کچھ تڑپنے
کچھ تڑپنے کا مزہ آیا نہ اس بسمل کے پاس
کاش خنجر تیز نا ہوتا مرے قاتل کے پاس
میں کبھی در پر نہ پہنچا ، خیر اتنا تو ہوا
کچھ غبار اڑتا رہا لیلیٰ ترے محمل کے پاس
شیخ جی پکڑے گئے پیتے شراب اک دن کبھی
کہتے ہیں دَم کر دیا ، اب ہے شفا بوتل کے پاس
جو کھلا ہے سامنے اس سے ہی کھلتا ہے دگر
ناخنوں عقدہ کشا ہے عقدۂ مشکل کے پاس
زاہدوں درسِ سخاوت آپ کا یاد آ گیا
سو ہم اپنا دل رکھے دیتے ہیں اک بیدل کے پاس
ہم زبوں بختوں سے نا تدبیر کی پرسش کرو
مرضئی صیاد ہی مرہم ملی گھائل کے پاس
پائمالی واسطے دل سے بچھایا فرش پر
روندنا تو دور بھٹکا بھی نہ میرے دل کے پاس
ہم نشیں کہتے تھے پیچھے مت چلو اس مشک کے
ہم نے اک مانی نہ سو پہنچے ترے کاکل کے پاس
عنقریب آنکھیں تری رسوا کریں گی ہر جگہ
ہو کے آیا ہوں میں جامِ جم سے مستقبل کے پاس
رند نے جو بے حنا ہاتھوں کو دیکھا مر گیا
حیف کچھ خونِ جگر ہوتا ترے بسمل کے پاس
वानी
14-Jun-2023 12:23 AM
Nice
Reply
Sarita Shrivastava "Shri"
13-Jun-2023 11:44 PM
بہت کھوب
Reply