Orhan

Add To collaction

گرفتم

گرفتم از قلم فضہ بتول قسط نمبر11

اسد نے اپنی سیونگز سے شہر میں ایک گھر کرائے پر لیا کچھ ضرورت کی چیزیں خریدیں اور وہ دونوں اس گھر میں منتقل ہوگئے۔ اسنے مالک مکان کو تین ماہ کا کرایہ ایڈوانس میں ادا کردیا تھا اور اب اس کے پاس اتنے ہی پیسے بچے تھے کہ بمشکل چند دن گزر سکتے تھے اسلیے وہ سنجیدگی سے نوکری تلاش کرنے لگا۔ سارا دن نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھرنے کے بعد وہ مایوس لوٹا تھا۔ زینب رو پہلی کرن کی طرح مسکراتی ہوئی اسکی منتظر تھی وہ کچھ دیر اسکے سنگت میں ساری تھکن بھول گیا تھا، کھانے کے بعد وہ اور زینب چھت پر چلے آئے۔ حالانکہ سردی خاصی شدید تھی پھر بھی اس وقت یہاں ٹہلنا اچھا لگ رہا تھا۔ "تم سارا دن کہاں رہے اسد؟" "یار بس جاب کی تلاش میں رہا۔ ایکچوئیلی میں ادھر کسی کو بھی نہیں جانتا اس لیے سمجھ نہیں آرہا کیا کروں۔" اس نے بتایا "خالہ سے بات کروں وہ اپنے سکول میں کسی سے کہیں۔" "ہوں۔۔ کرلو بات۔۔ یار زینب میری تعلیم بھی مکمل نہیں ہے اس وجہ سے اچھی جاب ملنا تو مشکل ہی ہے اور ہمارے پاس پیسے کم ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ مجھے جلد از جلد کوئی کام مل جائے۔" اس نے فکر مندی سے کہا۔ "تم پریشان مت ہو اسد رزق کا وعدہ اللہ کا ہے وہ ضرور دیتا ہے۔ ہم نے شادی اس لیے تھوڑی کی ہے کہ تم بس روزگار کے لیے فکر مند رہو۔ شادی سے پہلے ہم جتنا ٹائم ملتے تھے مکمل ایک دوسرے کے ہوتے تھے تفکرات سے آزاد۔ مگر جب سے شادی ہوئی ہے ہر وقت فکریں پریشانیاں ہی گھیرے رہتی ہیں۔" وہ منڈیر سے ٹیک لگائے ہوئے بولی۔ چاند کی روشنی میں نہایا اسکا وجود بڑا دلکش لگ رہا تھا اسد نے اسے شانوں سے تھاما۔ "ٹھیک کہتی ہو۔ بس اب سے نو مور ٹینشنز۔ جو وقت ساتھ گزاریں گے مکمل اک دوسرے کے ہوکر گزاریں گے۔" "آؤ باتیں کرتے ہیں۔" وہ اشتیاق بھرے لہجے میں بولی۔ "اوکے تم بولو میں سن رہا ہوں۔" اسد نے دونوں بازو سینے پر لپیٹے "تمہیں پتہ ہے میں نے آج تمہارے سب کپڑے استری کرکے الماری میں لٹکا دیئے ہیں تاکہ تمہیں پریشانی نہ ہو۔" "اب اتر آئی تم گھریلو باتوں پر۔" اسد نے منہ بنایا "تو پھر مجھے تمہاری طرح شاعرانہ اور فلسفیانہ باتیں کرنا تو نہیں آتیں۔" "ہممم۔۔ اے زینب وہ دیکھو چاند کتنا اچھا لگ رہا ہے ۔" اسد نے آسمان کی جانب انگلی سے اشارہ کیا۔ زینب نے گردن اٹھا کر دیکھا۔ پورا چاند چمک رہا تھا اور اسکے اردگرد بادل کے چند آوارہ ٹکڑے اڑ رہے تھے۔ "مجھ سے زیادہ اچھا تو نہیں ہے ناں چاند؟" اس نے ناز بھرے انداز میں پوچھا "اوں ہوں ۔۔۔ تم سے زیادہ اچھا تو کوئی بھی نہیں۔" "بالکل۔" زینب نے شانے اچکائے "آئی لو یو زینب۔" "آئی لو یو ٹو اسد۔" "بہت سردی ہے زینب اور میں برف کا آدمی نہیں ہوں۔" "تم نان رومینٹک ہو۔" "لعنت ہے ایسے رومینس پر جو برف میں جم کر کیا جائے۔" اسد نے دانت کٹکٹائے۔ "ایسی بھی کوئی جما دینے والی سردی نہیں ہے." "ایسی کوئی پگھلا دینے والی گرمی بھی نہیں ہے۔" "جاؤ تم میں تو ابھی یہیں رکوں گی۔" "اوکے تم یہیں رکو میں صبح آکر تمہاری منجمد لاش ریسیو کرلوں گا۔" وہ جانے کو پلٹا۔ "اگر تم گئے تو مجھ سے ساری زندگی بات مت کرنا اسد۔" زینب نے جلدی سے دھمکی دی۔ "اگر اس سردی میں کچھ دیر اور کھڑا رہا تو ویسے ہی فوت ہوجاؤں گا ،بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ اللہ اکبر۔" وہ معصومانہ انداز میں بولا "فضول باتیں مت کرو دیکھو کتنی پیاری رات ہے۔ پورا چاند ہے میں اور تم ہیں۔۔" وہ اسکے قریب ہوئی۔ "اور سردی۔۔" اسد کراہا۔ زینب نے اسکے سینے پر دھپ لگائی "سارا رومان کرکرا کررہے ہو۔" "یہ لو رومان کا بنڈل ۔۔" اس نے جھک کر اسکے گال کو ہونٹوں سے چھوا۔ "اب پیچھا چھوڑو میرا میں سردی سے آئسکریم بن گیا ہوں۔" وہ اسے پیچھے ہٹاتا سرعت سے زینوں کی طرف بڑھ گیا وہ سر جھٹک کر اسکے پیچھے چلی آئی۔


"اتنے دن گزر گئے ہیں اسد کی کوئی خیر خبر نہیں۔ پتہ نہیں کہاں خوار ہورہا ہوگا میرا بچہ۔" سمیرا نے فکرمندانہ لہجے میں شعیب سے کہا جو اپنے موبائل میں مصروف تھے۔ "خوار ہوگا تو گھر کی قدر آئے گی اور اس گھٹیا لڑکی کے عشق کا بھوت اترے گا سر سے۔" انہوں نے پر اطمینان لہجے میں جواب دیا۔ "اور اگر اس نے ہمارے سب اندازے غلط ثابت کردیئے؟" "کم آن! کیا بچوں جیسی باتیں کر رہی ہو ، وہ اے سی میں سونے والا، گاڑی میں گھومنے والا ،منرل واٹر پینے والا اور فاسٹ فوڈ کھانے والا ایک امیر زادہ ہے۔ اس کے لیے غربت کی زندگی گزارنا بالکل بھی آسان نہیں ہے۔ تم دیکھ لینا وہ آ جائے گا واپس۔" وہ پریقین تھے۔ "شعیب میں سوچتی ہوں کہ کیا حرج ہے اگر ہم اسد کی بیوی کو تسلیم کرلیں۔ وہ ایک اچھی فیملی کی لڑکی ہے۔" "شٹ اپ اپنی فضول سوچ کو خود تک محدود رکھو۔" شعیب نے پیشانی پر بل ڈالے۔ "اس میں آخر مضائقہ کیا ہے۔" "ہے مضائقہ ۔ اب بلاوجہ میرا دماغ مت خراب کرو۔" "شعیب وہ میرا بیٹا ہے ، پتہ نہیں وہاں کس حال میں رہ رہا ہوگا۔ مجھے اس لڑکی کی کوئی پرواہ نہیں لیکن اسد کو ایسی زندگی کی عادت نہیں ہے۔" "تو تمہیں کس نے روکا ہے جاؤ جاکر ملو اپنے بیٹے سے مگر اس کے بعد اس گھر میں واپس مت آنا اور جانے سے قبل طلاق کے کاغذات لیتی جانا۔" وہ حتمی لہجے میں کہتے ہوئے اٹھے اور کمرے سے چلے گئے تھے۔ سمیرا کا چہرہ ہتک سے سرخ ہوگیا۔


"یار ایک ٹیوشن مل گئی ہے۔ فرسٹ ائیر کا بچہ ہے میتھس پڑھانا ہے اسے۔" اسد نے زینب کو بتایا۔ "گڈ۔" اس نے چائے کا کپ اسکے سامنے رکھا۔ "تمہیں میتھس آتا ہے؟" "آف کورس آتا ہے کوئی نالائق تو نہیں ہوں میں۔" اس نے چائے کا گھونٹ بھرا تو زینب مسکرادی۔ "نالائق تو میں بھی نہیں مگر مجھے پڑھنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔" اس کا منہ لٹک گیا۔ "تو تم ایسا کرو کہ اب جب ایڈمیشن کھلیں تو بی اے میں داخلہ لے لینا۔ کالج تو قریب ہی ہے۔" اس نے تجویز پیش کی۔ "تم پر اتنا برڈن پڑے گا۔" "کیا برڈن پڑے گا یار، سرکاری کالج کی فیس ہی کتنی ہوتی ہے۔ خود ہی تو کہتی ہو کہ رزق اللہ دیتا ہے پھر کیسی فکر؟" وہ لاپرواہ سے انداز میں بولا اور پھر صوفے کی پشت سے ٹک کر چائے پینے لگا۔ "سنو آج خالہ کی طرف چلیں اگر تم بہت زیادہ تھکے نہیں ہوئے تو۔۔" "چلتے ہیں یار۔ ویسے میں سوچ رہا تھا کہ خالہ کو بھی ادھر ہی لے آتے ہیں وہاں اکیلی تو بور ہوجاتی ہوں گی بیچاری۔" "وہ نہیں آئیں گی یار میں نے ان سے کہا تھا۔ وہ کہتی ہیں میں بیاہ کر اس گھر میں آئی تھی اب میرا جنازہ ہی اٹھے گا یہاں سے۔" زینب نے خالہ کے الفاظ من و عن دہرا دیئے۔ "کمال ہے بھئی۔" وہ ہولے سے ہنس کر خاموش ہوگیا شام کو وہ دونوں خالہ کی طرف چلے گئے۔ خالہ کے گھر پر کافی لڑکیاں اکٹھی تھیں ، اور وہ انہیں سلائی کڑھائی سکھا رہی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ سکول کے بعد گھر پر بچیوں کو سلائی کڑھائی سکھانے لگی ہیں اس طرح انکی تنہائی کا بھی تدارک ہوگیا ہے اور مصروفیت بھی مل گئی ہے۔ وہ دونوں رات کو وہاں سے واپس آئے تھے۔ راستے میں اسد نے زینب کو کہا۔ "زینب اس سادہ سی زندگی میں بہت سکون ہے یار، بہت زیادہ پیسہ اور لگژریز انسان کا روحانی سکون چھین لیتے ہیں۔" "ہممم اور بے حسی بھی تو پیدا ہوجاتی ہے انسان میں پیسے کی فراوانی کی وجہ سے۔" "سچ کہتی ہو۔ بس انسان کے پاس اتنا ہی پیسہ ہونا چاہئے کہ وہ تین وقت کی روٹی باعزت طریقے سے کھا سکے۔" "کبھی کبھی فاقہ بھی کرنا چاہیے اسد، اللہ سے دوستی گہری ہوجاتی ہے فاقہ کرنے سے۔" وہ مسکرائی تھی "مجھے کبھی اس کا تجربہ نہیں ہوا۔" "ہوں۔۔" وہ ہنکارا بھر کر خاموش ہوگئی۔ بقیہ رستہ وہ دونوں ہی چپ رہے تھے۔


"آج بہت دیر کردی تم نے؟" وہ جیسے ہی گھر پہنچا تو زینب نے پوچھا "ہاں یار وہ میرا اسٹوڈنٹ ہے ناں شیر گل اس نے اپنے کلاس فیلوز کو بتایا تھا میرا متعلق تو آج اس کے چار دوست بھی آگئے ٹیوشن پڑھنے۔ وہ سب بہت متاثر ہوئے میرے ٹیچنگ سٹائل سے۔ شیرگل کہہ رہا تھا کہ ایک وائٹ بورڈ خرید لے گا تاکہ کلاس کا سا ماحول بن جائے۔" اس نے صوفے پر بیٹھ کر جوتے اتارتے ہوئے اسے بتایا۔ "یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ چائے پیو گے؟" "نہیں یار چائے تو شیر گل کے گھر پی لی تھی۔ وہ لوگ اتنی خاطر تواضع کرتے ہیں اور اسکے والد جو ریسپیکٹ دیتے ہیں مجھے سیریسلی میں تو شرمندہ ہوجاتا ہوں۔" "اچھا ویسے یہاں کے مقامی لوگ اساتذہ کی بہت عزت کرتے ہیں۔" "ہاں یہ تو ہے۔ اچھے لوگ ہیں یار۔ مجھے تو مزہ آتا ہے ان بچوں کو پڑھا کے۔ بہت توجہ سے پڑھتے ہیں محنتی بچے ہیں۔" "ہوں۔۔ اسد تم نے اپنی امی کو فون کیا؟" "نہیں کیوں؟" "کرلو، وہ ضرور ویٹ کرتی ہوں گی۔" "یار وہ مجھ پر پریشر دیتی رہیں گی کہ تمہیں چھوڑ دوں سب کچھ چھوڑ کر واپس چلا آؤں یہ وہ۔۔" اسد نے بے زاری سے کہا "اسد آخر پسند کی شادی پر ہی کیوں ایشوز بنتے ہیں؟" "کیونکہ ہم سب کا دماغ خراب ہے۔ ہمارے اندر کی ان سیکیورٹیز ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ ہم دوسروں کی زندگیوں کو اپنے کنٹرول میں رکھیں۔" اس نے ترش لہجے میں جواب دیا۔ "عجیب ہی سوچ ہے یہ تو۔" "عجیب تر کہو۔ خود غرضانہ رویوں کو محبت پر محمول کرکے جینے والے لوگ ہیں یہ۔ جبکہ محبت کا کسی کی لائف کنٹرول کرنے اور خود غرضانہ رویہ شو کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔" اس نے گہری سانس بھری "اچھا چھوڑو ان باتوں کو۔ یہ بتاؤ میں کیسی لگ رہی ہوں۔" اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ جامنی اور آف وائیٹ امتزاج کے شلوار قمیض میں وہ دمک رہی تھی، لمبے بال کھلے ہوئے تھے "بہت خوبصورت۔" "بس اتنی سی تعریف۔" زینب کا منہ لٹک گیا "غزل سناؤں؟" "نہیں ۔ اتنی تعریف کافی ہے ۔" وہ ہنستے ہوئے اسکے برابر بیٹھ گئی "تمہاری خوبصورتی کی تعریف میں تو پورا دیوان لکھا جا سکتا ہے۔" "مگر مجھے شاعری نہیں پسند." "مجھے تو پسند ہے۔" "اچھا یہ بتاو رات کے کھانے کے لیے کیا بناؤں؟" "جو دل چاہے بنا لو۔ میں تھوڑی دیر سوؤں گا۔ بڑی نیند آرہی ہے۔" اس نے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا۔ "اپنا موبائل دے دو ناں میں نے گیم کھیلنی ہے۔" اس نے ہاتھ آگے بڑھایا "تمہارا موبائل اب تک میرے سامان میں ویسے کا ویسا رکھا ہے جیسا تم چھوڑ کے گئی تھی۔" اس نے پتلون کی جیب میں سے موبائل نکال کر اسے تھماتے ہوئے بتایا "اچھا مگر اسکی گیمز نہیں ہیں۔" "انسٹال کردوں گا۔ مجھے نو بجے تک جگا دینا۔" "اچھا جگا دوں گی۔" زینب نے اشتیاق سے گیم کھیلتے ہوئے کہا۔ اسد کمرے میں چلا گیا۔


"ہیلو السلام علیکم ممی!" "وعلیکم السلام کیسے ہو اسد؟" "ٹھیک ہوں ممی۔ آپ کیسی ہیں؟" "تمہارے بغیر بہت اداس ہوں بیٹا تم مجھ سے ملنے کب اؤگے؟" "ممی ابھی آنا ممکن نہیں ہے، بہت مصروف رہتا ہوں میں سارا دن۔" "کیا کرتے ہو؟" "ممی ٹیوشنز پڑھاتا ہوں۔" "ٹیوشنز۔۔۔ اسد میں نے تمہارے لیے یہ خواب تو نہیں دیکھے تھے۔" ممی دوسروں کو تعلیم دیکھنا کوئی کمتر کام تو نہیں۔" "مگر تم ایک مل اونر کے بیٹے ہو اسد یہ سب تمہارے معیار سے بہت نیچے کی بات ہے۔" "میں خوش ہوں ممی۔" "تم کیوں ضد پر اڑے ہوئے ہو اسد۔ چھوڑ دو اس لڑکی کو آجاؤ واپس." "وہ میری بیوی ہے ممی۔" "واٹ ایور اسد۔۔" "ممی پلیز کوئی اور بات کریں۔" "اچھا اوکے۔۔ جمعے کو آسکتے ہو؟" "خیریت؟" "بیٹا میں تم سے ملنے کے لیے تڑپ رہی ہوں مگر تمہارے ڈیڈی نے مجھے دھمکی دی ہے کہ اگر میں تم سے ملنے گئی تو وہ مجھے طلاق دے دیں گے." ممی رو پڑی تھیں اسد کا دل دھڑکنے لگا "ممی پلیز مت روئیں۔ میں کل ہی آؤں گا آپ سے ملنے۔ ڈیڈی ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں۔۔" وہ تڑپ اٹھا۔ ممی کچھ نہ بولیں مگر وہ انکی سسکیاں سن رہا تھا "آئی لو یو ممی پلیز مت روئیں میری جان بھی حاضر آپ کے لیے۔ میں کل آؤں گا پکا وعدہ۔" اس نے انہیں تسلی دی "آنا ضرور اسد میں انتظار کروں گی۔" ممی نے بھیگے لہجے میں کہا "آؤں گا ممی میں ضرور آؤں گا۔" اس کی آواز میں بھی نمی جھلکی تھی۔ ممی نے سلسلہ منقطع کردیا تو وہ سیل جیب میں ڈالتا ہوا کمرے میں لوٹ آیا جہاں شیرگل اور اسکے دوست اسکے منتظر تھے۔ اس نے مارکر اٹھایا اور بورڈ پر حل شدہ ادھورے سوال کی طرف متوجہ ہوگیا۔


"ممی بہت رو رہی تھیں زینب۔" وہ اس کے زانو پر سر رکھے چت لیٹا تھا۔ زینب اسکے موبائل پر گیم کھیلنے میں مصروف تھی "کیوں کیا ہوا انہیں؟" اس نے موبائل کی سکرین آف کرتے ہوئے پوچھا "ڈیڈی نے انہیں دھمکی دی ہے کہ اگر وہ مجھ سے ملنے آئیں گی تو وہ انہیں طلاق دے دیں گے۔" "اوہ۔۔ یہ کیا بات ہوئی اسد۔ تم ان کے بیٹے ہو۔ انہیں تم سے ملنے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔" "ڈیڈی ایسے ہی ہیں۔ ضدی۔" "اچھا تم پریشان مت ہو۔" زینب نے اسکے بال سہلائے "یار میں کل ممی سے ملنے جارہا ہوں، مجھے انکا رونا نہیں بھول رہا۔" "ٹھیک ہے ضرور جاؤ بلکہ میں بھی ساتھ چلتی ہوں۔" "نہیں تم نہیں۔ تمہیں دیکھ کر ممی بھی بھڑک جائیں گی اور تم ہرٹ ہوگی۔" وہ اٹھ بیٹھا "تو کیا تم مجھے کبھی بھی اپنے ساتھ اسلام آباد نہیں لیکر جاؤگے؟" "پتہ نہیں یار۔" وہ الجھا ہوا تھا۔ زینب نے عقب سے اسکے گرد بازو حمائل کرکے اسکے کندھے پر سر ٹکا دیا "جلدی آجانا اسد۔" "زینب ابھی میں گیا بھی نہیں ہوں اور تم مجھے کمزور کرنے کی کوشش کررہی ہو۔" وہ نرم لہجے میں بولا "یعنی میں تمہاری کمزوری ہوں ؟" "ہاں۔۔" اس نے بلا تامل کہا "پھر تو اچھا ہے ناں۔" وہ مسکرائی "کیا اچھا ہے؟" اسد نے گردن گھما کر اسکی طرف دیکھا "میں تمہاری کمزوری ہوں اسلیے تم کبھی بھی میرے سے دور نہیں رہ پاؤگے کہیں بھی جاؤگے تو لوٹ کر آجاؤ گے۔" وہ ناز سے مسکرائی۔ اسد بھی مسکرایا۔ "تم سے دور جانے کا کوئی ارادہ بھی نہیں ہے میرا بس ممی سے ملنے جارہا ہوں مل کر واپس آجاؤں گا۔" اس نے اپنے سینے پر دھرے اسکے دونوں ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھے "وعدہ کرو۔" زینب جھٹ سے بولی "وعدہ نہیں کرسکتا جان۔۔" "کیوں ہاتھ ٹوٹ گئے ہیں کیا؟" اس نے ماتھے پر بل ڈالے "یس۔" وہ اسکے ہاتھ ہٹا کر بستر سے اٹھا۔ "اسد۔۔" زینب احتجاجاً بولی "کیا چاہتی ہو۔" وہ مڑ کر اسکی طرف جھکا "وعدہ۔۔" "کاہے کا؟" "جلدی لوٹ آنے کا۔" "جلدی کا وعدہ نہیں کرسکتا مگر لوٹ آؤں گا یہ وعدہ ہے۔" اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لیکر اس نے مدھم مگر سچائیوں سے پر لہجے میں کہا تھا "جلدی کا وعدہ کیوں نہیں کرسکتے؟" "مے بی ممی روک لیں۔۔" "کانٹیکٹ میں تو رہو گے ناں؟" "انشاء اللہ۔ اب میں تھوڑی دیر ٹی وی دیکھ لوں؟" "جاؤ مجھ سے زیادہ تو ٹی وی اہم ہے تمہارے لیے۔" اس نے منہ بنایا۔ وہ گہری سانس بھرتا ہوا پھر سے بیٹھ گیا۔ "تم کیا چاہتی ہو زینب؟" اسکی طرف دیکھتے ہوئے اس نے سنجیدگی سے پوچھا "میں چاہتی ہوں کہ تم مجھ سے باتیں کرو۔" "اتنی تو باتیں کی ہیں۔" "تھوڑی دیر اور۔" "اوکے بولو۔" "کیا بولوں؟" "جو باتیں کرنی ہیں تمہیں وہ کرو۔" "مجھے کوئی باتیں نہیں کرنی آتی تم باتیں کرو۔" "میں ٹی وی دیکھنے لگا ہوں۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ "جاؤ۔ میں گیم کھیلوں گی۔" اس نے بستر کے کراؤن سے ٹیک لگاتے ہوئے موبائل اٹھا لیا۔ "تمہارے موبائل میں گیمز انسٹال کردیتا ہوں میری غیر موجودگی میں اس پہ گیم کھیلنا۔" وہ کہتے ہوئے کمرے سے چلا گیا تھا۔ زینب گیم کھیلنے لگی۔


"اب میں چلتا ہوں۔ کافی لمبا رستہ ہے دیر لگے گی۔" ناشتے کے بعد اسد نے کہا "اپنی گاڑی سے جاؤ گے؟" زینب نے پوچھا "ہاں۔" "دھیان سے ڈرائیو کرنا پلیز۔" زینب نے اسکا ہاتھ تھام کر کہا "اوکے تم پریشان مت ہونا۔" اس نے اسکا گال تھپتھپایا۔ "اسد۔۔ کوشش کرنا جلدی آنے کی۔" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولی۔ اسد نے اسے بازوؤں میں بھر لیا۔ کچھ لمحے خاموشی کی نذر ہوگئے تھے۔ "مجھے جانا ہے زینب۔" اسے شانوں سے تھام کر خود سے الگ کرتے ہوئے اسنے جیسے یاد دلایا تھا "جاؤ۔" "اوکے چلتا ہوں۔ اللہ حافظ۔" اسکی پیشانی چوم کر وہ اپنا چھوٹا سا سفری بیگ اور گاڑی کی چابیاں اٹھا کر چلا گیا تھا۔ زینب اسے جاتے دیکھتی رہی۔ اسد نے جیپ چکردار رستے پر موڑ دی۔ وہ ڈرائیو کرتے ہوئے متفرق سوچوں میں الجھا ہوا تھا۔ جانے کیوں زینب کی یاد بار بار شدت سے آرہی تھی۔ وہ سوچوں میں الجھا ڈرائیو کرتا رہا بس ایک بار اسٹیرنگ پر ہاتھ ذرا سا بہکا تھا اور جیپ بے قابو ہوکر لامحدود گہرائیوں میں جا گری۔

   0
0 Comments