Orhan

Add To collaction

گرفتم

گرفتم از قلم فضہ بتول قسط نمبر15

گرفتم از قلم فضہ بتول قسط نمبر14

فزیو تھراپسٹ ابھی ابھی اسکو ایکسر کروا کے گیا تھا اور وہ بالکل گم صم سے انداز میں لیٹا چھت کو گھور رہا تھا۔ ڈاکٹرز کی رپورٹ کے مطابق وہ ذہنی اور جسمانی طور پر بالکل نارمل تھا اب یہ اس پر منحصر تھا کہ وہ ٹھیک ہونا چاہتا ہے یا نہیں۔ اسپیچ تھراپسٹ اور فزیو تھراپسٹ اسر توڑ کوشش کررہے تھے اسے نارمل زندگی کی طرف واپس لانے کی اور گھر والے بھی دن بھر چکر لگاتے رہتے۔ اسد کی یاد داشت جزوی طور پر متاثر ہوئی تھی اور ڈاکٹرز کا خیال تھا آہستہ آہستہ اسے سب کچھ یاد آجائے گا۔ ممی روز اسے پرانے البمز دکھاتی اسے یاد کرواتی گھر والوں کے نام اسے بچپن کے قصے سناتیں اور اسکے ذہن میں جھماکے سے ہونے لگتے۔ کچھ دھندلی تصویریں کچھ گڈ مڈ سی یادیں تھیں مگر جیسے ہی وہ انہیں پہچاننے کی کوشش کرتا اسکا دماغ پھر سے صاف سلیٹ بن جاتا۔ وہ کبھی کبھی شدید ذہنی کوفت میں مبتلا ہوجاتا۔ اسکا جی چاہتا کہ اس الجھن کا سرا دریافت کرلے مگر ایسا ہو نہ پاتا۔ اسکے ذہن میں جھماکے ہوتے رہ رہ کر گہری دھند چھا جاتی اور اس دھند میں کبھی دھندلے چہرے ابھرتے تو کبھی کچھ منظر۔۔ اسکا جی چاہتا کہ اپنا سر دیوار میں دے مارے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ اسکی جسمانی حالت میں بہتری آرہی تھی اور وہ اٹھ کر بیٹھنے لگ گیا تھا مگر سپیچ تھراپسٹ ہنوز ناکام تھا وہ اب تک اسد کو بولنے پر قائل نہ کرسکا تھا۔ چھ ماہ میں وہ جسمانی طور پر تو بالکل ٹھیک ہوگیا اور چلنے پھرنے لگا۔ تھوڑی بہت بات چیت بھی شروع کردی مگر یادداشت اسکی اب تک بھی صفر ہی تھی۔ وہ گم صم ہوچکا تھا۔ ڈاکٹرز نے اسے مفصل معائنہ کرکے گھر بھیج دیا۔ یہاں آکر بھی اسکا وہی حال رہا۔ وہ سارا سارا دن خاموش رہتا۔ کبھی کبھی لان میں ٹہل لیتا ۔ گھر والوں سے بہت کم بات چیت کرتا ۔ ممی ڈیڈی کو امید تھی کہ وہ ایک نہ ایک دن ضرور ٹھیک ہو جائے گا۔ اور اسکے لیے وہ بھر پور کوششیں بھی کررہے تھے۔ ایک دن وہ صبح کے وقت گھر سے نکلا اور یونہی ٹہلتے ہوئے قریبی پارک میں جا بیٹھا۔ کالونی کے اکثر لوگ اسے جانتے تھے اور وہ خود بھی اب ان سڑکوں اور اردگرد کے کچھ لوگوں کو پہچاننے لگا تھا۔ پارک میں اکا دکا ہی لوگ تھے۔ وہ بنچ پر بیٹھا ادھر ادھر نظریں گھما رہا تھا۔ دسمبر کی بیس تاریخ تھی اور سردی اپنے جوبن پر تھی ۔ اونچے اونچے درخت بے لباسی اوڑھے اداس کھڑے تھے۔ گھاس پر شبنم کے قطرے چمک رہے تھے۔ سورج کی لرزتی کپکپاتی کرنیں درختوں کی چوٹیوں کو چھو رہی تھیں اور ساری فضا میں خنکی کے ڈیرے تھے۔ وہ خالی الذہنی کے عالم میں ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ یکدم اسکے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا۔۔ کچھ دور پر ایک لڑکی ٹریک پہ واک کررہی تھی۔ اس نے سیاہ لمبی سی چادر اوڑھ رکھی تھی جس کا کونہ وہ بار بار پیشانی تک کھینچتی۔ وہ اسے دیکھے گیا۔۔ اسکے ذہن میں پھر سے دھماکے ہونے لگے تھے۔۔ بار بار بجلیاں سی کوندتیں۔ اسنے بے اختیار اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا۔ اسکا سارا وجود کپکپا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اسنے چہرے سے ہاتھ ہٹا کر سامنے دیکھا تو وہ لڑکی جاچکی تھی۔ وہ بھی اٹھا اور اپنے گھر واپس آگیا۔ اگلے روز وہ پھر اسی وقت پارک میں آ بیٹھا۔ گھر والے پچھلی شام کو نیو ائیر منانے کیلئے پیرس چلے گئے تھے۔ گھر پر اسکی نگہداشت کے لیے ملازموں کی فوج تھی اور ایک عدد میل اٹینڈنٹ بھی تھا جو ہر وقت سایے کی طرح اسکے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔ اس وقت بھی وہ اس سے کچھ فاصلے پر ہی ٹہل رہا تھا۔ دھوپ ابھی پوری طرح نہ نکلی تھی اور سردی بہت زیادہ تھی۔ اسد اپنے مخصوص بنچ پر بیٹھ گیا اور ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔ پارک تقریباً خالی تھا ۔ ٹریک پہ ایک دو لڑکے جاگنگ کررہے تھے۔ اس نے سر بنچ کی پشت سے ٹیک کر آنکھیں موند لیں۔ "میں انتظار کروں گی۔۔ انتظار جان لیوا بننے سے پہلے آجاؤں گا۔۔۔" اسکے اردگرد کچھ ملی جلی آوازیں چکرائیں۔ بند پلکوں کے پردے پر کچھ دھندلے دھندلے چہرے ابھرے۔ "انتظار۔۔۔ جان لیوا۔ ۔ بننے سے ۔۔۔ پہلے۔۔۔ آجاؤں ۔۔۔ گا۔۔" ایک چہرہ بول رہا تھا۔۔ اسکی آواز کتنی جانی پہچانی تھی ۔۔ "جلدی آجانا۔۔" دوسرے دھندلے عکس نے کہا تھا۔ وہ نسوانی آواز تھی۔ بڑی جانی پہچانی۔۔ مگر کس کی تھی۔۔۔ وہ الجھا۔۔ "اسد۔۔۔" دھندلے سایے نے پھر پکارا تھا۔۔ "ہاں۔۔" اس نے بے اختیار آنکھیں کھول دیں ایک جھٹکے سے سیدھا ہوا۔۔ مگر اردگرد تو وہی منظر تھا۔۔ صبح صادق کا پرسکون منظر۔ اسنے اپنا سر جھٹکا ۔۔ وہ جیسے کسی سحر سے باہر آیا تھا مگر اک خلش سی تھی جو ذہن میں چبھ رہی تھی۔۔ وہ سر دونوں ہاتھوں میں گرا کر بیٹھ گیا۔ آنے والے چند روز اسکے لیے شدید ترین ذہنی اذیت لیکر آئے تھے ، اسکا ذہن ہر وقت عجب سی کیفیت سے دو چار رہتا۔ کچھ دھندلی تصویریں ذہن کی اسکرین پر ابھرتے مگر انکے واضح ہونے سے قبل ہی اسکرین تاریک ہوجاتی وہ ان دھندلے سایوں اور جانی پہچانی آوازوں کا سراغ نہ لگا پارہا تھا۔ ایک روز اس نے اپنے اٹینڈنٹ سے ڈرائیو پہ چلنے کی فرمائش کی۔ وہ دونوں ڈرائیور کے ساتھ ڈرائیو پہ نکل آئے۔ گاڑی اسلام آباد کی شفاف سڑکوں پر سست روی سے گامزن تھی اور وہ کھڑکی سے باہر محویت کے عالم میں آتے جاتے مناظر کو دیکھ رہا تھا۔ وہ بار بار چونک جاتا، بار بار اسکے ذہن کو جھٹکے سے لگتے۔ پھر ایک منظر پر اسکی نگاہ ٹھہری اور وہ بے اختیار چیخ اٹھا ۔۔ "رکو۔۔" ڈرائیور نے فل بریک لگا کر گاڑی روکی۔ سڑک کے اس پار ایک پارک تھا۔ اس پارک میں کوئی ایسی خاص بات نہ تھی ایسے پارک تو اسلام آباد میں ہر سیکٹر میں ہی تھے مگر جانے کیوں اسکی نظریں اس پارک پر ٹھہر سی گئی تھیں۔ وہ بے اختیار گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اترا۔ اٹینڈنٹ اسے آوازیں دیتا اسکے پیچھے آیا۔ اسد کے قدم پارک کی جانب اٹھ رہے تھے وہ جیسے کسی خواب کے عالم میں تھا۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتا پارک کے اندر داخل ہوا، ہزاروں آوازیں اسکے تعاقب میں تھیں ، ذہن کے پردے پر دھندلے دھندلے عکس گڈ مڈ ہورہے تھے۔ وہ ٹرانس کے عالم میں چلتا گیا۔ اسکی نظروں کے سامنے پارک میں چلتے پھرتے لوگوں کے عکس دھندلا رہے تھے وہ ٹریک پر چلتے ہوئے بس ایک نقطے پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ اسکے ذہن کے پردے پر جھلملاتے عکس اب کچھ کچھ واضح ہورہے تھے اور گڈ مڈ ہوتی آوازوں میں اب ایک روانی آنے لگ گئی تھی۔ وہ چلتے چلتے ٹریک پار کرکے ایک دور افتادہ بنچ کے پاس آیا۔۔ ساری آوازیں یکدم تھمی تھیں ۔۔ دھندلے دھندلے عکس واضح ہوگئے تھے ۔۔ وہ ایک جھٹکے سے رکا ۔۔ چہرے پر ہاتھ پھیرا اور چونک کر ادھر ادھر دیکھنے لگا اسکے سامنے ہر منظر گول گول گھوم رہا تھا ذہن میں ہوتے دھماکے بلکل تھم گئے تھے، جسم پر تشنجی کیفیت طاری ہوگئی دیکھتے ہی دیکھتے وہ بے ہوش ہو کر گر گیا تھا۔


اس کی جیپ گہری کھائیوں میں گر رہی تھی اس کا پورا وجود زخم زخم ہوتا جارہا تھا ، وہ چیخنا چاہتا تھا مگر حلق سے آواز نہ نکلی۔ اسکا ذہن تاریکیوں میں ڈوب رہا تھا اور ہوش کے عالم میں اسے بس ایک آخری بات یاد آئی تھی کی اسنے زینب سے واپس آنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے ذہن پر چھائی دھند دھیرے دھیرے چھٹتی گئی تو اسنے آنکھیں کھول دیں۔ اسکی نظروں کے عین سامنے ممی کھڑی تھیں جن کی آنکھیں نم تھیں انکے برابر ڈیڈی پریشان سی صورت لیے کھڑے تھے اور اسکے بلکل سرہانے ایک ڈاکٹر کھڑا اسکی نبض تھامے تشویش ناک نظروں سے اسکی جانب دیکھ رہا تھا۔ اسد نے ایک گہری سانس خارج کی۔ اس نے ممی ڈیڈی کے چہرے پر رونق دوڑتے دیکھی اور وہ دونوں سرعت سے اسکے قریب آئے۔ "شکر ہے تمہیں ہوش آگیا بیٹا۔" ممی نے اسکی پیشانی پر ہاتھ رکھا "بہت برا حادثہ تھا ممی۔۔" اس نے مدھم مگر صاف آواز میں کہا۔ ممی نے حیرت سے ڈیڈی کی طرف دیکھا "مجھے حیرت ہے کہ میں زندہ کیسے بچ گیا؟ ڈیڈی میں آپکو کہاں سے ملا اور آئی تھنک میرے جسم پر کوئی زخم بھی نہیں ہے۔" وہ اٹھ کر بیٹھتے ہوئے اپنے جسم کا جائزہ لیتے ہوئے حیرت سے بولا۔ کمرے میں موجود تمام نفوس بشمول ڈاکٹر کے بلکل چپ تھے۔ "ممی زینب۔۔ مجھے اسکو فون کرنا ہے وہ تو بہت پریشان ہورہی ہوگی میرے لیے۔ میں کتنے دن بعد ہوش میں آیا ہوں؟" اسنے یکدم پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر نظریں دوڑاتے ہوئے پوچھا۔۔اب بھی کوئی کچھ نہ بولا تھا اسد نے سائیڈ ٹیبل سے اپنا موبائل فون اٹھایا ہی تھا کہ ممی نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔ "اسد ہوش میں آؤ بیٹا۔" وہ رو رہی تھیں۔ "کیا ہوا ممی؟ ہوش میں تو ہوں میں۔ زینب میرا ویٹ کررہی ہوگی میں نے اسے فون کرنا ہے۔" اس نے نارمل سے لہجے میں جواب دیا۔ "مسز شعیب پلیز کام ڈاؤن اسد میری طرف دیکھیئے۔" ڈاکٹر فورا سے آگے بڑھا ڈیڈی نے ممی کو شانوں سے تھام کر اسد سے دور کردیا۔ اسد نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا "آپ کے ساتھ بہت برا حادثہ ہوا تھا۔"ڈاکٹر نے بولنا شروع کیا "جی جی مجھے یاد ہے۔" اس نے سر ہلایا۔ "آپکی جیپ کھائی میں گر گئی تھی آپ بہت بری طرح زخمی ہوگئے تھے ۔" ڈاکٹر نے اپنی بات جاری رکھی۔ "مگر میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔" اسنے پھر سے اپنا جائزہ لیا۔ "آپ کے سر کے پچھلے حصے پر شدید چوٹیں آئی تھیں جن کے باعث آپ کوما میں چلے گئے تھے۔" ڈاکٹر روانی میں بولتا گیا۔ "کوما۔۔" اسد کے لبوں سے سرسراہٹ کی مانند یہ لفظ نکلا "جب آپ کو ہوش آیا تو آپکی یادداشت سے سب چیزیں مٹ چکی تھیں حتیٰ کہ آپکا نام بھی آپ فزیکلی بھی ٹھیک نہ رہے تھے چھ ماہ کی فزیو تھراپی کے بعد آپ نے چلنا پھرنا شروع کیا اور اب آپکی یادداشت درست ہوئی ہے۔" ڈاکٹر اسے بتا رہا تھا "کتنے ٹائم بعد ہوش آیا مجھے؟" اسکی آواز شدت سے کانپی تھی۔ "دس سال بعد۔" ڈاکٹر نے سنگلاخ لہجے میں جواب دیا۔ اسد کا دل اتنی زور سے دھڑکا کہ اسے لگا وہ مر جائے گا۔ "اسد کوشش کرنا جلدی آنے کی۔۔" زینب کہ آواز نے اسکی سماعت کو جھنجھوڑا تھا۔ "زینب۔۔ مت کرو میرے ساتھ ایسا۔ تم کیوں اتنی بدگمان ہوگئی ہو مجھ سے میں نے کوئی بے وفائی نہیں کی تمہارے ساتھ یار." "اچھا بے وفائی نہیں کی تم نے اسی لیے سارے دن کیلیے فون بند کردیا تھا جب مجھے تمہاری سب سے زیادہ ضرورت تھی۔" "یار بتا تو رہا ہوں میرا فون گھر رہ گیا تھا۔ اسکی چارجنگ بھی نہیں تھی۔" "میں اس بات پر کبھی بھی یقین نہیں کروں گی۔ تم چلے جاؤ اسد میں تم پر کبھی یقین نہیں کروں گی۔" وہ اسکی سماعتوں میں چیخ رہی تھی چلا رہی تھی ۔۔۔ کرلا رہی تھی۔۔ "اسد.." ممی نے اسکے شانے کو جھنجھوڑا تو اسنے خالی خالی نظروں سے انکی طرف دیکھا " دس سال۔۔ ممی ۔۔ دس سال۔۔ وہ کہاں ہے؟ آپ نے اسکا پتہ نہیں کیا؟ وہ میرے بغیر نہیں رہ سکتی .." وہ رو پڑا۔ "تمہارے علاج کے لیے ہم تمہیں فورا باہر لے گئے تھے اور ہمیں تو اتنی ہوش ہی نہ تھی کہ تمہارے صحت یابی کے علاوہ کچھ اور سوچتے۔" ممی نے کہا "کچھ اور ۔۔ وہ میری بیوی ہے ممی ۔۔ کوئی غیر اہم چیز نہیں۔۔ اوہ گاڈ ممی یہ کیا کردیا آپ لوگوں نے وہ پتہ نہیں کدھر ٹھوکریں کھا رہی ہوگی۔۔اوہ گاڈ ۔۔۔ دس سال۔۔۔" وہ اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام کر بچوں کی طرح رونے لگا "اسد ہم نے دس سال تمہارے ہوش میں آنے کا انتظار کیا ہے اور تم صرف اسکی فکر ہے جس نے تمہیں پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔" ممی نے ملامتی لہجہ اختیار کیا۔ "وہ کیسے دیکھتی مجھے پلٹ کر اسے تو میرے گھر کا ایڈریس تک معلوم نہیں تھا وہ تو اکیلی کہیں بھی نہیں جاتی تھی۔۔ دس سال۔۔ ممی۔۔ دس سال اس نے کیسے گزارے ہونگے میرے بغیر ۔۔ میں اس سے وعدہ کرکے آیا تھا کہ میں واپس ضرور آؤں گا۔" وہ اضطراری انداز میں بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ "اسد پلیز کام ڈاؤن وہ کہاں جاسکتی ہے وہیں رہتی ہوگی اپنی خالہ کے پاس۔ تم ریسٹ کرو۔" ڈیڈی نے آگے بڑھ کر اسکے شانوں پر ہاتھ جمائے "ڈیڈی میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ میں واپس آؤں گا ۔ اور مجھے اسکے پاس جانا ہے۔ دس سال تو میں نے نیند میں گزارے مگر جاگتے ہوئے ہوش و ہواس کے عالم میں رہتے ہوئے میں زینب سے کیے وعدے کی پاسداری میں تاخیر نہیں کرسکتا۔ مجھے جانا ہے." اس نے نرمی سے انکے ہاتھ اپنے شانوں سے ہٹائے۔ "اوکے اوکے ریلیکس میں تمہارے ساتھ جاؤں گا تم اکیلے نہیں جاؤ گے۔" وہ اسے پھر سے تنہا نہ بھیج سکتے تھے۔ سو نہ چاہتے ہوئے بھی انہوں نے اسکی خاطر حامی بھر لی تھی۔ اسد نے مضطربانہ انداز میں سر ادھر ادھر جھٹکا اور اور ہاتھ مسلنے لگا۔ یوں جیسے کوئی انسان عمر بھر کی دولت لٹا بیٹھا ہو۔

   0
0 Comments