Orhan

Add To collaction

گرفتم

گرفتم از قلم فضہ بتول قسط نمبر8

"ہمیں کچھ نہیں پتہ۔" سجیلہ بے مروتی سے بولیں۔ "دیکھیں پلیز میرا بیٹا بہت تکلیف میں ہے۔ وہ کہتا ہے زینب آپ کے شوہر کی بھتیجی ہے آپ کہتی ہیں وہ گھریلو ملازمہ ہے۔ اور اگر وہ ملازمہ بھی تھی پھر بھی آپ کو پتہ تو ہوگا کہ وہ کدھر چلی گئی۔" "جہنم میں گئی وہ۔" سجیلہ غصے سے کہتیں آپکی نشست سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ "میری بیٹی کیساتھ افیئر چلا کر اس سے شادی کے وعدے کرکے اب آپکا بیٹا بیکار کے ڈرامے کررہا ہے، اور آپ اسکے اس ڈرامے میں اسکا ساتھ دے رہی ہیں۔ میری بچی کا کیا قصور ہے جو اسد کے جھوٹے وعدوں کو سچ سمجھ بیٹھی بتائیں ذرا؟" "یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ ؟ اسد نے عنیزہ سے وعدے کب کیے؟" سمیرا حیران ہوئیں۔ "یہ پوچھیں کہ کب نہیں کیے وعدے اس نے مجھ سے۔ بس دس دن کیلیے ہم ملک سے باہر گئے اور اس دو ٹکے کی زینب نے پتہ نہیں کیا چکر چلایا کہ اسد مجھے بھول گیا، مجھے اتنی باتیں سنا کر گیا تھا وہ اس دن صرف زینب کی وجہ سے۔" عنیزہ نے غصے سے کہتے کہتے آنکھوں سے دو تین آنسو بھی نکالے تھے۔ سمیرا عجیب شش و پنج کا شکار ہوگئیں۔ "دیکھو بیٹا مجھے نہیں پتہ کہ اسد تم سے کیا کہتا رہا ، مجھے تو اس نے یہی بتایا تھا کہ وہ زینب سے کمٹڈ ہے اور اسی سے شادی کرے گا تمہارا ذکر تو اسنے ہمیشہ ایک دوست کی حیثیت سے ہی کیا۔" "دوست۔۔۔" عنیزہ اب پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ "عورت کی تو قسمت ہی یہی ہے کہ وہ مرد کی جھوٹی سچی باتوں پر ایمان لے آئے اور خوار ہوجائے۔" "نہیں بیٹا ایسی بات نہیں ہے اگر اسد نے واقعی تم سے کمٹ منٹ کی ہے تو میں اس سے سختی سے بازپرس کروں گی۔" سمیرا گھبرا گئیں۔ "اگر کیا مطلب ؟ میری بیٹی جھوٹی ہے اسکے آنسو جھوٹ ہیں؟" سجیلہ ہتھے سے اکھڑ گئیں ، عنیزہ کے رونے میں مزید شدت آگئی۔ "نن۔۔ نہیں میں یہ نہیں کہہ رہی،میں بس یہ کہہ رہی ہوں کہ میں ایک بار اسد سے پوچھوں گی۔" "کیا پوچھیں گی آپ؟وہ آپکا بیٹا ہے آپ تو اسی کی بات کا یقین کریں گی، میری بیٹی کی تو ذہنی حالت تباہ ہوگئی اسکا دل اجڑ گیا، اب زندگی بھر کبھی کسی پر اعتبار نہیں کر سکے گی میری معصوم بچی۔" سجیلہ کی آواز بھرا گئی تو وہ صوفے پر سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔ سمیرا کو سمجھ نہ آرہا تھا کہ وہ کیا کریں وہ ادھر اسد کیلیے زندگی کا پیام لینے آئی تھیں اور خود ہی الجھن کا شکار ہوگئی تھیں۔ "دیکھیں بہن میرا بیٹا مجرم ہے آپکی بیٹی کا میں اس سے سختی سے بازپرس کروں گی پلیز آپ خود کو اور اپنی بیٹی کو سنبھالیں۔" انہوں نے اٹھ کر سجیلہ کے شانے پر ہاتھ رکھا۔ "کیسے سنبھالوں ۔۔ میری بچی بہت معصوم یگ فرشتوں جیسی ہے بالکل اسکا دل تو یہ ماننے کو ہی تیار نہیں کہ لوگ جھوٹے وعدے بھی کرسکتے ہیں، جھوٹی محبت بھی کرسکتے ہیں۔" "آج کل کے بچے ایڈونچر کے نام پر سبھی کچھ کر گزرتے ہیں۔" سمیرا بڑبڑائیں۔ "آنٹی میں زینب کو تلاش کروں گی اسد کیلیے، اس نے بھلے مجھ سے محبت نہ کی ہو مگر میں نے تو کی ہے اس سے محبت۔ میری محبت میں کوئی کھوٹ نہیں ہے۔" عنیزہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا اور پھر اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر بھاگتے ہوئے کمرے سے چلی گئی تھی۔ سمیرا بے بسی کی تصویر نظر آنے لگیں۔


"تمہیں شرم آنی چاہیے اسد ۔۔ تم نے اس معصوم لڑکی کو اتنا دھوکہ دیا۔" وہ اسد پر برس رہی تھیں ۔ اسد کے دھوکے اور جھوٹ کی داستان نجانے کیسے ہر جگہ ہی پھیل گئی تھی ، عنیزہ نے اسے یونیورسٹی میں بھی کہیں منہ دکھانے کے لائق نہ چھوڑا تھا ، ڈیڈی اور بہن بھائی بھی اسے ملامت کررہے تھے دوسری جانب عنیزہ تین دن سے ہاسٹل میں داخل تھی ، ڈاکٹرز نے اسکی بار بار بے ہوشی کی وجہ ڈپریشن بتائی تھی۔ "میں نے کوئی دھوکہ نہیں دیا اسے وہ جھوٹی ہے۔" وہ جھلا گیا۔ "سب جھوٹے ہیں بس ایک تمہی سچے ہو۔" ڈیڈی نے ناگواری سے کہا۔ "ڈیڈی عنیزہ صرف میری دوست تھی۔ ایسا کوئی سین ہوتا تو میں آپ لوگوں سے کیوں چھپاتا؟" "تم نے تو ہم سے ہر بات ہی چھپائی، ہمارے ساتھ نیو ائیر منانے اسلیے نہ گئے تاکہ اس دو ٹکے کی ملازمہ کیساتھ رنگ رلیاں منا سکو۔" صبغہ بھابی چمک کر بولیں۔ "وہ دو ٹکے کی لڑکی نہیں ہے۔ " وہ غصے سے چلایا۔ "چلاؤ مت۔ غلطی تسلیم کرنا سیکھو۔" ڈیڈی بھڑک اٹھے۔ "جب میں نے کچھ کیا ہی نہیں تو کیا تسلیم کروں؟" وہ ان سے زیادہ بھڑک اٹھا۔ "تم کتنے ڈھیٹ ہو اسد۔" عادل بھائی نے تاسف سے سر ہلایا۔ "اسد تمہاری شادی عنیزہ سے ہوگی اور اسی مہینے ہوگی دیٹس اٹ۔ نو مور ڈرامہ اس بچی کی جتنی بدنامی تمہاری وجہ سے ہوئی ہے اسکا بس اب یہی حل ہے کہ تمہاری اس سے شادی ہو جائے۔" ڈیڈی نے سنجیدگی سے کہا "میں اس خبیث لڑکی سے کبھی بھی شادی نہیں کروں گا ، یہ کیا بکواس ہے۔ وہ ڈرامے کررہی ہے اور آپ لوگ بلاوجہ اسے میرے سر تھوپ رہے ہیں۔ بھاڑ میں جائے سب کچھ میں خود ڈھونڈ لوں گا زینب کو۔" وہ جذباتی انداز میں کہتا صوفے کے پائے جو ٹھوکر مارتا باہر جانے کو مڑا مگر ڈیڈی نے اسے پکڑ کر صوفے میں دھکیل دیا اور ساتھ تین چار طمانچے اسکے چہرے پر رسید کردیے۔ "اسے کمرے میں بند کردو۔ اب یہ کہیں نہیں جائے گا۔ سمیرا تم سجیلہ بیگم کو فون کرکے کہو کہ جمعے کو ہم بارات لیکر آرہے ہیں۔" ڈیڈی نے غیض و غضب سے پر لہجے میں فیصلہ صادر کیا۔ "میں شادی نہیں کروں گا کبھی نہیں کروں گا، میں نے زینب سے وعدہ کیا ہے میں وعدہ نہیں توڑوں گا ، کوئی میری زبردستی شادی نہیں کروا سکتا۔" وہ عادل اور ساجد بھائی کی گرفت میں مچلتے ہوئے چیخ رہا تھا۔ "اسے اسکے کمرے میں لیجا کر رسی سے باندھ دو۔" ڈیڈی نے حکم دیا۔ کچھ دیر بعد ملازموں کی مدد سے اسے اسکے کمرے میں بستر پر بٹھا کر اسکے پیروں اور ہاتھوں کو بستر کے پائوں کیساتے باندھ دیا گیا تھا۔ اور وہ اپنی اس بے بسی پر سوائے اندر ہی اندر کھولنے کے اور کچھ نہ کرسکتا تھا۔


"یہ میرا دل ہے۔۔۔ گرفتم عشق۔۔۔ گرفتم عشق۔ ہاں گرفتم عشق۔۔۔ کیا مطلب؟ مطلب عشق میں گرفتار۔۔ تو تم عشق میں گرفتار ہو؟ ہاں ناں!" "زینب۔۔۔زینب۔۔" خالہ نے اسکا شانہ ہلایا تو وہ بے طرح چونکی۔ وہ روٹی توے پر ڈالنا بھول چکی تھی۔۔ "جی خالہ۔۔" "بیٹا میں سکول جارہی ہوں، دروازہ بند کرلو۔" انہوں نے نرم لہجے میں کہا اور چھوٹا سا صحن پار کرکے دروازے سے باہر نکل گئیں۔ زینب نے روٹی توے پر ڈالی اور بے دلی سے اٹھ کر دروازہ بند کر آئی۔ وہ سارا دن سوچوں میں غرق رہتی تھی ، اسد کے ساتھ گزرے وہ چند دن جیسے اسکی زندگی کیلیے مستقل عذاب بن چکے تھے۔ وہ بدگمان ہو ہو کر تھک چکی تھی ، وہ اندازے قائم کر کر کے اکتا چکی تھی۔ اسکا ذہن شل ہوجاتا تو وہ کچھ دیر خوب روتی ۔۔۔ رو رو کر تھک جاتی تو کہیں بھی پڑ کر سوجاتی۔۔ زندگی نے اسے بڑی عجیب جگہ لا پٹخا تھا ، وہ تو اپنے تئیں منزل پر پہنچ گئی تھی مگر زندگی کے اچانک پلٹا کھایا اور وہ خلا میں معلق ہوگئی۔ وہ دن میں کئی بار تہیہ کرتی کہ اب اسد کے متعلق نہیں سوچے گی لیکن پھر اچانک خیالات کی رو میں بہہ کر وہ چمکیلے دن اسکی یاد داشت کے پردے پر ابھر آتے اور وہ کبھی روتے روتے ہنس دیتی، کبھی ہنستے ہنستے رو دیتی۔۔ جلنے کی بو پر اسنے چونک کر گردن جھکائی روٹی توے پر سیاہ رنگ کی ہوچکی تھی۔۔ اسنے گہری سانس بھری۔۔ یادوں نے آج پھر اسکی روٹی جلا ڈالی تھی۔


"میں بہت اچھے اچھے خواب دیکھتی ہوں۔ بڑے بڑے پہاڑ پر سکون سی وادی جس کے دامن میں جھرنا بہتا ہو اور میرا ایک لکڑی کا چھوٹا سا ہٹ ہو۔ میں کسی شہزادی کی طرح سفید گھوڑے کی سواری کروں میرے اردگرد پیارے پیارے نظارے ہوں ، طوطے چڑیاں کبوتر ہوں مور ہوں۔۔ اور انسان کوئی نہ ہو؟ نہیں بس میں اکیلی۔ انسانوں کے بغیر کیا مزہ؟ انسانوں کیساتھ کیا مزہ؟" اسد نے طویل سانس بھری اور اپنا سر بے بسی سے دائیں بائیں ہلانے لگا۔ آج اسے کمرے میں یوں رسیوں سے بندھے ہوئے تین دن ہوگئے تھے، گھر میں شادی کی تیاریاں جاری و ساری تھیں جمعے میں صرف دو دن رہ گئے تھے اور وہ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب وہ کیا کرے۔ وہ چیختا چلاتا شور مچاتا تو ڈیڈی اور چڑتے لہذا اس نے اب تھوڑی منافقت دکھانے کا سوچا۔ اس روز جب ممی اسے کھانا دینے آئیں تو وہ مسکرا اٹھا۔ "ممی آئم سوری! مجھ سے واقعی غلطی ہوگئی ہے میں عنیزہ سے شادی کرلوں گا اور اس سے بھی ایکسکیوز کرلوں گا۔" وہ ندامت سے پر لہجے میں بولا تو سمیرا کی آنکھیں چمکنے لگیں ، بیٹے کو یوں رسیوں میں بندھے دیکھ کر انکا دل بھی ہر وقت کڑھتا رہتا تھا۔ انہوں نے اسد کا ماتھا چوما۔ "جیتے رہو بیٹا، غلطیاں سب سے ہوجاتی ہیں اچھا انسان وہ ہوتا ہے جو غلطی تسلیم کرلے۔" "جی ممی میں ڈیڈی سے بھی ایکسکیوز کرلوں گا۔" "ٹھیک ہے بیٹا میں ملازم سے کہتی ہوں تمہارے یہ رسیاں کھول دے تمہارے ڈیڈی بھی بعض اوقات حد ہی کردیتے ہیں۔۔ شکور شکور۔" وہ ملازم کو آوازیں دیتیں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ کچھ دیر بعد وہ رسیوں سے آزاد ہو کر نہا دھو کے ڈیڈی سے ایکسکیوز کرنے کے بعد عنیزہ سے معافی مانگنے اسکے گھر جارہا تھا۔ پلان پہلے سے اسکے ذہن میں تھا سو وہ پرسکون تھا۔ عنیزہ کا گھر بقعہ نور بنا ہوا تھا،ڈیک پر چلنے والے گانوں کی آواز باہر تک آرہی تھی۔ وہ اندر چلا آیا۔ گھر میں کافی مہمان تھے۔ سجیلہ اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑی ہوئیں۔ وہ آگے بڑھا اور سجیلہ کے سامنے جھکا۔ "آنٹی میں آپ سے ایکسکیوز کرنے آیا ہوں۔" اسنے نرم لہجے میں کہا تھا ، سجیلہ پہلے تو حیران ہوئیں ہے مسکرا کر اسکے سر پر ہاتھ رکھا۔ "عنیزہ کدھر ہے آنٹی؟" "اپنے کمرے میں ہے۔" "میں اس سے مل لوں آنٹی؟" اس نے مودبانہ انداز میں پوچھا۔ "ہاں ہاں ضرور مل لو بیٹا۔" سجیلہ نہال ہو گئیں۔ وہ اوپری منزل کے زینے طے کرکے عنیزہ کے کمرے تک آیا اور دستک دی۔دروازہ کھلا اور عنیزہ کی چند دوستوں نے اسے دیکھ کر معنی خیز مسکراہٹ اچھالی تھی۔ "عنیزہ ۔۔" اسد نے اونچی آواز میں اسے پکارا وہ سرعت سے دروازے پر نمودار ہوئی تھی۔ زرد رنگ کے غرارے میں ملبوس سجی سنوری۔ "اسد ۔۔ تم۔۔" وہ حیران ہوئی تھی "ہاں عنیزہ مجھے تم سے اکیلے میں بات کرنی ہے۔" اسنے نرم لہجے میں کہا تو عنیزہ نے کچھ شش و پنج کا شکار ہوتے ہوئے اپنی سہیلیوں کو کمرے سے جانے کا کہا اور اسد کو اندر بلایا۔ "عنیزہ میں تم سے ایکسکیوز کرنے آیا ہوں۔" اسنے مدھم آواز میں کہا تھا عنیزہ کی آنکھوں میں حیرت ابھری۔ "دراصل مجھے تمہی سے محبت تھی عنیزہ بس میں سمجھ نہ سکا۔" وہ اسے مزید حیران کرگیا۔ "سچ اسد۔۔۔" عنیزہ کی آواز لڑکھڑا گئی۔ "بالکل سچ عنیزہ۔۔" اسنے مسکرا کر جواب دیا۔ "تھینک یو اسد اینڈ آئم سوری۔" "سوری کس لیے عنیزہ؟" "میں نے تمہاری ممی سے جھوٹ بولا تھا کہ مجھے زینب کے متعلق کچھ نہیں پتہ اور یہ بھی کہ وہ میری کزن نہیں ملازمہ ہے۔" وہ سر جھکا کے بولی۔ "خیر ہے عنیزہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے ۔۔" اس نے سر جھٹکا۔ "ہمم۔۔اسد تم کیا واقعی زینب کو چاہنے لگے تھے؟" "پتہ نہیں یار میں اسکے ساتھ مخلص تھا کمٹڈ تھا مگر اسکے یوں بتائے بغیر جانے کی وجہ سے میں بہت ہرٹ ہوا ہوں اسے مجھے ضرور بتانا چاہیے تھا کہ وی کدھر جارہی ہے۔" "وہ سوات چلی گئی ہے یار اپنی خالہ کیساتھ ، اسکی خالہ پہلے بھی آتی رہتی تھیں اسے اپنے ساتھ لیجانے کیلیے مگر ڈیڈی نہیں جانے دیتے تھے۔" عنیزہ نے بتایا وہ خود کو بالکل بے پرواہ ظاہر کررہا تھا۔ مگر ہاتھ میں پکڑے موبائل میں ایک ایک لفظ ریکارڈ ہوتا جارہا تھا۔ "وہ واقعی تمہاری کزن ہے کیا؟" اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا "آف کورس یار فرسٹ کزن ہے میری، ایکچوئیلی تایا ابو نے سوات کی ایک غریب سی لڑکی سے لو میرج کی تھی اسلیے ان کو خاندان میں کوئی بھی پسند میں کرتا تھا ممی کی منگنی پہلے تایا ابو سے ہی ہوئی تھی مگر تایا ابو نے انہیں چھوڑ کر زینب کی امی سے شادی کرلی جس کی وجہ سے ممی بہت چڑتی ہیں زینب سے ، حالانکہ ڈیڈی بہت اچھے تھے مگر ممی کو ریجیکشن نہیں بھولتی ۔" وہ آج سب سچ بتانے کے موڈ میں تھی۔ "دفع کرو یار ۔۔ ہمیں کیا ۔ تم بتاؤ تم خوش تو ہو ناں؟" اس نے عنیزہ کو کندھوں سے تھاما۔ "میری خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں اسد۔ آئی لو یو سو مچ ۔۔"وہ مسکرائی۔ وہ بھی مسکرایا تھا۔ "اب میں چلتا ہوں۔ کل مہندی پہ ملیں گے۔" وہ اسکا گال تھپتھپا کر کمرے سے نکل آیا تھا۔ عنیزہ سرشاری سی وہیں کھڑی رہ گئی۔


مہندی کا فنکشن عنیزہ کے گھر پر منعقد ہوا تھا، مخلوط فنکشن تھا، پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا تھا، ہر جانب رنگ و نور کا سیلاب آیا ہوا تھا۔ عنیزہ سبز اور پہلے امتزاج کے غرارہ سوٹ میں زبردست میک اپ اور پھولوں کے زیور پہنے پر کشش نظر آرہی تھی اور اسد سفید شلوار قمیض میں ملبوس بڑھی ہوئی شیو کیساتھ کافی خوش اور مگن تھا۔ شعیب اور سمیرا اسے مگن دیکھ کر مطمئن تھے انہیں اسد کی بدلی ہوئی سوچ پرخوشی تھی۔ ابھی رسمیں شروع نہ ہوئی تھیں ، اسد اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ڈانس میں حصہ لے رہا تھا وہ سب شور مچا رہے تھے ، پھر رسموں کا سلسلہ شروع ہوا اور کافی دیر تک چلتا ہی رہا۔ اسکے بعد کھانے کا دور چلا اور پھر آخر میں سب لڑکے لڑکیاں کپل بنا کر ایک ایک گانے پر پرفارم کرنے لگے۔ اسد نے ڈی جے کے پاس کی کرسی سنبھال لی اور مائیک تھام لیا۔ عنیزہ کو درمیان میں کھڑا کیے اب سب اسکے گرد گھوم گھوم کر ناچ رہے تھے اسد نے ڈیک کے ساتھ اپنے فون کو منسلک کیا اور عنیزہ کی ریکارڈنگ پلے کردی۔۔ "تھینک یو اسد اینڈ آئم سوری۔میں نے تمہاری ممی سے جھوٹ بولا تھا کہ مجھے زینب کے متعلق کچھ نہیں پتہ اور یہ بھی کہ وہ میری کزن نہیں ملازمہ ہے۔ " اسنے ساری رات کی محنت سے اس ریکارڈنگ سے اپنی سب آوازیں حذف کردی تھیں ، یہ عنیزہ کا اقبالی بیان تھا جو سب سن رہے تھے ۔۔۔ "وہ سوات چلی گئی ہے یار اپنی خالہ کیساتھ ، اسکی خالہ پہلے بھی آتی رہتی تھیں اسے اپنے ساتھ لیجانے کیلیے مگر ڈیڈی نہیں جانے دیتے تھے۔" سارا مجمع بے اختیار چونک اٹھا تھا، ناچنے والے ساکت ہوگئے، عنیزہ کے چہرے کی رنگت بڑے واضح انداز میں پھیکی پڑی تھی۔ "آف کورس یار فرسٹ کزن ہے میری، ایکچوئیلی تایا ابو نے سوات کی ایک غریب سی لڑکی سے لو میرج کی تھی اسلیے ان کو خاندان میں کوئی بھی پسند میں کرتا تھا ممی کی منگنی پہلے تایا ابو سے ہی ہوئی تھی مگر تایا ابو نے انہیں چھوڑ کر زینب کی امی سے شادی کرلی جس کی وجہ سے ممی بہت چڑتی ہیں زینب سے ، حالانکہ ڈیڈی بہت اچھے تھے مگر ممی کو ریجیکشن نہیں بھولتی ۔" اسد نے ریکارڈنگ بند کردی ۔ اور فاتحانہ انداز میں مسکراتا ہوا اٹھا ، مائیک اسکے ہاتھ میں تھا وہ چلتا ہوا عین اسٹیج کے وسط میں آن رکا۔ "شاید میں یہ گھٹیا ترین حرکت کبھی نہ کرتا اگر کچھ گھٹیا ترین لوگ میرے ہی ماں باپ کو مجھ سے متنفر کرنے کی کوشش نہ کرتے اور ایک ہوس پرست گھٹیا لڑکی مجھے مجبور کرکے مجھ سے شادی کی کوشش نہ کرتی۔ اور ایک گھٹیا ترین عورت اپنی ماضی کی تشنہ کامیوں کا بدلہ ایک معصوم بے قصور لڑکی سے نہ لیتی۔۔" وہ پرسکون لہجے میں بول رہا تھا اس سے ذرا سے فاصلے پر کھڑی عنیزہ کے چہرے پر فلیش لائٹس کی روشنی میں پسینے کے قطرات بڑے واضح تھے۔ سجیلہ کا میک اپ کی تہوں میں چھپا چہرا تاریک پڑ رہا تھا اور اسد کے سب گھر والے حیرتوں کی زد میں تھے۔ "تم مجھے سب کے سامنے ذلیل نہیں کرسکتے۔" عنیزہ کپکپاتی آواز میں بولی۔ "تم مجھے ساری دنیا کے سامنے ذلیل کرسکتی ہو تو کیا میں بدلہ لینے کا حق نہیں رکھتا؟ کیا عزت صرف عورت کی ہوتی ہے مرد کی نہیں؟" اسنے پرسکون لہجے میں پوچھا۔ "جسٹ شٹ اپ۔" وہ یکدم چلائی۔۔ جیسے خود کو دلیر بنانے کی کوشش کررہی ہو۔ "ممی ڈیڈی دیکھ لیجیے ، اپنی اولاد پر بھروسہ کرنا چاہیے ، اگر آپ اپنی اولاد پر ہی بھروسہ نہیں کرتے تو اسکا مطلب ہے کہ آپ خود پر ہی بھروسہ نہیں کرتے۔" اس نے ممی ڈیڈی کی طرف دیکھتا جو شرمندہ سے نظر آرہے تھے۔ "ہر مرد وعدہ خلاف نہیں ہوتا عنیزہ، ہر مرد عورتوں کو ایسکیپ بنا کر مصلحت کا قیدی بن کے جینے والا عمومی جانور نہیں ہوتا۔ ہر مرد پر یہ حربہ نہیں چل سکتا عنیزہ۔ ہر مرد کو بیوی کے نام پر صرف عورت کا جسم ہی درکار نہیں ہوتا اور ہر بار اولاد کو عزتوں کے ڈھول بجا کر یا دولت سے عاق کرنے کی دھمکی دے کر وعدہ خلافی پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ڈیڈی۔۔کیونکہ کچھ لوگ مجھ جیسے بھی ہوتے ہیں جن کیلیے اپنے وعدے کی پاسداری سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہوتا ،نہ دولت نہ پیسہ نہ حسین ترین عورت کا جائز رشتے سے ملا جسم۔۔" وہ طنزیہ انداز میں جملہ مکمل کرکے اسٹیج سے اتر آیا تھا۔ مائیک ڈی جے کو تھما کر وہ روش پر تیزی سے چلنے لگا تھا۔ اسکے گھر والوں نے اسے روکنا چاہا مگر وہ نہیں رکا تھا ، اسے رکنا ہی نہ تھا۔


زینب نے چھوٹے سے صحن میں جھاڑو لگا کر ہاتھ دھوئے اور دروازہ کھول کر باہر جھانکا۔ گول چکر دار کچا راستہ سنسان پڑا تھا۔۔ خالہ ابھی سکول سے نہ لوٹی تھیں۔ وہ پلٹ کر سست قدموں سے چلتی چھت کو جاتی سیڑھیوں پر آ بیٹھی۔ اسکا دل اچانک ہی گھبرانے لگتا تھا، کبھی کوئی کام کرتے کرتے ،کبھی فارغ بیٹھے ۔ یوں لگتا جیسے دل کو کسی نے مٹھی میں لیکر مسل ڈالا ہو۔۔ آوازیں ہی آوازیں شور ہی شور یادیں ہی یادیں وہ ان سب سے پیچھا چھڑانا چاہتی مگر فرار ممکن ہی نہ تھا۔۔ عشق کا روگ اسے مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے چکا تھا۔۔ وہ اسد کو بھولتی بھی تو کیسے وہ اسکی دھڑکن تھا۔۔ اسکی روح کا ساتھی تھا۔


سوات میں کسی ایک انسان کو تلاش کرنا آسان کام نہ تھا مگر اسے تو یہ کام کرنا ہی تھا۔۔ وہ ہر وقت مارا مارا پھرتا رہتا۔۔ راہگیروں سے پوچھتا مگر مسئلہ تو یہ تھا کہ اسے زینب کی خالہ کا نام تک نہ پتہ تھا۔ لیکن امید تھی کہ اسے ہمت نہ ہارنے دیتی ۔۔ وہ ہر روز رات گئے ریسٹ ہاؤس لوٹتا ، ساری رات خود سے جنگ کرتا اور اگلے دن پھر سے سرگرداں ہوجاتا۔ اسے زینب کو ہر قیمت پر ڈھونڈنا تھا۔ ایک دن وہ دوپہر کے وقت تھک ہار کر ایک جگہ آبیٹھا۔ اونچے اونچے پہاڑوں کے دامن میں بہتا جھرنا جلترنگ سی بجا رہا تھا وہ دھوپ کے عکس سے چمکتے پانی کی شفاف سطح کو گھورنے لگا یکلخت یادوں کا اک در کھلا تھا۔۔ "پانی میں سنہرا غرور کیسے آتا ہے؟ کبھی تم نے بہتے پانی میں پاؤں اتارا ہے؟ نہیں۔ کبھی اتارنا خود ہی سمجھ جاؤ گی۔" وہ گہری سانس خارج کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔ "کہاں ہو تم زینب۔۔" اسکے دل نے شدت سے پکارا تھا۔


وہ اس روز قریب ہی جھرنے کے پاس چلی آئی تھی۔ سارا دن گھر میں بند رہتے ہوئے اسکا دل شدت سے اکتا گیا تھا۔۔۔ جھرنے کے کنارے بیٹھ کر اس نے پانی پر نظریں جما دیں۔۔ سورج کی چمکیلی شعاعوں کے عکس میں پانی چمک رہا تھا۔۔ زینب نے جھک کر اپنی مخروطی انگلیوں کو پانی میں ڈبویا۔۔ اسے جھرجھری سی آئی پانی بہت ٹھنڈا تھا۔ وہ ہولے سے مسکرائی۔۔ "جھرنے کے کنارے بیٹھ کر تم اپنے پاؤں پانی میں اتارو تو پانی میں سنہرا سا غرور اتر آئے۔۔۔" "پانی میں سنہرا غرور کیسے آتا ہے؟" زینب نے اپنے پاؤں چپلوں کی قید سے آزاد کیے۔۔ "تم نے کبھی بہتے پانی میں اپنے پاؤں اتارے ہیں؟" اس نے اپنے پاؤں پانی میں اتارے ۔۔ اسکے مزید جھرجھری آئی ، پانی واقعی بہت ٹھنڈا تھا۔ "کبھی اتارنا۔۔ خود ہی جان جاؤ گی۔" زینب نے اپنی نظریں پانی پر جما دیں ۔۔۔ اسکے سفید گلابی پیروں کا عکس شفاف پانی میں بھی جھلملا رہا تھا اور دور دور تک بہتے جھرنے میں جیسے سنہری پن دوڑنے لگا تھا۔۔ زینب کی آنکھوں سے دو آنسو ٹوٹ کر گرے۔۔ عشق نے تو اسے بھی تصوراتی دنیا میں پہنچا دیا تھا۔۔ کیسے کیسے خواب دیکھنے لگی تھی وہ ۔۔۔ بھلا اسکے پاؤں سے پانی رنگ کیوں بدلے گا۔ اس نے اپنے پاؤں پانی سے نکالے اور چپلیں پہن کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔ واپسی کیلیے مڑنے سے پہلے اسنے ایک پھر پانی کی طرف دیکھا،۔ اسے یوں لگا جیسے جھرنا اداس ہوگیا ہے ۔۔ "پری کا نام۔۔۔ زینب۔۔" کوئی اس کے آس پاس بولا تھا۔۔ وہ نم آنکھوں سے بے اختیار ہنس پڑی۔۔

   0
0 Comments