Add To collaction

دریا

دریا۔


دیکھوں کہ تلاطم کے، آغوش میں دریا ہے۔
 سہرا نہ مچل جائے، کب ہوش میں دریا ہے۔

اک بوند جہاں سکھ ہے، تم بھول کہ بیٹھے ہو۔
خودغرض جہاں لیکن، امید می دریا ہے۔

کردار ادا کرتے، اسٹیج کے پتلے ہیں۔
گمراہ ہیے ہیں ہم، بہکے یہ دریا ہے۔

شَو کس کا ئہاں رویے ، کوئی نہ نظر آیے۔
سب کچھ بہا لے جاے، طوفان میں دریا ہے۔

خوشبو کی تمنا میں، گلشن میں آکے بھٹکا۔
کانٹوں میں اُلجھ رویے، کھارا ہوا دریا ہے۔

آسان سفر کب تھا، تنہا تھا جہاں تک میں۔
راحوں میں ملے جب تم، مدحوش یے دریا ہے۔

بارش میں مہک سوندھی، بوندوں کی گفتگو ہے۔
خش تال مچلتا ہے، بس مَوج میں دریا ہے۔

قلم کار۔ سرتا شریواستو "شری۔
دھولپر (راجستھان)

   19
1 Comments

Renu

02-Jun-2023 10:56 PM

👍👍

Reply