Orhan

Add To collaction

گرفتم

گرفتم از قلم فضہ بتول قسط نمبر10

وہ تقریباً بھاگتا ہوا اس کی تلاش میں اندرونی کمروں میں آیا۔ وہ ایک کمرے میں چپ چاپ بیٹھی تھی اسکی آہٹ پر اچھل کر کھڑی ہوگئی۔ اسد بے تابی سے آگے بڑھا۔ "زینب! اوہ گاڈ۔۔ تم یہاں۔۔" اس کے عین سامنے رکتے ہوئے اس نے بے یقینی سے کہا۔ اسکی آنکھوں میں خوشگوار حیرت کے تاثرات تھے۔ "مجھے یقین ہی نہیں آرہا کہ جس گھر میں ،میں پوری رات رکا وہی در حقیقت میری منزل ہے۔" "ہاں اور دکھ بھی ہوا ہوگا مجھے یہاں دیکھ کر۔" اس نے خشک لہجے میں کہا ۔ اسد کی آنکھوں کی چمک مدھم ہوئی۔ "دکھ کیوں زینب؟ میں تو تمہیں دیکھنے کیلیے تم سے ملنے کیلیے کس قدر بے تاب تھا۔" "ہنہہ بے تاب۔۔۔ " وہ استہزائیہ ہنسی۔ "اگر اتنے بے تاب ہوتے تم تو فون بند کرکے بھاگ نہ جاتے۔" "بھاگا کون تھا؟ اور فون میرا گھر رہ گیا تھا میں یونیورسٹی میں تھا یار۔" "یہ بہانے بہت پرانے ہیں اسد۔ میں یقین نہیں کرسکتی ان باتوں پر۔" "پلیز زینب یہ تم کیا کہہ رہی ہو میں ڈیڑھ ماہ سے تمہاری تلاش میں خوار ہورہا ہوں، اتنی مشکلوں سے پتہ چلا کہ تم سوات میں ہو۔" "اب اچانک ملاقات ہوگئی ہے تو یہی کہو گے تم۔" اسنے شانے اچکائے۔ اسد کو دکھ ہوا تھا۔ "نہیں زینب۔۔ میں سچ مچ تمہارے لیے بہت مضطرب تھا۔ بہت تڑپا ہوں یار بہت بہت تکلیف میں رہا ہوں۔" "پلیز اسد مجھ میں محبت کے نام پر مزید بے وقوف بننے کی تاب نہیں ہے۔" زینب نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ "یہ تم کیا کہہ رہی ہو زینب۔ میں تمہیں کیوں بے وقوف بناؤں گا یار۔ میں تو محبت کرتا ہوں تم سے۔" "محبت ایک جھوٹ ہے بس۔" "زینب۔۔" وہ چلا اٹھا۔ "اسد پلیز تم جاؤ یہاں سے۔" اس نے ہاتھ ہلا کر بے زاری سے کہا۔ "کیوں جاؤں میں زینب اتنی مشکلوں سے تو تم ملی ہو مجھے۔ اب میں تمہیں کھونے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔" اس نے اسے شانوں سے پکڑ کر اسکا رخ اپنی جانب موڑا۔ "مجھے تمہاری کوئی بات نہیں سننی پلیز چلے جاؤ یہاں سے۔" وہ اس کے ہاتھ جھٹک کر سنگلاخ لہجے میں بولی "زینب۔۔ مت کرو میرے ساتھ ایسا۔ تم کیوں اتنی بدگمان ہوگئی ہو مجھ سے میں نے کوئی بے وفائی نہیں کی تمہارے ساتھ یار." وہ بے چارگی سے بولا۔ "اچھا بے وفائی نہیں کی تم نے اسی لیے سارے دن کیلیے فون بند کردیا تھا جب مجھے تمہاری سب سے زیادہ ضرورت تھی۔" وہ تنک کر بولی "یار بتا تو رہا ہوں میرا فون گھر رہ گیا تھا۔ اسکی چارجنگ بھی نہیں تھی۔" "میں اس بات پر کبھی بھی یقین نہیں کروں گی۔ تم چلے جاؤ اسد میں تم پر کبھی یقین نہیں کروں گی۔" وہ اسے دونوں ہاتھوں سے دھکیلتے ہوئے چلائی۔ "مت کرو ایسے زینب مت کرو ایسے۔۔" وہ اسکی نازک سی مزاحمت سے ہارتے ہوئے جیسے منت کررہا تھا۔ "چلے جاؤ ۔۔ جاؤ یہاں سے۔ اکیلا چھوڑ دو مجھے۔" وہ کچھ بھی سننے کو تیار نہ تھی۔ "زینب ہوش میں آؤ۔" اس نے اس کے دونوں ہاتھوں کو مضبوطی سے تھام لیا۔ "ہوش میں ہی تو آگئی ہوں۔ پہلے تو احمقوں کی جنت میں رہتی تھی۔ تبھی تو تمہاری جھوٹی محبت پر آنکھیں بند کرکے ایمان لے آئی تھی۔" وہ غصے سے اپنے ہاتھ چھڑوا کر بولی۔ "جھوٹی محبت۔۔ واٹ ربش۔۔ محبت کیسے جھوٹی ہوسکتی ہے زینب؟" "ہوتی ہے محبت بھی جھوٹی۔۔ تم نے کی ہے جھوٹی محبت۔" "تم پاگل ہوگئی ہو۔" "تو جاؤ ناں کیوں ایک پاگل کیساتھ سر کھپا رہے ہو؟" "ہاں جارہا ہوں مگر واپس آؤں گا آتا رہوں گا جب تک تمہارے دل سے یہ بد گمانیاں ختم نہیں ہوجاتیں میں آتا رہوں گا زینب۔" "جاؤ پلیز۔" اس نے رخ موڑ کر بے زاری سے کہا ۔ اسد نے ایک درد بھری نظر اس پر ڈالی پھر دروازے کو ٹھوکر مارتا چلا گیا تھا۔ زینب چند لمحے اپنے تنفس پر قابو پانے کی کوشش کرتی رہی پھر دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔


"زینب کیا ہوا ہے بیٹا کیوں رو رہی ہو تم؟" خالہ سکول سے لوٹیں تو اسے روتے پایا ، وہ پریشان ہوگئی تھیں۔ "خالہ۔۔ وہ آیا تھا۔" وہ سسکیوں کے درمیان بولی۔ "کون آیا تھا؟" "اسد۔۔۔" "کب ۔۔ اور اسے کیسے پتہ چلا کہ تم ادھر ہو؟" "وہ لڑکا جو اس رات ہمارے گھر ٹھہرا تھا وہ اسد ہی تھا خالہ۔" "اچھا۔۔ مگر اس دن تو اس نے نہیں بتایا تھا۔" "اسے خود بھی نہیں پتہ تھا کہ میں ادھر ہوں۔ کہہ رہا تھا کہ ڈیڑھ ماہ سے مجھے تلاش کررہا ہے۔" "اچھا۔۔ پھر کدھر چلا گیا ہے اب؟" "میں نے اسے گھر سے نکال دیا۔" وہ پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رودی "پگلی یہ کیا کردیا تو نے۔ کیوں نکال دیا اسے گھر سے؟" "مجھے اس پہ یقین نہیں وہ جھوٹا ہے۔" "یہ کیا کہہ رہی ہے تو زینب ؟ خود ہی تو کہہ رہی ہے کہ وہ تجھے ڈھونڈ رہا تھا تو پھر وہ جھوٹا کیسے ہوگیا۔" خالہ الجھیں "پتہ نہیں بس مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا خالہ۔۔" وہ مسلسل روئے چلے جارہی تھی "پاگل لڑکی۔۔ چل چپ کر۔ دیکھنا پھر آجائے گا اور اب میں خود اس سے بات کروں گی۔" انہوں نے اسکا سر سہلایا۔ "کیا بات؟" اس نے اپنی بھیگی ہوئی آنکھیں انکی طرف اٹھائیں۔ "میں اس سے کہوں گی کہ اگر تم واقعی زینب کیساتھ سنجیدہ ہو تو اس سے شادی کرلو۔" "شادی ۔" "ہاں تو شادی نہیں کرنی کیا؟"انہوں نے اسے گھورا۔ "پتہ نہیں۔" اس نے دوبارہ اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا۔


"زینب کی بے اعتباری جائز مگر میں کوئی دھوکے باز جھوٹا انسان نہیں ہوں آنٹی آپکو سب کچھ سچ بتا دیا ہے اب خود ہی آپ فیصلہ کریں۔" زینب کی خالہ کو سب کچھ تفصیل سے بتادینے کے بعد اس نے بال انکے کورٹ میں پھینک دی تھی۔ اندرونی کمرے میں بیٹھی زینب ایک ایک لفظ سن رہی تھی۔ "بیٹا زبانی کلامی محبت کا کوئی فائدہ نہیں اسمیں عورت ہمیشہ ہی خوف میں مبتلا رہتی ہے۔ عورت کو تحفظ چاہیے ہوتا ہے جو نکاح سے ہی ممکن ہے۔" انہوں نے دوٹوک بات کی۔ "میں ابھی اسی وقت زینب کے ساتھ نکاح کرنے پر تیار ہوں۔" اس نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر کہا۔ زینب کا دل ایک بار ڈوب کر ابھرا تھا۔ اور پھر شام کے وقت چند جاننے والوں کی موجودگی میں اسد اور زینب نکاح کے بندھن میں بندھ گئے۔ اسد اسے ساتھ لیے اپنے ریسٹ ہاؤس چلا آیا۔ ان دونوں کے درمیان گہری چپ کی چادر تنی ہوئی تھی۔ اسد نے اسے کمرہ دکھایا اور خود چلا گیا۔ زینب نے اپنا مختصر سا سامان کمرے میں رکھ دیا اور بستر کے ایک کنارے پر ٹک گئی۔ زندگی چند گھنٹوں میں ہی بالکل بدل کر رہ گئی تھی۔ نجانے کتنی دیر گزری جب اچانک لائٹ چلی گئی۔ وہ بے طرح چونکی۔ چند ثانیے بے حس و حرکت بیٹھی رہی پھر قدموں کی آہٹ سنائی دی اور اسد موم بتی ہاتھ میں لیے اندر آیا۔ "برفباری شروع ہوگئی ہے۔" اس نے موم بتی سنگھار میز پہ رکھتے ہوئے بتایا۔ وہ کچھ نہ بولی۔ اسد نے آتشدان روشن کیا اور اسکے قریب ہی فلور کشن رکھ کر بیٹھ گیا۔ چند لمحے گزرے تو زینب بھی اٹھ کر اسکے سامنے آ بیٹھی۔ "تم اپنے گھر والوں سے کیا کہو گے؟" اس نے پوچھا۔ "جو سچ ہے۔" اسد کے لہجے میں سکون تھا۔ "وہ سب بہت ناراض ہوں گے ناں تم سے؟" "ہاں، مگر خونی رشتوں میں ایک بات اچھی ہوتی ہے کہ وہ ٹوٹتے کبھی نہیں اسلیے نو ٹینشن ۔۔ انہیں منا لوں گا میں۔۔ زینب انسان کو زیادہ فوکس ان رشتوں پر کرنا چاہیے جو ٹوٹ بھی سکتے ہیں۔ جو اٹوٹ رشتے ہوتے ہیں ان کے پیچھے کاغذی رشتوں، دلوں کے بندھنوں اور وعدوں کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ وعدے نبھانا اہم ترین ہوتا ہے زینب۔ عورت کی آنکھوں میں خواب سجا کر خاندان کی مجبوریوں کے قصے سنا کے بد عہدی کرنے والے میرے نزدیک نامرد ہوتے ہیں۔ وہ انسان ہی کیا جو خاندان نے نظروں میں سرخرو ہونے کیلیے کسی کے دل کی دنیا اجاڑ دے ویران کردے۔ جب محبت کی ہے وعدے کیے ہیں تو پھر کیسا گھبرانا؟ یہ کوئی جرم تو نہیں جسے چھپایا جائے۔ یہ تو رب کائنات کی خاص عطا ہے۔ جو اس عطا کی قدر نہیں کرتے رب ان کو عمومی جانوروں والی زندگی میں مگن کردیتا ہے۔" وہ مدھم لہجے میں بول رہا تھا ، زینب کچھ نہ بول سکی۔ وہ اسے ہمیشہ ہی لاجواب کردیا کرتا تھا۔ موم بتی کی ہلکی زرد روشنی میں کمرے کا ماحول بڑا خوابناک لگ رہا تھا۔ آتشدان کی سرخ روشنی کا عکس زینب کے چہرے پر پڑ رہا تھا اور اسکا حسن جیسے دہک رہا تھا۔ "میں نے دن رات تمہیں ہی سوچا اسد کبھی لگتا تھا تم جھوٹے نکلے کبھی لگتا تھا نہیں سب سے زیادہ سچے تو تمہی ہو۔" وہ بولی "تم یہ سب سوچتی رہیں زینب اور میں یہ سوچتا رہا کہ جانے تم کہاں اور کس حال میں ہوگی۔" "مجھے یہ ڈر تھا کہ کہیں تم نے میرے ساتھ فلرٹ نہ کیا ہو۔" "یقین نہیں تھا ناں تمہیں مجھ پر زینب۔۔" وہ درد بھرے انداز میں مسکرایا۔ "یقین تھا مگر وہ سچویشن۔۔" "زینب سچویشن میرے ساتھ بھی سیم تھی تم بغیر بتائے چلی گئی تھیں میں بھی بدگمان ہوسکتا تھا مگر مجھے تو بس تمہاری فکر ہی رہی۔ زینب عورت کے دل میں فورا سے یہ خیال کیوں آجاتا ہے کہ مرد نے اسکے ساتھ فلرٹ کیا ہوگا دھوکہ دیا ہوگا، وہ کبھی یہ کیوں نہیں سوچتی کہ مرد کیساتھ بھی کوئی مسئلہ ہوسکتا ہے وہ بھی کبھی دھوکہ کھا سکتا ہے؟ کیا عورت کی محبت مرد کی محبت کی صداقت سے مشروط ہوتی ہے خود اس کے دل کے جذبے کی صداقت کسی کام کی نہیں ہوتی؟" وہ بہت نرم لہجے میں پوچھ رہا تھا زینب کچھ نہ بول سکی۔ بس سر جھکائے بیٹھی رہی۔ "زینب یقین کرنا سیکھو۔۔ بھلے اکثریت وعدہ خلاف ہو مگر پھر بھی ہر مرد ایک جیسا نہیں ہوتا۔۔۔" اس نے اسکے جھکے سر کی جانب دیکھتے ہوئے کہا زینب نے سر ہلا دیا۔ "زینب۔۔۔" کچھ دیر بعد اس نے پھر اسے پکارا۔ "ہممم۔" "ہم اپنا ایک لکڑی کا ہٹ بنائیں گے۔۔ یہاں جھرنے کے پاس۔" "اور وہاں طوطے ہونگے مور ہونگے اور میں کسی ملکہ کی طرح سفید گھوڑے پر بیٹھوں گی اور تم باگ تھام کر چلو گے۔" وہ آدھے بولنے سے قبل ہی بولے گئی اور پھر وہ دونوں ہی ہنس دیئے "خواب بہت مشکل سے پورے ہوتے ہیں نا اسد؟" "خوابوں کو پورا کیا جاتا ہے زینب، ہمت ہارے بغیر وہ خودبخود کبھی پورے نہیں ہو جاتے۔" وہ ہمیشہ ہر چیز کا روشن پہلو دیکھنے کا عادی تھا۔ "اگر تم نہ ہوتے تو میں کبھی تاریکیوں سے نہ نکل پاتی اسد۔" وہ تشکر آمیز لہجے میں بولی۔ "کیسے نہ ہوتا میں زینب۔۔ مجھے تو ہونا ہی تھا تمہارے پاس۔۔ تمہارے عشق میں گرفتار ۔۔۔" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر جذب کے عالم میں بولا تھا۔ زینب نے اسکے چہرے کے ایک ایک نقش کو اپنے دل میں اترتے پایا۔ وہ محبتوں میں کتنا سچا انسان تھا۔ "آئی لو یو اسد۔" وہ بے اختیار بول اٹھی۔ "مجھے پتہ ہے زینب۔" اس کی آنکھوں میں نمی چمکی تھی۔ زینب نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے اپنا سر گھٹنوں پر رکھ دیا۔ رات سرد ترین ہوتی جارہی تھی اور وہ دونوں سر جھکائے آنسو بہاتے ہوئے ایک بار پھر عشق کو آنسوؤں کا خراج دے رہے تھے۔


زینب نے اپنے پاؤں چپلوں کی قید سے آزاد کرکے دھیرے سے جھرنے میں اتارے۔ اسد نے اس کے کھلے بالوں میں ایک سرخ گلاب سجایا اور اسکے برابر ہی بیٹھ گیا۔ "دیکھو تو پانی کا رنگ کیسا بدل گیا ہے۔" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکرایا۔ "تم پاگل ہو۔" وہ سر جھٹک کر مسکرائی۔ "تم نے کردیا ہے پاگل مجھے۔" اسد نے اسکے خوشبو اڑاتے بالوں کو ہاتھوں سے چھوا۔ "میں نے نہیں کیا، تم ہو ہی پاگل۔" وہ مزے سے بولی "اچھا۔ اور تم تو بہت بڑی ارسطو ہو ناں جیسے۔ ذرا ذرا سی بات پر بدگمان ہوجاتی ہو۔" وہ برا مان گیا تھا۔ "عورت کا حق ہے ناراض ہونا بدگمان ہونا اور مرد کا فرض ہے کہ وہ اسے منائے اور اسکی بدگمانی کو دور کرے۔" وہ ناز بھرے انداز میں بولی "اور عورت کا کوئی فرض نہیں؟" اسد نے بھنویں اچکائیں۔ "ہے ناں۔" "کیا؟" "مرد سے بدگمان ہونا اور ناراض ہونا۔" وہ شوخی سے مسکرائی۔ "اگر میں تمہیں پانی میں دھکا دے دوں تو؟" "پانی میں سنہرا سا غرور اتر آئے گا۔" "جی نہیں سنہرا غرور اترے گا ۔۔ بڑی آئی سنڈریلا کہیں کی۔" وہ برا سا منہ بنا کے بولا۔ "میں سنڈریلا نہیں پری ہوں۔" "کس نے کہہ دیا؟" "کہا تھا ایک بندے نے۔" زینب نے شانے اچکائے۔ "اندھا تھا وہ۔" اسد اٹھ کھڑا ہوا وہ بھی اٹھی۔ "اور پاگل بھی۔" زینب نے اسکے سینے پر سر رکھا۔ "اب فری کیوں ہورہی ہو؟" "میرے مرضی۔" "تھپڑ مار دوں گا میں۔" "میں تمہیں پانی میں دھکا دے دوں گی۔" "مجھے تیرنا آتا ہے۔" "میں نے ڈوبنے کیلیے دھکا دینا بھی نہیں۔" "پھر کس لیے؟" "اس لیے۔۔" اس نے یکدم اس سے تھوڑی دور ہٹتے ہوئے اسے زوردار دھکا دے کر پانی میں گرا دیا تھا۔ ٹھنڈا یخ پانی گوکہ اسد کی کمر تک ہی تھا مگر اسے شدت سے جھرجھری آگئی تھی۔ "زینب۔۔" اس نے دانت پیسے پھر اس سے قبل کہ وہ پانی سے باہر آتا زینب بھاگتے ہوئے چڑھائی چڑھنے لگی تھی۔ وہ غصے سے خوں خوں کرتا اس کے پیچھے پیچھے تھا سڑک تک پہنچ کر اس نے اسے جالیا۔ زینب اپنا تنفس بحال کرتے ہوئے مسلسل ہنسے جارہی تھی۔ "اسٹوپڈ لڑکی ۔۔" اس نے بڑھ کر اس کے سر پر چپت رسید کی۔ "مزہ آیا ناں؟" "جی بہت اب میں روز تمہیں اسی جھرنے میں ڈبکیاں دیا کروں گا تاکہ تم بھی اس مزے سے محروم نہ رہو۔" "ہاہا۔" "سنو زینب میں نے کل اسلام آباد جانا ہے۔" "کیوں؟" "ممی ڈیڈی سے ملنے اور انہیں شادی کے متعلق بتانے کیلئے۔" "واپس کب آؤگے؟" "دیکھو۔ تم سے کانٹیکٹ میں رہوں گا۔" "مجھے ساتھ لے چلو۔" "نہیں ابھی نہیں۔ پہلے میں جاکر صورتحال کا جائزہ لوں گا پھر تمہیں لیکر جاؤں گا۔" "جلدی آجانا اسد۔" "بدگمان مت ہونا زینب۔" اسکے دونوں ہاتھ اپنی گرفت میں لیکر اسنے بہت سنجیدہ لہجے میں کہا تھا۔ "لیکن یہ تو میرا حق ہے ناں۔" زینب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھری۔ "دفع ہو تم مرو." وہ اسکے ہاتھ چھوڑ کر تیزی سے چلنے لگا تھا۔ وہ ہنستے ہوئے اسکے پیچھے چلنے لگی۔


"واٹ شادی۔۔ تم پاگل تو نہیں ہوگئے اسد؟" ڈیڈی کی آواز میں حیرت تھی۔ ممی اور دونوں بھائی بھی ہکابکا تھے۔ "اس میں پاگل ہونے والی کیا بات ہے ڈیڈی۔" اسد کا لہجہ پرسکون تھا۔ "تم نے شادی کرلی اور ہمیں اب بتا رہے ہو۔؟" عادل بھائی بولے۔ "جی۔" "اب بھی کیوں بتایا ہے ضرورت ہی کیا تھی۔ تم نے اپنی ترجیحات طے کرلی ہیں اسد اب تم یہاں کیا لینے آئے ہو؟"ڈیڈی بولے "زینب کو تحفظ اور نام دینا بہت ضروری تھا ڈیڈی ، میں نے اس سے وعدہ کر رکھا تھا۔" "وعدہ وعدہ وعدہ ۔۔۔ بھاڑ میں جائے وعدہ۔ انسان زندگی میں ڈھیروں وعدے کرتا ہے کیا وہ سب پورے کرلیتا ہے؟ اب کیا وعدے پورے کرنے کیلیے اپنی عزت اور مقام پر داؤ پر لگا دیا جائے۔" ممی چڑ کے بولیں۔ "اصولاً تو یہی ہونا چاہیے ممی ، اہم ترین چیز تو وعدے کی پاسداری ہی ہے ناں۔ اللہ کے سامنے تو وہی سرخرو ہوتے ہیں جو عہد کی پاسداری کرتے ہیں سچ بولتے ہیں۔" اس نے سر جھکا کر کہا۔ "بس! اتنے ہم کوئی ولی اللہ نہیں ہیں۔ ہم عام انسان ہیں اور خاص بن بھی نہیں سکتے۔ اللہ سب کو معاف کردیتا ہے اسلیے اس بات کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ معاشرے میں ہماری ایک عزت ہے اسے برقرار رکھنا ہر چیز سے زیادہ اہم ہے۔" ممی نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ "ایسا نہیں سوچنا چاہیے ممی۔" "شٹ اپ اسد۔ تم نے اس لڑکی سے وعدہ پورا کرنے کے لیے ماں باپ کو ذلیل کروا دیا ہے۔ اللہ ہی کہتا ہے کہ ماں باپ کے سامنے اف بھی نہ کرو۔" ممی بولیں "میں آپ سب کو کنونس کرنے کی کوشش کررہا ہوں ممی، شادی تو میرا پرسنل میٹر ہے جس بھی عورت سے چاہوں کرسکتا ہوں۔" وہ ابھی بھی سر جھکائے کھڑا تھا۔ "پرسنل میٹر مائے فٹ۔ دفع ہو جاؤ تم میرے گھر میں تم جیسی ناخلف اولاد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔" ڈیڈی بھڑک اٹھے۔ "ڈیڈی پلیز۔ آپ ہائپر مت ہوں۔ اگر آپ مجھے اور زینب کو اس گھر میں جگہ نہیں دینا چاہتے تو آپ کی مرضی مگر پلیز مجھے غلط مت سمجھیں۔" اس نے لجاجت آمیز لہجے میں کہا۔ "تم نے جو کام کیا ہے اس کے بعد تمہیں پھولوں کے ہار تو پہنائے جا بھی نہیں سکتے۔" ڈیڈی نے کہا۔ "آئم سوری ڈیڈی مگر زینب کو ضرورت تھی میرے سہارے کی۔ وہ بہت بے اعتبار ہوگئی تھی۔" "زینب جائے بھاڑ میں۔" ڈیڈی چلائے۔ "وہ میری بیوی ہے ڈیڈی۔" "بیوی۔۔۔" انہوں نے دانت پیسے۔ "ایسی بیویاں تو گلی محلوں میں چند پیسوں کے عوض بھی مل جاتی ہیں." "ڈیڈی۔۔ انف۔۔ آپ کو کوئی حق نہیں ہے کہ میری بیوی کے متعلق ایک لفظ بھی غلط کہیں۔" اس نے سخت لہجے میں کہا۔ "سچ سننے کا حوصلہ پیدا کرو ایسی لڑکیوں کو لوگ یہی کہتے ہیں۔" ممی نے کہا "تو پھر مجھے لوگوں کی ضرورت ہی نہیں۔ میں جارہا ہوں زینب کے پاس۔" وہ جذباتی انداز میں کہہ کر کمرے سے چلا گیا۔ "یہ لڑکا پاگل ہوگیا ہے۔" اسکے جاتے ہی ڈیڈی نے کہا "اگر وہ چلا گیا تو ۔۔۔" عادل بھائی بولے "جانے دو، چند دن فاقے کرنے پڑیں گے تو خود ہی لوٹ آئے گا۔" انہوں نے کروفر سے کہا۔ "وہ بہت ضدی ہے شعیب۔" ممی نے کہا "کتنا بھی ضدی ہو مگر بھوک سے زیادہ ضدی کوئی چیز نہیں ہوتی ، ہر ضد کو ہرا دینے کی طاقت ہوتی ہے اسمیں۔" انہوں نے شانے اچکا کر کہا اور اٹھ کر باوقار چال چلتے کمرے سے چلے گئے۔


وہ اگلے ہی روز سوات چلا آیا تھا۔ زینب خالہ کے گھر اس کی منتظر تھی جیسے ہی وہ دروازے سے اندر داخل ہوا وہ جو آنگن میں چارپائی پر بیٹھی تھی دوڑ کر اسکے سینے سے لگ گئی۔ "تم آگئے اسد میں تو سمجھی تھی کافی سارے دن لگا دو گے۔" "بس تمہارے بغیر دل نہیں لگا میرا۔" اس نے محبت سے کہا اور اسے بازو کے حصار میں لیے آنگن پار کرکے کمرے میں آیا۔ خالہ ابھی سکول سے نہ لوٹی تھیں۔ "کچھ کھاؤ گے؟" "چائے پیوں گا۔" اس نے بیگ رکھ کر بستر کنارے ٹکتے ہوئے کہا۔ "تم منہ ہاتھ دھو لو میں چائے لاتی ہوں۔" زینب اسے ھدایت دے کر کمرے سے چلی گئی۔ اسد نے گہری سانس لی۔ اس کا ذہن الجھا ہوا تھا۔ اس کے پاس فی الحال اتنے پیسے تو تھے کہ وہ دونوں آرام سے دو تین ماہ گزار سکتے تھے مگر اسکے بعد کیا ہوگا۔۔ یہ سوال اسے پریشان کررہا تھا۔ نامکمل تعلیم کے ساتھ نوکری کا حصول بھی مشکل تھا۔ اور یوں شہر سے دور بیٹھے رہنا بھی بے وقوفی ہی تھی۔ اس نے اب سنجیدگی سے آئندہ زندگی کے لیے سوچنا شروع کردیا تھا۔ اسی رات اس نے زینب سے سب سچ کہہ دیا وہ سن کر بہت گم صم ہوگئی تھی۔ "میری وجہ سے تمہاری زندگی میں بہت مشکلات بھر گئی ناں اسد۔" وہ سر جھکا کے بولی "کوئی مشکلات پیدا نہیں ہوئیں، اللہ سب تدبیر کردیتا ہے۔" اسد نے اسکا گال تھپتھپایا۔ "آئم سوری اسد۔" "شٹ اپ زینب۔" اس نے سر جھٹکا۔ "سوجاؤ اب مجھے کچھ سوچنے دو۔" "کیا سوچنا ہے تم نے؟" "بہت کچھ سوچنا ہے تم سوجاؤ بس۔" "مگر مجھے نیند نہیں آرہی۔" "تو یہ لو موبائل یوز کرو۔" اس نے اپنا موبائل اسے تھمایا اور خود اٹھ کر کمرے سے باہر نکل آیا۔ چبوترے کے پاس ٹہلتے ہوئے وہ متفرق سوچوں میں گھرا ہوا تھا۔ اسے اب سنجیدگی کے ساتھ اپنی اور زینب کی زندگی کو سیٹل کرنے کے لیے پلاننگ کرنا تھی۔ جتنے پیسے اس کے پاس تھے ان کو اب سوچ سمجھ کر خرچ کرنا تھا اور نوکری بھی تلاش کرنا تھی۔ وہ گھر سے اپنے تمام ڈاکیومنٹس لے آیا تھا مگر بی ایس بھی اسکا مکمل نہ تھا اس لیے کسی اچھی نوکری کی تو وہ توقع ہی نہ کرسکتا تھا۔ بہرحال کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اور زینب خالہ پر بوجھ بنے رہیں۔ وہ اس رات دیر تک سوچتا تھا۔

   0
0 Comments