ گئیں، انکے چہرے پر تذبذب تھا ۔ "کیسی ہیں آپ مسز شعیب ؟ اسد کی طبیعت کیسی ہے اب؟" سجیلہ نے پوچھا۔ "اب تک وہی کنڈیشن ہے اسکی۔ بخار کسی صورت ختم ہونے پہ نہیں آرہا۔" سمیرا نے ہاتھ ملتے ہوئے جواب دیا۔ "اوہ۔۔ کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھائیں یا باہر لیجائیں۔" سجیلہ نے مشورہ دیا۔ "ڈاکٹرز کہتے ہیں وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔" "آخر کیوں؟" سجیلہ انجان بنیں۔ "زینب کی وجہ سے۔۔ دیکھیں اگر آپ کو پتہ ہے کہ وہ کدھر ہے تو بتادیجیے۔ میرا بچہ ہر وقت زینب زینب کی گردان کرتا رہتا ہے۔" سمیرا ممتا کی تڑپ کے ہاتھوں مجبور ہوگئی تھیں۔ سجیلہ کی پیشانی پر ناگواری شکنیں ابھریں۔ عنیزہ بھی منہ بنا کر رہ گئی۔

   0
0 Comments