Add To collaction

جس میں





جس میں کہ ضبطِ مستئی رندانہ چاہئے 
سرمد کو ایسی حرمتِ بے جا نہ چاہیے

فصلِ بہار کا مزہ ساغر بنا نہیں
پہلو میں آج الفتِ جانانہ چاہیے

آباد دشتِ عشق ہو لیلیٰ کے فیض سے
مجنوں کو کائنات ہی ویرانہ چاہیے

تا چند حرفِ توبہ سے رسوا ہو مے کشی
پیماں کی خُو بھلا دے وہ پیمانہ چاہیے

بکھرا نصیب بھی یہ سنور جائے ساتھ ساتھ
زلفوں کو میری انگلیوں کا شانہ چاہیے

کیا حسنِ دو جہان خدا نے دیا تجھے
عاشق پہ لطف خاطرِ شکرانہ چاہیے

ہر بوالہوس وفا کا نہ دعویٰ کرے کہیں
جاناں جفا پرست و حریفانہ چاہیے

کامل جنوں وجودِ صنم مانگے ہے فقط
یاں تک کہ اپنے آپ سے بیگانہ چاہیے

ساقی نے رند کو مے پلا دی ہے عشق کی
زاہد تو کعبے جا مجھے میخانہ چاہیے




   16
0 Comments