Orhan

Add To collaction

گرفتم

گرفتم از قلم فضہ بتول قسط نمبر9

"اس اسد نے تو ہمیں کہیں منہ دکھانے کے لائق ہی نہیں چھوڑا ، اتنی بے عزتی ہوئی ہے ہماری ۔۔" سجیلہ نے عنیزہ کو مخاطب کیا جو اپنے ناخنوں سے کیوٹیس صاف کررہی تھی۔ "اسد ایک جاہل گنوار انسان ہے ، اچھا ہی ہے اس نے اپنی اصلیت دکھا دی۔" اسنے برا سا منہ بنایا "سمجھ نہیں آتی اسے زینب میں نظر کیا آیا۔" "دفع کریں ممی کچھ لوگ گند پر ہی گرتے ہیں۔ مجھے غصہ تو بہت ہے اس پر مگر میں نے یہ سوچ کر خود کو ریلیکس کرلیا ہے کہ اسد کا یہی اسٹینڈرڈ تھا وہ زینب جیسی جاہل کے ہی قابل ہے۔" "مگر جو ہماری سارے شہر کے سامنے بے عزتی کرکے چلا گیا ہے اسکا کیا؟" "نتھنگ ممی۔ لوگوں کی یاداشت بہت خراب ہوتی ہے وہ امیر لوگوں کی غلطیاں بہت جلد بھول جاتے ہیں آپ فکر نہ کریں۔ میں تو ویسے بھی امریکہ جارہی ہوں مجھے اسکالر شپ مل گیا ہے باقی کی تعلیم میں وہاں مکمل کروں گی۔" اسنے سجیلہ کو اطلاع دی۔ "ہممم اچھا ہے، میں بھی سوچ رہی ہوں کہ کچھ عرصے کیلیے ملک سے باہر ہی چلی جاؤں۔ اس ملک میں تو ویسے بھی کچھ نہیں رکھا۔"سجیلہ نے برا سا منہ بنایا۔ عنیزہ کچھ نہ بولی وہ ایک خود غرض لڑکی تھی اور اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہ تھی کہ اسکی ماں اور بھائی کیا کرتے ہیں کہاں جاتے ہیں۔ اسکی اپنی زندگی سیٹل ہونے جارہی تھی اور وہ اسی پر خوش تھی۔


"اسد کو گئے ایک مہینہ ہوگیا ہے۔ آخر کب واپس آئے گا وہ؟" شعیب نے سمیرا سے پوچھا۔ "پتہ نہیں کب آئے گا ، فون تک تو اٹھاتا نہیں ہے وہ کسی کا۔" "یہ کیا طریقہ ہے اسکا، ایک لڑکی کے پیچھے اتنی دیوانگی میری سمجھ سے تو باہر ہے۔" شعیب شدید جھنجھلا گئے تھے۔ "آج کل کی نسل کا دماغ بالکل ہی خراب ہے۔" سمیرا نے برا سا منہ بنایا۔ "شادی میں بھی ڈرامہ لگایا اس نے اگر عنیزہ نے جھوٹ بولا بھی تھا تو سو واٹ، کونسی قیامت آگئی تھی۔ وہ اتنی امیر لڑکی ہے اتنا کامیاب بزنس ہے اس کی ماں کا، اس سے شادی کرلیتا تو خود بھی سیٹل ہوجاتا عنیزہ کی ماں کے بزنس میں شریک ہوکر۔ مگر یہ محترم تو وہاں جذباتی تقریر کرکے دفعان ہوگئے پتہ نہیں کیا سوچتا رہتا ہے وہ اسٹوپڈ۔" شعیب مسلسل جھنجھلائے جارہے تھے۔ "بس آج کل کے بچوں کو سمجھ تو آتی نہیں کوئی بات ، اور سچ کہوں شعیب تو یہ غریب جاہل لڑکیاں بڑی چالاک ہوتی ہیں امیر امیر لڑکوں کو ایسا پھنساتی ہیں کہ وہ مجنوں ہی ہوکر رہ جاتے ہیں۔" "ہاں صحیح کہتی ہو، اگر یہ اس لڑکی کو ڈھونڈ کر لے بھی آیا تو میں اس کو اپنے گھر میں بالکل بھی جگہ نہیں دوں گا، بھاڑ میں جائے اسد بھی اس لڑکی سمیت۔ میری سوسائٹی میں کوئی عزت ہے ، مقام ہے ایسی دو ٹکے کی لڑکی سے اپنے بیٹے کی شادی کروا کے میں نے اپنے منہ پر کالک نہیں ملوانی۔" "مل ہی نہ جائے وہ لڑکی اسے، ارے ایسی لڑکیاں سو عاشق رکھتی ہیں۔ ایک طرف سے مایوسی ہوئی تو کسی اور کے ساتھ چل پڑیں۔" سمیرا نے منہ بنایا۔ "خیر میں آج رات کو جرمنی جارہا ہوں ایک کانفرنس ہے کچھ دن لگ جائیں گے۔" شعیب نے انہیں اطلاع دی۔ "میں بھی فنڈ ریزنگ کے سلسلے میں دوبئی جارہی ہوں شاید دو ہفتے لگ جائیں۔" سمیرا نے جلدی سے کہا۔ شعیب نے محض سر ہلا دیا۔ "کرمانی صاحب نے یہ ایونٹ آرگنائز کروایا ہے۔" سمیرا نے مزید اطلاع دی۔ "اوہ کرمانی صاحب سے ضرور ملنا اور انہیں کنونس کرنا کہ میرا ٹینڈر پاس کروا دیں، تمہاری وہ بہت مانتے ہیں۔" بات ہے اختتام پر شعیب نے بائیں آنکھ دبائی تھی۔ سمیرا ایک ادا سے مسکرائیں۔ "میرے بغیر آپ کا کوئی کام نہیں ہو سکتا شعیب۔" "میں نے اس سے کبھی انکار بھی نہیں کیا جناب۔ چلو اب میں چلتا ہوں۔" وہ اٹھ کھڑے ہوئے تھے "اوکے ہیو آ سیف جرنی۔" سمیرا نے مسکرا کر کہا اور اخبار اٹھا کر اس پر نظریں دوڑانے لگیں۔


اسد نے آسمان کی طرف دیکھا اور اس کے دیوتا کوچ کرگئے، پورا آسمان سفید بادلوں سے ڈھک گیا تھا اور برف باری شروع ہونے کو تھی۔ وہ آج کل شہر سے دور ایک ریسٹ ہاؤس میں مقیم تھا ، اس کی گاڑی صبح خراب ہوگئی تھی اور وہ دوپہر کے کھانے کے بعد پیدل ہی شہر کی جانب چل پڑا تھا۔ حالانکہ یہاں سے شہر تک کا راستہ زیادہ نہ تھا مگر پہاڑی راستوں پر چلنے کی عادت نہ ہونے کے باعث اسد کو کافی دیر لگ رہی تھی۔ وہ آدھا راستہ بھی طے کی کر پایا تھا جب آسمان سے روئی کے گالوں کی طرح برف گرنے لگی۔ وہ چھتری سر پر تان کر کوئی پناہ تلاش کرنے لگا۔ قرب و جوار میں کوئی گھر نہ تھا۔ وہ سڑک کنارے رک کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ برف گرنے کی رفتار کم تھی مگر تیزی کے امکان تھے اور اسد کو یہی تشویش گھیر رہی تھی کہ اگر برفباری تیز ہوگئی تو وہ رات کہاں گزارے گا کیونکہ واپسی میں تو اب بہت دیر لگ جاتی اور برف کے باعث سڑک پر قدم جما کر چلنا بھی دشوار ہوگیا تھا۔ وہ کچھ دیر سوچنے کے بعد ناک کی سیدھ میں چلنے لگا۔ برف باری اب تیز ہونے لگی تھی۔ اور اسد بار بار پھلستے پھسلتے بچ جاتا تھا۔ اسکا جسم شدید سرد ہوچکا تھا اور چھینکوں کی بہتات اسے فلو کی تحریک کا پیام دے رہی تھی۔ چلتے چلتے وہ یکدم رک گیا۔ اب اس کی آنکھوں کے سامنے برف کی سفید چادر تن گئی تھی اور وہ ایک فٹ کے فاصلے پر بھی دیکھ نہ پا رہا تھا۔ سردی اس کے دماغ کو ماوف کیے دے رہی تھی۔ اس نے سڑک کے دائیں جانب چلنا شروع کردیا اور قریب تھا کہ وہ سردی سے شل ہوتی ٹانگوں کو مزید تکلیف دینے کی بجائے دھپ سے برف پر گر جاتا، اسے برف کی چادر کے اس پار ایک بوسیدہ سے دروازے کی جھلک دکھائی دی۔ اسد کے سردی کھائے دماغ میں امید جاگی اور وہ گرتا پڑتا، پھلستا سنبھلتا اس دروازے تک پہنچا۔ وہ دروازہ بند تھا۔ اس نے اپنے جمے ہوئے ہاتھوں سے اس پر دستک دی۔ "کون ہے؟" اندر سے کسی عورت نے پوچھا۔ "راہگیر ہوں کچھ دیر پناہ چاہیے۔" اس نے اونچی آواز میں کہا۔ جواباً چند ثانیے بعد دروازہ کھلا۔اسد کے سامنے ایک گوری چٹی مقامی عورت کھڑی تھی جس کی عمر چالیس سے پینتالیس کے درمیان رہی ہوگی۔ "آنٹی میں ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرا ہوا ہوں صبح میری گاڑی خراب ہوگئی تھی میں شہر مکینک کو لینے جارہا تھا مگر برفباری شروع ہوگئی اب میں نہ واپس جاسکتا ہوں اور نہ شہر۔" وہ لجاجت آمیز لہجے میں بولتے ہوئے تمہید باندھنے لگا۔ "آؤ اندر آجاؤ۔" وہ عورت پشتو لہجے میں اردو بول رہی تھی۔ اسد شکر ادا کرتا اندر داخل ہوا۔ عورت نے دروازہ بند کیا اور اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتی چھوٹا سا صحن پار کرکے بائیں جانب مڑ گئی۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے آیا۔ عورت جس کمرے میں گئی تھی وہ باورچی خانہ تھا جس میں لکڑیوں کا چولہا جل رہا تھا۔ اسد نے جھرجھری سی لی۔ اندر بڑی گرمائش تھی وہ فورا سے چولہے کے پاس رکھی پیڑھی پر بیٹھ کر اپنے جمے ہوئے ہاتھوں کو گرم کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ "چائے بنا دوں؟" عورت نے پوچھا اسد نے ٹھٹھرتے ہوئے بس سر ہلا دیا۔ وہ عورت بھی چولہے کے پاس ہی ایک اور پیڑھی رکھ کر بیٹھ گئی اور چبوترے سے سامان اتار کر چائے تیار کرنے لگی۔ اسد کو چھینکوں پر چھینکیں آرہی تھیں، اس کا لباس بھیگا ہوا تھا جوتوں کے اندر بھی پاؤں گیلے ہوگئے تھے۔ اسے یقین تھا کہ آج کے دن اسے نمونیہ ہوجائے گا۔ "کہاں سے آئے ہو؟" عورت نے اسے مخاطب کیا۔ "اسلام آباد سے ." اس نے جواب دیا۔ "برف باری دیکھنے آئے ہو؟" "نہیں ایک کام سے آیا ہوں۔" اس نے مختصر جواب دیا اور پھر سے سوں سوں کرنے لگا۔ عورت نے چائے کی بھاپ اڑاتی پیالی اسکے سامنے رکھ کر دیگچی چولہے سے اتار لی۔ اسد نے جلدی سے چائے کا گھونٹ بھرا۔ اندر تک جیسے سکون اترا تھا۔ "بہت شکریہ آنٹی۔ " اس نے تشکر آمیز لہجے میں کہا "کوئی بات نہیں بیٹا۔ادھر میرے گھر میں اکثر ٹورسٹ رک جاتے ہیں موسم کی خرابی کی وجہ سے، جب میرا آدمی زندہ تھا تب تو اس نے اوپر والا ایک کمرہ ٹورسٹ لوگوں کیلیے تیار رکھا ہوا تھا۔ اب میں لوگوں پر اتنا اعتبار نہیں کرسکتی اکیلی رہتی ہوں۔ خیر تم چائے پیو پھر میں تمہیں تمہارا کمرہ دکھا دیتی ہوں۔" وہ تفصیل سے بات کرکے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ اسد نے سر ہلا دیا۔ گرما گرم چائے نے اس کے ٹھٹھرتے وجود کو بہت سکون دیا تھا۔ "آپ اس ویرانے میں اکیلی رہتی ہیں، ڈر نہیں لگتا آپ کو؟" "نہیں بیٹا ڈر کس بات کا۔" "ہمم۔" اس نے سے ہلا دیا۔ تبھی اندر سے کسی کے شدت سے کھانسنے کی آواز سنائی دی تھی۔ "میں آتی ہوں۔" عورت اٹھتے ہوئے بولی۔ اسد کچھ نہ بولا عورت کچھ دیر بعد واپس آگئی تھی۔ "میری بھانجی صبح سے بخار میں پھنک رہی ہے کہا بھی تھا ٹھنڈ میں ننگے پاؤں صحن میں نہ گھومو مگر وہ سنتی ہی نہیں میری۔" وہ بڑبڑاتے ہوئے پیڑھی پر بیٹھ گئیں۔ اسد اب بھی کچھ نہ بولا۔ اسے بھلا اس عورت کی بھانجی میں کیا دلچسپی ہوسکتی تھی اسے تو بس موسم ٹھیک ہونے تک ادھر رکنا تھا اور اس کے بعد اپنی منزل کی جانب نکل جانا تھا۔ "چلو تمہیں تمہارا کمرہ دکھا دوں۔" عورت نے اس کے چائے ختم کرتے ہی کہا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ عورت اسے اوپری منزل پر بنے واحد کمرے میں لیکر آئی۔ اس کمرے میں ایک بستر ، ایک پرانے طرز کی سنگھار میز اور ایک کونے میں اوپر تلے رکھے گدوں اور کمبلوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ "یہ ساتھ باتھ روم بھی ہے۔ اور بستر سارا یہ پڑا ہے۔ تم آرام سے رہ سکتے ہو یہ برفباری تو اب رات بھر ختم نہیں ہونے والی۔" انہوں نے کمرے میں روشنی جلاتے ہوئے کہا۔ اسد کو یہ سب بھی غنیمت ہی لگا تھا۔ ان کے جاتے ہی اس نے جوتے اتارے پھر کوٹ اور سویٹر اتار کر سنگھار میز پر لٹکائے اور بستر پر ایک گدا بچھا کر اس کے اوپر ایک صاف ستھری چادر ڈالی ، دو تین کمبل اٹھائے اور بستر پر گر کر کمبلوں میں دبک کر ٹھٹھرنے لگا۔ کمبل بہت موٹے اور گرم تھے مگر اس کمرے کا ماحول باورچی خانے کے مقابلے بہت سرد تھا، اسد نے منہ بھی کمبل میں گھسا لیا اور باقاعدہ دانت کٹکٹانے لگا۔ کافی دیر گزرنے کے بعد اس کے جسم کا درجہ حرارت نارمل ہونے لگا تو اس پر غنودگی طاری ہوگئی۔ نجانے کتنی ہی دیر وہ غشی کے عالم میں کمبلوں میں دبکا رہا۔ جب ذرا ذہن جاگا تو کمرے میں گھپ اندھیرا پایا۔ شاید لائٹ چلی گئی تھی۔ کافی دیر تو وہ بے حسی و حرکت پڑا رہا پھر ہمت کرکے اٹھا اور ٹٹولتا ہوا بستر سے اٹھا۔ سنگھار میز پر لٹکے اپنے کوٹ کی جیب میں سے فون نکال کر اس کی ٹارچ روشن کی ۔ رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ کوٹ اور سویٹر اب تک ہلکے ہلکے گیلے تھے۔ اس نے کمرے میں اردگرد نظر دوڑائی اور پھر ایک قدرے پتلے کمبل کی چادر کی طرح بکل مارلی۔ اب مسئلہ جوتوں کا تھا۔ وہ باتھ روم تک آیا ، یہاں ایک پرانی سی مردانہ چپلوں کا جوڑا رکھا ہوا تھا اس نے انہیں پیروں میں اڑس لیا اور کمرے سے باہر نکلا ۔ باہر ہر سو اندھیرا تھا۔ برف باری اب رک چکی تھی مگر آسمان پر اب بھی سفید بادل چھائے ہوئے تھے۔ کمرے کے باہر بنے جبوترے پر بھی برف کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ اسد نے موبائل کی ٹارچ نیچے کی جانب گھمائی۔ سڑک پر برف کی کم از کم دو دو فٹ تہہ جمی ہوئی تھی۔ وہ زینوں کی طرف آیا جو گھر کے اندر ہی سے نکالے گئے تھے اور برف سے محفوظ تھے۔ وہ نچلی منزل پر آیا۔ یہاں گہرے سناٹے کا راج تھا یوں جیسے اس گھر کے سب مکین سوچکے تھے۔ وہ کچھ دیر ساکت و صامت کھڑا رہا پھر باورچی خانے کی طرف بڑھا ، بھوک کے مارے اس کے معدے میں اینٹھن ہورہی تھی۔ وہ بناء کھٹکے باورچی خانے میں آیا۔۔ وہاں موم بتی کی ہلکی زرد روشنی پھیلی ہوئی تھی اور چولہے میں جلتے کوئلوں سے ہلکا ہلکا دھواں اٹھ رہا تھا۔ نرم سی گرمائش نے پورے ماحول کواپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اسد اندر داخل ہوا اور دروازہ بند کرکے جبوترے کی طرف بڑھا۔ یہاں ایک چھوٹا سا ہاٹ پاٹ رکھا تھا اس نے بے تابیِ سے اسے کھولا۔ دو روٹیاں اور دو کباب دیکھ کر اسکے چہرے پر تازگی لہریں لینے لگی۔ اسنے چولہے کے پاس بیٹھ کر وہ ٹھنڈا کھانا کھایا اور خدا کا ڈھیروں شکر ادا کیا اور آٹھ کر باورچی خانے سے باہر آیا پھر کچھ سوچ کر دوبارہ اندر گیا ، لائٹ تو جانے کب آتی ،موبائل کی بیٹری ختم ہونے کا چانس تھا سو اس نے موم بتی اٹھا لی اور باورچی خانے سے باہر نکل کر زینوں کی جانب بڑھ گیا۔۔ اندرونی کمرے سے مسلسل کسی لڑکی کے کھانسنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ زینے طے کرکے اپنے کمرے میں آیا اور مون بتی سنگھار میز پر رکھ کر پھر سے بستر میں دبک گیا۔ کچھ دیر فون استعمال کرنے کے بعد اسے نیند نے گھیر لیا تھا اگلے روز صبح گرما گرم پراٹھے کا ناشتہ کرنے کے بعد اسنے شکریے کے ساتھ اس عورت سے رخصت چاہی تھی۔ سب سے پہلے وہ شہر جاکر مکینک کو ساتھ لیکر واپس آیا ،جیپ ٹھیک کروائی۔ اور اگلے دن سے پھر اپنی مہم شروع کردی۔


کافی روز بعد بہت تیز دھوپ نکلی تھی، آسمان بالکل شفاف تھا۔ اسد ناشتے کے بعد یونہی چہل قدمی کی غرض سے ریسٹ ہاؤس سے باہر نکلا اور دھیرے دھیرے چلنے لگا۔ موسم بہت خوشگوار تھا، دھوپ اس کے جسم کو تراوٹ بخش رہی تھی۔ اس نے کانوں میں ہینڈ فری لگا لیے اور گانے سننے لگا۔ اچانک اس کے دل میں خواہش جاگی کہ اس سمے زینب بھی اسکے ہمراہ ہوتی اور وہ بے طرح اداس ہوگیا۔۔ نجانے اس نے زینب کو دوبارہ کب دیکھنا تھا۔ وہ مایوس سی صورت لیے سڑک کنارے ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔ کانوں سے ہینڈ فری نکال دیئے اور سر اٹھا کر نیلے آسمان کی وسعتوں میں تکنے لگا۔ "ارے بیٹا تم اب تک واپس نہیں گئے اسلام آباد؟" کسی کی پرجوش سی آواز پر وہ چونکا۔ سامنے وہی عورت کھڑی تھی جس کے گھر وہ اس رات ٹھہرا تھا۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ "نہیں آنٹی ابھی نہیں گیا۔ آپ کیسی ہیں؟" اس نے خوش اخلاقی سے پوچھا۔ "کرم اللہ کا۔" "آپ کے ہاتھ کے بنے پراٹھے اب تک یاد ہیں مجھے۔" وہ مسکرایا۔ "تو بیٹا آجایا کرو کبھی، ادھر ریسٹ ہاؤس میں کھانے پینے کا انتظام تو صحیح نہیں ہوگا۔" "بس آنٹی گزارا ہے ویسے میں اکثر سارا دن شہر میں ہی گزارتا ہوں۔" اس نے کہا "اچھا اچھا۔۔ اگر تمہیں مناسب لگے تو کبھی کبھی آجایا کرو میرے گھر ، میں کھانا بنا دیا کروں گی۔" وہ بڑی کھلے دل کی مالک تھیں اسد ان کی سادگی پر مسکرایا۔ "جی ضرور آنٹی۔" "میں ادھر لڑکیوں کے سکول میں آیا گیری کرتی ہوں۔ اللہ کا شکر ہے بڑا اچھا گزر بسر ہوجاتا ہے۔ تین سال ہوئے میرا آدمی فوت ہوگیا ہے۔ اللہ بخشے بڑا ہی اچھا آدمی تھا۔" وہ از خود ہی بتاتے ہوئے اداس ہوگئیں۔ "آنٹی جس سے محبت ہو وہ مر جائے تو زندگی بہت مشکل ہوجاتی ہے ناں؟" "ہاں بیٹا مشکل تو ہو جاتی ہے مگر اللہ ہمت دے دیتا ہے۔" انہوں نے ٹھنڈی سانس بھری۔ "لیکن آنٹی جب کوئی گم ہو جائے تو صبر نہیں آتا، چین نہیں ملتا ۔" اس نے اداسی سے کہا۔ "ہاں بیٹا مر جانے والے پر تو صبر آجاتا ہے مگر گم ہوجانے والے پر صبر نہیں آتا۔" انہوں نے سر ہلایا۔ "بڑی دیر ہوگئی میری بھانجی میرا انتظار کرتی ہوگی وہ بھی سارا دن اکیلی اکتا جاتی ہے بیچاری ۔ میں چلتی ہوں۔ اللہ حافظ۔" وہ الوداعیہ کلمات بول کر اپنے راستے پر ہولیں۔ اسد واپسی کیلیے مڑ گیا۔ اس کے دل میں گہری اداسی اتر آئی تھی۔


"اتنی دیر کہاں لگا دی خالہ؟" زینب نے خالہ سے پوچھا "راستے میں وہ لڑکا مل گیا تھا جو اس رات یہاں ٹھہرا تھا۔" انہوں نے چادر اتار کر رکھتے ہوئے اسے بتایا ، زینب کی پیشانی پر شکنیں پڑ گئیں۔ "تو اب وہ ہمارے گھر کے آس پاس منڈلاتا رہتا ہے ۔" "نہیں بیٹا وہ تو بڑا بھلا مانس بچہ ہے ادھر قریبی ریسٹ ہاؤس میں رکا ہوا ہے کبھی کبھی چہل قدمی کرنے نکل آتا ہے۔" "آپ تو بہت ہی بھولی ہیں خالہ اگر اس رات میری طبیعت ٹھیک ہوتی تو کبھی بھی ایک اجنبی کو رات بھر نہ رکنے دیتی۔ نجانے کون ہے کہاں سے آیا ہے کیا چاہتا ہے۔" وہ خدشات سے پر لہجے میں بولی۔ "اسلام آباد سے آیا ہے بیٹا ، شکل سے ہی بڑا اچھا شریف انسان لگتا ہے۔" خالہ تو اس کی تعریفوں میں رطب اللسان تھیں۔ زینب نے مزید برا منہ بنایا۔ "شکلوں پر تو مت جائیں خالہ، اسد بھی شکل کا بہت اچھا تھا۔" وہ اداس ہوگئی "چھوڑ تو اسد کو ہر بندہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ دنیا میں اچھے لوگ بھی ہیں۔" "ہممم۔۔" اسنے ہنکارا بھرا۔ "میں روٹی ڈالتی ہوں آپ منہ ہاتھ دھو لیں۔" وہ بات بدل کر باورچی خانے میں چلی آئی تھی۔ وہ خالہ سے کیسے کہتی کہ چاہے ساری دنیا بہت اچھی ہو مگر اس ایک کی بے وفائی کا غم ختم نہیں ہوسکتا۔


دروازے پر دستک ہوئی تو زینب بے طرح چونکی، دوپہر کے بارہ بج رہے تھے اور یہ خالہ کے سکول سے واپس آنے کا وقت تو نہ تھا۔ وہ سبزی کی ٹوکری ایک طرف رکھ کر اٹھی اور چادر سر پر برابر کرتی دروازے تک آئی۔ "کون؟" اس نے پوچھا۔۔ "میں اسد۔۔" باہر سے بلند آواز میں کہا گیا تھا۔۔ ٹھک سے کنڈی زینب کے ہاتھوں سے پھسل گئی۔ دروازے کو ہلکا سا دھکا دے کر اسد نے اندر جھانکا تھا اور اس کی نظروں کے عین سامنے کھڑی زینب۔۔۔ وہ کچھ دیر کو جیسے ساکت و صامت ہوگیا تھا ، پتھر کے بت کی طرح۔۔۔ یہ فسوں جانے کب تک قائم رہتا کہ زینب یکدم رخ موڑ کر تیز قدموں سے چلتی اندرونی کمروں میں گم ہوگئی۔

   0
0 Comments