Orhan

Add To collaction

گرفتم

گرفتم از قلم فضہ بتول قسط نمبر13

زینب نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ "جی؟" "وہ میں یہ کچھ چیزیں لیکر آیا تھا ثمن کے لیے۔" اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا شاپر آگے کیا۔ "نہیں جی بہت شکریہ۔ یہ میں نہیں لے سکتی ." اس نے سبھاؤ سے منع کردیا. "دیکھیئے پلیز منع مت کیجیے۔" رشید نے لجاجت آمیز لہجے میں کہا "دیکھیے رشید صاحب سکول کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر مجھے یہ پسند نہیں کہ آپ میرے گھر آئیں، ثمن کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے شکریہ۔" اس نے سنجیدگی سے کہہ کر دروازہ بند کردیا اور دھڑکتے دل کیساتھ کمرے میں آ بیٹھی۔ وہ فطرتاً ڈرپوک تھی اور یہ سچویشن نجانے کیوں اسے عجیب لگ رہی تھی۔ وہ کتنی ہی دیر عجیب و غریب سوچوں میں الجھی رہی تھی۔ اگلے روز سکول میں رشید نے پھر اسے جالیا۔ "آپ نے کل میرے خلوص کو ٹھوکر ماری ہے زینب بی بی مجھے بے حد تکلیف پہنچی ہے۔" وہ شکوہ کناں ہوا "دیکھیں آپ بلاوجہ اتنا تکلف کرتے ہیں، ثمن کے پاس سب کچھ ہے اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔" وہ نرم لہجے میں بولی۔ "میں ثمن کو اپنی بیٹی سمجھتا ہوں بی بی اور باپ تو بیٹیوں کو دیا یہ کرتے ہیں۔" اسکے لہجے میں خلوص تھا "آپ کا بہت شکریہ۔" وہ اور کچھ نہ کہہ سکی "اگر آپ برا نہ مانیں تو ایک بات پوچھوں؟" "جی پوچھیئے." "ثمن کے والد کہاں ہوتے ہیں؟" اس نے وہ سوال پوچھا جس سے وہ بچنا چاہتی تھی "وہ ۔۔ آ ۔۔ باہر ۔۔۔ باہر ہوتے ہیں۔" اسنے اٹکتے ہوئے جواب دیا "باہر ہوتے ہیں۔۔ اگر وہ باہر ہوتے ہیں تو آپ کو نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے ،باہر تو اچھی خاصی کمائی ہوتی ہے لوگ دنوں میں سیٹھ بن کر واپس آتے ہیں۔" وہ بے تکلفی سے بولا "دیکھیے یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔ آپ اپنے کام سے کام رکھیں۔" وہ یکدم رکھائی سے کہہ کر پلٹی اور تیز تیز قدم اٹھاتی رشید کی نظروں سے دور ہوتی گئی۔ اگلے دن شام کو دروازے پر دستک ہوئی زینب نے دیکھا تو رشید پھر ڈھیروں شاپرز تھامے کھڑا تھا۔ "جی؟" اسنے سوالیہ انداز میں اس کے چہرے پر نظریں جمائیں۔ "ثمن کیلیے میں یہ کچھ چیزیں لایا تھا۔" رشید نے بے تکلفی سے کہا "دیکھیئے رشید صاحب میں نے آپ کو کل بھی منع کیا تھا۔ ثمن کے پاس سب کچھ ہے۔" اس نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر جواب دیا "میں نے آپکو بتایا تھا کہ ثمن میرے لیے میری بیٹی جیسی ہے اور باپ بیٹیوں کے لیے چیزیں لایا ہی کرتے ہیں۔" "آپکے اس خلوص کا شکریہ مگر حقیقتاً ثمن آپکی بیٹی نہیں ہے اور نہ ہی آپ اسکے باپ ہیں۔ پلیز آئندہ آپ میرے دروازے تک مت آئیے گا میں نہیں چاہتی کہ اردگرد کے لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع ملے۔" اس نے رکھائی سے کہتے ہوئے دروازہ بند کرنا چاہا مگر رشید نے اپنا مضبوط ہاتھ دروازے کے پٹ پر جما دیا۔ "کونسے اردگرد کے لوگ یہاں تو دور دور تک بس اکا دکا ہی گھر ہیں۔" "دیکھیئے پلیز آپ جائیے یہاں سے۔ سکول کی حد تک ہی محدود رہیئے۔" اب کی بار وہ غصے سے بولی مگر حقیقتاً اسکا دل خشک پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔ "ویسے آپکے شوہر کو بھی سلام ہے اتنی حسین و جمیل جوان بیوی کو تنہا چھوڑ کر باہر گیا ہوا ہے۔" اس نے کچھ عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہوئے اسکی آنکھوں میں جھانکا تو زینب کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔ "آپ میری ذاتی زندگی میں کیوں گھسنے کی کوشش کررہے ہیں میں پرنسپل صاحبہ سے آپکی شکایت کروں گی۔" اسنے لرزتی ہوئی آواز میں کہا "آپ کی ذاتی زندگی میں اتنا اسرار ہے کہ خودبخود تجسس ہوجاتا ہے۔ مجھے بھی تجسس ہوگیا ہے۔" وہ اب ڈھٹائی کہ حدیں پار کررہا تھا۔ "آپ جائیں یہاں سے۔" اسنے دروازے کو بند کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا رشید مسکرایا۔ "اتنی دور سے آیا ہوں چائے پی پلوا دیجئے۔" "جاؤ یہاں سے ۔۔" اس نے یکدم چلا کر کہا اور پھر اسے دھکا دے کر چشم زدن میں دروازہ بند کردیا پھر بھاگ کر کمرے میں آئی اور اسے اندر سے مقفل کرکے سوئی ہوئی ثمن کو گود میں لے کر سینے سے لگا لیا۔ اسکا پورا وجود کپکپا رہا تھا اور آنکھوں سے خوف کے مارے پانی بہنے لگا تھا۔ اس سمے نہ تو اسے اسد کی یاد آئی تھی نہ خالہ کی۔۔ یاد رہی تو بس ایک بات کہ اسے اس کٹھور ظالم دنیا میں تنہا ہی گزارا کرنا تھا۔۔۔ بہادر بن کر۔ اس رات وہ دیر تک جائے نماز پر بیٹھ کر اللہ سے مدد طلب کرتی رہی تھی۔ کچھ دن گزرے تو ایک دن رشید نے پھر اسکا راستہ روکا، وہ ابھی ابھی سکول پہنچی تھی اور رشید نے اسے گیٹ پر ہی روک لیا تھا۔ "سنیئے!" "جی؟" وہ مڑی۔ ثمن اس کی انگلی تھامے ہوئے تھی "آپ کے شوہر کے متعلق تو آپ کے اردگرد رہنے والوں میں سے کوئی بھی نہیں جانتا بس یہی سننے کو ملا ہے کہ چند روز آپ کسی شہری بابو کے ساتھ گئی تھیں پھر واپسی پر یہ خوشخبری ساتھ لائی تھیں۔"وہ عجیب سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے ہوئے بول رہا تھا۔ اس سمے زینب کو اسکی آنکھیں اچھی نہ لگی تھیں۔ "کیا ہوا؟ کیا سوچنے لگ گئیں؟" وہ استہزائیہ انداز میں مسکرایا۔ "صرف یہ کہ آپ نہایت ہی گھٹیا انسان ہیں۔" اس نے خشک لہجے میں کہا اور پلٹ گئی۔ ڈے کئیر سنٹر میں آکر وہ کام میں مصروف ہوگئی مگر دل کسی طور چین نہ پارہا تھا۔ چھٹی کے بعد وہ ثمن کو لیے سکول سے نکلی۔ مہینے کا آغاز تھا سو اسے گھر کے لیے سودا سلف لانا تھا۔ وہ مارکیٹ چلی آئی۔ ضرورت کی اشیاء خرید کر گھر پہنچتے پہنچتے چار بج گئے۔ ثمن کو اس نے برگر کھلا دیا تھا سو وہ گھر آتے ہی تھکن کے مارے سوگئی۔ اس نے سودا سنبھالا اور پھر کچن میں آ بیٹھی۔ کچھ کھانے کا دل نہ چاہ رہا تھا سو اسکے چولہے پر چائے کا پانی رکھ دیا اور گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹ لیے۔ کچھ عرصے سے پھر سے پہلے جیسی زینب بن گئی تھی ، اکثر غائب دماغی کے عالم میں رہنے والی ۔۔۔ نہ تو اب اسے اپنی زندگی پر رونا آتا تھا نہ ہی اسد کی یاد ستاتی تھی۔ اس کے دل کو اسد کی بے وفائی پر یقین آگیا تھا۔ وہ یہ سمجھ گئی تھی کہ ساحر آنکھوں والے اور خوبصورت لفظوں کے جال بننے والے اس شہزادے نے بس چند دن ایک غریب لڑکی کے ساتھ دل بہلایا تھا اور جب غربت بھری زندگی کی سختیوں سے گھبرایا تو الٹے پاؤں واپس بھاگ گیا۔ اپنے عورت پن کی تذلیل پر بھی اسکی آنکھوں میں آنسو نہ آتے تھے وہ جیسے ہر طرح کے جذبات سے عاری ہوتی جارہی تھی۔ ہاں ابھی تک کچھ خوف تھے جو اسکے دل کو گھیرے رہتے ، وہ دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسکا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی ، ول ڈرتی تھی تنہائی سے اور دنیا کی سنگ دلی سے ۔۔۔ دروازے پر زور دار دستک ہوئی تو وہ بے طرح چونکی۔ جانے کون تھا جو زور زور سے دروازہ کھٹکھٹائے جارہا تھا۔ وہ اٹھی اور باورچی خانے سے باہر نکلی ، چھوٹا سا صحن پار کرکے دروازے کے قریب آئی۔ "کون؟" اس نے کنڈی پہ ہاتھ رکھ کے بآواز بلند پوچھا۔ "رشید۔۔" باہر سے آواز آئی تو اسکا ہاتھ بے اختیار کپکپا گیا۔ وہ کوئی جواب دیئے بغیر پلٹی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتی کمرے میں آئی دروازہ اندر سے اچھی طرح بند کیا اور بستر پر سوئی ثمن کے پاس جاکر بیٹھ گئی۔ دروازہ وقفے وقفے سے کھٹکھٹایا جارہا تھا ، وہ گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی کانپتی رہی۔ کچھ دیر بعد دستک کی آواز آنا بند ہوگئی۔ مگر زینب رات بھر خوف کے مارے کانپتی رہی تھی۔ اگلے روز سکول میں پھر رشید نے اسکا راستہ روک لیا۔ "کل دروازہ نہ کھول کر اچھا نہیں کیا آپ نے۔" اس نے شکوہ کناں لہجے میں کہا "آپ کیوں آتے ہیں میرے گھر میں نے منع کیا تھا ناں آپکو؟؟" اس نے دبے دبے غصے سے کہا "ثمن اور تم سے ملنے آتا ہوں ، اب تمہارے اس آشنا کو تو پرواہ نہیں مگر مجھے تو فکر رہتی ہے تمہاری خوبصورت ہو جوان ہو اکیلی رہتی ہو کل کو اگر کوئی اونچ نیچ ہوگئی تو کون ذمے دار ہوگا۔" وہ کمال ڈھٹائی کا مظاہرہ کررہا تھا۔ "بکواس مت کرو، اسد میرے شوہر ہیں اور وہ جلد واپس آجائیں گے۔" اس کی آواز ابھی بھی دھیمی تھی مگر آنکھوں سے جیسے شرارے برس رہے تھے۔ "ہاہاہا۔۔ اب تم تو یہی کہو گی ناں مگر سچ یہ ہے کہ شوہر یوں چھوڑ کر بھاگ نہیں جاتے ہاں آشنا ضرور بھاگ جاتے ہیں." وہ محظوظ ہونے والے انداز میں بولا "شٹ اپ۔" "اوہ تمہیں تو انگریزی بھی آتی ہے۔ خیر چھوڑو غصہ میری مانو تو میرے ساتھ دوستی کرلو تمہیں کبھی کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا عیش کرواؤں گا عیش۔ " وہ بائیں آنکھ دبا کر خباثت سے بولا تو زینب کا ضبط جواب دینے لگا۔ "بکواس بند کرو اپنی تم نے مجھے سمجھا کیا ہے۔" "ارے میں نے ایسا کیا کہہ دیا ہے جو تم اتنا غصہ دکھا رہی ہو۔ یہی کہا ہے ناں کہ میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں ۔" "مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہے۔" وہ دبی دبی آواز میں چلائی۔ کچھ فاصلے پہ کھڑا چوکیدار جانے کیوں بہت غور سے زینب کے چہرے کے تاثرات کو دیکھ رہا تھا۔ "سمجھنے کی کوشش کرو بی بی اکیلی عورت کا معاشرے میں جینا حرام ہوجاتا ہے اور پھر تم تو بیٹی کی ماں ہو تمہیں تو بہت سوچ سمجھ کر چلنا چاہیے۔" وہ دھیمی آواز میں بول رہا تھا۔ "میں جو بھی کروں یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے ، اور خبردار جو آئندہ تم نے میرا راستہ روکنے کی کوشش کی یا میرے گھر آئے۔" اس نے انگلی اٹھا کر اسے تنبیہہ کی ، چوکیدار لمبے لمبے ڈگ بھرتا انکے پاس آن رکا۔ "کیا بات ہے ؟" اس نے سرسری سے انداز میں پوچھا تو زینب کی آنکھیں بے اختیار نم ہوگئیں۔ "یہ ۔۔ یہ مجھے تنگ کررہا ہے روز تنگ کرتا ہے میرے گھر آجاتا ہے۔" وہ بے اختیار رو پڑی۔ "اوئے شرم نہیں آتی تجھے شریف لڑکیوں کو پریشان کرتا ہے۔" چوکیدار نے کڑے لہجے میں رشید کو مخاطب کیا "جا او اپنا کام کر اتنی ہی شریف لڑکی۔" رشید نے برا سا منہ بنا کر کہا۔ "یہ روز میرے گھر آجاتا ہے مجھے تنگ کرتا ہے اور۔۔۔اور ابھی کہہ رہا تھا کہ اسکی بات مان لوں تو یہ میرے قدموں میں دولت کے ڈھیر لگا دے گا۔" زینب جلدی سے بولی۔ چوکیدار کے ماتھے پر بل پڑ گئے "خیر یہ تو میں بھی دیکھ رہا ہوں ہر روز یہ تمہارے پیچھے ہوتا ہے۔ کیوں اوئے تجھ میں غیرت ہے کوئی۔ " چوکیدار رشید کی طرف پلٹا "میرے معاملات میں مت بول چل نکل ادھر سے۔" رشید نے چوکیدار کو دھکا دیا اور پھر دونوں لپٹ پڑے۔ زینب ایک جانب کھڑی کانپ رہی تھی اور جھگڑا بڑھتا ہی جارہا تھا ،مالی اور کینٹین والا لڑکا بھی بیچ بچاؤ کرنے بھاگے چلے آئے۔ سارا سکول جمع ہو کر تماشا دیکھ رہا تھا کچھ دیر بعد یہ معاملہ پرنسپل صاحبہ کے سامنے پیش کیا گیا ، ساری بات جان کر انہوں نے رشید کو کافی سرزنش کی ،زینب کے دھیمے مزاج کے باعث سبھی اسکے متعلق اچھی رائے رکھتے تھے سو سبھی کو یقین آگیا کہ رشید نے ہی اسے تنگ کیا ہوگا۔ رشید نے پرنسپل صاحبہ کے ساتھ بھی بدتمیزی کی تو انہوں نے اسے نوکری سے برطرف کردیا ۔ رشید بکتا جھکتا وہاں سے رخصت ہوا تھا۔ مگر زینب کو یک گونہ اطمینان محسوس ہوا۔ پرنسپل صاحبہ نے اسے یقین دلایا تھا کہ وہ مطمئن ہوکر اپنی نوکری جاری رکھے کوئی بھی اسے میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکتا تھا۔ اس روز گھر آکر وہ بہت دنوں بعد گہری نیند سوئی تھی۔ مگر اسے معلوم نہ تھا کہ برا وقت ابھی ختم نہیں ہوا۔ ایک ہفتے بعد اچانک اتوار کے روز عجب افتاد آن پڑی۔ وہ ثمن کو ناشتہ کروانے کے بعد کپڑوں کی ٹوکری اٹھائے صحن میں لگے نل کے پاس آبیٹھی اور کپڑے دھونے لگی۔ ثمن اسکے اردگرد ہی گھوم رہی تھی وہ کپڑے دھونے کے ساتھ ساتھ بیٹی سے باتیں بھی کررہی تھی۔ جب اچانک چھت کی سیڑھیوں سے کوئی اتر کر نیچے آیا۔ وہ کوئی جوان آدمی تھا۔ زینب ہڑبڑا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اور اضطراری انداز میں جھپٹ کر ثمن کو گود میں اٹھا لیا۔ وہ آدمی اسکے لیے اجنبی تھا۔ "کون ہو تم میرے گھر میں کیسے آئے؟" اس نے کپکپائی ہوئی آواز میں پوچھا "تمہارا عاشق۔۔ جان من۔" وہ خباثت بھری مسکراہٹ کے ساتھ بولتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اسکی طرف بڑھا ، اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں شیطانی چمک تھی۔ زینب کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔ اسکی نظریں داخلہ دروازے پر تھیں جس کا فاصلہ اتنا کم تھا کہ وہ بھاگ کر اس تک پہنچ سکتی تھی اور چشم زدن میں گھر سے باہر بھی نکل سکتی تھی۔ اس نے ایک نظر اس آدمی پر ڈالی اور پھر بھاگ کر دروازے تک پہنچی وہ آدمی بھی بھاگ کر اس تک پہنچا مگر تب تک وہ دروازے کی کنڈی کھول چکی تھی اسی وقت باہر سے کوئی دروازے کو دھکا دے کر اندر داخل ہوا اور زینب بے اختیار لڑکھڑا کر اس آدمی سے ٹکرا گئی ثمن اسکے ہاتھوں سے پھسلی اور وہ خود اس آدمی کے مضبوط ہاتھوں کی گرفت میں تھی۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی میں ہوا کہ اسے سنبھلنے کا موقع بھی نہ مل سکا۔ بیرونی دروازہ کھول کر نجانے کتنے ہی لوگ اندر گھسے چلے آئے تھے۔ اور ان سب کے آگے آگے رشید تھا۔ "دیکھیں اس شریف نیک لڑکی کے کرتوت۔ پہلے آشنا کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی رہی وہ چھوڑ کے بھاگ گیا تو ادھر ادھر منہ مارتی پھر رہی ہے۔ " وہ اونچی آواز میں سب لوگوں کو بھڑکا رہا تھا۔ زینب نے ایک جھٹکے سے اپنا آپ اس آدمی کی گرفت سے چھڑایا اور زمین پر بیٹھی روتی ہوئی ثمن کو گود میں اٹھا لیا۔ "یہ آدمی چھت سے پھلانگ کر اچانک میرے گھر آگیا تھا میں تو اس سے بچ کر بھاگ رہی تھی۔" وہ جلدی سے وضاحتی انداز میں بولی "اوہو بھاگ رہی تھی ۔۔ ملاحظہ ہو حضرات یہ محترمہ اس شخص کی بانہوں میں جھول کر اسی سے بھاگ رہی تھیں۔" رشید استہزائیہ لہجے میں بولا "توبہ توبہ کیسا زمانہ آگیا ہے۔ " ایک خاتون نے کانوں کو ہاتھ لگایا "اسکی خالہ تو بڑی نیک عورت تھی بیوگی کے دن بھی اسنے نہایت شرافت سے کاٹے۔" ایک اور مرد نے کہا "میں نے کچھ نہیں کیا۔" وہ یکدم چلائی "ارے چپ بے شرم اگر تو اپنی جوانی کو لگام نہیں ڈال سکتی تو جا چلی جا اس بستی سے۔ تیرے گناہوں کی وجہ سے ہم سب پر خدا کا عذاب نازل ہوگا۔" رشید جلدی سے بولا "تم بکواس بند کرو اور میں کیوں جاؤں یہاں سے یہ میرا گھر ہے میں نہیں جاؤں گی یہاں سے تم سب جاؤ یہاں سے نکلو میرے گھر سے۔" وہ نجانے کیسے اتنی بہادر ہوگئی تھی "توبہ توبہ کیسی بے شرم عورت ہو تم۔"ایک عورت بولی "اس کو بستی سے نکال دو۔" ایک اور مرد نے ہانک لگائی۔ اور پھر سبھی بڑھ کر اسے دھکے دے دے کر گھر سے نکالنے لگے۔ اس نے مزاحمت کی بہت کوشش کی مگر ناکام گئی۔ ان سب نے اسی بستی سے باہر پہنچا کر ہی دم لیا تھا اور جب وہ سب چلے گئے تو وہ اپنی بچی کو سینے سے لگائے ایک درخت کے تنے سے ٹک کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ ثمن تو رو رو کر بے حال چکی تھی ماں کے سینے سے لگی تو نڈھال ہوکر سوگئی۔ زینب غائب دماغی کے عالم میں کتنی ہی دیر وہاں بیٹھی رہی۔ اسکا دماغ تیزی سی سوچ رہا تھا۔ رات ڈھلی تو وہ اٹھی اور پھر سے بستی کی جانب چل دی۔ بستی میں بلکل سناٹا تھا۔ وہ اپنے گھر ائی۔ یہاں اب کوئی نہ تھا۔ وہ اندر آئی اور ایک مومی شمع جلا کر اندرونی کمرے میں چلی آئی۔ اسنے ایک سوٹ کیس میں اپنے اور ثمن کے کچھ کپڑے رکھے۔ ٹرنک میں چھپا کر رکھے ہوئے تیس ہزار نکالے جو وہ کئی ماہ سے جمع کررہی تھی۔ ثمن کے لیے فیڈر تیار کیا اور پھر یہ مختصر سا سامان لیے گھر سے نکل آئی۔ صبح کے قریب وہ لاری اڈے تک پہنچ گئی۔ ایبٹ کا ٹکٹ خرید کر وہ بس میں بیٹھ گئی۔ اور پھر ایبٹ آباد پہنچتے پہنچتے وہ مکمل طور پر ایک بدلی ہوئی زینب بن چکی تھی۔ مضبوط اعصاب کی مالک۔۔۔ یہاں پہنچ کر اسے کچھ وقت کافی مشکل گزارنا پڑا مگر اسنے ہمت نہ ہاری۔ ایک روز جب وہ سڑک کنارے بیٹھی ہوئی تھی ایک عورت نے اس سے یہاں بیٹھنے کا سبب دریافت کیا۔ زینب نے کچھ شش و پنج کے بعد اسے بتایا کہ اسکے پاس رہائش نہیں تو اس عورت نے اسے بتایا کہ وہ شہر سے باہر ایک قصبے میں رہتی ہے اور اسکے برابر والا مکان آج کل خالی اگر وہ چاہے تو وہ مکان اسے مل جائے گا۔ زینب کو یہ بات غنیمت ملی اور وہ اس عورت کے ساتھ چلی آئی۔ ان کا نام ثمینہ تھا اور وہ بیوہ تھیں انکے شوہر کے انتقال کو چھ ماہ ہوئے تھے اور انکی چھوٹی بیٹی ثمن کی ہی ہم عمر تھی۔ انکی تین بیٹیاں تھیں اور وہ گھر پر بچیوں کو سلائی کڑھائی سکھا کر اپنا اور اپنی بچیوں کا پیٹ پالتی تھیں۔ وہ اسے اپنے ساتھ لے آئیں۔ زینب نے گھر دیکھا جو کہ کافی خستہ حال تھا مگر اسکے لیے تو ٹھیک تھا۔ کرایہ بھی کم تھا سو فوراً ہی معاملات طے پا گئے اور وہ اس گھر میں منتقل ہوگئی۔ ثمینہ باجی نے ہی اسے ایک چارپائی اور بستر عنایت کردیا تھا۔ رات کا کھانا بھی وہی اسے پہنچا گئیں ۔ اور پھر چند ہی دن میں وہ ان سے اتنی بے تکلف ہوگئی تھی کہ اسنے انکو اپنی گزری زندگی کے متعلق ایک ایک بات بتادی۔ ثمینہ باجی کو اسکی داستان سن کر از حد دکھ ہوا تھا مگر انہوں نے اسے تسلی دی۔ کچھ دن اور گزرے تو زینب کو گزر بسر کے لیے کام کرنے کا خیال آیا مگر یہاں تو وہ کسی کو جانتی تک نہ تھی۔ وہاں سے آتے ہوئے وہ اپنے سارے سرٹیفیکٹس بھول آئی تھی سوائے شناختی کارڈ کے اسکے پاس اپنے کوئی کاغذات نہ تھے۔ اسلیے کسی سکول میں نوکری کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ اس نے ثمینہ باجی سے بات کی تو انہوں نے اپنی ایک جاننے والی کے توسط سے اسے شہر میں ایک کوٹھی میں نوکری دلوا دی۔ یہاں وہ ہفتے کے دو دن کپڑے دھویا کرتی تھی۔ پیسے کچھ اتنے زیادہ نہ ملتے تھے مگر کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ۔۔۔ وہ کام کے دن ثمن کو ثمینہ باجی کے پاس چھوڑ جاتی وہ اسکا بلکل اپنی بیٹیوں کی طرح خیال رکھتی تھیں ۔ کچھ ماہ بعد زینب کو اسی لین میں ایک اور کوٹھی میں بھی کام مل گیا یہاں اسے روزانہ دوسری ماسی کے ساتھ مل کر گھر کی صفائی ستھرائی کرنا ہوتی تھی ۔ یہاں سے اسے کافی اچھے پیسے ملتے تھے۔ وہ آہستہ آہستہ گھر کا ضروری سامان خریدنے لگی۔ اور زندگی ایک نارمل ڈگر پر آنے لگی۔ اب اسکی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا کہ وہ ثمن کو بہترین تعلیم دلوائے گی اسکی زندگی میں کبھی کوئی محرومی نہ آنے دے گی۔ ثمن تین سال کی ہوئی تو وہ اسے گھر پر ہی تھوڑا بہت پڑھانے لگی۔ ثمن بہت ذہین بچی تھی ، چھوٹی سی عمر سے ہی اسکی باتیں اکثر زینب کو پریشان کیے رکھتیں اسکے سوال اوٹ پٹانگ ہرگز نہ ہوتے تھے وہ بالکل بڑوں کے انداز میں محققانہ گفتگو کرنے کی کوشش کرتی اور زینب اکثر سوچتی کہ آخر یہ کس پر چلی گئی ہے اسد اور وہ تو ایسے نہ تھے۔ بہرحال ثمن کی تربیت میں وہ کسی قسم کی کمی نہ رکھنا چاہتی تھی اور اسکے اعتماد کو بھی کم نہ ہونے دینا چاہتی تھی سو وہ اسکے سوالات کو کبھی رد نہ کرتی نہ ہی کبھی اسے ڈانٹ کر چپ کرواتی۔ وہ نہ چاہتی تھی کہ اسکی بیٹی اسکے جیسی کم اعتماد بنے وہ اسے سر اٹھا کر جینے والی انسان دیکھنا چاہتی تھی۔ ثمن چار سال کی ہوئی تو ثمینہ باجی نے اسے سکول میں داخل کروانے کی تجویز دی۔ انکی اپنی بیٹیاں بھی قریبی سرکاری سکول میں پڑھتی تھی اور انکی سب سے چھوٹی بیٹی جو ثمن کی ہی ہم عمر تھی کو وہ اب سکول میں داخل کروا رہی تھیں۔ زینب نے بھی ثمن کو سکول میں داخل کردیا۔ سکول کی فیس تو کوئی نہ تھی مگر کتابوں اور دوسری چیزوں کے خرچ پورے کرنے کے لیے اس نے گھر کے بقیہ اخراجات میں کمی کردی۔ کچھ عرصے بعد اسے ایک اور کوٹھی میں کام مل گیا اور اسکی آمدن کچھ اور بڑھ گئی۔ وہ صبح ثمن کو سکول چھوڑتی اور شہر جانے والی بس پکڑ کر کام پہ چلی آتی۔ شام تک وہ تین کوٹھیوں میں کام کرتی اور واپسی پر ثمن کے لیے کھانے کو کچھ نہ کچھ ضرور لے کر جاتی۔ ثمن پڑھائی میں کافی اچھی تھی اور یہ بات زینب کے لیے اطمینان بخش تھی۔ وہ خود بھی اتنی پڑھی لکھی تو تھی ہی کہ اسے پڑھا سکتی سو وہ روز رات کو اسکی تمام کاپیاں دیکھتی اسے اپنے سامنے ہوم ورک کرواتی ٹیسٹ یاد کرواتی اسکے تمام خوابوں کا مرکز اب اسکی بیٹی بن چکی تھی۔ اسد اور اسکی محبت تو اسکے لاشعور کے کسی نہاں خانے میں جا سوئی تھی۔ گزرے دس برسوں میں وہ سرتاپا بدل گئی تھی ۔ اسکا مسحور کردینے والا حسن کمہلا گیا تھا، آنکھوں کے گرد حلقے پڑ گئے تھے ، بال جھڑ جھڑ کر آدھے رہ گئے تھے اور ہاتھوں کی شفاف جلد پر برتن مانجھ مانجھ کر لکیریں پڑ گئی تھیں۔ وہ اس حسین و جمیل زینب کا سایہ بھی نہ لگتی تھی کہ جسے دیکھ کر اسد دیوانہ ہوگیا تھا۔۔ بس کو جھٹکا لگا تو وہ چونکی۔ رستہ طے ہوچکا تھا اسکا سٹاپ آگیا تھا وہ کرایہ ادا کرکے اتری اور پیدل چل پڑی۔ دھوپ بہت تیز تھی ، وہ اس سے بے پرواہ چلی جارہی تھی۔ بہت وقت گزرا اس نے موسموں کی سختی سے متاثر ہونا چھوڑ دیا تھا۔ وہ جیسے ایک روبوٹ تھے جس کے سنگلاخ چہرے پر محبت بھرے تاثرات صرف تب ابھرتے جب وہ اپنی بیٹی کا چہرہ دیکھتی تھی۔ زینب کی زندگی میں انقلاب آئے تھے اور انقلاب قربانی دیئے بغیر کب آیا کرتے ہیں بھلا۔


اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اسد نے اپنے پورے وجود کو درد کا پھوڑا بنتے محسوس کیا ، وہ چاہ کر بھی آنکھیں کھول نہ پارہا تھا۔ اسکی آواز حلق میں گھٹ کر رہ گئی تھی۔ اسکی جیپ جانے اتنی تنگ کیوں ہوگئی تھی کہ وہ اسمیں پھنس کر رہ گیا تھا ہل بھی نہ پارہا تھا۔ اس نے کوشش کی کہ کسی کو مدد کیلیے پکارے مگر آواز تھی کہ ساتھ دینے کو تیار ہی نہ تھی۔ وہ اپنے ہاتھ پاؤں ہلانا چاہتا تھا مگر ناکام رہا۔ اسکا پورا جسم مواد بھرے پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا،وہ جیسے تکلیف کی آخری حد تھی ۔ ۔ ۔ اس نے سانس لینا چاہی مگر سینے میں جیسے مرچیں سی بھر گئیں وہ بے طرح کھانسنے لگا بری طرح کھانستے کھانستے بے اختیار اس نے آنکھیں کھول دیں۔ اسکی آنکھوں کے سامنے دھند کے گہرے بادل چھائے ہوئے تھے اور جو پہلا احساس اسے ہوا تھا وہ تھا سکون کا۔۔۔ اسکے جسم میں ہونے والا وہ جان لیوا درد حیرت انگیز طور پر غائب تھا اور وہ خود کو ہوا سے بھی ہلکا محسوس کررہا تھا۔ یوں جیسے اسکا پورا وجود ہولے ہولے ہوا میں تیر رہا ہو۔۔ مگر یہ اسکی بینائی کو کیا ہوا اسکی آنکھوں کے سامنے اتنی گہری دھند کیوں چھائی ہوئی ہے،، وہ کچھ دیکھ کیوں نہیں پارہا۔ اسنے آنکھیں زور سے بھینچ کر دوبارہ کھولیں۔ اب کی بار دھند کچھ کم تھی اور اب اسکی سماعتیں کچھ آوازیں بھی سن رہی تھیں۔۔ ہلکی ہلکی بھنبھناہٹ کی سی آوازیں۔۔ اور پھر دھیرے دھیرے یہ بھنبھناہٹ واضح ہوکر انسانوں کی آوازوں میں بدل گئی ۔۔ اور آنکھوں کے سامنے چھائی دھند بھی چھٹنے لگی۔ اسنے خود کو ایک اسپتال کے کمرے میں پایا اور اسے بستر کے اردگرد کچھ چہرے اس پر جھکے ہوئے تھے۔ وہ سبھی کچھ نہ کچھ بول رہے تھے۔ کیا بول رہے تھے ۔۔ اسد نے غور کیا۔۔ "تھینک گاڈ تمہیں ہوش آگیا؟" ایک خوبصورت سی ادھیڑ عمر عورت اس سے پوچھ رہی تھی۔ اسد کو اسکا چہرہ جانا پہچانا لگا مگر وہ تھی کون اسے یاد نہ آیا۔۔ اور ذہن پر تھوڑا سا زور دینا بھی تو اسے کس قدر گراں گزر رہا تھا یوں محسوس ہوتا جیسے سر پر ہتھوڑے برس رہے ہوں۔ "ہیلو" ڈاکٹر نے اسے مخاطب کیا ۔ وہ خالی خالی نظروں سے اسکی طرف دیکھنے لگا۔ وہ اس سے کچھ سوالات کرتا رہا مگر وہ کوئی جواب نہ دے سکا۔ زبان ہلانا اسے دنیا کا سب سے مشکل کام لگ رہا تھا۔ "یہ۔۔ یہ بول کیوں نہیں رہا ڈاکٹر صاحب۔" وہی عورت روتے ہوئے ڈاکٹر سے پوچھ رہی تھی۔ "ریلیکس مسز شعیب کوما کے بعد اکثر مریضوں کی ذہنی حالت بلکل نارمل نہیں رہتی اور پھر ذہن کی ورکنگ نارمل ہوتے ہوتے وقت بھی تو لگتا ہے ۔ آپ دعا کریں انکا مفصل معائنہ کرنے کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ انکی کیا کنڈیشن ہے۔" ڈاکٹر نرم لہجے میں بول رہا تھا۔ اسد نے آنکھیں پھر سے موند لیں۔۔ تو وہ کوما میں چلا گیا تھا۔۔ اس نے سوچا۔۔ مگر کیوں۔۔ اسکا ذہن الجھا۔۔ "کیا آپ سن رہے ہیں؟" کسی نے پھر اسے مخاطب کیا تو اس نے آنکھیں کھولیں۔ ڈاکٹر اس پر جھکا ہوا تھا۔ اس نے شہادت کی انگلی اسکی پیشانی پر تین بار ماری اور اسد کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ابھرے۔ "آپکا نام کیا ہے؟" ڈاکٹر نے پوچھا۔ اسد نے سوچنا شروع کیا۔۔۔ اسکا نام بھلا کیا تھا۔۔ اسے یاد نہ آسکا۔ اس نے بیچارگی سے ڈاکٹر کی طرف دیکھا "کیا آپ بول سکتے ہیں؟" ڈاکٹر نے پھر پوچھا۔ اسد نے اپنی مکمل انرجی صرف کرکے زبان ہلانا چاہی اور اسکے حلق سے کچھ بے معنی سے لفظ نکلے۔ "گڈ گڈ کوشش کیجیے آپ بول سکتے ہیں۔" ڈاکٹر نے اسکی حوصلہ افزائی کی "غوں۔۔ غغغغ۔ " وہ پھر بھرپور کوشش کے بعد چند ٹوٹے ٹوٹے لفظ ادا کرسکا "آپکا نام کیا ہے؟"ڈاکٹر نے پھر پوچھا "پپ۔۔۔ نن۔۔نہ" وہ بمشکل بولا "آپکو اپنا نام نئیں پتہ؟" ڈاکٹر نے پوچھا اسد نے نفی میں سر ہلادیا "اوکے۔ اب آپ آرام کریں۔" ڈاکٹر نے نرم لہجے میں کہا اور پلٹ گیا۔ اسد نے آنکھیں موند لیں۔ اسکے سر پر جیسے ہتھوڑے برسنے لگے تھے۔

   0
0 Comments