Add To collaction

حسن عشق

حسن عشق


کیا حسن نے سمجھا ہے، کیا عشق نے جانا ہے۔
 احد وفا کا عالم، گردیش میں جمانا ہے۔

مَوجوں میں روانی ہے، کشتی نہ نظر آئے۔
اب پار اتر جایےں، یا ڈوب کے جانا ہے۔

یہ حسن کی ہے محفل، پھر بھی رہے تنہائی۔
ہنستے ہیں زخم دے کر، یہ مَرَج پرانا ہے۔

طوفان سے گھر کر بھی، ساحل سے رکھ امیدیں۔
قدرت کا فضل ہے یے، حد بھول کے جانا ہے۔
 
کچھ راز ہئے گہرے، کیا کس کو سنائیں ہم۔
کہ دےں تو صنم رسوا، خود کو ہی مٹانا ہے۔

وے جآم لیے بےٹھے، مدحوش حیے کھد میں۔
نظروں سے چھلکے پیالے، گھر ہوش میں جانا ہے۔

کب ہوش سے نکلے"شری"، کب ہوش میں ہی گم ہیےں۔
دنیا سے کہاں جائےں، کردار نبھانا ہے۔

قلم کار - سریتا سریواستو "شری"
 دھول پور (راجستھان)

   15
0 Comments