غزل
غزل
سکھ دکھ سبھی کی ساتھ اس دیکھتے رہو
غم سے کہاں نجات بس دیکھتے رہو
آپس میں اختلاف کی سرحد ہے دوستو
گھر گھر میں اختلاف اس دیکھتے رہو
ابمر بھی جاءیے تو کسی پہ اثر نہیں
اپنوں میں اپنی مات بس دیکھتے رہو
روداد لکھ رہا ہے قلم کانپتے ہوءے
خوں سے بھری دوات اس دیکھتے رہو
حاصل نہ ہونگیی راحتیں تحسین جھوٹ سے
نیکی سے ہی حیات ہے اس دیکھتے رہو