Orhan

Add To collaction

گرفتم

گرفتم از قلم فضہ بتول قسط نمبر12

دس سال بعد


زینب نے گول گول خستہ پراٹھے کو توے سے اتار کر چنگیر میں رکھا اور اسے رومال سے ڈھک کر اٹھی اور اندرونی کمرے میں آئی۔ صبح کے ساڑھے چھ بج چکے تھے۔ وہ بستر پر سوئی ہوئی ثمن کو جگانے کے لیے آگے بڑھی۔ وہ حسب عادت سر تک کمبل تان کر سوئی ہوئی تھی۔ "ثمن اٹھ جاؤ بیٹا سکول جانے کا وقت ہورہا ہے۔" اس نے اسے آواز دی۔ مگر اس میں جنبش تک نہ ہوئی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر اس کے چہرے سے کمبل ہٹایا۔ "ثمن اٹھو بیٹا ساڑھے چھ ہوگئے ہیں۔" اس نے اب کی بار اسکے گال تھپتھپائے تھے۔ ایک ناگواری سی اسکے چہرے پر ابھری اور اس نے مندی مندی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا "کیا ہے امی۔" وہ برا سا منہ بنا کر بولی "اٹھ جاؤ سکول نہیں جانا کیا" "نہیں جانا۔" وہ کروٹ بدلتے ہوئے بولی اور پھر سے کمبل سر تک تان لیا۔ "کیوں نہیں جانا سکول، اٹھو فورا۔" زینب نے پھر سے کمبل پیچھے کرتے ہوئے اب کی بار لہجے میں ذرا سختی پیدا کی تھی۔ "امی پلیز ناں آج چھٹی کرنے دیں روز تو سکول جاتی ہوں میں۔" وہ چڑچڑے پن سے بڑبرائی۔ "فضول ضد مت کرو ثمن میں نے کام پر جانا ہوتا ہے ، تمہیں کس کے پاس چھوڑ کر جاؤں گی میں" "میں اکیلی رہ لوں گی امی۔" "ہرگز نہیں۔ فوراً اٹھو اور سکول جاؤ۔ مزید ایک لفظ نہیں سنوں گی میں۔" وہ حتمی لہجے میں کہہ کر مڑی اور کچن میں چلی آئی۔کچھ دیر بعد ثمن بھی وہیں چلی آئی تھی۔ یونیفارم پہنے الجھے بالوں کے ساتھ برے برے منہ بناتی۔ "ناشتہ؟" پیڑھی پہ بیٹھتے ہوئے وہ بولی۔ زینب نے پراٹھا اور چائے کا کپ اسکے سامنے رکھ دیا "کیا امی آج بھی چائے پراٹھا۔۔" اسکے منہ کے زاویے کچھ اور بگڑے۔ "شکر کرو کہ یہ بھی مل رہا ہے، دنیا میں کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جنہیں یہ بھی میسر نہیں۔" زینب نے اپنے لیے پراٹھا بناتے ہوئے متانت سے جواب دیا۔ ثمن نے کچھ کہے بغیر نوالہ توڑا۔ "جب میرے ابو آجائیں گے تو ہم امیر ہو جائیں گے ناں ؟" وہ ہر روز یہ سوال ضرور کرتی تھی "تمہی کتنی بار سمجھایا ہے کہ اپنے ابو کا خیال دل سے نکال دو، وہ کبھی نہیں آئیں گے۔" زینب نے سخت لہجے میں کہا "کیوں نہیں آئیں گے، مجھے پتہ ہے کہ وہ آئیں گے آپ دیکھ لیجیے گا۔" وہ پر یقین لہجے میں بولی "یہ تمہارا بے وقوفانہ خیال ہے، تمہارے ابو جہاں ہیں وہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آتا۔" زینب نے یاسیت بھرے لہجے میں کہا "کیوں نہیں آتا ، آپ ہمیشہ یہ کہتی ہیں مگر کبھی نہیں بتاتیں کہ وہ ہیں کہاں۔" ثمن جھنجھلا گئی "بکواس بند کردو ثمن ناشتہ کرو جلدی دیر ہورہی ہے مجھے۔" زینب نے غصیلے لہجے میں کہا تو وہ غصے سے ناشتہ ادھورا چھوڑ کر باورچی خانے سے چلی گئی۔ زینب نے گہری سانس بھری۔ ثمن کی ساری عادات اسد اور زینب سے بلکل مختلف تھیں، وہ ایک غصیلی بچی تھی بات بے بات شدت سے ہائپر ہوجاتی ، اونچا اونچا بولنے لگتی، اور زینب سب سے زیادہ اسکی جس عادت سے تنگ تھی وہ تھی اس کی موڈی طبیعت ۔ ۔ ۔ وہ ہر کام اپنے موڈ سے کرتی تھی اگر کوئی کام کرنے کا موڈ نہیں ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس سے یہ کام نہیں کروا سکتی تھی۔ زینب اکثر سوچتی کہ آخر ثمن کی عادات کا پر ہیں ، وہ اور اسد تو ایسے خود سر اور ضدی نہ تھے۔ بہرحال وہ ہر ممکن کوشش کرتی رہتی کہ ثمن کو بگڑنے نہ دے مگر پھر بھی وہ کہیں نہ کہیں اپنے مزاج کے رنگ دکھا ہی دیتی تھی۔ زینب نے اسے قریبی سرکاری سکول چھوڑا اور خود قصبے سے نکل کے پکڑ کر شہر آگئی۔ وہ یہاں تین گھروں میں کام کرتی تھی۔ عام طور پر تو وہ ایک ڈیڑھ بجے تک فارغ ہو جایا کرتی تھی لیکن جب کبھی کسی گھر میں کوئی فنکشن یا دعوت ہوتی تو اسکی واپسی میں کافی دیر ہو جایا کرتی تھی۔ ایسے میں ثمن برابر والی ثمینہ آپا کے گھر چلی جایا کرتی، وہ ایک بیوہ خاتون تھیں انکی تین بیٹیاں تھیں جو بالترتیب آٹھ نو اور دس سال کی تھیں ثمن کے ساتھ ہی سکول میں پڑھتی تھیں اسلیے ثمن انکی سنگت میں کافی خوش رہتی۔ ثمینہ آپا گھر میں ہی بچیوں کو سلائی کڑھائی سکھا کر اپنا اور اپنی بچیوں کا پیٹ پالتی تھیں۔ زینب کو انکی وجہ سے کافی آسرا تھا ، ثمن انکے گھر بلکل محفوظ ہوتی تھی۔ پچھلے پانچ سالوں میں ثمینہ آپا نے بلکل سگی بہنوں کی طرح ہی اسکا ساتھ دیا تھا۔ آٹھ سال قبل جب اس روز اسد اپنے گھر والوں سے ملنے کے لیے گیا تھا تب اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ اب کبھی واپس نہ لوٹے گا۔ اس نے اسکا بہت انتظار کیا ، اسکا نمبر اسے ہمیشہ ہی بند ملا مگر وہ پھر بھی کسی معمول کی طرح روز اسکا نمبر ٹرائی کرتی، چند دن گزرے تو وہ خالہ کے پاس چلی آئی۔ انہی دنوں وہ امید سے ہوگئی اور تفکرات کے باعث اسکی صحت گرنے لگی تو وہ بالکل ہی بستر کی ہوکر رہ گئی۔ ایسے عالم میں بھی اسے اسد کا انتظار رہا تھا۔ اسد کا لیا کرائے کا گھر اس نے مستقل چھوڑ دیا کہ اسکے پاس کرائے کے پیسے نہ تھے ،گھر میں موجود سامان خالہ اپنے گھر اٹھوا لائیں اور پھر زینب کی دواؤں کے اخراجات کی مد میں ایک اک کرکے سبھی قیمتی سامان بکنے لگا۔ اس کے انتظار کی جوت دن بہ دن بجھتی جارہی تھی ، اسد کی باتیں اسکی محبتیں دھیرے دھیرے مایوسیوں کی دھند میں گم ہوتی جارہی تھیں۔ اور پھر ایک سرد ترین شام کو موت سے جنگ لڑتے ہوئے اس نے ثمن کو جنم دیا تھا۔ اس رات وہ دیر تک روئی تھی اس نے رات بھر کئی بار اسد کا نمبر ٹرائی کرڈالا تھا نجانے کتنے ہی میسیجز اسے بھیجے تھے اور پھر صبح ہوتے ہوتے اس نے اپنی نومولود کمزور سی بچی کو سینے سے لگا کر خود کو جیسے رفاقت کا احساس دلایا تھا اور پھر اس نے اپنی بچی کے ساتھ میں ہی اپنے لیے سکون تلاش کرنا شروع کردیا۔ ثمن اسے سارا دن مصروف رکھتی اور یہ مصروفیت اسے غنیمت لگتی۔ ثمن چھ ماہ کی تھی کہ ایک روز اچانک ہارٹ اٹیک خالہ کی موت کا سبب بن گیا اور زینب بھری دنیا میں تنہا رہ گئی۔ جان پہچان کے لوگ چند دن اسکے ساتھ ہمدردی کرنے کی بعد چلتے بنے۔ اور وہ اس چھوٹے سے ٹوٹے پھوٹے گھر میں اپنی چھوٹی سی بچی کے ہمراہ بلکل تنہا رہ گئی۔ زینب کو حالات کی نزاکت کا احساس تب ہوا جب گھر میں سودا ختم ہونے لگا اس نے خالہ کے ٹرنک میں جمع شدہ کچھ رقم نکالی اور پہلی بار گھر سے قدم باہر نکالا، اسےکچھ علم نہ تھا کہ مارکیٹ کہاں ہے اور اسے کہاں جانا ہے۔ وہ بس ثمن کو گود میں لیے چل پڑی تھی۔ بہت مشکل سے پوچھتے پوچھتے وہ مارکیٹ تک پہنچی، گھبرائے ہوئے انداز میں ضرورت کی کچھ اشیاء خرید کر وہ گھر واپس چلی آئی۔ اب وہ سنجیدگی سے آئندہ زندگی کے متعلق سوچنے لگی تھی۔ اسکی بیٹی کو اور خود اسے جینے کے لیے پیسے کی ضرورت تھی اور پیسہ کمانے کے لیے گھر سے نکلنا ضروری تھا۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ محض ایف اے کی ڈگری کے ساتھ وہ کر ہی کیا سکتی تھی ، اسکے پاس نہ تو اعتماد تھا نہ کوئی ہنر۔۔ کرتی بھی تو کیا کرتی وہ تو یہاں کسی کو جانتی تک نہ تھی۔ بہت دیر سوچ بچار کے بعد اس نے خالہ کے سکول جانے کا سوچا شاید وہ لوگ اسے خالہ کی جگہ نوکری دے دیتے۔ اگلے روز وہ ثمن کو ساتھ لیے سکول چلی ائی۔ سکول کی پرنسپل بھلی عورت تھی اس نے اسے سکول کے ڈے کیئر سنٹر میں نوکری دے دی۔ یہ نوکری زینب کے لیے ٹھیک تھی کیونکہ یہاں وہ ثمن کو بھی ساتھ لے آتی تھی ، سارا وقت وہ اساتذہ کے بچے سنبھالتی اور چھٹی کے بعد گھر آجاتی۔ تنخواہ بھی معقول تھی وہ مطمئن ہونے لگی مگر ایک بے اطمینانی ابھی بھی برقرار تھی اور وہ تھی اس گھر میں اکیلے رہنا۔ روز رات کو ہزاروں بار داخلی دروازے کی کنڈی چیک کرتی۔ کمرے کا دروازہ اچھی طرح بند کرکے بھی اسے وہم ستاتے اور وہ بار بار اٹھ کر دروازے کے پاس جا کے آہٹ لیتی رہتی۔ اسکا دل خشک پتے کی طرح لرزتا تھا، واہمے اسے ہمہ وقت پریشان کیے رکھتے اور وہ بے سکونی کا شکار رہتی۔ ہر گزرتا دن اسکے دل میں اسد کے لیے بدگمانی اور تنفر کو بڑھاتا جارہا تھا۔ اسکی محبتوں بھری رفاقت اسے کسی دھوکے کی مانند لگتی اور وہ ہر بھولی بسری یاد پر نفرت سے ہونٹ سکیڑ لیتی۔ ایک روز سکول میں نویں جماعت کی کچھ بچیاں بریک کے وقت ثمن کو گود میں اٹھا کر لے گئیں، ثمن ہوبہو زینب کا عکس تھی ویسی ہی گوری رنگت تیکھے نقوش اور سبز آنکھیں۔ پھولی پھولی گالوں والی ثمن ہر کسی کو اپنی جانب متوجہ کرتی تھی۔ بریک کے بعد ثمن واپس آئی تو اسکے ہاتھ میں کھانے پینے کی کچھ چیزیں تھیں۔ "یہ کس نے لیکر دیں؟" اس نے ثمن سے پوچھا "انکل نے۔" ثمن نے توتلی زبان میں بتایا "کون انکل؟" "وہ والے۔" ثمن نے اسے سمجھانے کی ناکام کوشش کی اور پھر دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے لگی مگر زینب الجھ گئی۔ اگلے روز اسے میڈم نے کچھ دیر کو بلوایا تھا وہ ثمن کو ڈے کیئر سنٹر میں ہی چھوڑ کر گئی، وہ واپس آئی تو ثمن کو پھر کھانے کی چیزوں سے لطف اندوز ہوتے دیکھا۔ وہ پھر الجھی۔ نجانے کون تھا جو اسے روز چیزیں دے جاتا تھا ،پھر ایک دن اس نے اس کو پا لیا۔ اس کا نام رشید تھا۔ وہ سکول کی بس کا ڈرائیور تھا جو حال ہی میں بھرتی ہوا تھا، وہ تیس بتیس سال کا ایک خوش شکل جوان تھا۔ زینب نے اسے ثمن کو چیزیں دلواتے دیکھا اور پھر جلدی سے بول اٹھی "آپ براہ کرم یہ تکلف مت کیا کریں۔" "اسمیں تکلف کی تو کوئی بات نہیں ہے، مجھے بچے بہت اچھے لگتے ہیں اور ثمن تو بہت پیاری بچی ہے۔" وہ متانت سے بولا "مجھے اچھا نہیں لگتا بس." اس نے ثمن کی انگلی تھامی "آپ براہ کرم میری نیت پر شبہ مت کیجیے۔" "ایسی بات نہیں ہے بس میں نے کہا ناں مجھے اچھا نہیں لگتا۔ چلو ثمن۔"وہ ثمن کو ساتھ لیے پلٹ گئی۔ رشید کی نظروں نے دور تک اسکا پیچھا کیا تھا۔ اگلے روز وہ سکول ذرا دیر سے پہنچی تو رشید کو گیٹ پر بیٹھے پایا۔ اسے آتے دیکھ کر وہ تقریباً دوڑتا ہوا چلا آیا۔ "سنیں۔" "جی؟" زینب نے سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھا "وہ میں ۔ آپ سے معذرت کرنا چاہ رہا تھا، آ ۔۔۔ اآپ شاید خفا ہوگئیں کل کی بات پر۔" وہ گڑبڑا کر بولا "جی ایسی کوئی بات نہیں ۔" اس نے سنجیدگی سےجواب دیا "دیکھیں میری نیت میں کوئی کھوٹ نہیں ہے ثمن مجھے بلکل اپنی بیٹی جیسی لگتی ہے۔ پچھلے سال میری دو سال کی بیٹی کا انتقال ہوگیا تھا، ثمن میں مجھے اسی کی صورت نظر آتی ہے۔" رشید کی آنکھیں بھر آئیں تو زینب کا دل نرم پڑ گیا "اوہ۔۔ بہت افسوس ہوا سن کر۔ " وہ بس اتنا ہی کہہ سکی۔ اسکی انگلی تھامے کھڑی ثمن رشید کی طرف ہمک رہی تھی "آپ مجھے ایک دکھیارا باپ سمجھ لیجیے جو آپکی بیٹی میں اپنی بیٹی کی تصویر دیکھ کر کچھ دیر کو سہی خوش ہوجاتا ہے۔ " وہ اپنے آنسو پونچھتا ہوا بولا زینب نے سر ہلادیا ، اسے سمجھ نہ آرہی تھی کہ رشید کو جیسے دلاسا دے۔ اسکے بعد اس نے ثمن کو رشید کے ساتھ کھیلنے سے نہ روکا تھا۔ رشید کا رویہ ثمن کے ساتھ شفقت لیے ہوئے تھا وہ بریک کے وقت اسکے ساتھ سکول کے گراؤنڈ میں کھیلتا رہتا اور پھر اسے کچھ چیزیں دلوا کر ڈے کیئر سنٹر میں چھوڑ جاتا۔ کچھ دن گزرے کہ ایک روز چھٹی کے دن گھر کے دروازے پر دستک ہوئی اسنے دروازہ کھولا تو رشید کو سامنے کھڑے دیکھا۔

   0
0 Comments