Orhan

Add To collaction

گرفتم

گرفتم از قلم فضہ بتول قسط نمبر16 آخری قسط

اسد کے موبائل پر کسی نامعلوم نمبر سے کال آرہی تھی، اس نے کچھ تذبذب کے عالم میں کال اٹینڈ کرکے فون کان سے لگایا۔ "ہیلو!" "ہیلو!" دوسری جانب سے زنانہ آواز سنائی دی۔ " جی کون؟" "اسد صاحب کا نمبر یہی ہے؟" دوسری جانب سے محتاط انداز میں پوچھا گیا۔ "جی میں اسد بات کر رہا ہوں آپ کون؟" "میں مسز عدیل۔۔ اخبار میں اشتہار دیا تھا آپ نے ۔۔" "جی۔ میں نے اپنی بیوی کی گمشدگی کا اشتہار دیا تھا۔" "اگر میں یہ کہوں کہ میں اس عورت کو جانتی ہوں تو۔۔" "کیا۔۔ پلیز مجھے بتائیے وہ کہاں ہے پلیز۔۔" وہ اچھل پڑا تھا۔ "ایسے تو میں آپ پر یقین نہیں کرسکتی۔" "دیکھیئے میں ہر طرح کی گارنٹی دینے کو تیار ہوں آپ پلیز مجھے بتادیں کہ میری بیوی کہاں ہے دیکھیں پلیز یہ آپکا بہت بڑا احسان ہوگا مجھ پر؟" وہ منت بھرے لہجے میں بولا "دیکھیئے میں یوں آپ کو کسی شریف عورت کا پتہ نہیں بتا سکتی۔ میں پہلے اپنی تسلی کروں گی اسکے بعد ہی کچھ بتاؤں گی۔" اس عورت نے عجلت بھرے انداز میں کہہ کر فون بند کردیا تھا۔ اسد نے اس نمبر پہ کال کی بار بار کال کی مگر آگے سے کوئی ریسپانس نہ ملا تو وہ پولیس اسٹیشن چلا آیا۔ یہاں کا انچارج سلیم قریشی اسکے ڈیڈی کے کسی واقف کار کا بیٹا تھا، اسنے زینب کی تلاش کے سلسلے میں اسکی پوری مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اسد نے اسے سارا ماجرا بتایا۔ اس نے اپنے ماتحتوں کو اس نمبر کے متعلق انفارمیشن لینے کی ھدایت دی اور پھر کچھ دیر بعد ہی معلوم ہوگیا تھا کہ جس نمبر سے کال آئی وہ عدیل اصغر نامی ایک شخص کے نام پر تھا اور لوکیشن ایبٹ آباد تھی۔ نادرا سے عدیل اصغر کا ڈیٹا نکلوایا گیا اور وہ اگلے ہی روز ایبٹ آباد روانہ ہوگیا تھا۔ سلیم اسکے ساتھ تھا۔ ایبٹ آباد پہنچ کر وہ لوگ وہاں کے مقامی تھانے سے ایک کانسٹیبل کی ہمراہی میں عدیل اصغر کی رہائش گاہ پر پہنچے ، شام کا وقت تھا مسز عدیل انہیں اپنے دروازے پہ دیکھ کر بھونچکی رہ گئی۔ اسد نے اپنا تعارف کروا کے زینب کے متعلق دریافت کیا اور وہ گہری سانس بھر کر رہ گئی۔ "اندر آئیے آپ لوگ۔" وہ پیچھے ہٹتے ہوئے بولی اور ان سب کو ڈرائنگ روم میں لا کر بٹھایا۔ "آپ بھی تشریف رکھیے محترمہ ہمارا مقصد کسی کو خوفزدہ کرنا نہیں ہے ہمیں صرف زینب بی بی کا پتا درکار ہے۔" سلیم نے شائستہ لہجے میں کہا تو مسز عدیل ایک صوفے کے کنارے ٹک گئیں۔ "زینب کے مطابق آپ قریب گیارہ سال قبل اسکو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔۔" اس نے کچھ دیر بعد بات شروع کی "بھاگا نہیں تھا میں اپنے پیرنٹس سے ملنے کیلیے سوات سے اسلام آباد کیلیے روانہ ہوا تھا۔" اسد بولا "اور گیارہ سال آپ اپنے پیرنٹس سے ہی ملتے رہے۔۔" مسز عدیل استیزائیہ مسکرائی "نہیں جی میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا ، کھائی میں جا گری تھی جیپ میری۔ میں دس سال کوما میں رہا ہوش میں آنے کے بعد سات آٹھ ماہ مجھے ٹھیک ہونے میں لگے اور پھر میں نے زینب کو تلاش کرنا شروع کیا۔" اس نے مختصراً ساری روداد اسے سنادی مسز عدیل کے چہرے پر یقین و بے یقینی کے تاثرات ابھرے۔ "میں جھوٹ نہیں بول رہا میڈم ،میری صورت دیکھئے ذرا بوڑھا لگتا ہوں ناں، اور میرے بال بھی جھڑ گئے ہیں یقین کیجیے میں پہلے ایسا نہیں تھا۔ " وہ ہولے سے ہنسا یوں جیسے اپنے لاغر وجود اور کہیں کہیں سے اڑے بالوں کا مضحکہ اڑا رہا ہو۔ "دیکھیں بی بی آپکو کوئی حق نہیں ہے کہ آپ انکی بیوی کا ایڈریس انہی سے چھپائیں۔ ان دونوں کا جو بھی ایشو ہے یہ دونوں مل کر حل کرلیں گے آپ بلاوجہ دخل در معقولات مت کیجیے ۔ ایڈریس بتائیے اور ہمیں یہاں سے جانے کا موقع دیجئے." سلیم نے یکدم اکھڑے اکھڑے لہجے میں کہا اور ساتھ کھڑے کانسٹیبل کی طرف دیکھا تو مسز عدیل نے کچھ تذبذب کے عالم میں زینب کا پتہ ایک کاغذ پہ لکھ کر انکے حوالے کردیا۔ "زینب نے بہت مشکل زندگی گزاری ہے اور وہ میرے گھر صفائی ستھرائی کا کام کرتی ہے۔ سوات اس نے خود نہیں چھوڑا تھا بلکہ ایک اوباش انسان نے اسکے کردار پر الزام لگا کر اسے بستی سے نکلوا دیا تھا۔" وہ لوگ جیسے ہی جانے کیلیے اٹھے تو مسز عدیل نے بغیر رکے یہ سب دہرا دیا۔ اسد جھٹکے سے مڑا۔۔ "کیا۔۔ کیا کرتی ہے زینب آپکے گھر میں؟" اس نے بے یقینی سے پوچھا "صفائی ستھرائی کا کام کرتی ہے اور برابر کی تین کوٹھیوں میں بھی کام کرتی ہے وہ." اس نے جواب دیا اسد بے اختیار لڑکھڑایا تھا۔ سلیم نے آگے بڑھ کر اسے سہارا دیا۔ "اسد آر یو اوکے؟" "میں۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔ مسز عدیل مجھے زینب کے بارے میں مزید بتائیے۔۔ اگر آپکو معلوم ہے۔۔" وہ پھر سے مسز عدیل کی طرف متوجہ ہوا۔ مسز عدیل دھیرے دھیرے اسے سب کچھ بتانے لگیں۔


ثمینہ باجی کے برابر والے گھر میں لڑکی کی شادی کے فنکشنز ہورہے تھے۔ آج مہندی تھی۔ ثمن فنکشنز میں جانے کی بہت شوقین تھی سو سب سے پہلے تیار ہوکر ثمینہ باجی کی بیٹیوں کے ہمراہ فنکشن میں چلی گئی۔ جبکہ زینب ابھی باورچی خانہ سمیٹنے میں مصروف تھی۔ رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا اور سردی خاصی بڑھ گئی تھی۔ تبھی بیرونی دروازے پر دستک ہوئی۔ اسنے چادر کو اپنے گرد لپیٹا اور باورچی خانے سے باہر نکلی۔ دستک برابر ہورہی تھی، زینب جانتی تھی کہ ثمینہ باجی ہوں گی، اسے لینے کیلیے آئی ہوں گی اور اسے یوں گھر کے گندے سندے حلیے میں دیکھ کر خاصی خفا ہوں گی۔ اسنے بغیر کچھ پوچھے ہی دروازہ کھول دیا۔ بڑا گہرا اندھیرا تھا۔ اندرونی کمروں سے چھن کر آتی روشنی صحن کے اس حصے کو روشن کرنے میں ناکام ہورہی تھی۔ اسنے تاریکی میں ایک طویل قامت ہیولا دیکھا۔ "کون؟" اسنے دروازہ ذرا سا بھیڑ کر محتاط لہجے میں پوچھا۔ نووارد نے دروازے پر ہاتھ رکھا اور اندر چلا آیا۔ "کک۔۔۔۔ کون ہیں آپ۔۔ کیسے گھسے چلے آرہے ہیں ؟" وہ گھبرا کر پیچھے کھسکنے لگی۔ برسوں پہلے کا ایک ایسا ہی لمحہ اسکے دماغ کے پردے پر ابھرا تھا اور اسکے پورے وجود پر کپکپی طاری ہوگئی۔ اس لمحے نے اس سے اسکی عزت چھین لی تھی۔۔ اور اب یہ لمحہ۔۔ زینب ایک ایک قدم پیچھے ہٹ رہی تھی اور نووارد آہستہ روی سے اسکی جانب بڑھ رہا تھا۔ "کون ہو تم دیکھو میں شور مچا دوں گی۔" وہ کپکپاتی ہوئی آواز میں بولتے ہوئے پیچھے ہٹ رہی تھی جب یکدم اسکی پشت کمرے کی دیوار سے ٹکرائی۔ کمرے سے آتی دھندلی سی روشنی میں یہ حصہ نیم تاریک سا تھا۔ نووارد اسکے عین سامنے آن رکا۔ زینب کی پلکیں جامد ہوگئیں۔۔ وہ اسکے سامنے تھا۔۔ یوں کہ وہ اسے پہچان بھی نہ پارہی تھی۔۔ زرد رنگت پچکے ہوئے گالوں پر ہلکی ہلکی داڑھی پیشانی سے اڑے اڑے بال۔ اسکی نظریں اسکے وجود پر رینگیں۔۔ وہ کتنا کمزور ہوچکا تھا ۔۔ بلکل ہڈیوں کے ڈھانچے جیسا۔۔ گزرے برسوں نے اسے یہ کیا سے کیا بنا ڈالا تھا۔ "تم۔۔۔۔" اس نے سراسرتی ہوئی آواز میں پوچھا "ہاں ۔۔ میں ۔۔۔ تمہارا اسد۔" وہ گہری سانس بھر کر بولا۔ زینب نے تنفر سے نظریں پھیر لیں "ہنہہ اگر تم میرے ہوتے تو یوں چھوڑ کر نہ جاتے۔" "میں مجبور تھا زینب." "سارے بے وفا یہی کہتے ہیں۔" اس کا لہجہ بڑا سخت تھا۔ "میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا زینب میں دس سال کوما میں رہا ہوں." اس نے ایک ہی جملے میں اپنی عمر بھر کی داستان سنا ڈالی۔ "ہاہاہا کہانی تو بڑی دم دار بنائی ہے مگر میں اب وہ پہلے والی بے وقوف زینب نہیں ہوں۔ اب میں تمہارے محبت کے بہلاوؤں میں نہیں آؤں گی۔" وہ استہزائیہ ہنسی۔ اسد آگے بڑھا "زینب میری محبت کو بہلاوا مت کہو میری جان میں تو تمہارے عشق میں پور پور ڈوبا ہوں۔" "بکواس بند کرو اسد ۔۔ اب تمہارے ان ڈائیلاگز میں بالکل دم نہیں. اب بہت دیر ہوچکی ہے." اس نے سر جھٹکا۔ "زینب میں بلکل سچ کہہ رہا ہوں۔ میں واقعی دس سال کوما میں رہا ہوں۔" اس نے اب کی بار اپنی بات پر زور دیا تھا۔ "تم اب کیوں آئے ہو اسد؟ گیارہ سال میں نے اکیلے گزار لیے ہیں تو باقی کی زندگی بھی گزار سکتی ہوں میں۔" وہ اس کی بات پر کان دھرے بغیر تلخ لہجے میں بولی۔ "میں کیسے نہ آتا تمہارے پاس زینب۔ہمیں تو ایک دوسرے کے پاس ہی لوٹ لوٹ کر آنا ہے ناں۔" اس نے اسکے شانوں پر ہاتھ رکھا جو زینب نے نفرت سے جھٹک دیا۔ "جاؤ یہاں سے اسد پلیز ۔۔ میری زندگی میں اب تمہاری کوئی جگہ نہیں ہے." وہ بے زاری سے بولی "نہیں زینب ایسا مت کہو۔ میں ایک حادثے کا شکار ہوگیا تھا۔ میں نے دس سال بے بسی میں گزارے ہیں۔" اسنے بیچارگی سے کہا "مجھے تمہاری دکھ بھری داستان سننے میں کوئی دلچسپی نہیں یے۔ تم پلیز جاؤ۔" اس نے بیزاری سے ہاتھ ہلایا "تمہیں سننا پڑے گا زینب۔ میں تمہارا شوہر ہوں تمہارا نصف بہتر۔" اس نے اسے شانوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا "کچھ نہیں لگتے تم میرے۔" اس نے اسکے ہاتھ جھٹک دیئے۔ "زینب میں تمہاری محبت کو گیارہ سالوں سے سینے سے لگائے ہوئے ہوں، ہوش میں آنے کے بعد بھی میں سینسز میں نہ تھا مگر جو چیز مجھے مکمل ہوش کی طرف لائی وہ تمہاری محبت، تم سے ملنے کی چاہت تھی زینب۔ آئی لو یو ۔۔" اس کا لہجہ بھرا گیا۔ "جسٹ شٹ اپ۔ محبت ایک جھوٹ ہے۔ یہ ایگزسٹ ہی نہیں کرتی۔" "محبت کائناتی سچ ہے تم اسے جھٹلا نہیں سکتیں زینب۔" اسنے مضبوط لہجے میں کہتے ہوئے اسکی آنکھوں میں جھانکا۔ "میں جھٹلا نہیں رہی کیونکہ جھٹلایا جانا بھی وجودیت سے جڑا ہے۔ جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہو اسے کیسے جھٹلایا جاسکتا ہے بھلا؟" اسنے بڑے اطمینان سے جواب دیا تھا۔ اسد کتنی ہی دیر اسکی صورت دیکھتا رہا۔ سبز آنکھوں میں پتھروں کی سی سختی در آئی تھی۔ لب باہم پیوست تھے اور چہرے پہ سرد مہری رقم ہوچکی تھی۔ اسد کو یکدم احساس ہوا کہ اس نے پلٹنے میں دیر کردی۔ وہ آنکھیں کہ جن میں دسمبر کی نرم دھوپ کی سی چاشنی جھلکتی تھی، بدگمانی کی دھول نے ان سبز ساحر آنکھوں کو دھندلا کر رکھ دیا تھا۔۔ "زینب کیا ہماری محبت اتنی ہی ناپائیدار تھی؟" اسنے پست آواز میں پوچھا۔ "ہماری محبت۔۔۔" وہ حیرت سے بولی۔ "ہمارے درمیان ایسا کوئی تعلق کب تھا اسد صاحب؟" اسنے گردن موڑ کر اسکی جانب دیکھا۔ چہرے پر سرد مہری کچھ اور بڑھ گئی تھی۔ "ہمیشہ سے تھا زینب اور ہمیشہ رہے گا۔ محبت رگوں میں خون کی مانند بہتی ہے، کیا تم اپنے رگوں میں بہتے خون کو روک سکتی ہو۔۔ بولو۔" اسنے ہیجان انگیز انداز میں پوچھا آواز قدرے بلند تھی۔ زینب نے لاپرواہی کے اظہار میں شانوں کو جنبش دی۔ "اگر لہو میں محبت کے اثرات شامل ہوتے ہیں تو پھر میری رگوں میں پانی بہتا ہے شاید۔" بے تاثر لہجے میں جواب دے کر وہ پھر سے سامنے دیکھنے لگی۔ "زینب ۔۔۔ ایسے مت کہو۔" وہ روہانسا ہوگیا تھا۔ وہ چپ رہی۔ وہ گھٹنوں کے بل اسکے قدموں کے پاس گرا تھا۔ کسی ہارے ٹوٹے انسان کی مانند۔ زینب نے گردن نہ جھکائی اسکی غیر متحرک آنکھیں اب بھی کسی غیر مرئی نقطے پر مرکوز تھیں۔ "محبت مر نہیں سکتی زینب میں نہیں مانتا یہ بات۔۔ محبت نہیں مر سکتی۔" وہ بچوں کی طرح دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے رو رہا تھا۔زینب بے تعلقانہ انداز میں کھڑی رہی۔ اسد نے روتے روتے سر اٹھایا۔ "زینب۔۔ کیا تمہیں مجھ سے محبت نہیں رہی؟" اسکے لہجے میں بڑا درد تھا "نہیں۔" اسنے سنگلاخ لہجے میں جواب دیا تھا اسد اٹھ کھڑا ہوا۔ "تم ہمیشہ مجھ سے بدگمان ہوجاتی ہو زینب تم یہ کبھی نہیں سوچتیں کہ میرے ساتھ بھی کوئی حادثہ ہوسکتا ہے ، میں بھی تو انسان ہوں ناں زینب کیا حادثے اور مجبوریاں صرف تمہارے ساتھ ہوتے ہیں میرے ساتھ نہیں بولو، تم عورتیں مردوں کو انسان کیوں نہیں سمجھتی ہو؟ کیا ایکسپیکٹ کرتی ہو تم لوگ مردوں سے؟ کیا وہ انسان نہیں ہوتے ، کیا انکی کوئی مجبوری نہیں ہوسکتی ، کیا انکے ساتھ حادثے نہیں ہوسکتے؟ تم عورتیں ایک منٹ میں مرد پر بے وفائی اور جھوٹ کا ٹیگ لگا کر اسے ظالم قرار دے دیتی ہو اور خود مظلومیت کا چولا اوڑھ کر ساری دنیا میں مرد کی شقی القلبی کا رونا روتی رہتی ہو۔ بولو کیا مرد انسان نہیں ہوتے بولو ناں۔ تم میرے ساتھ بیتے حادثے پر یقین نہیں کررہی ، میں نے تو سوات میں تمہارے متعلق ملی معلومات کو ایک لمحے میں ریجیکٹ کردیا تھا ، میں نے تو تمہاری بدکرداری پر یقین نہیں کیا، تمہیں ڈھونڈا ، تمہارے سامنے کھڑا ہوں۔ تم مجھ سے شکوے کررہی ہو بدگمانی کی بڑی بڑی وجوہات بنارکھی ہیں تم نے تو similarly میں بھی تم سے بدگمان ہوسکتا تھا، کہہ سکتا تھا کہ تم نے میرا انتظار کیوں نہیں کیا۔ اگر میں بغیر کسی سراغ کے بھی تمہیں تلاش کرسکتا ہوں تو تم اسلام آباد کیوں نہیں آئی مجھے تلاش کرنے، تمہیں تو پتہ تھا ناں کہ میں اسلام آباد میں رہتا ہوں ذرا سی کوشش سے تم مجھ تک پہنچ سکتی تھیں مگر تم تو مجھے بے وفا اور جھوٹا ہی سمجھتی تھیں اسی لیے تم نے فوراً سے دامن چھڑا لیا۔ میں پوچھتا ہوں زینب جب میری کوئی خبر نہیں ملی تھی تمہیں تو کیا تمہارا دل نہیں ڈوبا تھا،کیا ایک لمحے کو بھی تمہیں یہ خیال نہیں آیا تھا کہ کہیں میرے ساتھ کوئی حادثہ نہ ہوگیا ہو۔ تم نے بس یہی سوچا کہ میں تمہیں چھوڑ کے بھاگ گیا اتنی ججمنٹل تھیں تم زینب تم میرے لیے پریشان ہی نہیں ہوئی۔۔ میں تم سے عشق کرتا ہوں زینب تم سے۔۔۔ جس کو میری زندگی موت کی کوئی فکر نہیں تھی بس اس بات کی پرواہ تھی کہ میں تمہارے ساتھ رہوں اسکو ایک پرتعیش زندگی مہیا کرتا رہوں، تمہاری زندگی سیکیور رہے۔۔ ہمیشہ میں تمہارے پاس آتا رہا محبت کے ہر ہر امتحان میں پورا اترنے کی کوشش کرتا رہا اور جب ایک بار محبت نے تمہیں امتحان میں ڈالا تو تم فیل ہوگئیں زینب ایک بار تمہیں میرے پاس آنا پڑا تو تم نے مجھے اپنی زندگی اور دل سے ہی نکال پھینکا۔ یہ تھا وہ عشق جس پر مجھے ناز تھا۔ یہ تھا وہ اٹوٹ بندھن ۔۔ یہ۔۔" اسے شانوں سے تھامے وہ ملامتی لہجے میں بولے گیا، اسکی آنکھوں سے ایک تواتر سے آنسو بہہ رہے تھے اور چہرے پر درد رقم تھا۔ "میں نے تو زندگی برباد کرلی زینب۔۔ تمہاری خاطر میں تباہ ہوگیا۔۔" ایک جھٹکے سے اسکے شانے چھوڑ وہ پلٹا اور چھت کو جاتی سیڑھیوں میں سے ایک پر بیٹھ کر اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔ زینب کسی سحر زدہ کی طرح کھڑی تھی۔ اسکے دل میں بہت شور تھا اور آنکھیں ایک تواتر سے برس رہی تھیں۔ اسد کی باتوں نے اسکی آنکھیں کھول دی تھیں، وہ جو گیارہ برسوں سے خود ترسی اور مظلومیت کا شکار تھی آج یہ سمجھی تھی کی گیارہ برس قبل اس روز اسد لاپتہ کیوں ہوگیا تھا، یہ اسکی محبت کا امتحان تھا۔ اسد نے سچ کہا تھا اسے واقعی اسد کی زندگی کے حوالے سے تشویش نہ ہوئی تھی اسے اگر فکر تھی تو اپنی زندگی اپنے تحفظ اور اپنے مستقبل کی۔۔ یہ کیسی محبت کی تھی اس نے کہ جس میں غرض ہی غرض تھی۔۔ محبت تو بے غرض ہوتی ہے ،، اس میں غرض کا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔ زینب نے اسد کی جانب دیکھا۔ سیڑھیوں کی جانب کافی اندھیرا تھا، اسے اسد کسی ہیولے کی مانند نظر آیا۔ وہ شکستگی سے چلتی اسکے پاس پہنچی اور بغیر کچھ کہے اسکے پاس بیٹھ گئی۔ اسد نے چونک کر اپنے چہرے سے ہاتھ ہٹائے۔ "تم نے ٹھیک کہا اسد۔" وہ جب بولی تو اسکی آواز بہت مدھم تھی۔ اسد نے اسکے لہجے میں آنسوؤں کی نمی کو محسوس کیا تھا اسکا دل گداز ہونے لگا۔ اس نے دھیرے سے اسکے گرد بازو کا حصار کردیا۔ زینب کا لاغر وجود گزرے برسوں کی تلخیوں کے باعث تھکن کا شکار تھا۔ اسد نے اس تھکن کو شدت سے محسوس کیا تھا۔ زینب نے اسکے شانے سے سر ٹکا لیا۔ وہ دونوں چپ چاپ آنسو بہانے لگے۔ تاریکی نے انکے آنسوؤں کو چھپا لیا تھا۔


"یہ میرے ابو ہیں؟" ثمن نے پوری آنکھیں کھول کر اسد کی طرف دیکھا۔ اسد کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔ اسکی بیٹی بلکل زینب کا عکس تھی۔ "جی بیٹا یہ آپکے ابو ہیں۔" زینب بھی مسکرائی۔ ثمن نے ایک بار پھر بغور اسد کا جائزہ لیا۔ "ادھر آؤ میرے پاس۔" اسد نے اپنے ہاتھ اسکی طرف بڑھائے۔ ثمن نے ماں کی طرف دیکھا۔ "جاؤ بیٹا۔" زینب نے نرم سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ وہ جھجھکتی ہوئی اسد کے پاس آئی۔ اسد نے اسکے دونوں ہاتھ تھام کر اپنے پاس بٹھایا۔ "ابو کو دیکھ کر حیران کیوں ہوگئی میری بیٹی؟" اسنے محبت بھرے لہجے میں پوچھا "امی کہتی تھیں کہ آپ انہیں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔" ثمن نے کہا "آپکی امی کو نہیں پتہ تھا بیٹا کہ میں حادثے کا شکار ہوگیا ہوں۔ " اسد نے کہا اور پھر مختصراً اسے سب بتادیا۔ ثمن کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے "ابو آپ اب ہمیں چھوڑ کر تو نہیں جائیں گے ناں؟" اسنے اپنی خوبصورت آنکھیں پھیلا کر پوچھا تو اسد کے بے اختیار اسے خود سے بھینچ لیا۔ "نہیں بیٹا کبھی بھی نہیں ۔۔ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں کبھی بھی تم دونوں کو چھوڑ کر نہ جاتا۔" اسکی آواز بھرا گئی تھی۔ "ابو اب تو امی، لوگوں کے گھروں میں کام نہیں کریں گی ناں؟ وہ بہت تھک جاتی ہیں ابو." ثمن نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ زینب کی پلکیں بھی نم ہونے لگیں۔ "نہیں بیٹا اب تو میں آگیا ہوں ناں اب میں تم دونوں کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ بڑے سے گھر میں۔" "وہ گھر کس کا ہوگا ابو؟" ثمن نے پوچھا "وہ میری ثمن کا گھر ہے میری جان۔ آپ اس گھر کو دیکھو گی تو بہت خوش ہوگی۔" اس نے بیٹی کی پیشانی چوم لی۔ "امی بھی ہمارے ساتھ جائیں گی ناں ابو؟" "جی بیٹا آپکی امی بھی ہمارے ساتھ جائیں گی۔" "آپکے پاس گاڑی بھی ہے ابو؟" "جی بیٹا گاڑی بھی ہے اور وہ گاڑی بھی میری بیٹی کی ہے۔" اس نے پھر سے اسکی پیشانی چوم لی۔ ثمن خوش ہوگئی۔ "بہت مزہ آئے گا ناں ابو مجھے تو بڑے بڑے گھر اور گاڑیاں بہت اچھی لگتی ہیں۔" وہ خوشی سے تالی بجا کر بولی۔ زینب چادر کے پلو سے اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے مسکرائی۔ اسد نے پیار سے بیٹی کے بال سہلائے۔ "میری بیٹی جو کہے گی میں لیکر دوں گا انشاء اللہ۔ بس آپ دعا کیا کرو کہ اللہ ہمیں کبھی جدا نہ کرے۔" اس کی آواز میں پھر سے آنسوؤں کی نمی جھلکی۔ "میں ہمیشہ دعا کرتی تھی کہ آپ واپس آجائیں ابو۔" "اور دیکھو میں آگیا۔ میری بیٹی کی دعا قبول ہوگئی۔" اس نے شفقت آمیز انداز میں اسکے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ثمن تفاخر سے مسکرادی۔ "زینب بھئی اچھی سی چائے ہی پلوا دو ہم باپ بیٹی کو۔" اسد نے بات بدل کر زینب کو مخاطب کیا تو وہ سر ہلاتے اٹھ کھڑی ہوئی۔


"اسد! تم مجھ سے خفا نہیں ہوئے؟" رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی اور وہ دونوں چھوٹے سے باورچی خانے میں چولہے کے پاس پیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ثمن اسد سے باتیں کرتے کرتے ہی سوچتی تھی۔ اور وہ دونوں بہت دیر سے یوں چپ چاپ بیٹھے تھے۔ باورچی خانے میں نرم سی حدت تھی۔ "خفگی کس بات کی زینب؟" اس نے نرم لہجے میں پوچھا۔ "میں تم سے بدگمان رہی ، تمہیں تلاش نہیں کیا۔۔" زینب نے قصداً جملہ ادھورا چھوڑا۔ "تمہیں یاد ہے زینب ہماری شادی سے پہلے جب تم اسلام آباد چھوڑ کر سوات چلی گئیں تھیں تب بھی میں نے تمہیں یہی کہا تھا کہ تم بہت جلدی بدگمان ہوجاتی ہو۔ مجھ سے شادی تو کرلی تھی تم نے مگر میرا اعتبار کبھی نہیں کیا۔ اور مجھے اس بات کا افسوس بھی ہے۔ بدگمانی اور محبت اکٹھے نہیں رہ سکتے میری جان۔ اپنی محبت پر یقین کرنا سیکھو۔" اسکا لہجہ اب بھی نرم ہی تھا مگر آنکھوں میں شکوہ تھا۔ زینب نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر لبوں سے لگایا۔ "مرد بے وفائی کا سمبل بن چکا ہے اسد ، عورت چاہ کر بھی اس پر اعتبار نہیں کرپاتی ۔ اور اسکی وجہ خود مرد ہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب جب عورت نے مرد پر آنکھیں بند کرکے یقین کیا تو مرد نے اسے اندھا ہی قرار دیا۔ اگر مرد کو عورت کا اعتماد جیتنا ہے تو اسے تم جیسا ہی بننا پڑے گا۔ ورنہ بے اعتباری اور بدگمانی مرد اور عورت کے رشتے میں ہمیشہ دیوار بنی رہے گی۔" اسکے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں جکڑتے ہوئے اسنے بڑی گہری بات کی تھی۔ اسد اب کی بار کھل کر مسکرایا۔ "یعنی عشق کے امتحان میں،میں کامیاب ہوگیا؟" اس نے زینب کی دھندلی سبز آنکھوں میں جھانکا تھا۔ "تم نے اس امتحان میں ٹاپ کیا ہے۔" وہ ماضی کے سے بے تکلف ، بے پرواہ لہجے میں بولی۔ "کیسے نہ کرتا ٹاپ میں۔۔ میرا دل تو گرفتم عشق ہے۔ ہمیشہ سے۔۔" اس نے مدھم مگر دلفریب لہجے میں کہا تو زینب بے اختیار ہنس دی۔ "تمہیں اب تک یاد ہے ۔۔ وہ دل۔۔" "بھولا ہی کب تھا؟" "بھولی تو میں بھی نہیں تھی ۔۔ بس۔۔ فراموش کردیا تھا۔" "میں فراموش بھی نہیں کرسکا۔" "کر بھی کیسے سکتے تھے تمہارا دل تو گرفتم عشق ہے ناں۔" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی مسکرائی تھی۔ "کتنی بے شرم کو بجائے شرمندہ ہونے کے مزے سے ہنس رہی ہو." اسد نے بھی اپنی ٹون بدل کر اسے گھورا۔ "میں کیوں شرمندہ ہوں میں تو وہ پری ہوں ناں جس سے تمہیں گیارہ سال پہلے عشق ہوگیا تھا۔ تو جس سے عشق ہو اس کی تو ہر خطا معاف ہوتی ہے ناں اسد۔" شرارت سے آنکھیں جھپکتے ہوئے اس نے پوچھا تو اسد نے بے اختیار اسکی پیشانی چومی۔ "بالکل میری جان۔ تمہیں تو سات خون معاف ہیں۔ بدگمانی کیا چیز۔" زینب کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام کر اس نے محبتوں سے چور لہجے میں کہا تو وہ دھیرے سے مسکرادی۔ سبز آنکھوں میں دھندلاہٹ تھی ، چہرے کی رنگت سنولا چکی تھی، گال اندر کو دھنس گئے تھے، لمبے ریشمی بال اب سوکھے اور مرجھائے ہوئے نظر آتے تھے جن میں کہیں کہیں چاندی کے تار چمکتے تھے اور سڈول جسم اب لاغر ہوچکا تھا، وہ اس حسین و جمیل، پری تمثال زینب کا عکس بھی نہ تھی کہ جس کو پہلی بار دیکھتے ہی اسد مبہوت ہوگیا تھا، اور اسد بھی تو اب وہ ہینڈسم اور پرکشش اسد نہ رہا تھا کہ جس کو ایک بار دیکھ لینے کے بعد زینب کبھی اپنے ذہن نہ نکال سکی تھی اور جب جب وہ سیاہ پینٹ شرٹ میں اسکے سامنے آتا تو وہ پلکیں جھپکنا بھی بھول جایا کرتی تھی ، وہ تو ایک بیمار اور لاغر انسان تھا جس کی داڑھی میں کثرت سے سفید بال نظر آتے تھے۔۔ زندگی کی تلخیوں نے انہیں عمر سے پہلے بوڑھا کردیا تھا۔ گزرے برسوں نے ان دونوں کے چہروں کی خوبصورتی اور تازگی نوچ لی تھی مگر انکے دلوں میں سانس لیتا عشق آج بھی جوبن پر تھا کہ عشق و محبت کا تعلق جسم کی دلکشی یا چہرے کی خوبصورتی سے نہیں ہوتا یہ تو روح کا کنکشن ہے اور روح تو جھوٹ سے ماورا ہوتی ہے۔ #ختم_شد

   1
0 Comments